محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے دنیا میں مذہب کا عام تصور یہ تھا کہ: زندگی کے بہت سے شعبوں میں سے یہ بھی ایک شعبہ ہے‘ یا دوسرے الفاظ میں یہ انسان کی دنیوی زندگی کے ساتھ ایک ضمیمے کی حیثیت رکھتا ہے تاکہ بعد کی زندگی میں نجات کے لیے ایک سرٹیفکیٹ کے طور پر کام آئے۔ اس کا تعلق کلیتہً صرف اس رشتے سے ہے جو انسان اور اس کے معبود کے درمیان ہے۔ جس شخص کو نجات کے بلند مرتبے حاصل کرنے ہوں اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیوی زندگی کے تمام دوسرے شعبوں سے بے تعلق ہو کر صرف اسی ایک شعبے کا ہو جائے، مگر جس کو اتنے بڑے مراتب مطلوب نہ ہوں، بلکہ نجات مطلوب ہو‘ اور اس کے ساتھ یہ خواہش بھی ہو کہ معبود اُس پر نظر عنایت رکھے اور اس کو دنیوی معاملات میں برکت عطا کرتا رہے‘ اس کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ اپنی دنیوی زندگی کے ساتھ اس ضمیمے کو بھی لگائے رکھے۔ دنیا کے سارے کام اپنے ڈھنگ پر چلتے رہیں اور ان کے ساتھ چند مذہبی رسموں کو ادا کرکے معبود کو بھی خوش کیا جاتا رہے۔ انسان کا تعلق خود اپنے نفس سے‘ اپنے ابنائے نوع سے‘ اپنے گرد وپیش کی ساری دنیا سے ایک الگ چیز ہے‘ اور اس کا تعلق اپنے معبود سے ایک دوسری چیز‘ ان دونوں کے درمیان کوئی ربط نہیں۔
یہ جاہلیت کا تصور تھا اور اس کی بنیاد پر کسی انسانی تہذیب و تمدن کی عمارت قائم نہ ہوسکتی تھی۔ تہذیب و تمدن کے معنی انسان کی پوری زندگی کے ہیں‘ اور جو چیز انسان کی زندگی کا محض ایک ضمیمہ ہو‘ اس پر پوری زندگی کی عمارت‘ ظاہر ہے کہ کسی طرح قائم نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہر جگہ مذہب اور تہذیب و تمدن ہمیشہ ایک دوسرے سے الگ رہے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے پر تھوڑا یا بہت اثر ضرور ڈالا‘ مگر یہ اثر اس قسم کا تھا جو مختلف اور متضاد چیزوں کے یکجا ہونے سے مترتب ہوتا ہے۔ اس لیے یہ اثر کہیں بھی مفید نظر نہیں آتا۔ مذہب نے تہذیب و تمدن پر جب اثر ڈالا تو اس میں رہبانیت‘ مادی علائق سے نفرت‘ لذاتِ دنیوی سے کراہت‘ عالم اسباب سے بے تعلقی‘ انسانی تعلقات میں انفرادیت‘ تنافر اور تعصب کے عناصر داخل کر دیے۔ یہ اثر کسی معنی میں بھی ترقی پرور نہ تھا، بلکہ دنیوی ترقی کی راہ میں انسان کے لیے ایک سنگِ گراں تھا۔ دوسری طرف تہذیب و تمدن نے جس کی بنیاد سراسر مادیت اور خواہشاتِ نفس کے اتباع پر قائم تھی‘ مذہب پر جب کبھی اثر ڈالا اس کو گندہ کر دیا۔ اس نے مذہب میں نفس پرستی کی ساری نجاستیں داخل کر دیں‘ اور اس سے ہمیشہ یہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ ہر اس گندی اور بد سے بدتر چیز کو جسے نفس حاصل کرنا چاہے‘ مذہبی تقدس کا جامہ پہنا دیا جائے‘ تاکہ نہ خود اپنا ضمیر ملامت کرے‘ نہ کوئی دوسرا اس کے خلاف کچھ کہہ سکے۔ اسی چیز کا اثر ہے کہ بعض مذاہب کی عبادتوں تک میں ہم کو لذت پرستی اور بے حیائی کے ایسے طریقے ملتے ہیں جن کو مذہبی دائرے کے باہر خود ان مذاہب کے پیرو بھی بداخلاقی سے تعبیر کرنے پر مجبور ہیں۔
مذہب اور تہذیب کے اس تعامل سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو یہ حقیقت بالکل نمایاں نظر آتی ہے‘ کہ دنیا میں ہر جگہ تہذیب و تمدن کی عمارت غیر مذہبی اور غیر اخلاقی دیواروں پر قائم ہوئی ہے۔سچے مذہبی لوگ اپنی نجات کی فکر میں دنیا سے الگ رہے اور دنیا کے معاملات کو دنیا والوں نے اپنی خواہشاتِ نفس اور اپنے ناقص تجربات کی بنا پر‘ جن کو ہر زمانے میں کامل سمجھا گیا اور ہر زمانۂ مابعد میں ناقص ہی ثابت ہوئے‘ جس طرح چاہا چلایا اور اس کے ساتھ اگر ضرورت سمجھی تو اپنے معبود کو خوش کرنے کے لیے کچھ مذہبی رسمیں بھی ادا کرلیں۔ مذہب چونکہ ان کے لیے محض زندگی کا ایک ضمیمہ تھا، اس لیے اگر وہ ساتھ رہا بھی تو محض ایک ضمیمے ہی کی حیثیت سے رہا۔ ہر قسم کے سیاسی ظلم و ستم‘ ہر قسم کی معاشی بے انصافیوں‘ ہر قسم کی معاشرتی بے اعتدالیوں اور ہر قسم کی تمدنی کج راہیوں کے ساتھ یہ ضمیمہ منسلک ہوسکتا تھا۔ اس نے ٹھگی اور قزاقی کا بھی ساتھ دیا، جہاں سوزی اور غارت گری کا بھی‘ سود خوری اور قارونیت کا بھی‘ فحش کاری اور قحبہ گری کا بھی۔