Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی ریاست میں ذمیّوں کے حقوق
غیر مسلم رعایا کی اقسام:
معاہدین:
مفتوحین:
ذمّیوں کے عام حقوق
حفاظت جان
فوجداری قانون:
دیوانی قانون:
تحفظ عزت:
ذمّہ کی پائیداری:
شخصی معاملات:
مذہبی مراسم:
عبادت گاہیں:
جزیہ و خراج کی تحصیل میں رعایات:
تجارتی ٹیکس
فوجی خدمت سے استثناء:
فقہائِ اسلام کی حمایت
زائد حقوق جو غیر مسلموں کو دیے جا سکتے ہیں
نمائندگی اور رائے دہی:
تہذیبی خود اختیاری:
آزادیٔ تحریر و تقریر وغیرہ
تعلیم:
ملازمتیں
معاشی کاروبار اور پیشے:
غیر مسلموں کے لیے تحفظ کی واحد صورت:
ضمیمۂ اوّل
ضمیمۂ دوم
حقوق شہریت

اسلامی ریاست میں ذِمّیوں کے حقوق

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ذمّہ کی پائیداری:

عقد ذمّہ مسلمانوں کی جانب ابدی لزوم رکھتا ہے، یعنی وہ اسے باندھنے کے بعد پھر اسے توڑ دینے کے مختار نہیں ہیں، لیکن دوسری جانب ذمّیوں کو اختیار ہے کہ جب تک چاہیں اس پر قائم رہیں اور جب چاہیں توڑ دیں۔ بدائع میں ہے:۔
واما صفۃ العقد فھو لازم فی حقنالایملک المسلمون نقضہ بحال من الاحوال واما فی حقھم فغیر لازم۔ (درالمختار جلد۳ ص۲۷۴۔۲۷۳)
’’عقد ذمہ ہمارے حق میں تو لازم ہے، یعنی ایک مرتبہ ذمّی بنا لینے کے بعد ہم اس ذمّہ کو کسی حال میں توڑ نہیں سکتے۔ لیکن ان کے لیے یہ لازم نہیں ہے (یعنی اگر وہ ہمارے ذمّہ سے خارج ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں)۔‘‘
ذمّی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے، اس کا ذمّہ نہیں ٹوٹتا۔ حتیٰ کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمانوں کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقصِ ذمّہ نہیں ہے۔ ان افعال پر اسے مجرم کی حیثیت سے سزا دی جائے گی، لیکن باغی قرار دے کر ذمّہ سے خارج نہیں کر دیا جائے گا۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں جن میں ایک ذمّی خارج از ذمّہ ہو جاتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ دارالاسلام کو چھوڑ کر دشمنوں سے جا ملے۔ دوسرے یہ کہ حکومتِ اسلامی کے خلاف صریح بغاوت کرکے فتنہ و فساد برپا کرے۔
(بدائع ج۷ ص۱۱۳۔ فتح القدیر ج۴ ص۸۲۔۳۸۱)

شیئر کریں