Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

رسالت اور اس کے احکام

میرے مضمون ’’اتباع و اطاعت رسول‘‘ کو دیکھ کر میرے دوست چودھری غلام احمد پرویز صاحب نے اپنے ایک طویل مراسلے میں حسب ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے:
’’… لیکن مجھے آپ کی وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ کی تفسیر سے کچھ اختلاف ہے۔ آپ نے لکھا ہے:
’’جس وقت سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو منصب نبوت پر سرفراز کیا اس وقت سے لے کر حیات جسمانی کے آخری سانس تک آپؐ ہر آن اور ہر حال میں خدا کے رسول تھے۔ آپؐ کا ہر فعل اور ہر قول رسول خدا کی حیثیت سے تھا۔
پھر دوسری جگہ آپ لکھتے ہیں:
’’آنحضرؐت جس وقت جس حال میں جو کچھ کرتے تھے رسول کی حیثیت سے کرتے تھے‘‘
اس کا مقصد واضح ہے کہ حضورؐ کا ہر قول و فعل من جانب اللہ ہوتا تھا۔ اور بحیثیت رسول صادر فرمانے کی بنا پر امت مسلمہ کے لیے واجب الاطاعت۔
اس کے متعلق یہاں صرف دو ایک اشاروں پر اکتفا کروں گا۔ پہلے تو قرآن کریم کو لیجیے۔ آپ کو متعدد ایسے امور ملیں گے جن میں حضورؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تہدید و تادیب ہوئی ہے۔ مثلاً آپ نے ایک قسم کا شہد کھانے سے قسم کھالی تو ارشاد ہوا:
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَكَ۝۰ۚ التحریم66:1
اے نبی جس کو اللہ نے تمھارے لیے حلال کیا ہے اسے تم حرام کیوں کرتے ہو۔
ظاہر ہے کہ اگر حضورؐ کا شہد کو اپنے اوپر حرام کرلینا خدا کی جانب سے تھا تو خدا اس پر معترض کیوں ہوا؟
دوسری جگہ ہے:
عَفَا اللہُ عَنْكَ۝۰ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ التوبہ43:9
اے نبی خدا نے تم سے درگزر کیا، تم نے انھیں کیوں اجازت دے دی تھی؟
اب اگر حضورؐ کا اجازت دے دینا ازروئے وحی تھا اور یہ فعل خدا کے رسول کی حیثیت سے تھا تو اس پر وحی بھیجنے والے نے تہدید کس لیے فرمائی؟
اسی طرح عَبَسَ وَتَوَلّٰی اَنْ جَآئَ ہُ الْاَعْمیٰ (عبس)اگر حضورؐ کا پیشانی مبارک پر بل لے آنا بہ حیثیت رسول تھا تو قرآن کریم میں اس پر تنبیہ کیوں آئی؟
ان تصریحات سے صاف ظاہر ہے کہ حضورؐ کے یہ افعال و اقوال بہ حیثیت رسول نہ تھے بلکہ ذاتی حیثیت سے تھے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ (نعوذ باللہ) یہ امور ضلالت و غوایت اور ہوائے نفس کی بنا پر تھے بلکہ یہ کہ امور دنیاوی میں بہ حیثیت بشر خاصۂ بشریت حضورؐ کے ساتھ تھا جس میں ایسے معمولی سہو کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اور اس سے حضورؐ کے خلق عظیم اور قرآن کے منجانب اللہ ہونے کے لیے دشمنان اسلام کے لیے زندہ شہادت ملتی ہے۔ اب اس کی شہادت خود احادیث سے بھی ملتی ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں ایک باب اس عنوان سے لکھا ہے جس میں وہ تحریر فرماتے ہیں کہ جو کچھ آنحضرتؐ سے مروی ہے اور کتب حدیث میں مدون ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ امور جو تبلیغ رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ امور جن کو تبلیغ رسالت سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی کی نسبت حضورؐ نے فرمایا ہے:
اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اِذَاَ اَمْرتُکُمْ بِشَیئٍ مِنْ دِیْنِکُمْ فَخُذُوْا بِہٖ وَاِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیْ ئٍ مِنْ رَائِیْ فَاِنَّمَا اِنَّا بَشَرٌ۔
میں ایک انسان ہوں۔ جب تم سے کوئی مذہبی امر بیان کروں تو اس کو اختیار کرو اور جو بات میں اپنی رائے سے کہوں تو میں ایک انسان ہوں۔
اسی بنا پر درخت خرما کے گابھا لگانے کے مشہور واقعہ کے بعد حضورؐ نے فرمایا تھا:
اِنِیّ ظَنَنْتُ ظَنًّا وَلَا تُوأَ خِذُوْنِیْ بِالظَّنِّ وَلٰکِنْ اِذَا حَدُّثتَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ بِشَیْئٍ فَخُذُوْا بِہٖ فَاِنِّیْ لَمْ اَکذِبْ عَلَی اللّٰہِ ۔
میں نے صرف ایسا گمان کیا تھا۔ تخمینی بات کا مجھ سے مواخذہ نہ کرو لیکن میں خدا کی جانب سے کوئی بات بیان کروں تو اس کو اختیار کرو اس لیے کہ میں خدا پر جھوٹ نہیں بولتا۔
چنانچہ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس میں سے وہ امور ہیں جنھیں حضورؐ عادۃً کیا کرتے تھے یا اتفاقیہ بلا قصد یا بہ سبیل تذکرہ بیان فرماتے۔ اور اس کے بعد وہ ان مواقع و امور کی مثالیں بھی بیان فرماتے ہیں، انھیں میں وہ ان امور کو بھی لیتے ہیں جو حضور کے عہد میں ایک جزئی مصلحت رکھتے تھے لیکن وہ تمام امت کے لیے حتمی اور لازمی نہ تھے۔
اس سے ظاہر ہے کہ جو کچھ آپ دین کے متعلق فرماتے تھے وہی بحیثیت رسول ہوتا تھا، خواہ وہ وحی منزل ہو یا اجتہاد رسولؐ ،اور وہی امت کے لیے واجب الاتباع ہے۔ اور اس کے علاوہ جو باتیں بحیثیت بشر فرماتے ان میں یہ قید نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض امور مشاورت میں ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہؓ نے رائے بھی پیش کی اور وہ اختیار بھی کی گئی۔ یہی نہیں حضور کی ایسی رائے کے خلاف عمل بھی تھا۔ چنانچہ قرآن شاہد ہے کہ آپ نے حضرت زیدؓ سے فرمایا کہ اَمْسِکَ عَلیْکَ زَوَجَکَ، لیکن انھوں نے حضرت زینب کو طلاق دے دی۔ کیا آپ خیال کرسکتے ہیں کہ بحیثیت رسول آپ کا فرمان ہوتا اور حضرت زید اس کی خلاف ورزی کرتے؟ کتب احادیث میں کئی ایسے واقعات مذکور ہیں جن میں حضورؐ نے کوئی ارشاد فرمایا اور صحابہ نے عرض کیا کہ یہ حکم بحیثیت رسول ارشاد فرما رہے ہیں یا بطور اپنی رائے کے؟ چنانچہ جنگ بدر میں جب آپ ایک مقام پر کیمپ نصب فرمانا چاہتے تھے تو ایک صحابی نے یہی سوال کیا اور جب معلوم ہوا کہ حضورؐ اپنی رائے سے ایسا فرما رہے ہیں تو انھوں نے بہ ادب گذارش کیا کہ اگر حضورؐ ذرا آگے جاکر خیمہ زن ہوں تو زیادہ قرین مصلحت ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
ان تصریحات سے ثابت ہے کہ حضورؐ ہر آن اور ہرحال میں رسول نہیں ہوتے تھے اور آپ کا ہر قول اور ہر فعل بہ حیثیت رسول ہی نہیں ہوتا تھا۔ ہاں جو مرد خدا محبوب کے رنگ میں رنگا جانا چاہے اس کی بات بالکل جدا ہے۔ لیکن اس شکل اور وجوب کی صورت میں بڑا فرق ہے۔ اگرچہ شاہ صاحب نے حضورؐ کے فیصلے بھی اسی ذیل میں رکھے ہیں جو رسالت کی حیثیت لیے ہوئے نہ تھے (غالباً ان کی مراد وقتی فیصلوں سے ہوگی) اور صاحب ’’تعلیمات‘‘ نے بھی امارت کو رسالت سے الگ کیا ہے تو غالباً اسی بنا پر۔ لیکن میں تو حضورؐ کے قضا یا متعلقہ دین کو عین تبلیغ رسالت میں ہی سمجھتا ہوں اور واجب الاتباع۔ البتہ ایک اور چیز ہے جو امارت اور رسالت کی بحث میں میرے سامنے آگئی ہے اور اگرچہ صاحب ’’تعلیمات‘‘ نے اس پر بوضوح روشنی نہیں ڈالی لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا منشا شاید یہی ہے جو میرے ذہن میں آیا ہے۔ جہاں تک نبی کریم کا تعلق ہے امور دین میں حضور کی اطاعت کیا بحیثیت رسول اور کیا بحیثیت امیر قیامت تک کے لیے ہے۔ اس میں نہ اس وقت کسی منازعت کا حق تھا نہ ہوسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حضورؐ کے بعد قرآن کریم نے خدا اور رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے تو اسلامی نظام کے بقا کے لیے یہ تو ضروری ہے کہ کوئی ایسی سند ( authority)ہو جو یہ بتا سکے کہ خدا و رسول کا اس بارے میں یہی فیصلہ ہے، یا وقتی امور میں ایسا ہی فیصلہ خود صادر کرسکے۔ ظاہر ہے کہ اگر خلیفہ برحق ہو اور اس کے ساتھ اس کی مجلس شوریٰ (صحیح طریق پر منتخب شدہ) کام کر رہی ہو تو یہی جماعت یعنی خلیفہ اِن کونسل (caliph-in-council)ہی وہ آخری سند (authority)ہوگی جو امت مسلمہ کے لیے ’’خدا اور رسول‘‘ کی نمایندگی کرے گی یعنی اس مجلس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوگا اور کسی شخص کو اس کے خلاف منازعت کا حق نہ ہوگا۔ ورنہ اگر ہر شخص کو اختیار دے دیا جائے کہ وہ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ کا فریضہ خود ہی سر انجام دے لے تو ظاہر ہے کہ نظام اسلام کسی طرح بھی قائم رہ نہیں سکتا۔ یہی مجلس اعلیٰ (supreme council)ہوگی جس کے قضا یا کی پھر کہیں اپیل نہ ہوگی۔ اور یہی جماعت فقہ مرتب کرنے کا کام کرے گی۔ البتہ جب اس جماعت کا کوئی رُکن کتاب و سنت کے خلاف فیصلے صادر کرے تو جمہور کو اختیارہوگا کہ انھیں برطرف کرکے ان کی جگہ دوسرا انتخاب عمل میں لے آئیں۔ کیونکہ یہاں ایسے اولی الامر سے منازعت کا حق حاصل ہو جائے گا جو امت کو خدا اور رسول کی اطاعت کی طرف نہیں لے جاتے لیکن انفرادی طور پر کسی کو حق نہ ہوگا کہ ان کے فیصلوں سے اس بنا پر سرتابی شروع کر دے کہ وہ اس کے اپنے خیال میںکتاب و سنت کے خلاف ہیں۔ یہی وہ با اختیار جماعت ہوگی جو وقتی امور میں بنا برمصلحت کسی سابقہ وقتی فیصلے یا انتظام کے خلاف بھی فیصلہ کرسکے گی جیسا کہ کتب سیر و احادیث سے ظاہر ہے۔ رسول اللہ نے نجران کے عیسائیوں اور خیبر کے یہود کو اپنی اپنی جگہ رہنے دیا۔ لیکن حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں بنا بر مصلحت ِ وقت ان کو وہاں سے نکال دیا۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات خود خلیفۂ وقت (مثلاً حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ) ابھی عدالتوں میں بحیثیت مدعا علیہ پیش ہوا کرتے تھے جس سے ظاہر ہے کہ خلیفہ کے خلاف بھی ہر شخص کو منازعت کا حق حاصل ہے، تو واضح رہے کہ یہ لوگ خلیفہ اور اس کی ذاتی حیثیت (personal capacity) میں فرق نہیں کرتے۔ عدالتوں میں عمر ابن خطاب اور علی ابن ابی طالب پیش ہوتے تھے۔ اور دعاوی ان کی ذات کے خلاف تھے نہ کہ ’’خلیفہ ان کونسل‘‘ کے خلاف۔ اور یہ اسلامی نظام حکومت کا طغرائے امتیاز ہے کہ اس نے قانون کو رائج کرنے والوں کو بھی قانون کی زد سے مستثنیٰ نہیں کیا۔ پھر یہ بھی واضح رہے کہ ’’خلیفہ ان کونسل‘‘ کی حیثیت بھی واضع قانون کی نہیں ہوگی۔ بلکہ جہاں تک اصول قانون کا تعلق ہے وہ تو کتاب و سنت میں ہمیشہ کے لیے منضبط ہو چکے۔ اب ان اصول کو نافذ کرنا یا ان کی روشنی میں جزئی امور میں قواعد مرتب کرنا یہ اس مجلس کا فریضہ ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ صاحب ’’تعلیمات‘‘ نے جہاں یہ لکھا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں جہاں اطاعت خدا اور رسول کا حکم آیا ہے اس سے مراد امارت ہے، ان کے پیش نظر یہی خاکہ ہے جو اوپر گزارش کیا گیا ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو اس میں کسی اعتراض کی گنجائش نہیں کہ اس بااختیار جماعت کی اطاعت عین اطاعت رسول ہے، اور اس کی معصیت معصیت خدا و رسول، جیسا کہ نبی اکرم نے خود ارشاد فرمایا کہ:
