Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
ایک منکر حدیث کے اعتراضات اور ان کا جواب
مسئلہ اجتہاد کے بارے میں چند شبہات
اجتہاد اور اُس کے تقاضے
مسئلہ اجتہاد میں الفاظ اور رُوح کی حیثیت
قانون سازی، شوریٰ اور اجماع
نظامِ اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
سنت ِرسول بحیثیت ِماخذ قانون
اسلام میں ضرورت و مصلحت کا لحاظ اور اس کے اصول و قواعد
دین میں حکمت ِ عملی کا مقام
غیبت کی حقیقت اور اس کے احکام
غیبت کے مسئلے میں ایک دو ٹوک بات
غیبت کے مسئلے میں بحث کا ایک اور رُخ
دو اہم مبحث:
اسلام اور عدل اجتماعی
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
عائلی قوانین کے کمیشن کا سوالنامہ اور اُس کا جواب
اہلِ کتاب کے ذبیحہ کی حِلّت و حُرمت
انسان کے بنیادی حقوق
مسئلہ خلافت میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک حاکمیت
شہادتِ حسین ؑ کا حقیقی مقصد ۱؎
اقوامِ مغرب کا عبرت ناک انجام
دنیائے اِسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار

تفہیمات (حصہ سوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

دین میں حکمت ِ عملی کا مقام

یہ بحث دراصل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو مصنف اور بعض معترضین کے درمیان چلتی رہی ہے۔ چنانچہ ایک صاحب مصنف کو ایک خط میں لکھتے ہیں:-
’’دین میں حکمت ِ عملی کے مقام‘‘ سے متعلق ایک لمبا چوڑا مضمون رسالہ ’’الفرقان‘‘ لکھنو میں نکل رہا ہے جس کی آخری قسط تازہ الفرقان میں آ چکی ہے۔ پتہ نہیں مضمون مذکور آپ کی نظر سے گزر رہا ہے یا نہیں لیکن میں اس سے متعلقہ دو ایک باتوں پر آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
گو کہ مضمون مذکور سے مجھے اکثر جگہ اختلاف رہا ہے لیکن ’’ائمتہ من قریش‘‘ اور مئی کے ترجمان میں ’’کیا دین کے سب ہی اصول بے لچک ہیں‘‘ والے مضمون کے تحت دی گئی ہوئی نو مثالوں پر تنقید جان دار معلوم ہوئی۔ فاضل مضمون نگار نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپ کی دی ہوئی مثالیں محض شخصی اجازتیں، وقتی رخصتیں اور اضطراری دقتوں کے تحت آتی ہیں اور ان کا مساعی اقامت ِدین سے کوئی علاقہ نہیں۔
مضمون کی ایک اور بات سے مجھے اتفاق ہے وہ یہ کہ گو آپ نے حکمت ِ عملی والی بات چند جزئی امور جیسے ’’امیدواری سسٹم‘‘ اور دیگر جماعتوں سے تعاون وغیرہ کے سلسلے میں کہی ہے لیکن آپ نے جس انداز سے ان پر اسوۂ رسول سے دلائل دیئے ہیں (جو صاحب مضمون کے نزدیک تمام کی تمام غیر متعلق ہیں) ان سے غیر سنجیدہ، مفاد پرست طبقے کے لیے دین میں کتربیونت کا موقع ہاتھ آ جاتا ہے اور یہ بہت سے فتنوں کا دروازہ کھول دے گا۔ اپنے اس شبے کے ثبوت میں مضمون نگار نے رسالہ کے اسی شمارے میں ’’المنیر‘‘ کے حوالے سے ’’ووٹوں کی خریدی‘‘ سے متعلق ایک عملی مثال بھی دی ہے جس میں کہ ایک صاحب نے ’’المنیر‘‘ کے ایڈیٹر صاحب کو لکھا تھا کہ حضور ’’تالیف القلب‘‘ کے سلسلے میں جب لوگوں کے ایمان خریدتے تھے تو اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں ووٹوں کی خریداری برحق ہے اور یہ کہ ان صاحب کو ایک خزانہ ہاتھ آ جائے تو تمام لوگوں کے ووٹ خرید کر اسلامی نظام کے قیام کی کوشش فرمائیں۔ … فاضل مضمون نگار کا کہنا ہے کہ آپ کے حکمت ِ عملی والے مضمون سے متاثر ہو کر لوگ اتنی پستی تک بھی گر سکتے ہیں تو … آیندہ ایسے فلسفے کی مختلف طریقے سے توجیہ کرکے دین کی کئی اہم قدروں کو منہدم کر سکتے ہیں۔
