قرآن مجید میں سود کے لیے ’’ربوٰا‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مادہ ’ر ب و‘ ہے جس کے معنی میں زیادَت، نمُو، بڑھوتری، اور چڑھنے کا اعتبار ہے۔ رَبَا بڑھا اور زیادہ ہوا۔ رَبَا فُلَانُ الرَّابِیَۃَ وہ ٹیلے پر چڑھ گیا۔ رَبَا فُلَانُ السَّوِیْقَ: اس نے ستو پر پانی ڈالا اور ستو پھول گیا۔ رَبَافِیْ حِجْرِہٖ: اس نے فلاں کی آغوش میں نشوونما پایا۔ اَرْبَی الشَّیْیَٔ چیز کو بڑھایا۔ ربوۃ بلندی۔ رابیہ وہ زمین جو عام سطحِ ارض سے بلند ہو۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں اس مادے کے مشتقات آئے ہیں، سب جگہ زیادت اور علو اور نمو کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ مثلاً:
فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ الحج 5:22
جب ہم نے اس پر پانی برسایا تو وہ لہلہا اٹھی اور برگ و بار لانے لگی۔
يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۰ۭ البقرہ 276:2
اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا۰ۭ الرعد 17:13
جھاگ جو اوپر اٹھ آیا تھا اس کو سیلاب بہا لے گیا۔
فَاَخَذَہُمْ اَخْذَۃً رَّابِيَۃًo الحاقہ 10:69
اس نے ان کو پھر زیادہ سختی کے ساتھ پکڑا۔
اَنْ تَكُوْنَ اُمَّۃٌ ہِىَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّۃٍ۰ۭ النحل92:16
تا کہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ جائے۔
اٰوَيْنٰہُمَآ اِلٰى رَبْوَۃٍ المومنون50:23
ہم نے مریمؑ اور مسیحؑ کو ایک اونچی جگہ پر پناہ دی۔
اسی مادے سے ’’ربٰوا‘‘ ہے اور اس سے مراد مال کی زیادتی، اور اس کا اصل سے بڑھ جانا ہے۔ چنانچہ اس معنی کی تصریح بھی خود قرآن میں کر دی گئی ہے:
وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا …….. وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۰ۚ
البقرہ 278,279:2
اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو… اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہیں اپنے راس المال (یعنی اصل رقم) لینے کا حق ہے۔
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللہِ۰ۚ الروم 39:30
اور جو سود تم نے دیا ہے تا کہ لوگوں کے اموال بڑھیں تو اللہ کے نزدیک اس سے مال نہیں بڑھتا۔
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اصل رقم پر جو زیادتی بھی ہوگی وہ ’’ربٰو‘‘ کہلائے گی۔لیکن قرآن مجید نے مطلق ہر زیادتی کو حرام نہیں کیا ہے۔ زیادتی تو تجارت میں بھی ہوتی ہے۔ قرآن جس زیادتی کو حرام قرار دیتا ہے وہ ایک خاص قسم کی زیادتی ہے، اسی لیے وہ اس کو ’’الرِّبٰوا‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اہلِ عرب کی زبان میں اسلام سے پہلے بھی معاملے کی اس خاص نوعیت کو اسی اصطلاحی نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ مگر وہ ’’الربٰوا‘‘ کو بیع کی طرح جائز سمجھتے تھے جس طرح موجودہ جاہلیت میں سمجھا جاتا ہے۔ اسلام نے آکر بتایا کہ راس المال میں جو زیادتی بیع سے ہوتی ہے وہ اس زیادتی سے مختلف ہے جو ’’الرِّبٰوا‘‘ سے ہوا کرتی ہے ۔ پہلی قسم کی زیادتی حلال ہے اور دوسری قسم کی زیادتی حرام ہے۔
ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا۰ۘ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا۰ۭ
البقرہ275:2
سود خواروں کا یہ حشر اس لیے ہوگا کہ انہوں نے کہا کہ بیع بھی ’’الرِّبٰوا‘‘ کے مانند ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال اور الربوٰا کو حرام کیا۔
چونکہ ’’الرِّبٰو‘‘ ایک خاص قسم کی زیادتی کا نام تھا، اور وہ معلوم و مشہور تھی، اس لیے قرآن مجید میں اس کی کوئی تشریح نہیں کی گئی ، اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ اللہ نے اس کو حرام کیا ہے، اسے چھوڑ دو۔