مَنْ یُّطِعِ الْاَ مِیْرَ فَقَدْ اَطَاعِنْی وَمَنْ عَصَی الْاَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِیْ ۔
جس شخص نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
بحث طویل ہوگئی۔ لیکن امید ہے کہ اس میں بہت سی کام کی باتیں نکل آئیں گی اخیر میں اتنا گزارش کرنا ضروری ہے کہ چونکہ میں نے اس میں آپ کو مخاطب کیا ہے اس لیے وہی امور پیش کیے ہیں جن میں مجھے آپ کے جواب کے بعد مزید اطمینان کی ضرورت نظر آئی۔ رہے وہ امور جن سے اتفاق ہے یا صاحب ’’تعلیمات‘‘ سے جن امور میں اختلاف ہے انھیں دہرانا تحصیل حاصل سمجھا گیا ہے اور یہ گزارشات بھی محض لِیَطْمَئِنَّ قلبی ہیں۔
اطاعت رسول کے مسئلے میں یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ کوئی رسول اپنی ذاتی حیثیت میں مطاع اور متبوع نہیں ہوسکتا۔ نہ موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت اور پیروی اس بنا پر ہے کہ وہ موسیٰ بن عمران ہیں، نہ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اس وجہ سے لائق اطاعت و اتباع ہیں کہ وہ عیسیٰ بن مریم ہیں، اور نہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع اس حیثیت سے لازم ہے کہ آپ محمد بن عبداللہ ہیں۔ اطاعت اور پیروی جو کچھ بھی ہے صرف اس حیثیت سے ہے کہ یہ حضرات اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ نے ان کو وہ علم حق عطا کیا جو عام انسانوں کو عطا نہیں کیا، اور ان کو وہ ہدایت بخشی جو عام لوگوں کو نہیں بخشی، اور ان کو دنیا میں اپنی رضاکے مطابق زندگی بسر کرنے کے وہ صحیح طریقے بتائے جن کو عام لوگ اپنی رائے و عقل یا انبیا کے سوا دوسرے لوگوں کی رہنمائی سے معلوم نہیں کرسکتے۔ اب اختلاف جس امر میں واقع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ رسول کی اطاعت اور پیروی کس امر میں ہے اور کس حد تک ہے۔
ایک گروہ کہتا ہے کہ اطاعت اور پیروی صرف اس کتاب کی ہے جو اللہ کی طرف سے اس کا رسول لے کر آتا ہے۔ تبلیغ کتاب کے بعد رسول کی حیثیت رسالت ختم ہو جاتی ہے۔ پھر وہ بھی ویسا ہی ایک انسان ہے جیسے اور دوسرے انسان۔ دوسرے انسان اگر امیر اور سردار قوم ہوں تو محض نظم و ضبط (discipline)کے لیے ان کی اطاعت لازم ہوگی۔ مگر مذہبی فریضہ نہ ہوگی۔ دوسرے اگر عالم، حکیم اورمقنّن ہوں تو ان کے اوصاف (merits)کا لحاظ کرتے ہوئے ان کی پیروی کی جائے گی اور یہ پیروی اختیاری ہوگی، واجب نہ ہوگی۔ یہی معاملہ رسول خدا کا بھی ہے۔ تبلیغ کتاب کے سوا دوسرے تمام معاملات میں رسول کی حیثیت محض شخصی ہے۔ بحیثیت ایک شخص کے اگر وہ امیر ہے تو اس کی اطاعت بالمشافہ ہے نہ کہ دائمی۔ اگر وہ قاضی ہے تو اس کے فیصلے وہیں تک نافذ ہوں گے جہاں تک اس کے حدود قضا (jurisdiction)ہیں۔ ان سے باہر زیادہ سے زیادہ ایک فاضل جج کی حیثیت سے اس کے فیصلے بطور ایک نظیر کے، لیے جائیں گے نہ کہ ایک شارع اور واضع قانون کی حیثیت سے۔ اگر وہ حکیم ہے تو اس کی زبان سے جو حکمت اور اخلاق کی باتیں نکلیں گی وہ اپنی قدر و قیمت کے لحاظ سے قبول کی جائیں گی۔ جس طرح دوسرے علماء و عقلاء کی ایسی ہی باتیں قبول کی جاتی ہیں۔ محض اس بنا پر کہ وہ حامل منصب رسالت کی زبان سے نکلی ہیں وہ داخل دین نہیں سمجھی جائیں گی۔ اسی طرح اگر وہ ایک نیک سیرت انسان ہے، اور اس کی زندگی اپنے اطوار آداب اور معاملات کے اعتبار سے ایک بہترین زندگی ہے، تو ہم بالاختیار اس کو ایک نمونہ (Model)بنائیں گے جس طرح ایک غیر نبی کی اچھی زندگی کو نمونہ قرار دینے میں ہم مختار ہیں۔ لیکن اس کا کوئی عمل اور قول ہمارے لیے اخلاق، معاشرت، معیشت اور معاملات میں ایسا قانون نہ ہوگا جس کی پیروی ہم پر واجب ہو۔ یہ مذہب اس گروہ کا ہے جو آج کل اہل قرآن کہلاتا ہے۔
ایک دوسرا گروہ اس خیال میں تھوڑی سی ترمیم کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ رسول کے ذمے صرف کتاب پہنچا دینا ہی نہ تھا، بلکہ کتاب کے احکام پر عمل کرکے دکھا دینا بھی تھا کہ امت اسی نمونے پر عامل ہو۔ لہٰذا عبادات و طاعات وغیرہ کے متعلق احکام کتاب کی جو تفصیلی عملی صورت رسول نے بتائی ہے، اس کی پیروی بھی کتاب ہی کی پیروی ہے، اور دینی فرض ہے۔ باقی رہے وہ معاملات جو احکام کتاب کے علاوہ رسول اپنی شخصی حیثیت میں ایک امیر، ایک قاضی، ایک مصلح قوم، ایک حکیم، ایک شہری، اور ایک فرد جماعت کی حیثیت سے انجام دے، تو ان میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ایک دائمی اور عالمگیر ضابطہ و قانون بنانے والی ہو اور جس کی پیروی ہمیشہ کے لیے ایک دینی فرض ہو۔ اس گروہ کے نمایندے جناب مولانا اسلم جیراج پوری ہیں۔
ایک تیسرا گروہ ہے جو رسول کی حیثیت رسالت کو اس کی زندگی کے ایک بہت بڑے حصے پر حاوی سمجھتا ہے۔ اخلاق، معاشرت، معاملات، احکام و قضایا، اور بہت سے دوسرے معاملات میں اس کے قول اور فعل کا خدا کی جانب سے ہونا تسلیم کرتا ہے۔ اور یہ بھی مانتا ہے کہ یہ سب چیزیں امت کے لیے اسوۂ حسنہ ہیں۔ مگر وہ حیثیت رسالت اور حیثیت شخصی میں فرق ضرور کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ رسول کی زندگی کے کچھ معاملات ایسے ضرور ہیں جو حیثیت رسالت سے خارج ہیں، اور قابل تقلید نمونہ نہیں اگرچہ وہ کوئی ایسا واضح خط نہیں کھینچ سکتا جو حیثیت رسالت اور حیثیت شخصی میں بیّن امتیاز کر دیتا ہو، اور ایک ایسی حد مقرر کرتا ہو جہاں پہنچ کر رسول کی حیثیت محض ایک انسان کی رہ جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چودھری صاحب اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، اور میں ابتدا ہی میں یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ان کا مسلک مقدم الذکر دونوں گروہوں کی بہ نسبت حق سے بہت زیادہ قریب ہے۔ اگرچہ تھوڑی غلطی اس میں ضرور ہے لیکن الحمدللہ کہ وہ گمراہی کی حد تک نہیں پہنچتی۔
چوتھا گروہ کہتا ہے کہ رسول کی حیثیت شخصی اور رسالت کی حیثیت اگرچہ اعتبار میں دو جداگانہ حیثیتیں ہیں مگر وجود میں دونوں ایک ہی ہیں اور ان کے درمیان عملاً کوئی فرق کرنا ممکن نہیں ہے۔ منصب رسالت دنیوی عہدوں کی طرح نہیں ہے کہ عہدے دار جب تک اپنے عہدے کی کرسی پر بیٹھا ہے، عہدے دار ہے، اور جب اس سے اترا تو ایک عام انسان ہے۔ بلکہ رسول جس وقت منصب رسالت پر سرفراز ہوتا ہے اس وقت سے مرتے دم تک وہ ہر وقت اور ہر آن مامور (on duty)ہوتاہے اور وہ کوئی ایسا فعل نہیں کرسکتا جو اس سلطنت کی پالیسی کے خلاف ہو جس کا وہ نمائندہ بنا کربھیجا گیا ہے۔ اس کی زندگی کے معاملات عام اس سے کہ وہ امام کی حیثیت سے ہوں یا امیر کی حیثیت سے، قاضی کی حیثیت سے ہوں یا معلم اخلاق کی حیثیت سے، ایک شہری اورسوسائٹی کے ایک فرد کی حیثیت سے ہوں، یا ایک شوہر، باپ، بھائی، رشتہ دار اور دوست کی حیثیت سے، سب پر اس کی حیثیت رسالت اس طرح حاوی ہوتی ہے کہ اس کی ذمہ داریاں کسی حال میں ایک لمحے کے لیے بھی اس سے منفک نہیں ہوتیں۔ حتیٰ کہ جب وہ اپنی خلوت میں اپنی بیوی کے پاس ہوتا ہے، اس وقت بھی وہ اسی طرح اللہ کا رسول ہوتا ہے جس طرح وہ مسجد میں نماز پڑھاتے وقت ہوتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں وہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کی ہدایت کے تحت کرتا ہے۔ اس پر ہر آن اللہ کی طرف سے سخت نگرانی قائم رہتی ہے، جس کے ماتحت وہ انھیں حدود کے اندر چلنے پر مجبور ہوتا ہے جو اللہ نے مقرر کر دی ہیں، اور اپنے اقوال میں اعمال میں اور زندگی کے پورے رویے میں دنیا کے سامنے اس امر کا مظاہرہ کرتا ہے کہ یہ ہیں وہ اصول جن پر انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا نظام قائم ہونا چاہیے۔ اور یہ ہیں وہ حدود جن کے دائرے میں انسان کی آزادی عمل کو محدود ہونا چاہیے۔ اس خدمت کو نبی اپنی شخصی و خانگی زندگی میں بھی اسی طرح انجام دیتا رہتا ہے جس طرح اپنی سرکاری حیثیت میں اور کسی معاملے میں بھی اگر اس کے قدم کو ذرا سی لغزش ہو جاتی ہے تو اس کو فوراً تنبیہ کی جاتی ہے، کیونکہ اس کی خطا صرف اسی کی خطا نہیں بلکہ ایک پوری امت کی خطا ہے۔ اس کو بھیجنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرکے ان کے سامنے ایک ’’مسلم‘‘ کی زندگی کا مکمل نمونہ پیش کر دے، اور صرف یہی نہیں کہ انفرادی معاملات میں ان کی رہنمائی کرکے ان کو فرداً فرداً مسلمان بنائے بلکہ اس کے ساتھ ہی اسلام کا تمدنی، سیاسی، معاشی اور اخلاقی نظام قائم کرکے صحیح معنوں میں ایک مسلم سوسائٹی بھی وجود میں لے آئے۔ لہٰذا اس کا خطا اور غلطی سے محفوظ ہونا لازم ہے تاکہ کامل اعتماد کے ساتھ اس کی پیروی کی جاسکے اور اس کے قول و فعل کو بالکلیہ اسلام کی تعلیم اور اسلامیت کا معیار قرار دیا جاسکے۔ اس میں شک نہیں کہ نبیؐ کے اقوال و افعال میں تقلید و تاسی کے لحاظ سے فرق مراتب ضرور ہے۔ بعض وجوب اور فرضیت کے درجہ میں ہیں بعض استحباب کے درجے میں، اور بعض ایسے ہیں جن کی حیثیت درجہ ٔ کمال کی ہے۔ لیکن فی الجملہ نبی کی پوری زندگی ایک ایسا نمونہ (model)ہے جس کو اسی لیے پیش کیا گیا ہے کہ بنی آدم اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ جو شخص اس نمونے کی مطابقت میں جتنا بڑھا ہوا ہوگا وہ اتنا ہی کامل انسان اور مسلمان ہوگا، اور جو اس کی مطابقت کے کم از کم ناگزیرمرتبے سے بھی گھٹ جائے گا وہ اپنی کوتاہی کے لحاظ سے فاسق، فاجر، گمراہ اور مغضوب ہوگا۔