آپ یہ کہتے ہیں کہ اقامت دین کی جدوجہد میں توحید، رسالت اور دیگر اہم اصولوں کے استثنا سے دوسرے نسبتاً کم اہم اصولوں کو موقع کی نزاکت کے لحاظ سے قطع نظر کیا جا سکتا ہے جب کہ ان پر اصرار کرنے سے دیگر اہم اصولوں کو نقصان پہنچ رہا ہو … جماعت کے معترض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر دین کا قیام ہو گا تو اپنے پورے اصول برقرار رکھتے ہوئے ہو گا ورنہ ایسی کسی جدوجہد میں کسی بھی اصول کو قربان کیا گیا تو وہ اقامت دین کی جدوجہد نہیں ہے اور اگر یہ جدوجہد کامیاب ہو بھی گئی تو اسلامی نظام کے بجائے کسی کے خود ساختہ نظام کا قیام عمل میں آئے گا …… اور اگر حالات کا دبائو ایسا ہو بھی تو دعوتِ دین کے شیدائیوں کو چاہیے کہ دین کو اپنے تمام اصولوں کے ساتھ قائم کرنے پر مصر رہیں یا دعوتِ دین سے دستبردار ہوں۔ غرضیکہ صاحب مقالہ کا استدلال یہ ہے کہ احکامِ دین میں استثنا کی گنجائش شخصی اضطرار اور ذاتی مصالح کے لیے تو ہو سکتی ہے لیکن دینی مقاصد اور دینی مصالح کی خاطر اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
چونکہ مسئلے کا تعلق ’’دعوتِ دین اور اس کے طریقہ کار‘‘ کے بنیادی امور سے ہے۔ اس لیے بہت سے حضرات جو جماعت کے بے جا حامی ہیں نہ اس کے غالی مخالف، اس کو فی الواقع سمجھنا چاہتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کے دسمبر اور مئی والے ترجمان کے رسائل و مسائل کے تحت دیئے ہوئے جوابات پوری طرح تشفّی بخش نہیں ہیں۔ اس لیے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک مفصل مضمون جو قرآن، حدیث اور اسوۂ صحابہ کی مثالوں سے جو صرف اقامت دین کی جدوجہد سے علاقہ رکھتی ہوں منشرح ہو، ترجمان القرآن میں رقم کیا جائے تو جہاں یہ بہت سی غلط فہمیوں کے ازالے کا باعث ہو گا وہاں بہت سے تعلق خاطر رکھنے والے حضرات کے اضطراب کے لیے تشفی بخش ہو گا۔ جماعتی لحاظ سے ہٹ کر بھی اس کی خالص علمی لحاظ سے بھی بڑی اہمیّت ہے۔
’’الفرقان‘‘ کی جس بحث کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کے موقع و محل اور انداز سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اصل بنائے بحث بجائے خود یہ مسائل نہیں ہیں بلکہ دل کا ایک پرانا بخار ہے جو مدتوں سے موقع کی تلاش میں دبا پڑا تھا اور اب اس کو نکالنے کے لیے کچھ مسائل بطور حیلہ ڈھونڈ لیے گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ ارادہ کرکے بیٹھ جائے کہ کسی کو متہّم کرنا ہے تو دنیا میں کوئی نہیں ہے جو ایسے شخص کی مار سے بچ جائے۔ آپ جس بڑے سے بڑے قدیم یا جدید مصنف کا نام چاہیں لے لیں، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ متہّم کرنے کا ارادہ کر لینے کے بعد اس کے ہاں سے کیسے کیسے سخت الزامات کی بنیادیں برآمد کی جا سکتی ہیں۔ دوسروں کو چھوڑیئے، اگر خدا کا خوف اور ایک ایک لفظ پر اس کے حضور باز پرس کا خطرہ نہ ہوتا تو میں بطور نمونہ بتاتا کہ خود ان حضرات کو ضا ّل اور مضلّ ثابت کر دینا، بلکہ انہیں دین اور ملت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ٹھہرا دینا کتنا آسان ہے اور آدمی تقویٰ و خشیت کا لباسِ زُور پہن کر کیسی کچھ باتیں خود ان لوگوں کے خلاف بنا سکتا ہے۔
