ابتداء سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک انبیائے کرام کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان سب کی بعثت کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا:
رسلاً مبشرین و منذرین لئلا یکون الناس علی اللہ۔ حقہ بعد الرسل و کان اللہ عزیزاً حکیماً۔ (۴:۱۶۵)
’’یہ سارے رسولؐ خوشخبری دینے والے اورڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان کے مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی پر حجت تمام کرنے کے لیے اس سے عہد فطرت لینے اور نیک و بد کے امتیاز کی اہلیت انسان کو ودیعت کر دینے کے علاوہ یہ انتظام بھی فرمایا ہے کہ اپنے حضور جواب دہی کے لیے پیشی سے پہلے اپنے رسولوں کے ذریعے بھی اسے اصل حقیقت سے آگاہ اور اس کے خلاف رویہ اختیار کرنے کے برے نتائج سے متنبہ کر دیا جائے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی غلط راہ حیات اختیار کرتا ہے تو اس کی کوئی ذمہ داری خدا پر یا اس کے رسولوں پر عائد نہیں ہوتی‘ بلکہ یا تو خود اس شخص پر ہے کہ اس نے رسولوں کا پیغام اسے پہنچنے کے باوجود اس کو قبول نہیں کیا یا ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کو راہ راست معلوم تھی لیکن انہوں نے خدا کے بندوں کو ادھر ادھر بھٹکتے دیکھا لیکن انہیں آگاہ نہ کیا۔
برادران گرامی! داشمندی کی راہ یہ ہے کہ قبل اس کے کہ خدائے ذوالجلال کے روبرو پیشی اور جواب دہی کا وقت کسی لمحہ اچانک سامنے آجائے‘ اپنی کتاب زندگی اور کارنامہ حیات پر قرآن کی روشنی میں نظر ڈال کر دیکھ لینا چاہئے کہ جس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نازل اور اپنے آخری رسولؐ کو مبعوث فرمایا اور اپنے اس رسولؐ کے بعد اس نے جو کام ہم مسلمانوں کو ’’امت وسط‘‘ اور ’’خیر امت‘‘ بنا کر ہمارے سپرد کیا تھا‘ اس کو انجام دینے کی ہم نے کیا اور کہاں تک فکر کی ہے۔ قرآن و سنت سے یہ بات بہرحال روز روشن کی طرح واضح ہے کہ خدا اپنے بندوں سے صرف زبانی اقرار یا انفرادی تقویٰ و دینداری ہی کا مطالبہ نہیں کرتا‘ بلکہ جیسا کہ ابھی اوپر کے صفحات میں قرآن اور صاحب قرآن کے ارشادات کے ذریعے اختصار کے ساتھ واضح کیا گیا ہے‘ اپنی قوم‘ بلکہ جہاں تک پہنچنا ممکن ہو‘ تمام لوگوں کی اصلاح و ہدایت اب ہم پیروان خاتم النبیین کے ذمے ہے اور اگر ہم نے یہ کام نہ کیا یا اس میں کوتاہی برتی تو اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں غفلت برتنے کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔ اس کام کے بارے میں غفلت کے لیے بھی ہمیں خدا کے روبرو اسی طرح جواب دہی کرنی ہوگی ج طرح کہ نماز‘ روزے اور دوسرے فرائض میں کوتاہی کے لیے کرنی ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی اس دنیا کی زندگی کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کو پس پشت ڈال دیتی ہے‘ اس کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق طرز عمل اختیار نہیں کرتی اور ان کے حصول کے لیے مسلسل ایثار و قربانی اور جدوجہد کرنے کے لیے کمربستہ نہیں رہتی تو اس کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا اسی طرح سے یقینی ہے جس طرح سے کہ تیل ختم ہو جانے کے بعد چراغ کا گل ہو جانا یقینی ہوتا ہے۔