میرے نزدیک یہی آخری گروہ حق پر ہے۔ اور میں قرآن اور عقل کی روشنی میں جتنا زیادہ غور کرتا ہوں اس مسلک کی حقانیت پر میرا یقین بڑھتا جاتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے جو حالات قرآن مجید میں بیان ہونے ہیں ان کو دیکھنے سے مجھ کو نبوت کی حیثیت یہ نہیں معلوم ہوتی کہ اللہ تعالیٰ یکایک کسی راہ چلتے کو پکڑ کر اپنی کتاب پہنچانے کے لیے مامور کر دیتا ہو، یا کسی شخص کو اس طور پر اپنی پیغام بری کے لیے مقرر کرتا ہو کہ وہ منجملہ اپنے دوسرے کاروبار کے ایک پیغمبری کاکام بھی انجام دے دیا کرے، گویا کہ وہ ایک جز وقتی مزدور (part-time worker)ہے جو مقرر اوقات میں اک مقرر کام کر دیتا ہے اور اس کام کو ختم کرنے کے بعد آزاد ہوتا ہے کہ جو چاہے کرے۔ برعکس اس کے میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی قوم میں نبی بھیجنا چاہا ہے تو خاص طور پر ایک شخص کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ نبوت کی خدمت انجام دے۔ اس کے اندر انسانیت کی وہ بلند ترین صفات اور وہ اعلیٰ درجے کی ذہنی و روحانی قوتیں ودیعت کی ہیں جو اس اہم ترین منصب کو سنبھالنے کے لیے ضروری ہیں۔ پیدائش کے وقت سے خاص اپنی نگرانی میں اس کی پرورش اور تربیت کرائی ہے۔ نبوت عطا کرنے سے پہلے بھی اس کو اخلاقی عیوب اور گمراہیوں اور غلط کاریوں سے محفوظ رکھا ہے، خطرات اور مہلکوں سے اس کو بچایا ہے اور ایسے حالات میں اس کی پرورش کی ہے جن میں اس کی استعداد نبوت ترقی کرکے فعلیت کی طرف بڑھتی رہی ہے پھر جب وہ اپنے کمال کو پہنچ گیا ہے تو اس کو خاص اپنے پاس سے علم اور قوت فیصلہ (Judgement)اور نور ہدایت عطا کرکے منصب نبوت پر مامور کیا ہے، اور اس سے اس طرح یہ کام لیا ہے کہ اس منصب پر آنے کے بعد سے آخری سانس تک اس کی پوری زندگی اسی کام کے لیے وقف رہی ہے۔ اس کے لیے دنیا میں تلاوت آیات اور تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفوس کے سوا اور کوئی مشغلہ نہیں رہا ہے۔ رات دن اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اس کو یہی دھن رہی ہے کہ گمراہوں کو راہ راست پر لائے اور راہ راست پر آجانے والوں کو ترقی کی اعلیٰ منزلوں پر جانے کے قابل بنائے۔ وہ ہمیشہ ایک ہمہ وقتی ملازم (whole-time servant) رہا ہے جس کو کبھی چھٹی نہیں ملی اور نہ اس کے لیے کبھی اوقات کار (working Hours)مقرر کیے گئے۔ اس پر خدا کی طرف سے شدید نگرانی قائم رہی ہے کہ خطا نہ کرنے پائے۔ ہوائے نفس کے اتباع اور شیطانی وساوس سے اس کی سخت حفاظت کی گئی ہے۔ معاملات کو بالکل اس کی بشری عقل اور اس کے انسانی اجتہاد پر نہیں چھوڑ دیا گیا، بلکہ جہاں بھی اس کی خواہش یا اس کے اجتہاد نے خدا کے مقرر کیے ہوئے خط مستقیم سے بال برابر جنبش کی ہے وہیں اس کو ٹوک کر سیدھا کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کی پیدائش اور اس کی بعثت کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ خدا کے بندوں کو سواء السبیل اور صراطِ مستقیم پر چلائے، اگر وہ اس خط سے یک سرِ مُوبھی ہٹتا تو عام انسان میلوں اس سے دُور نکل جاتے۔
یہ جو کچھ کہہ رہا ہوں اس کے لفظ لفظ پر قرآن گواہ ہے۔
۱۔ یہ بات کہ انبیا علیہم السلام پیدائش سے پہلے ہی نبوت کے لیے نامزد کر دیئے جاتے تھے، اور ان کوخاص طور پر اسی منصب کے لیے پیدا کیا جاتا تھا، متعدد انبیا کے احوال سے معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً حضر ات اسحاق کی پیدائش سے پہلے ہی حضرت ابراہیم ؑ کو ان کی پیدائش اور نبوت کی خوش خبری دے دی جاتی ہے، وَبَشَّرْنٰہُ بِـاِسْحٰقَ نَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَo وَبٰرَكْنَا عَلَيْہِ وَعَلٰٓي اِسْحٰقَ۝۰ۭ الصّٰفٰ112-113:37 حضرت یوسف کے متعلق بچپن ہی میں حضرت یعقوب کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو برگزیدہ کرنے اور ابراہیم واسحق علیہماالسلام کی طرح ان پر اپنی نعمت کا اتمام کرنے والا ہے۔ حضرت زکریا بیٹے کے لیے دعا کرتے ہیں تو ان کو حضرت یحییٰ کی خوشخبری ان الفاظ میں دی جاتی ہے کہ اَنَّ اللہَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيٰي مُصَدِّقًۢـا بِكَلِمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَسَيِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَo آل عمران39:3 حضرت مریم کے پاس خاص طو ر پر فرشتہ بھیجا جاتا ہے کہ ان کو ایک پاک طینت لڑکے (غلام زکی) کی خوشخبری دے، اور جب ان کے وضع حمل کا وقت آتا ہے تو خاص حق تعالیٰ کی طرف سے ان کی زچگی کے انتظامات ہوتے ہیں (ملاحظہ ہو سورۂ مریم رکوع دوم) پھر اس اسرائیلی چرواہے کو بھی دیکھیے جس سے وادیٔ مقدس طویٰ میں بلا کر باتیں کی گئیں۔ وہ بھی عام چرواہوں کی طرح نہ تھا۔ اسے مصر میں خاص طور پر فرعونیت کو تباہ کرنے اور بنی اسرائیل کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے پیدا کیا گیا۔ اس کو قتل سے بچانے کے لیے ایک تابوت میں رکھوا کر دریا میں ڈلوایا گیا۔ خاص اُسی فرعون کے گھر میں پہنچایا گیا جس کو وہ تباہ کرنے والا تھا۔ اس کو پیاری صورت دی گئی کہ فرعون کے گھر والوں کے دل میں گھر کرلے وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّۃً مِّنِّيْ طٰہٰ39:20 یہ چندمثالیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیا علیہم السلام خاص طور پر نبوت ہی کے لیے پیدا کیے جاتے تھے۔
۲۔ پھر دیکھیے کہ اس طرح جن لوگوں کو پیدا کیا جاتا ہے وہ عام انسانوں کی طرح نہیں ہوتے بلکہ غیر معمولی قابلیتوں کے ساتھ وجود میں آتے ہیں۔ ان کی فطرت نہایت پاکیزہ ہوتی ہے۔ ان کے ذہن کا سانچہ ایسا ہوتا ہے کہ اس سے جو بات نکلتی ہے، سیدھی نکلتی ہے۔ غلط اندیشی اور کج مبنی کی استعداد ہی ان میں نہیں ہوتی۔ وہ جبلی طور پر ایسے بنائے جاتے ہیں کہ بلا ارادہ اور بلا کسی غور و فکر کے محض حدس اور وجدان (Intuition) سے ان صحیح نتائج پر پہنچ جاتے ہیں جن پر دوسرے انسان غور و فکر کے بعد بھی نہیں پہنچ سکتے۔ ان کے علوم کسبی نہیں ہوتے بلکہ جبلی ووہبی ہوتے ہیں حق اور باطل‘ صحیح اور غلط کا امتیاز ان کی عین سرشت میں ودیعت کیا جاتا ہے۔ وہ فطرتاً صحیح سوچتے ہیں صحیح بولتے ہیں صحیح عمل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت یعقوب کو دیکھیے! حضرت یوسفؑ کا خواب سنتے ہی ان کے دل میں کھٹک پیدا ہو جاتی ہے کہ اس بچے کو اس کے بھائی جینے نہ دیں گے۔ برادران یوسف ان کو کھیل کے لیے لے جانا چاہتے ہیں تو حضرت یعقوبؑ نہ صرف ان کی بری نیت کو بھانپ جاتے ہیں بلکہ ان کو ٹھیک وہ بہانہ بھی معلوم ہو جاتا ہے جو بعد میں وہ بنانے والے تھے۔ فرماتے ہیںوَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَہُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْہُ غٰفِلُوْنَo یوسف13:12 پھر جب یوسف کے بھائی خون کا بھرا ہوا کرتہ لاکر دکھاتے ہیں تو حضرت یعقوب ؑ دیکھ کر فرماتے ہیں بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا۝۰ۭ یوسف18:12 اسی طرح جب برادران مصر سے واپس آکر کہتے ہیں کہ آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے اور یقین دلانے کے لیے یہاں تک عرض کرتے ہیں کہ اس بستی کے لوگوں سے پوچھ لیجیے جہاں سے ہم آرہے ہیں تو حضرت یعقوب پھر وہی جواب دیتے ہیں کہ یہ تمھارے نفس کا دھوکہ ہے۔ بیٹوں کو پھر مصر بھیجتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اذْہَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُوْسُفَ وَاَخِيْہِ یوسف87:12 اس کے بعد جب ان کے بیٹے حضرت یوسفؑ کا قمیص لے کر مصر سے چلتے ہیں تو ان کو دُور ہی سے حضرت یوسف ؑ کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیا علیہم السلام کی نفسی و روحانی قوتیں کس قدر غیر معمولی ہوتی ہیں۔ یہ صرف حضرت یعقوب ہی کی خصوصیت نہیں۔ تمام انبیا کا یہی حال ہے۔ حضرت یحییٰ کے متعلق ارشاد ہے:
وَاٰتَيْنٰہُ الْحُكْمَ صَبِيًّاo وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَزَكٰوۃً۝۰ۭ مریم13:19
ہم نے بچپن ہی میں اس کو قوت فیصلہ اور رحم دلی اور پاک طنیتی اپنی طرف سے عطا کی۔
حضرت عیسیٰ کی زبان سے گہوارے میں کہلوایا جاتا ہے کہ:
وَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ۝۰۠ ‎وَاَوْصٰىنِيْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ مَا دُمْتُ حَيًّاo وَّبَرًّۢا بِوَالِدَتِيْ۝۰ۡوَلَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّاo مریم31-32:19