میرا قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کی تنقید میں مجھے اس طرح کے محرکات محسوس ہوتے ہیں تو میں اس کا جواب دینے سے پرہیز کرتا ہوں کیونکہ وہ تو اپنے مقصد کی خاطر ہر وادی میں بھٹکتا پھرے گا، میں اپنا مقصد چھوڑ کر اس کے پیچھے کہاں کہاں بھٹک سکتا ہوں اور آخر اس طرح کے لوگوں سے الجھ کر میں پھر اور کسی کام کے لیے وقت بھی کہاں سے لا سکتا ہوں۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ بعض حضرات پندرہ پندرہ سولہ سولہ برس سے مسلسل مجھ پر حملے کر رہے ہیں اور ابھی چند سال سے تو کچھ لوگوں نے میرے خلاف الزام تراشیاں کرنا اپنا مستقل مشغلہ ہی بنا رکھا ہے۔ مگر میں نے کبھی ان کی کسی بات کا جواب نہ دیا، یا حد سے حد اگر کبھی ضرورت سمجھی تو اپنی پوزیشن کی وضاحت کر دی اور اس کے بعد انھیں چھو ڑدیا کہ جب تک چاہیں اپنا نامہ اعمال سیاہ کرتے رہیں۔
آپ ’’الفرقان‘‘ اور ’’المنیر‘‘ کے مضامین سے اگر دھوکا کھاتے رہیں گے تو میرے لیے یہ سخت مشکل ہو گا کہ وہ آئے دن آپ کے دل میں ایک نیا وسوسہ ڈالیں اور میں اپنے سارے کام چھوڑ چھاڑ کر آپ کے وسوسے دور کرنے میں لگا رہوں۔ بہتر یہ ہے کہ آپ صبر کے ساتھ دونوں طرف کی چیزیں پڑھتے رہیں۔ اگر آپ کی سمجھ میں حقیقت حال آ جائے تو اچھا ہے، ورنہ جہاں اور بہت سے لوگ ان وسوسہ اندازیوں کے شکار ہوئے ہیں وہاں ایک آپ بھی سہی۔
تاہم چونکہ آپ نے پہلی مرتبہ مجھ کو ان کے ڈالے ہوئے وساوس کے بارے میں لکھا ہے اس لیے میں صرف ایک دو باتوں کی وضاحت کیے دیتا ہوں تاکہ بات سمجھنے میں آپ کو مدد مل سکے۔
(۱) اختیارِ اَھْوَن کے اصول کی وضاحت میں جو مثالیں میں نے دی ہیں ان کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ ان سے صرف شخصی مشکلات اور بندوں کو پیش آنے والی حاجات ہی میں اضطرار کے موقع پر رخصت کا ثبوت ملتا ہے۔ رہا اقامت دین کا کام تو اس میں اس قاعدے کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب ذرا آپ خود سوچیں کہ اگر بات یہی ہے تو رواۃِ حدیث کی جرح و تعدیل کے سلسلے میں محدّثین نے بے شمار زندہ اور مردہ راویوں کی جو غیبت کر ڈالی، اس کا باعث آخر کون سا شخصی اضطرار تھا؟ دوسری مثالوں کو تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیجیے۔ صرف یہی ایک مثال اس امر کے ثبوت میں کافی ہے کہ بڑے مفسدے سے بچنے کے لیے چھوٹے مگر ناگزیر مفسدے کو اختیار کر لینا، اور بڑی بھلائی کی خاطر چھوٹی بھلائی کا نقصان بقدرِ ضرورت گوارا کر جانا، صرف شخصی حاجات ہی کے لیے جائز نہیں بلکہ خالص دینی مصالح کے لیے بھی جائز ہے اور اس قاعدے کے معاملے میں بندوں کی ضروریات اور سعی اقامت ِدین کی ضروریات کے درمیان جو فرق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ محدّثین نے ہزار ہا راویوں کے عیوب کی پردہ کشائی اپنے ’’پیشے‘‘ کی ضروریات، یا اپنی تصنیف و تالیف کے مقاصد کی خاطر تو نہیں کی تھی۔ یہ صریح حرام، بلکہ قرآن کی تعبیر کے مطابق نہایت گھنائونا کام انھوں نے صرف اس دلیل کی بنا پر کیا تھا کہ اگر اس برائی کا ارتکاب نہ کیا جائے گا تو اس سے بہت زیادہ بڑی برائی یہ لازم آئے گی کہ دین میں بہت سی وہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے داخل ہو جائیں گی جو حضورؐ نے نہیں فرمائیں اور اس طرح دین کا حلیہ بگڑ کر رہ جائے گا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ خالصتاً اقامت دین کے سلسلے کا ایک نہایت اہم اور نمایاں کام نہ تھا۔ اس میں تو شخصی مصالح و حاجات کے کسی شائبے تک کی نشان دہی نہیں کی جا سکتی۔ اور یہ وہ کام ہے جسے ایک قابلِ معافی جرم نہیں بلکہ کارِ ثواب سمجھ کر امت کے اگلے پچھلے تمام فقہا اور محدّثین نے بالا تفاق کیا اور تمام امت نے بالا جماع اسے کارِ ثواب مانا، حالانکہ فی الاصل اس کے غیبت ہونے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
(۲) دین کے کسی قاعدے کو بیان کرنے میں یہ احتمال کہ اس سے مفاد پرست لوگوں کو ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع مل جائے گا، بظاہر بڑا اہم محسوس ہوتا ہے لیکن غور کیجیے، کیا اس اندیشے سے اللہ اور اس کے رسولؐ نے اور امت کے اہلِ علم نے کسی ضروری چیز کو بیان کرنے سے اجتناب کیا ہے؟ قرآن، حدیث اور فقہ کے صفحات میں بکثرت باتیں ایسی موجود ہیں جن سے اگر کوئی جاہل اور بد نیت آدمی ناجائز فائدہ اٹھانے پر اتر آئے تو فسق و فجور اور گمراہی کی آخری حدوں کو بھی پار کر جائے۔ لیکن ان اندیشوں سے نہ خدا نے ، نہ اس کے رسولؐ نے اور نہ علمائے امت نے کوئی ایسی بات کہنے سے پرہیز کیا جو اپنے صحیح محل میں درست ہو اور جس کا بیان کرنا دین کی پیروی کرنے والے نیک نیت لوگوں کی رہنمائی کے لیے ضروری ہو۔ اب اگر وہ باتیں جو میں نے زیر بحث مضامین میں کہی ہیں، بجائے خود درست ہیں اور ایک ایسے قاعدے کی نشان دہی کرتی ہیں جو واقعی دین میں موجود ہے، تو آپ خود سوچ لیں کہ ان لوگوں کی باتیں کیا وزن رکھتی ہیں اور مجھے ان کو کیا وزن دینا چاہیے جو ان پر مجھے متہم کرنے کے لیے یہ احتمال پیدا کرتے ہیں کہ ان امور کے بیان کرنے سے فتنوں کا دروازہ کھلے گا، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ میں خود فتنے میں پڑنے اور دین کے نام سے بے دینی کی خدمت کرنے کے لیے یہ دروازے کھول رہا ہوں۔ اس کا جواب تو یہی ہو سکتا ہے کہ آدمی صبر کے ساتھ اپنا کام کیے جائے اور ان لوگوں کو جو کچھ بھی یہ کہنا چاہیں کہنے دے۔
