Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل
ایک غلط فہمی کا ازالہ
پچھلی تاریخ کا جائزہ
ہماری غلامی کے اسباب
دینی حالت
اخلاقی حالت
ذہنی حالت
مغربی تہذیب کی بنیادیں
مذہب
فلسفۂ حیات
ہیگل کا فلسفۂ تاریخ
ڈارون کا نظریۂ ارتقا
مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ
اَخلاق
سیاست
فاتح تہذیب کے اثرات
تعلیم کا اثر
معاشی نظام کا اثر
قانون کا اثر
اخلاق ومعاشرت کا اثر
سیاسی نظام کا اثر
ہمارا ردِّعمل
انفعالی ردِّ عمل
جمودی ردِّ عمل
ہم کیا چاہتے ہیں؟
یَک سُوئی کی ضرورت
ہمارا لائحۂ عمل

مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ذہنی حالت

اس کے بعد جب ذہنی حیثیت سے ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کئی صدیوں سے ہمارے ہاں علمی تحقیقات کا کام قریب قریب بند تھا۔ ہمارا سارا پڑھنا پڑھانا بس علومِ اوائل تک محدود تھا۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں یہ تصور گہری جڑوں کے ساتھ جم گیا تھا کہ اسلاف جو کام کر گئے ہیں وہ علم وتحقیق کا حرفِ آخر ہے۔ اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ بڑی سے بڑی علمی خدمت بس یہی ہو سکتی تھی کہ اگلوں کی لکھی ہوئی کتابوں پر شرحوں اور حاشیوں کے ردّے چڑھائے جائیں۔ ان ہی چیزوں کے لکھنے میں ہمارے مصنفین، اور ان کے پڑھنے پڑھانے میں ہمارے مدرّسین مشغول رہے۔ کسی نئی فکر ، کسی نئی تحقیق، کسی نئی دریافت کا مشکل ہی سے قریب کی ان صدیوں میں ہمارے ہاں کہیں پتہ چلتا ہے؟ اس کی وجہ سے ایک مکمل جمود کی سی کیفیت ہماری ذہنی فضا پر طاری ہو چکی تھی۔
ظاہر ہے کہ جو قوم اس حالت میں مبتلا ہو چکی ہو وہ زیادہ دیر تک آزاد نہیں رہ سکتی تھی، اس کو لامحالہ کسی نہ کسی ایسی قوم سے مغلوب ہو ہی جانا تھا، جو حرکت کرنے والی اور آگے بڑھنے والی ہو، جس نے اپنے عام لوگوں میں بیداری پیدا کر لی ہو، جس کے افراد میں اپنے فرائض کا، جو کچھ بھی وہ اپنے فرائض سمجھتے ہوں احساس پایا جاتا ہو، جس کے کارکنوں اور کارفرمائوں میں کوئی مستقل اور مخلصانہ وفاداری موجود ہو، جس کے اہل علم تحقیقات کرنے والے اور نئی نئی طاقتیں دریافت کرنے والے ہوں، جس سے اہلِ تدبیران نئی دریافت شدہ طاقتوں کو زندگی کے کاموں میں استعمال کرنے والے ہوں اور جس کا قدم تمدن وتہذیب کے مختلف شعبوں میں ترقی کی طرف مسلسل بڑھا چلا جا رہا ہو، ایسی کسی قوم کی موجودگی میں ایک جامد اور ایک ضعیف الاخلاق اورایک جاہلیت زدہ قوم آخر کتنی دیر زمین پر قابض رہ سکتی تھی؟ پس یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہ تھا بلکہ قانونِ فطرت کا تقاضا تھا کہ ہم مغرب کی ترقی یافتہ قوموں میں سے ایک کے غلام ہو کر رہے۔

شیئر کریں