اور اللہ نے مجھ کو برکت والا بنایا جہاں بھی میں رہوں۔ اور اس نے مجھ کو وصیت کی کہ جب تک جیوں نماز پڑھوں اور زکوٰۃ دوں اور اس نے مجھ کو اپنی ماں کا خدمت گذار بنایا اور مجھ کو جبار اور شقی نہیں بنایا۔
نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا:
وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍo القلم4:68
اور تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو۔
یہ سب ان جبلی اور فطری کمالات کی طرف اشارات ہیں جن کو لے کر انبیا علیہم السلام پیدا ہوتے ہیں۔ پھر حق تعالیٰ ان کی انھی فطری استعدادات کو ترقی دے کر فعلیت کی طرف لے جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو وہ چیز عطا کرتا ہے جس کو قرآن میں علم اور حکم (قوت فیصلہ) اور ہدایت اور مبینہ وغیرہ الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت نوح اپنی قوم سے کہتے ہیں:
وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo الاعراف62:7
میں خدا کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملکوت سماوات وارض کا مشاہدہ کرا دیا جاتا ہے (انعام:۹) اور جب وہ اس مشاہدے سے علم یقین لے کر پلٹتے ہیں تو اپنے باپ سے کہتے ہیں:
يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ قَدْ جَاۗءَنِيْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِيْٓ اَہْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّاo مریم 43:19
اے باپ! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو تیرے پاس نہیں، لہٰذا میری پیروی کر، میں تجھے سیدھا راستہ بتائوں گا۔
حضرت یعقوبؑ کے متعلق ارشاد ہے:
وَاِنَّہٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰہُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَo یوسف68:12
اور یقیناً وہ وہ علم رکھتا تھا جو ہم نے اس کو تعلیم کیا تھا مگر اکثر لوگ یہ راز نہیں جانتے۔
حضرت یوسفؑ کے حق میں فرمایا:
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗٓ اٰتَيْنٰہُ حُكْمًا وَّعِلْمًا۝۰ۭ یوسف22:12
اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا تو ہم نے اس کو دانش اور قوت فیصلہ عطا کی۔
یہی بات حضرت موسیٰ کے حق میں بھی فرمائی (قصص:۲) یہی حکم اور علم حضرت لوطؑ کو عطا کیا گیا (انبیاء:۵) اور اسی غیر معمولی علم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سرفراز ہوئے۔
وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ۝۰ۭ النسائ 113:4
قُلْ اِنِّىْ عَلٰي بَيِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّيْ انعام57:6
کہو کہ میں اپنے رب کی طرف سے ایک واضح اور روشن راستے پر ہوں۔
قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ۝۰ۣؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۝۰ۭ یوسف108:12
کہو کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں بھی بصیرت پر ہوں اور وہ بھی جو میرے پیروہیں۔
اس علم اور حکم سے نبی اور عام انسانوں کے درمیان اتنا عظیم تفاوت واقع ہو جاتا ہے جتنا ایک آنکھوں والے اور ایک نابینا کے درمیان ہوتا ہے۔
اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ۝۰ۭ قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ۝۰ۭ الانعام50:6
میں تو اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کی جاتی ہے۔ کہو اے محمدؐ! کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟
ان آیات میں جس چیز کا ذکر کیا گیا ہے وہ محض کتاب نہیں ہے، بلکہ وہ ایک روشنی ہے جو انبیا علیہم السلام کے نفس میں پیدا کر دی جاتی ہے۔ اسی لیے اس کا ذکرکتاب سے الگ کیا گیا ہے، اور اسے انبیا کی صفت کے طور پر بیان کیاگیا ہے وہ اس روشنی سے حقائق کا عینی مشاہدہ کرتے ہیں، اسی سے غلط اور صحیح میں امتیاز کرتے ہیں، اسی سے معاملات میں فیصلہ کرتے ہیں اور اسی سے ان امور میں نظر کرتے ہیں جو ان کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ علمائے اسلام نے اسی چیز کا نام وحی خفی رکھا ہے، یعنی وہ اندرونی ہدایت و بصیرت جو ہر وقت ان بزرگوں کو حاصل رہتی تھی اور جس سے وہ ہر موقع پر کام لیتے تھے۔ دوسرے لوگ غور و فکر کے بعد بھی جن باتوں کی تہ کو نہیں پہنچ سکتے اور جن امور میں حق اور صواب معلوم نہیں کرسکتے، ان میں نبی کی نظر اللہ کی دی ہوئی روشنی اور بصیرت کے زور سے آن واحد میں تہ تک پہنچ جاتی تھی۔
۳۔ اس کے بعد قرآن مجید ہم کو بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کو نہ صرف حکمت اور قوت فیصلہ اور غیر معمولی دانش و بینش عطا کی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ہی وہ ہمیشہ ان پر خاص نظررکھتا ہے، غلطیوں سے ان کی حفاظت کرتا ہے، گمراہیوں سے ان کو بچاتا ہے۔ خواہ وہ انسانی اثرات کے تحت ہوں یا شیطانی وساوس کے تحت یا خود ان کے اپنے نفس سے پیدا ہوں۔ حتیٰ کہ اگر بہ مقتضائے بشریت کبھی وہ اپنے اجتہاد میں بھی غلطی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فوراً ان کی اصلاح کر دیتا ہے۔ حضرت یوسف ؑ کے قصے میں دیکھیے۔ جب قریب تھا کہ عزیز مصر کی بیوی ان کو اپنے جال میں پھنسا لے، اللہ تعالیٰ نے اپنی ’’بُرہان‘‘ دکھا کر ان کو بدکاری سے محفوظ کر دیا۔
وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ۝۰ۚ وَہَمَّ بِہَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖ۝۰ۭ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ۝۰ۭ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَo یوسف24:12
اس نے یوسف سے ارادۂ بد کر ڈالا، اور وہ بھی اس کی طرف ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا۔ ایسا ہوا تاکہ ہم اس کو برائی اور بے حیائی سے پھیر دیں کیونکہ وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھا جن کو ہم نے اپنے لیے مخصوص کرلیا ہے۔
حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو جب فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا گیا تو انھیں خوف ہوا کہ کہیں فرعون ان پر زیادتی نہ کرے۔ اس پر حق تعالیٰ نے فرمایا کہ کچھ خوف نہ کرو میں تمھارے ساتھ ہوں اور سب کچھ سن اور دیکھ رہا ہوں (طٰہٰ: ۲)خوف بشریت کی بنا پر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بشری کمزوری کو اپنی وحی سے دُور کیا۔
حضرت نوحؑ بیٹے کو ڈوبتے دیکھ کر چیخ اٹھے ’’رَبِّ اِنَّ ابْنِيْ مِنْ اَہْلِيْ ‘‘ ہود45:11 خدایا یہ میرا بیٹا ہے۔ یہ بشری کمزوری تھی۔ اللہ نے اسی وقت یہ حقیقت ان پر واضح کر دی وہ تیرے نطفے سے ہو تو ہوا کرے، مگر تیرے ’’اہل‘‘ سے نہیں، کیونکہ عمل غیر صالح ہے۔ بشریت نے محبت پدری کے جوش میں ذرا سی دیر کے لیے نبی کی نظر سے اس حقیقت کو چھپا دیا تھاکہ حق کے معاملے میں باپ، بیٹا، بھائی کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے اسی وقت آنکھوں پر سے پردہ اٹھا دیا اور حضرت نوح مطمئن ہوگئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی متعدد مرتبہ ایسے واقعات پیش آچکے ہیں۔ اپنی فطری رحمت و رأفت، کفار کو مسلمان بنانے کی حرص، کفار کی تالیف قلب، لوگوں کے چھوٹے سے چھوٹے احسان کا بدلہ دینے کی کوشش، منافقین کے دلوں میں ایمان کی روح پھونکنے کی خواہش اور کبھی کبھی اقتضائے بشریت کی بنا پر جب کبھی آپ سے کوئی اجتہادی لغزش ہوئی ہے، وحی جلی سے اس کی اصلاح کی گئی ہے۔عَبَسَ وَتَوَلّٰٓيo اَنْ جَاۗءَہُ الْاَعْمٰىo عبس 1:80 مَاكَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰيانفال67:8 عَفَا اللہُ عَنْكَ۝۰ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ التوبہ43:9 اِسْتَغْفِرْ لَہُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْلَہُمْ۝۰ۭ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّۃً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَہُمْ۝۰ۭ توبہ80:9 وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا التوبہ84:9
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَكَ۝۰ۚ تحریم66:1 یہ سب آیات اسی امر کی شہادت دیتی ہیں۔ لوگ ان آیات کو اس امر کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے غلطیاں سرزد ہوتی تھیں اور آپ غلطیوں سے مبرا نہ تھے۔ خصوصاً حضرات اہل قرآن کو تو ان آیات کے ذریعے سے اللہ کے رسول کی غلطیاں پکڑنے میں خاص مزہ آتا ہے۔ لیکن دراصل یہی تو وہ آیتیں ہیں جن سے صریح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اپنے نبی کو غلطیوں سے بچانے اور اس کی زندگی کو ٹھیٹھ معیار حق پر قائم رکھنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نےراہ راست اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ اور یہ حقیقت صرف مذکورہ بالا آیات ہی میں بیان نہیں ہوئی ہے بلکہ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اسے اصولی حیثیت سے بھی بیان فرمایا ہے۔ مثلاً فرمایا:
وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُہٗ لَہَمَّتْ طَّاۗىِٕفَۃٌ مِّنْھُمْ اَنْ يُّضِلُّوْكَ۝۰ۭ وَمَا يُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَضُرُّوْنَكَ مِنْ شَيْءٍ۝۰ۭ وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ۝۰ۭ النساء113:4
اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ تم کو راہ راست سے ہٹا دینے کا عزم کر ہی چکا تھا مگر وہ خود اپنے آپ کو بہکانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے اور تمھارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ کیونکہ اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری ہے اور تم کو وہ علم دیا ہے جو تم پہلے نہ جانتے تھے۔
وَاِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَہٗ۝۰ۤۖ وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًاo وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَيْہِمْ شَـيْــــًٔـا قَلِيْلًاo
بنی اسرائیل 73-74:17
قریب تھا کہ وہ تم کو اس بات سے جو ہم نے تم پر وحی کی ہے منحرف کر دیتے تاکہ تم اس کے سوا کچھ اور ہم پر بنالو اور اس وقت وہ تم کو دوست بنا لیتے۔ اگر ہم تم کو ثابت قدم نہ رکھتے تو کسی قدر تم ان کی طرف جھک ہی جاتے۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ اِلَّآ اِذَا تَـمَنّٰٓي اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِيْٓ اُمْنِيَّتِہٖ۝۰ۚ فَيَنْسَخُ اللہُ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللہُ اٰيٰتِہٖ۝۰ۭ الحج52:22
ہم نے تم سے پہلے جو نبی یا رسول بھیجا ہے اس نے جب کبھی کسی بات کی تمنا کی شیطان نے اس کی تمنا میں وسوسہ ڈال دیا۔ مگر اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ (نبی کے دل میں)شیطان جو وسوسہ بھی ڈالتا ہے اللہ اسے مٹا دیتا ہے اور پھر اپنی آیات کو مضبوط کر دیتا ہے۔
ان اصولی ارشادات سے اور اوپر کی واقعاتی مثالوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زندگی کو ٹھیک ٹھیک معیار مطلوب پر قائم رکھنے کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لی ہے اور اس نے اس بات کا سخت اہتمام کیا ہے کہ نبی سے جو لغزش بھی سرزد ہو جائے اس کی فوراً اصلاح کرے، خواہ وہ لغزش کسی ذاتی معاملے میں ہو یا پبلک معاملے میں۔ پھر اگر اصولی طور پر یہ بات مان لی جائے تو اسی سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ نبی کے جن کاموں پر اللہ تعالیٰ نے گرفت نہیں کی ہے وہ سب کے سب اللہ کے معیار مطلوب پر پورے اُترتے ہیں اور گویا ان پر خود اللہ ہی کی مہرِ ثوثیق ثبت ہے۔
یہاں تک جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ اس امر کی توضیح کے لیے بالکل کافی ہے کہ نبوت کی حقیقت یہ نہیں ہے کہ ایک انسان جو تمام حیثیات سے دوسرے انسانوں جیسا ایک انسان ہو، ایک عمر کو پہنچنے کے بعد یکایک خدا کی طرف سے نزول وحی کے لیے چن لیا جائے، اور بجز اس کتاب کے جو اس پر نازل کی گئی ہو اور کسی بات میں بھی اس کی رائے، اس کے خیالات، اس کے اعمال، اس کے احکام اور اس کے فیصلے غیر نبی انسانوں سے ممتاز نہ ہوں، جیسا کہ نام نہاد اہل قرآن کا گمان ہے۔ یا یہ کہ اس میں اور عام انسانوں میں صرف اتنا ہی فرق ہو کہ تنزیل ِ کتاب کے ساتھ ساتھ اس کو احکام کتاب کی عملی تفصیلات بھی بتا دی گئی ہوں اور اس خاص امتیازی حیثیت سے قطع نظر کرکے وہ محض عام امیروں جیسا ایک امیر اور عام قاضیوں جیسا ایک قاضی اور عام لیڈروں جیسا ایک لیڈر ہو جیسا کہ مولانا اسلم جیراج پوری کا خیال ہے۔ اسی طرح نبوت کی حقیقت یہ بھی نہیں ہے کہ نبی کی ذات بشریہ پر نبوت عارض ہوتی ہے اور اس کے عروض کے بعد بھی نبی کی بشریت اور اس کی نبوت دونوں علیحدہ علیحدہ رہتی ہوں حتیٰ کہ ہم اس کی زندگی کو دو مختلف شعبوں میں تقسیم کرکے صرف اس شعبے کو اطاعت و اتباع کے لیے منتخب کرسکیں جو نبوت سے تعلق رکھتا ہے، جیسا کہ ہمارے دوست چودھری غلام احمد صاحب پرویز کا خیال ہے: یہ تینوں خیالات بے اصل ہیں۔ ان کے برعکس قرآن مجید سے نبوت کی حقیقت پر جو روشنی پڑتی ہے اس سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ نبی اپنی پیدائش اور پرورش کے مراحل سے گزرنے کے بعد نبوت کے لیے منتخب نہیں کیا جاتا ہے بلکہ وہ کار نبوت ہی کے لیے پیدا کیا جاتا ہے۔ وہ اگرچہ بشر ہی ہوتا ہے اور ان تمام حدود سے محدود ہوا کرتا ہے جو حق تعالیٰ نے فطرت بشریہ کے لیے مقرر فرمائی ہیں، لیکن ان حدود کے اندر اس کی بشریت آخری اور انتہا درجے کی کامل و اکمل بشریت ہوتی ہے جس میں وہ تمام قوتیں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں جو زیادہ سے زیادہ ایک انسان کو حاصل ہونی ممکن ہیں۔ اس کے جسمانی، نفسانی اور عقلی و روحانی قویٰ عدل و تسویہ (balance and moderation) کے انتہائی مقام پر ہوتے ہیں۔ اس کے ادر اکات اتنے لطیف ہوتے ہیں کہ وہ بلا کسی غور و فکر کے اپنے وجدان سے اس الہام الٰہی کو پالیتا ہے جس کی طرف فَاَلْھَہَاَ فُجُورْھَاَ وَتَقُوٰھَا میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کی فطرت اتنی صحیح ہوتی ہے کہ وہ کسی خارجی تعلیم و تربیت کے بغیر صرف اپنے میل طبعی سے فجور کی راہ چھوڑ کر تقویٰ کی راہ اختیار کرتا ہے۔ اس کا قلب اتنا سلیم ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں جو اس کے سامنے آئے اس الٰہی ہدایت کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لیتا ہے جس کی طرف وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اس کے قلب کی سلامت اور اس کی فطرت کی صحت اس کو خود بخود ان راستوں سے ہٹا دیتی ہے جو رضائے الٰہی کے خلاف ہیں۔ اور وہ آپ سے آپ ان راستوں پر چلتا ہے جو مرضات الٰہی کے عین مطابق ہیں۔ یہی کامل و اکمل بشریت ہے جس کے ساتھ وہ صحیح معنوں میں بالفعل خدا کا خلیفہ ہوتا ہے اور یہی چیز ہے جو اپنی پختگی اور اپنے کمال کو پہنچ جانے کے بعد ہدایت عام کے منصب پر سرفراز کی جاتی ہے، حق تعالیٰ کی جانب سے علم کی مزید روشنی پا کر سراج منیر بنتی ہے، مصالح عامہ بشریہ کے لیے تعلیمات اور احکام کا مہبط قرار پاتی ہے، اور اصطلاح میں نبوت و رسالت سے موسوم ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ نبوت ایک عرض ہے جو ایک خاص وقت میں نبی کے جوہر انسانیت پر عارض ہوتا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہی انسانیت کاملہ کا جوہر ہے جو نبوت کی استعداد کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے اور فعلیت کی طرف ترقی کرتے کرتے آخر کار نبوت بنا دیا جاتا ہے۔ نبوت کا منصب ایسا نہیں ہے کہ ایک انسان تھا جو وائسرائے بنا دیا گیا، حتیٰ کہ اگر اس کی جگہ کوئی دوسرا انسان ہوتا تو وہ بھی اسی کی طرح وائسرائے بنا دیا جاسکتا تھا، بلکہ دراصل نبوت ایک پیدائشی چیز ہے، اور نبی کی حیثیت ذاتی ہی اس کی حیثیت نبوی ہے۔ فرق اگر ہے تو صرف اتنا ہے کہ بعثت سے قبل اس کی حیثیت نبوی بالقوۃ ہوتی ہے اور بعثت کے بعد بالفعل ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے میٹھا پھل، کہ وہ بالذات میٹھا پھل ہی پیدا ہوا ہے، لیکن اس کی مٹھاس پختگی کی ایک خاص حد پر پہنچ کر ہی ظاہر ہوتی ہے۔
اب ان آیات کا مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبوت اور ذات نبوی کے حق میں متعدد مقامات پر ارشاد فرمائی ہیں۔ میں توضیح مدّعا کے لیے ان آیات کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ مرتب کرکے نقل کرتا ہوں:
(۱) وَمَا كَانَ اللہُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَي الْغَيْبِ وَلٰكِنَّ اللہَ يَجْتَبِىْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰۠ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ۝۰ۚ آل عمران179:3
اللہ کا یہ قاعدہ نہیں ہے کہ تم کو براہ راست غیب کا علم دے بلکہ وہ اس کام کے لیے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے۔ پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر۔
(۲)وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ النساء64:4
اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے اذن ۱؎سے۔
(۳) مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ النساء80:4
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔
(۴) وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰىo مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰىo وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰىo النجم 1-4:53
تارے کی قسم جب ہ ٹوٹتا ہے، تمھارا صاحب (یعنی نبی) نہ گم کردہ راہ ہے اور نہ کج راہ، اور نہ وہ ہوائے نفس سے بولتا ہے۔ وہ صرف وحی ہے جو اس پر کی جاتی ہے۔
(۵) اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ۝۰ۭ انعام50:6
میں صرف اس وحی کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر کی جاتی ہے۔
(۶) لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ احزاب21:33
تمھارے لیے رسول خدا میں ایک اچھا نمونہ ہے۔
(۷) قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ آل عمران31:3
اے محمد! کہہ دو کہ اگر تم کو خدا سے محبت ہے تو میرا اتباع کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا۔
(۸) اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo النور51:24
اہل ایمان کاکام تو یہ ہے کہ جب ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ (رسول) ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں…… اور اگر تم اس کی (یعنی رسول کی) اطاعت کرو گے تو ہدایت پائو گے۔
(۹) فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًاo النساء65:4