(۳) ’’ووٹوں کی خریداری‘‘ کے موضوع پر جو کچھ ’’المنیر‘‘ نے لکھا اور ’’الفرقان‘‘ نے اس کے صفحات سے نقل کیا، اس سے مقصود اس امر کا ثبوت بہم پہنچانا ہے کہ جس فتنے کے دروازے کھلنے کا وہ احتمال ظا ہر کرتے تھے وہ تو پہلے ہی کھل چکا ہے اور میرے ہی کھولے کھلا ہے۔ یہ کرتب جو کمال درجہ تقویٰ کے ساتھ دکھائے جا رہے ہیں میں صبر کے ساتھ ان پر خاموش ہی رہنا مناسب سمجھتا تھا، کیونکہ یہ الزام تراشیاں اور دوسرے کو متہم کرنے کے لیے یہ سرگرمیاں اور بے تابیاں اپنے اندر جو روح رکھتی ہیں میں ہر وقت اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں کہ ان کی مدافعت کی کوشش کہیں مجھے بھی اس کی چھوت نہ لگا دے۔ لیکن افسوس ہے کہ آپ جیسے سادہ دل حضرات آدمی کو صبر سے خاموش بھی نہیں بیٹھنے دیتے اور ان باتوں پر جواب طلبی شروع کر دیتے ہیں۔ اب دیکھیے کہ معاملے کی اصل حقیقت کیا ہے اور پھر خود مجھے بتایئے کہ ان چیزوں کی آخر کیا جواب دہی کی جا سکتی ہے۔
پہلے ’’المنیر‘‘ نے مجھ پر یہ سراسر جھوٹا الزام لگایا کہ میں روپے کے ذریعے سے ووٹ خریدنے کو جائز رکھتا ہوں اور اسے ’’مولفۃ القلوب‘‘ کی مد میں شمار کرتا ہوں (حالانکہ اس بیان میں صداقت کا شائبہ تک نہ تھا، یہ بات میری زبان پر آنا تو درکنار کبھی میرے حاشیہ خیال میں بھی نہ آئی تھی، اور اس چیز کو ’’المنیر‘‘ کے صفحات میں دیکھنے سے ایک سیکنڈ پہلے تک بھی میں نہ سوچ سکتا تھا کہ مجھ پر یہ الزام بھی کبھی لگایا جا سکتا ہے) پھر اسی المنیر نے کسی دوسرے صاحب کا ایک خط شائع کر دیا جس میں وہ اپنی دانست کے مطابق ووٹوں کی اس خریداری کے حق میں کچھ دلائل پیش کرتے ہیں (اور یہ بالکل ان کا اپنا ہی فعل ہے، مجھ سے اس معاملے میں نہ ان کا نہ کسی اور شخص کا، سرے سے کبھی کوئی تبادلہ خیال ہوا ہی نہیں اور ان کے استدلال یا خیالات کا مجھ سے قطعاً کوئی واسطہ نہیں ہے) اس کے بعد جنابِ ’’الفرقان‘‘ اس سارے معاملے کو میرے سر تھوپ کر لوگوں کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ دیکھو، یوں اس شخص کے خیالات سے متاثر ہونے والے لوگ اخلاقی قیود کو بالائے طاق رکھے دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میں نے کب یہ کہا یا لکھا تھا کہ روپے سے ووٹ خریدنا جائز ہے؟ یہ ایک خالص بہتان تھا جو صاحب ’’المنیر‘‘ نے محض اپنے جذبۂ انتقام کی تسکین کے لیے خود ہی گھڑا اور شائع کر دیا۔ اب اگر ایک بالکل غیر متعلق شخص اس جھوٹی روایت پر اپنے کچھ خیالات پیش کرتا ہے تو کیا میں اس کی بھی جوا بدہی کرتا پھروں؟ صرف یہ بات کہ وہ شخص اپنے خیالات پیش کرنے کے ساتھ میری تعریف میں بھی کچھ کلمات لکھ دیتا ہے، کیا اس کے لیے کافی ہے کہ مجھے اس کی ہر بات کا ذمہ دار ٹھہرا دیا جائے؟ یہ طرزِ مواخذہ اختیار کیا جائے تو اگلے پچھلے علما و مشائخ اور بزرگان دین میں سے کون بچ جائے گا جس کے معتقدین و مدّاحین کی ہر غلطی اس کے سر چپیک کر اسے سرچشمۂ ضلالت ثابت نہ کیا جا سکے۔ شاید بگڑی ہوئی حکومتوں کے پراسیکیوٹنگ انسپکٹر بھی لوگوں کو ماخوذ کرنے میں یہ سرگرمی اور چابک دستی نہ دکھاتے ہوں گے۔
