عقد ذمّہ مسلمانوں کی جانب ابدی لزوم رکھتا ہے، یعنی وہ اسے باندھنے کے بعد پھر اسے توڑ دینے کے مختار نہیں ہیں، لیکن دوسری جانب ذمّیوں کو اختیار ہے کہ جب تک چاہیں اس پر قائم رہیں اور جب چاہیں توڑ دیں۔ بدائع میں ہے:۔
واما صفۃ العقد فھو لازم فی حقنالایملک المسلمون نقضہ بحال من الاحوال واما فی حقھم فغیر لازم۔ (درالمختار جلد۳ ص۲۷۴۔۲۷۳)
’’عقد ذمہ ہمارے حق میں تو لازم ہے، یعنی ایک مرتبہ ذمّی بنا لینے کے بعد ہم اس ذمّہ کو کسی حال میں توڑ نہیں سکتے۔ لیکن ان کے لیے یہ لازم نہیں ہے (یعنی اگر وہ ہمارے ذمّہ سے خارج ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں)۔‘‘
ذمّی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے، اس کا ذمّہ نہیں ٹوٹتا۔ حتیٰ کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمانوں کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقصِ ذمّہ نہیں ہے۔ ان افعال پر اسے مجرم کی حیثیت سے سزا دی جائے گی، لیکن باغی قرار دے کر ذمّہ سے خارج نہیں کر دیا جائے گا۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں جن میں ایک ذمّی خارج از ذمّہ ہو جاتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ دارالاسلام کو چھوڑ کر دشمنوں سے جا ملے۔ دوسرے یہ کہ حکومتِ اسلامی کے خلاف صریح بغاوت کرکے فتنہ و فساد برپا کرے۔
(بدائع ج۷ ص۱۱۳۔ فتح القدیر ج۴ ص۸۲۔۳۸۱)