پس قسم ہے تیرے پروردگار کی، نہیں وہ ہرگز مومن نہیں ہیں جب تک کہ وہ اپنے آپس کے جھگڑے میں تجھ کو فیصلہ کرنے والا نہ بنائیں، پھر تو جو فیصلہ کرے اس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی نہ پائیں بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔
(۱۰) وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًاo
احزاب 36:33
کسی مومن مرد یا عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کردے تو اس کے لیے اپنے معاملے میں خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔
ان آیات پر غور کیجیے تو تمام حقیقت آپ پر کھل جائے گی۔
(۱) پہلی آیت میں نبی اور عام انسانوں کے درمیان فرق ظاہر کیاگیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ نبی پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ اپنے غیب ۱؎ کا علم ہر انسان پر فرداً فرداً ظاہر نہیں کرتا بلکہ اپنے بندوں میں سے کسی خاص بندے پر ظاہر کرتا ہے، اس لیے عام انسانوں پر لازم ہے کہ وہ اس بندے پر ایمان لائیں۔
(۲) دوسری آیت میں بتایا گیا ہے کہ رسول پر ایمان لانے کا مدعا یہی نہیں ہے کہ اس کو رسول خدا مان لیا جائے، اس کے ساتھ رسول کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ یہ اطاعت کا حکم نہ صرف اس آیت میں، بلکہ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی دیا گیا ہے، مطلق ہے، مقید نہیں ہے۔ کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ رسول کی اطاعت فلاں فلاں امور میں ہے اور ان امور کے سوا کسی دوسرے امر میں نہیں ہے۔ پس قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے اس کا رسول ایک حاکم عام ہے۔ جو حکم بھی وہ دے، مومنوں پر اس کا ماننا لازم ہے۔ یہ خود رسول کے اپنے اختیار میں ہے کہ الٰہی ہدایت کے ماتحت اپنی حکومت کے اقتدار کو مخصوص حدود کے اندر محدود کر دے، اور ان حدود سے باہر لوگوں کو رائے اور عمل کی آزادی بخش دے۔ لیکن مومنوں کو یہ حق ہرگز نہیں دیا گیا کہ وہ خود رسول کے اختیارات کی حد بندی کر دیں۔ وہ تو قطعاً محکوم و مامور ہیں۔ اگر رسول ان کو زراعت اور نجاری اور حدّادی وغیرہ کے طریقوں میں سے بھی کسی خاص طریقے کو اختیار کرنے کا حکم دیتا تو ان کا فرض یہی تھا کہ بے چون و چرا اس کے حکم کی اطاعت کرتے۔
(۳)جب اطاعت غیر مشروط اور غیر محدود کا حکم دے دیا گیا تو یہ اطمینان دلانا بھی ضروری تھا کہ نبی کی اطاعت، اپنے جیسے ایک انسان کی اطاعت نہیں ہے، جیسا کہ جاہل کفار کا خیال تھا۔ جوکہتے تھے کہ ہَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۚ الانبیاء21:3 کیا یہ تمھی جیسا ایک بشر نہیں ہے؟‘‘ اور مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۙ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ۝۰ۭ المومنون24:23 کچھ نہیں ہے مگر تمھارے ہی جیسا ایک بشر، اور اس پر یہ چاہتا ہے کہ تم پر فضیلت حاصل کرلے۔ اور وَلَىِٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ۝۰ۙ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَo المومنون34:23 اگر تم نے اپنے جیسے ایک بشر کی اطاعت کی تو تم ضرور ٹوٹے میں رہوگے، بلکہ دراصل یہ خدا کی اطاعت ہے، کیونکہ نبی جو کچھ کہتا ہے خدا کی طرف سے کہتا ہے اور جو کچھ عمل کرتا ہے خدا کی ہدایت کے ماتحت کرتا ہے، وہ خود اپنے نفس کی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتا بلکہ خدا کی وحی کا اتباع کرتا ہے، اس لیے تم کو مطمئن ہو جانا چاہیے کہ اس کی پیروی میں کسی قسم کی گمراہی اور غلط روی کا خطرہ نہیں ہے۔
یہی بات ہے جو تیسری، چوتھی اور پانچویں آیت میں بیان کی گئی ہے۔ چوتھی اور پانچویں آیت میں جس چیز کو وحی کہا گیا ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد کتاب اللہ ہے اور کتاب کے سوا کوئی وحی نبی پر نازل نہیں ہوتی لیکن یہ خیال قطعاً غلط ہے۔ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ انبیا علیہم السلام پر صرف کتاب ہی نازل نہیں کی جاتی تھی بلکہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ ہمیشہ وحی نازل کرتا رہتا تھا اور اسی وحی کی روشنی میں وہ سیدھی راہ چلتے تھے، معاملات میں صائب رائے قائم کرتے تھے، اور تدبیریں عمل میں لاتے تھے۔ مثال کے طور پر دیکھیے۔ نوح علیہ السلام طوفان کی پیش بندی کے لیے اللہ کی نگرانی میں اور اس کی وحی کے ماتحت کشتی بناتے ہیں وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا ہود37:11 حضرت ابراہیم کو ملکوت سمٰوات و ارض کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے اور مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت دکھائی جاتی ہے۔ حضرت یوسف کو خوابوں کی تعبیر بتائی جاتی ہے ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ۝۰ۭ یوسف37:12 حضرت موسیٰ سے طور پر باتیں کی جاتی ہیں۔ پوچھا جاتا ہے کہ یہ تمھارے ہاتھ میں کیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ میری لاٹھی ہے، اس سے بکریاں چراتا ہوں۔ حکم ہوتا ہے کہ اس کو پھینک دو۔ جب لاٹھی اژدہا بن جاتی ہے اور حضرت موسیٰ ڈر کر بھاگتے ہیں تو فرمایا جاتا ہے يٰمُوْسٰٓي اَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ ۝۰ۣ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِيْنَo القصص31:28 ’’موسیٰ ڈرو نہیں، آگے بڑھو، تم امن میں ہو‘‘ پھر حکم دیا جاتا ہےاِذْہَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰيo طٰہٰ24:20 فرعون کی طرف جائو وہ سرکش ہوگیا ہے۔ وہ اپنی مدد کے لیے ہارون علیہ السلام کو مانگتے ہیں اور یہ درخواست قبول کی جاتی ہے۔ دونوں بھائی فرعون کے پاس جاتے ہوئے ڈرتے ہیں تو ارشاد ہوتا ہے لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰىo طٰہ46:20 ’’ڈرو نہیں‘ میں تم دونوں کے ساتھ ہوں اور سنتا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔‘‘ فرعون کے دربار میں سانپوں کو دیکھ کر حضرت موسیٰ ڈرتے ہیں تو وحی آتی ہے لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰىo طٰہٰ68:20 ’’مت ڈرو، تمھارا ہی بول بالا ہوگا۔‘‘ جب فرعون پر اتمام حجت ہوچکتا ہے تو ان کو حکم دیا جاتا ہے کہ اَسْرِ بِعِبَادِيْٓ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَo الشعراء52:26 ’’میرے بندوں کو لے کر راتوں رات چل پڑو، تمھارا تعاقب کیا جائے گا‘‘۔ دریا پر پہنچتے ہیں تو فرمان آتا ہے اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ۝۰ۭ الشعراء63:26 ’’دریا پر اپنا عصا مارو‘‘۔ کیا ان میں سے کوئی وحی بھی ایسی ہے جو کتاب کی صورت میں ہدایت عامہ کے لیے نازل ہوئی ہو؟ یہ مثالیں اس امر کے ثبوت میں کافی ہیں کہ انبیا علیہم السلام کی طرف اللہ تعالیٰ متوجہ رہتا ہے اور ہر ایسے موقع پر جہاں بشری فکر ورائے کی غلطی کرنے کا امکان ہو اپنی وحی سے ان کی رہنمائی کرتا رہتا ہے اور یہ وحی اس وحی سے ماسوا ہوتی ہے جو ہدایت عام کے لیے ان کے واسطے سے بھیجی جاتی اور کتاب میں ثبت کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کے لیے ایک الٰہی ہدایت نامے اور دستور العمل کاکام دے۔
ایسی ہی وحی غیر متلو اور وحی خفی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی نازل ہوتی تھی جس کی طرف قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اشارے کیے گئے ہیں۔ حضور انورؐ نے پہلے بیت المقدس کو قبلہ بنایا تھا۔ اس کے متعلق کوئی حکم کتاب اللہ میں نہیں آیا۔ مگر جب اس قبلے کو منسوخ کرکے بیت الحرام کو قبلہ بنانے کا حکم دیا گیا اس وقت ارشاد ہوا:
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْہِ۝۰ۭ البقرہ143:2
جس قبلے پر تم تھے اس کو ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ رسول کا اتباع کرنے والے اور اتباع سے منہ موڑنے والے کے درمیان امتیاز ہو جائے۔
اس سے معلوم ہوا کہ پہلے جو بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا تھا، وہ وحی کی بنا پر تھا۔
جنگ اُحد کے موقع پر حضورؐ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمھاری مدد کے لیے فرشتے بھیجے گا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کے اس ارشاد کا ذکر قرآن میں اس طرح فرمایا:
وَمَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ آل عمران126:3
اللہ نے اس وعدے کو تمھارے لیے خوشخبری بنایا۔
ظاہر ہوا کہ یہ وعدہ اللہ کی طرف سے تھا۔
جنگ اُحد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر ثانیہ کے لیے لوگوں کو نکلنے کا حکم دیا۔ یہ حکم قرآن میں کہیں نہیں آیا۔ مگر اللہ نے بعد میں تصدیق کی کہ یہ بھی اسی کی جانب سے تھا۔
اَلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِلہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ۝۰ۭۛ آل عمران172:3
جن لوگوں نے لڑائی میں زخم کھانے کے بعد پھر اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا۔
جنگ بدر کے موقع پر حضورؐ کے مدینے سے نکلنے کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا گیا ہے:
كَـمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ۝۰۠ الانفال8:5
جس طرح تیرے رب نے تجھے تیرے گھر سے نکالا۔
گھر سے نکلنے کا حکم قرآن میں نہیں آیا، مگر بعد میں اللہ نے تصدیق فرمائی کہ یہ خروج اس کے حکم سے تھا نہ کہ اپنی رائے سے۔
پھر عین جنگ کے موقع پر اللہ نے اپنے نبی کو خواب دکھایا:
اِذْ يُرِيْكَہُمُ اللہُ فِيْ مَنَامِكَ قَلِيْلًا۝۰ۭ الانفال43:8