(۴) اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ کے متعلق جو مفصلّ بحث میں نے ’’رسائل و مسائل‘‘ حصّہ اوّل میں کی ہے اگر اسے آپ نے پڑھ لیا ہوتا تو شاید آپ ’’الفرقان‘‘ کی تنقید میں وہ وزن محسوس نہ کرتے جس کا اظہار آپ نے کیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر احادیث میں کوئی چیز تو ایسی تھی جس کی بنا پر صدر اوّل سے لے کر شاہ ولی اللہؒ کے دور تک بالعموم فقہائے اسلام خلافت کے لیے قرشیت کو قانونی شرط کے طور پر بیان کرتے رہے۔ اگر حضور کے ارشادات سے یہ منشا سرے سے ظاہر ہی نہ ہو رہا ہوتا کہ آپ کے بعد خلافت قریش کے لوگوں کو دی جائے تو کیا فقہا اتنے نادان تھے کہ محض پیشین گوئیوں کو بالا تفاق حکم سمجھ بیٹھتے اور موجودہ دور کے بعض حضرات سے پہلے کسی کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی کہ یہ تو محض خبریں ہیں۔ ان کا منشا یہ ہے ہی نہیں کہ خلیفہ قریش میں سے ہو۔
الائمۃ من قریش حکم ہے یا خبر، اس کے متعلق شاہ ولی اللہؒ کی رائے ملاحظہ ہو۔
’’دازانجملہ (یعنی من جملہ شرائط ِخلافت) آنست کہ قریشی باشد باعتبارِ نسبِ آباء خود، زیرا کہ حضرت ابوبکر صدیق صرف کردند انصار را از خلافت بایں حدیث کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ انداَلْاَئِمَّۃَ مِنْ قُرَیْشٍ‘‘۔ (ازالۃ الخفاء، مقصد اوّل، صفحہ ۵)
اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ شاہ صاحب اس حدیث کے معنی ائمہ قریش میں سے ہوں گے سمجھ رہے ہیں یا قریش میں سے ہوں؟ اگر بالفرض اسے اور اس معنی کی دوسری احادیث کو لفظاً خبر بھی قرار دیا جائے تو فقہا و محدّثین نے عام طو رپر اس خبر کو امر ہی کے معنی میں لیا ہے۔ بخاری کی حدیث لَا یَزَالُ ہٰذَا الْاَمْرُ فِیْ قُرَیْشٍ کے متعلق علاّمہ قُرطبی کہتے ہیں کہ یہ حدیث مشروعیت کی خبر دیتی ہے، یعنی امامت کبریٰ منعقد نہ ہو گی مگر قرشی کے لئے۔ ابن المنیر کہتے ہیں کہ اس کا مقتضیٰ جنسِ امر کا قریش میں محصور ہونا ہے، گویا حضورؐ نے دراصل یہ فرمایا کہ لا امر الا فی قریش اور یہ ایسا ہی ہے جیسے حضورؐ کا یہ ارشاد کہ اَلشُّفْعَۃُ فِیْ مَالَمْ یُقَسَّم اور علاّمہ ابن حجر فرماتے ہیں یہ حدیث اگرچہ خبر کے الفاظ میں ہے مگر امر کے معنی میں ہے، گویا حضورؐ کا ارشاد یہ تھا کہ خاص طور پر قریش ہی کو امام بنائو۔ حدیث کے باقی طُرُق اسی معنی کی تائیدکرتے ہیں ، اور صحابہ نے بالا تفاق اس کو حصر ہی کے مفہوم میں لیا بخلاف ان لوگوں کے جو اس معنی کا انکار کرتے ہیں، اور اسی بات کی طرف جمہور اہلِ علم گئے ہیں کہ امام کے لیے قرشی ہونا شرط ہے۔ (فتح الباری جلد ۱۳- صفحہ ۹۶-۹۷)
علاوہ بریں علما کی اس رائے کا انحصار محض ان احادیث پر ہی نہ تھا جو خبر کے الفاظ و انداز میں ہیں یا جن کے اندر محض خبر ہونے کا احتمال ہے۔ بلکہ متعدد احادیث امر کے الفاظ میں بھی مروی ہیں مثلاً قَدِّمُوْا قُرَیْشًا وَّلاَ تُقْدِّمُوْہَا (قریش کو آگے کرو اور ان سے آگے نہ بڑھو) جسے بیہقی، طبرانی اور امام شافعی نے نقل کیا ہے، اور قُرَیْشٌ قَادَۃُ النَّاسِ (قریش لوگوں کے لیڈر ہیں) جسے امام احمد نے حضرت عمرو بن عاص سے روایت کیا ہے۔
دراصل اس مسئلے کے متعلق مختلف الفاظ میں کثرت سے جو ارشادات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوئے ہیں ان کا مجموعی اثر یہ تھا کہ علمائے اسلام صدیوں تک بالا تفاق خلافت کے لیے قرشیت کو ایک قانونی شرط کی حیثیت سے بیان کرتے رہے ہیں اور خوارج و معتزلہ کے سوا کسی نے اس معاملے میں اختلاف نہیں کیا ہے۔ قاضی عیاض تو اس معاملے میں اجماع تک کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