جب کہ اللہ ان کو قلیل بنا کر تیرے خواب میں تجھے دکھا رہا تھا۔
منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم صدقات پر ناک بھوں چڑھائی تو اللہ نے اس حقیقت پر سے پردہ اٹھایا کہ یہ تقسیم خود حضرت حق کے ارشاد سے عمل میں آئی تھی۔
وَلَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰىہُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ۝۰ۙ التوبہ59:9
اگر وہ راضی ہو جاتے اس حصے پر جو اللہ اور اس کے رسول نے ان کو دیا۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر تمام صحابہ صلح کے مخالف تھے، اور صلح کی شرائط ہر شخص کو ناقابل قبول نظر آتی تھیں مگر اللہ کے نبی نے ان کو قبول کیا، اور اللہ نے بعد میں تصدیق کی کہ یہ صلح اسی کی جانب سے تھی۔
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًاo الفتح48:1
ہم نے تجھ کو فتح مبین عطا کی۔
آیات کے تتبع سے اس قسم کی اور بھی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں۔ مگر یہاں استقصا مقصود نہیں ہے۔ صرف یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ اللہ کا تعلق اپنے انبیا کے ساتھ کوئی عارضی اور موقتی تعلق نہیں ہے کہ جب کبھی اس کو اپنے بندوں تک کوئی پیغام پہنچانا ہو بس اسی وقت یہ تعلق بھی قائم ہو اور اس کے بعد منقطع ہو جائے۔ بلکہ دراصل حق تعالیٰ جس شخص کو اپنی پیغمبری کے لیے منتخب فرماتا ہے اس کی طرف وہ ہمیشہ ایک توجہ خاص کے ساتھ متوجہ رہتا ہے اور دائماً اپنی وحی سے اس کی ہدایت و رہنمائی فرماتا رہتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی میں ٹھیک ٹھیک راہ راست پر گامزن رہے، اور اس سے کوئی ایسا قول یا فعل صادر نہ ہونے پائے جو مرضات الٰہی کے خلاف ہو۔ سورۂ نجم کی ابتدائی آیات میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے وہ دراصل اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ اور جیسا کہ میں اس مضمون کے پہلے حصے میں عرض کر چکا ہوں، یہ بات بھی قرآن نے کھول کر بیان کر دی ہے کہ انبیا پر ہمیشہ اللہ کی نگرانی رہتی ہے، ان کو غلط روی سے محفوظ رکھا جاتا ہے، اور اگر باقتضائے بشریت ان سے کبھی کوئی لغزش ہوتی ہے، یا وحی خفی کے لطیف اشارے کو سمجھنے میں وہ کبھی غلطی کرتے ہیں، یا اپنے اجتہاد سے کوئی ایسی روش اختیار کر جاتے ہیں جو مرضات الٰہی سے یک سر مُو بھی ہٹی ہوئی ہو تو اللہ تعالیٰ فوراً ان کی اصلاح کرتا ہے اور تنبیہ کرکے سیدھے رستے پر لے آتا ہے۔ قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیائے کرام کی لغزشوں اور ان پر اللہ تعالیٰ کی تنبیہوں کا جو ذکر آیا ہے، اس کا ہرگز یہ منشا نہیں کہ لوگوں کے دلوں سے انبیا علیہم السلام کا اعتماد اٹھ جائے اور لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ جب انبیا بھی ہماری ہی طرح نعوذ باللہ غلط کار ہیں تو ان کے احکام کی اطاعت اور ان کی روش کی پیروی کامل اطمینان کے ساتھ کیسے کی جاسکتی ہے بلکہ اس ذکر سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیا کوہوائے نفس کا اتباع کرنے یا اپنی رائے اور بشری اجتہاد پر چلنے کے لیے آزاد نہیں چھوڑ دیا ہے۔ وہ چونکہ اس کی طرف سے اس کے بندوں کی رہنمائی کے لیے مامور کیے گئے ہیں، اس لیے ان پر یہ پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ دائماً اس کی ہدایت پر کار بند رہیں اور اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی اس کی رضا کے خلاف عمل نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں بعض ایسی باتوں پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ کی گئی ہے جو عام انسانی زندگی میں قطعاً کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ مثلاً کسی انسان کا شہد کھانا یا نہ کھانا، اور کسی اندھے کی طرف توجہ نہ کرنا اور اس کے دخل در معقولات پر چیں بہ جبیں ہو جانا، یا کسی کے لیے دعائے مغفرت کرنا، کون سا ایسا اہم واقعہ تھا؟ مگر اللہ نے اپنے نبی کو ایسے چھوٹے معاملات میں بھی اپنی رائے یا دوسروں کی مرضی پر چلنے نہ دیا۔ اسی طرح جنگ کی شرکت سے کسی کو معاف کر دینا اور بعض قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا ایک امیر کی زندگی میں محض ایک معمولی واقعہ ہے، مگر نبی کی زندگی میں یہی واقعہ اتنا اہم بن جاتا ہے کہ اس پر وحی جلی کے ذریعے سے تنبیہ کی جاتی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اللہ کے نبی کی حیثیت عام امرا کی سی نہیں ہے کہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کرنے میں آزاد ہو، بلکہ منصب نبوت پر مامور ہونے کی وجہ سے نبی کے لیے لازم ہے کہ اس کا اجتہاد بھی ٹھیک ٹھیک منشائے الٰہی کے مطابق ہو۔ اگر وہ اپنے اجتہاد میں وحی خفی کے اشارے کو نہ سمجھ کر مرضی الٰہی کے خلاف بال برابر بھی جنبش کرتا ہے تو اللہ وحی جلی سے اس کی اصطلاح کرنا ضروری سمجھتا ہے۔
(۴)اللہ نے اپنے نبی کی اس خصوصیت کو ہمارے سامنے اسی لیے بیان فرمایا ہے کہ ہم کو اس کے نبی کی راست روی پر کامل اعتماد ہو اور ہم پورے وثوق کے ساتھ یقین رکھیں کہ نبی کا قول اور عمل گمراہی اور کج راہی اور اتباع ہوا اور بشری فکر و رائے کی غلطیوں سے قطعاً محفوظ ہے۔ زندگی میں اس کا قدم مضبوطی کے ساتھ اس صراط مستقیم پر جما ہوا ہے جو ٹھیک ٹھیک خدا کی بتائی ہوئی ہے‘ اس کی سیرت پاک اسلامی سیرت کا ایک ایسا معیاری نمونہ ہے جس میں کسی نقص کا شائبہ تک نہیں ہے۔ اور اللہ نے خاص طور پر اس کامل و اکمل نمونے کو اسی لیے بنایا ہے کہ اس کے بندوں میں سے جو کوئی اس کا مقبول و محبوب بندہ بننا چاہے وہ بے خطر اسی کی پیروی کرے۔ اس مقصد کو چھٹی اور ساتویں آیت میں کھول دیا گیا ہے۔ چھٹی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ تمھارے لیے رسول اللہ میں ایک ’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہے۔ اور ساتویں آیت میں رسول اللہ کے اتباع کو محبوب الٰہی بننے کا واحد ذریعہ بنایا گیا ہے۔
یہاں پھر ہم کو کسی قسم کی تخصیص و تحدید نظر نہیں آتی۔ صریح تعمیم و اطلاق ہے۔ رسول اللہ کی ذات کو مطلقاً اسوۂ حسنہ بتایا گیا ہے اور مطلقاً ہی آپ کے اتباع کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس قدر زیادہ آپ کا اتباع کرو گے، اور اپنی زندگی میں سیرت پاک کا رنگ جتنا زیادہ پیدا کرو گے ، اتنا ہی تقرب تم کو بارگاہ الٰہی میں حاصل ہوگا، اور حق تعالیٰ اتنا ہی تم کو پیار کرے گا۔
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو نمونہ قرار دینے اور آپ کے اتباع کا حکم دینے سے یہ مراد نہیں ہے کہ تمام معاملات زندگی میں آپ نے جو کچھ کیا ہے اور جس طرح کیا ہے سب انسان بعینہٖ وہی فعل اسی طرح کریں، اور اپنی زندگی میں آپؐ کی حیات طیبہ کی ایسی نقل اتاریں کہ اصل اور نقل میں کوئی فرق نہ رہے یہ مقصد نہ قرآن کا ہے، نہ ہوسکتا ہے۔ دراصل یہ ایک عام اور اجمالی حکم ہے جس پر عمل کرنے کی صحیح صورت ہم کو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریقے سے معلوم ہو جاتی ہے۔ یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں۔ مجملاً میں عرض کرتا ہوں کہ جو امور فرائض و واجبات اور ارکان اسلام کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں تو حضورؐ کے ارشادات کی اطاعت اور آپ کے عمل کی پیروی طابق النعل بالنعل کرنی ضروری ہے، مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور طہارت وغیرہ مسائل کہ ان میں جو کچھ آپ نے حکم دیا ہے اور جس طرح خود عمل کرکے بتایا ہے اس کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرنی لازم ہے۔ رہے وہ امور جو اسلامی زندگی کی عام ہدایات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً تمدنی، معاشی، اور سیاسی معاملات، اور معاشرت کے جزئیات، تو ان میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا حضورؐ نے حکم دیا ہے یا جن سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے، بعض ایسی ہیں جن میں آپ نے اخلاق اور حکمت اور شائستگی کی تعلیم دی ہے، اور بعض ایسی ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر ہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ عمل کے مختلف طریقوں میں سے کون سا طریقہ روح اسلامی سے مطابقت رکھتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ حضورؐ کا اتباع کرنا چاہے اور اسی غرض سے آپ کی سنت کا مطالعہ کرے تو اس کے لیے یہ معلوم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ کن امور میں آپ کا اتباع طابق النعل بالنعل ہونا چاہیے، کن امور میں آپ کی سنت سے اخلاق و حکمت اور خیر و صلاح کے عام اصول مستنبط کرنے چاہییں۔ مگر جن لوگوں کی طبیعت نزاع پسند واقع ہوئی ہے وہ اس میں طرح طرح کی حجتیں نکالتے ہیں۔ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عربی بولتے تھے تو کیا ہم بھی عربی بولیں؟ آپ نے عرب عورتوں سے شادیاں کیں تو کیا ہم بھی عربوں ہی میں شادیاں کریں؟ آپ ایک خاص وضع کا لباس پہنتے تھے تو کیا ہم بھی ویسا ہی لباس پہنیں؟ آپ ایک خاص قسم کی غذا کھاتے تھے تو کیا ہم بھی وہی غذا کھائیں؟ آپ کی معاشرت کا ایک خاص طریقہ تھا تو کیا ہم بھی بعینہٖ ویسی ہی معاشرت اختیار کریں؟ کاش یہ لوگ غور کرتے کہ اصل چیز وہ زبان نہیں ہے جو آپ بولتے تھے بلکہ وہ اخلاقی حدود ہیں جن کی پابندی کو حضورؐ نے ہمیشہ کلام میں ملحوظ رکھا۔ اصل چیز یہ نہیں ہے کہ شادی عرب عورت سے کی جائے یا غیر عرب سے بلکہ یہ ہے کہ جس عورت سے بھی کی جائے اس کے ساتھ ہمارا معاملہ کیسا ہو، اس کے حقوق ہم کس طرح ادا کریں، اور اپنے جائز شرعی اختیارات کو اس پر کس طرح استعمال کریں۔ اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو برتائو اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ تھا اس سے بہتر نمونہ ایک مسلمان کی خانگی زندگی کے لیے اور کون سا ہوسکتا ہے۔ پھر یہ کس نے کہا کہ آپ جس وضع کا لباس پہنتے تھے وہی مشروع لباس ہے؟ اور جو کھانا آپ کھاتے تھے بعینہٖ وہی کھانا ہر مسلمان کو کھانا چاہیے؟ اصل میں اتباع کے قابل جو چیز ہے وہ تو تقویٰ اور پاکیزگی کے وہ حدود ہیں جو آپ اپنے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے میں ملحوظ رکھتے تھے۔ انھی حدود سے ہم کو معلوم ہوسکتا ہے کہ رہبانیت اور نفس پرستی کے درمیان جس معتدل روش کا ہم کو قرآن میں ایک مجمل سبق دیا گیا ہے اور اس پر ہم کس طرح عمل کریں کہ نہ تو طیبات سے ناروا اجتناب ہو اور نہ اسراف۔ یہی حال حضورؐ کی پرائیویٹ اور پبلک زندگی کے دوسرے تمام معاملات کا بھی ہے۔ وہ پاک زندگی پوری کی پوری ایک سچے اور خدا ترس مسلمان کی زندگی کا معیاری نمونہ تھی۔ حضرت عائشہ نے سچ فرمایا کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآنُ۔ اگر تم کو معلوم کرنا ہو کہ قرآن کی تعلیم اور اسپرٹ کے مطابق ایک مومن انسان کو دنیا میں کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے، تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھ لو۔ جو اسلام خدا کی کتاب میں مجمل ہے وہی رسول خدا کی ذات میں تم کو مفصل نظر آئے گا۔
الحمدللہ کہ ہمارے دوست چودھری غلام احمد صاحب ان لوگوں کے ہم خیال نہیں ہیں، مگر بعض احادیث سے ان کو یہ شبہ ہوگیا ہے کہ ’’حضور ہر آن اور ہر حال میں رسول نہیں ہوتے تھے اور آپ کا ہر قول اور ہر فعل بہ حیثیت رسول نہیں ہوتا تھا۔‘‘ یہ غلط فہمی جن روایات سے پیدا ہوتی ہے وہ دراصل ایک دوسری حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر آن اور ہر حال میں خدا کے رسول ہی تھے، اور یہ شان رسالت ہی تھی کہ آپ ہمیشہ اس مقصد کو پیش نظر رکھتے تھے جس کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا۔ آپ کی بعثت کا مقصد یہ تو نہ تھا کہ لوگوں سے رائے اور عمل کی آزادی قطعاً سلب کر لیں اور ان کی عقل و فکر کو معطل کر دیں۔ نہ آپ دنیا کو زراعت اور صنعت و حرفت سکھانے آئے تھے۔ نہ آپ کو اس لیے بھیجا گیا تھا کہ لوگوں کے کاروبار اور ان کے ذاتی معاملات میں ان کی رہنمائی فرمائیں۔ آپؐ کی زندگی کا مقصد صرف ایک تھا اور وہ اسلام کو عقیدے کی حیثیت سے دلوں میں بٹھانا اور عمل کی حیثیت سے افراد کی سیرت اور سوسائٹی کے نظام میں نافذ کر دینا تھا۔ اس مقصد کے سوا دوسری کسی چیز کی طرف حضورؐ نے کبھی توجہ نہیں فرمائی۔ اور اگر شاذ و نادر کسی موقع پر کچھ فرمایا بھی تو صاف کہہ دیا کہ تم اپنی رائے اور عمل میں آزاد ہو، جس طرح چاہو کرو واَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِدُنْیَاکُمْ۔ اگرچہ صحابہ کرام آپ کے ہر ارشاد کو رسول کا ارشاد سمجھ کر بہ دِل و جان اس کی اطاعت پر آمادہ تھے، اور آپ کو مطلقاً مُطاع و متبوع سمجھتے تھے، اور اسی لیے جب کبھی حضورؐ کسی دنیوی مسئلے میں بھی کچھ ارشاد فرماتے تو صحابہ کو شبہ گزرتا تھا کہ شاید یہ حکم رسالت ہو، لیکن کبھی ایسا نہ ہوا کہ آپؐ نے کسی ایسے مسئلے میں، جو آپ کے مقصد بعثت سے متعلق نہ تھا، صحابہ کو کوئی حکم دیا ہو اور انھیں اطاعت پر مجبور کیا ہو۔ ۲۳ سال کی مدت میں ایک لمحے کے لیے بھی اپنے مشن سے غافل نہ ہونا، اور ہر آن اس باریک فرق کو ملحوظ رکھنا کہ کون سا معاملہ اس مشن سے تعلق رکھتا ہے اور کون سا نہیں رکھتا، اور اپنے متبعین پر کامل اقتدار رکھنے کے باوجود کبھی ان کو کسی غیر متعلق امر میں حکم نہ دینا خود اس بات پر شاہد ہے کہ شان رسالت کسی وقت بھی حضورؐ سے منفک نہ ہوتی تھی۔ مگر یہ خیال کرنا صحیح نہ ہوگا کہ دنیوی معاملات میں جو کچھ حضورؐ نے فرمایا وہ خدا کی وحی سے نہ تھا۔ اگرچہ آپ کے ایسے ارشادات آپ کے احکام نہیں ہیں، نہ آپ نے ان کو حکم کے انداز میں فرمایا، اور نہ کسی نے ان کو حکم سمجھا، مگر پھر بھی جو بات آپ کی زبان مبارک سے نکلی وہ سراسر حق تھی، اور غلطی کا اس میں شائبہ تک نہ تھا۔ مثال کے طور پر طب نبوی کے باب میں جو کچھ آپ سے ثابت ہے وہ ایسی ایسی حکیمانہ باتوں سے لبریز ہے جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ عرب کا امی جو طبیب نہ تھا جس نے کبھی فن طب کی تحقیق نہ کی تھی، وہ کس طرح اس فن کی حقیقتوں تک پہنچا، جو صدیوں کے تجربات کے بعد اب منکشف ہو رہی ہیں۔ اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ہم کو حضورؐ کے حکیمانہ ارشادات میں ملتی ہیں۔ اگرچہ یہ باتیں بقول آپ کے تبلیغ رسالت سے تعلق نہیں رکھتیں، مگر اللہ اپنے رسولوں کی جبلت میں جو غیر معمولی قوتیں ودیعت فرماتا ہے وہ صرف تبلیغ رسالت کے کام ہی نہیں آتیں، بلکہ ہر معاملے میں اپنی شان امتیاز دکھا کر رہتی ہیں۔ حدّا دی اور زرہ سازی کا تبلیغ رسالت سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ مگر حضرت دائود اس میں غیر معمولی کمال دکھاتے ہیں اور حق تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ یہ فن ہم نے ان کو سکھایا تھا، وَعَلَّمْنٰہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ۝۰ۚ الانبیاء80:21 پرندوں کی بولیاں جاننے سے تبلیغ رسالت کو کیا واسطہ؟ مگر حضرت سلیمان اس میں کمال ظاہر فرماتے ہیں اور خود کہتے ہیں کہ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ النحل16:27 نجاری اور کشتی سازی تبلیغ رسالت کا کون سا شعبہ ہے؟ مگر اللہ تعالیٰ حضرت نوح سے یہ نہیں کہتا کہ ایک مضبوط کشتی بنوا لو، بلکہ فرماتا ہے وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا ہود37:11
پس انبیا کے حق میں یہ گمان کرنا صحیح نہیں کہ ان پر صرف وہی امور وحی کیے گئے تھے جو براہِ راست تبلیغ رسالت سے تعلق رکھتے ہیں۔ درحقیقت ان کی ساری زندگی حق تعالیٰ کی ہدایت کے تابع تھی۔ البتہ اگر فرق ہے تو یہ کہ ان کی زندگی کا ایک شعبہ ایسا ہے جس میں ان کے قدم بقدم چلنا مسلمان ہونے کے لیے ناگزیر شرط ہے، اور ایک شعبہ ایسا ہے جس میں ان کا اتباع ہر مسلمان پر فرض نہیں۔ مگر جو شخص اللہ کا محبوب و مقبول بندہ بننا چاہتا ہو اور بارگاہِ حق میں تقرب کا طلبگار ہو، اس کے لیے بغیر اس کے چارہ نہیں کہ ٹھیک ٹھیک نبی کی سنت پر چلے، حتیٰ کہ اگر یک سرمُو بھی اس خط سے ہٹے گا تو تقرب اور محبوبیت میں اسی انحراف کی حد تک کسر رہ جائے گی۔ اس لیے کہ محبوبیت کے لیے بجز اتباع نبی کے اور کوئی راستہ ہی نہیں، فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ آل عمران31:3
(۵) اس بحث کے بعد یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ نبی کی امارت اور دوسرے امیروں کی امارت میں کیا فرق ہے اور نبی کے فیصلے اور دوسرے قاضیوں کے فیصلے میں کتنا عظیم الشان تفاوت ہے۔ تاہم میں نے تین آیتیں آخر میں ایسی نقل کی ہیں جن سے یہ فرق قطعی طور پر واضح ہو جاتا ہے۔ ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ کے حکم پر سر جھکا دینا اور آپ کے فیصلے کو تسلیم کرنا ایمان کے لیے ضروری شرط ہے جو اس سے انکار کرے وہ مومن ہی نہیں۔ کیا یہ بات کسی دوسرے امیر یا قاضی کو حاصل ہے؟ اگر نہیں تو یہ کہنا کس قدر غلط ہے کہ ’’اللہ اور رسول کے الفاظ قرآن میں جہاں جہاں ساتھ ساتھ آئے ہیں، ان سے مراد امارت ہے‘‘۔ مجھے مولانا جیراج پوری کے اسی قول پر اعتراض ہے اور میں اس کو قرآن مجید کی تعلیم کے قطعاً خلاف سمجھتا ہوں۔ رہا وہ مسئلہ جو چودھری صاحب نے پیش فرمایا ہے تو وہ ایک جداگانہ مسئلہ ہے اور اس میں مجھے ان سے بالکل اتفاق ہے۔ میں بھی تسلیم کرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اولُو الامر کی اطاعت واجب ہے۔ اور اولُو الامر اسلامی حکومت کے وہ تمام فرائض انجام دیں گے جو رسول اکرم اپنی حیات طیبہ میں انجام دیتے تھے، اور معاملات میں اولُو الامر کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہوگا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اپنی دانست میں ان کے فیصلے کو حکم خدا و رسول کے خلاف بھی سمجھتا ہو، تب بھی ایک حد خاص تک اس کے لیے لازم ہوگا کہ اپنی رائے پر قائم رہتے ہوئے ان کے فیصلے کو تسلیم کرے۔ لیکن اس کے یہ معنی کبھی نہیں ہوسکتے کہ امارت بعینہٖ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں ’’اللہ اور رسول‘‘ کہا گیا ہے اور امارت کے احکام ہو بہو وہی ہیں جو اللہ اور رسول کے احکام ہیں۔ اگر ایسا ہو تو امرا کے بگڑ جانے اور ارباب حل و عقد کے کتاب و سنت سے منحرف ہو جانے کی صورت میں مسلمانوں کے لیے کوئی چارہ ان کی اطاعت کرنے کے سوا، اور ہلاکت کے راستوں میں ان کی پیروی کرنے کے سوا باقی نہ رہے گا۔ ایسی صورت میں اگر کوئی بندۂ خدا اٹھے اور اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرنے کی تاکید کرے تو مولانا اسلم کے فتوے کی رو سے تو امرا اس کو باغی قرار دے کر قتل کر دینے میں بالکل حق بجانب قرار پائیں گے اور ان کو یہ کہنے کا حق ہوگا کہ ’’اللہ اور رسول‘‘ تو ہم ہی ہیں۔ دوسرا کون ہے جس کی طرف تو ہم کو پھیرنا چاہتا ہے؟
(ترجمان القرآن۔ ربیع الثانی ۱۳۵۴ھ۔ جولائی ۱۹۳۵ئ)

شیئر کریں