امام کے لیے قرشیت کا شرط ہونا تمام علما کا مذہب ہے اور انھوں نے اسے اجماعی مسائل میں شمار کیا ہے۔ سلف میں سے کسی سے اس کے خلاف کوئی رائے منقول نہیں ہوئی ہے اور اسی طرح بعد کے ادوار میں بھی امصار مسلمین میں سے کہیں کے علما نے اس سے اختلاف نہیں کیا ہے۔ (فتح الباری، حوالہ مذکور)
اب اس کا کیا علاج کیا جائے کہ بات اطفالِ مکتب تک پہنچ چکی ہے جو بے تکلف دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تو محض خبر تھی جس میں امر کا شائبہ تک نہ تھا۔ گویا پچھلی صدیوں میں جہالت اتنی عام تھی کہ خبر اور امر کا فرق بھی کسی کی سمجھ میں نہ آیا اور اس کے امر ہونے پر سب اتفاق کر بیٹھے اور صدیوں تک اتفاق کیے رہے! ان جسارتوں پر حال یہ ہے کہ یہی لوگ دوسروں پر الزام دھرتے ہیں کہ ان کی تحریروں سے سلف کا اعتماد و احترام ختم ہوا جا رہا ہے اور عوام اس غلط فہمی میں پڑ رہے ہیں کہ دین ان سے پہلے کسی نے نہ سمجھا۔
میری رائے اس مسئلے میں اب بھی وہی ہے جس کی وضاحت میں اس سے پہلے ’’رسائل و مسائل‘‘ میں کر چکا ہوں، اور اب تک کوئی ایسی عملی بحث میرے سامنے نہیں آئی ہے جس سے مجھ کو اس پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہو۔ میرے نزدیک یہ ثابت ہے کہ حضورؐ نے قریش ہی کو منصب خلافت دیئے جانے کی ہدایت فرمائی تھی۔ یقیناً یہ آپ کا حکم تھا۔ محض پیش گوئی نہ تھی۔ مگر اس حکم کی بنیاد یہ نہ تھی کہ شرعاً خلافت ایک خاص قبیلے کا حق تھی جس کے سوا کسی دوسرے قبیلے یا نسل کا کوئی شخص اس منصب کا سرے سے مستحق ہی نہ ہو سکتا تھا، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ عملی سیاست کے نقطۂ نظر سے حضورؐ کے بعد صرف قریش ہی کی خلافت کامیاب ہو سکتی تھی جس کے وجوہ حضورؐ نے خود اپنے متعدد ارشادات میں واضح فرما دیئے تھے۔ اس لیے آپ نے حکم دیا کہ خلافت قریش ہی میں رکھی جائے، تاکہ اسلامی نظامِ حکومت مشکلات میں مبتلا نہ ہو اور مسلمان محض اسلامی اصولِ مساوات کا مظاہرہ کرنے کے لیے کسی غیر قرشی کو خلیفہ بنا کر ان نتائج سے دوچار نہ ہو جائیں جو ایک بااثر گروہ کے مقابلے میں کسی بے اثر یا کم اثر گروہ کے آدمی کو خلیفہ بنا دینے سے پیش آ سکتے تھے۔
فقہائے اسلام نے اگر حضورؐ کے اس حکم کو مستقل دستوری قانون کے معنی میں لیا تو یہ بھی بے وجہ نہ تھا۔ حضورؐ کے بعد صدیوں تک قریش کی وہی پوزیشن برقرار رہی جس کی بنا پر آپ نے ابتدائً یہ حکم دیا تھا۔ اس لیے قرناً بعد قرنٍ فقہا اس بات کو کہ ’’خلیفہ قرشی ہونا چاہیے‘‘ ایک دستوری قاعدے کے طور پر بیان کرتے چلے گئے۔ لیکن حضورؐ کے وہ ارشادات اس زمانے میں بھی کسی سے پوشیدہ نہ تھے جن سے یہ ایما نکلتا تھا کہ یہ حکم قریش کے ایک خاص نسل سے ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ چند اوصاف کی بنا پر ہے جو ان میں پائے جاتے تھے اور اس وقت تک کے لیے ہے جب تک ان میں اس منصب کی اہلیت باقی رہے مثلاً آپ کا یہ ارشاد کہ مَااَقَامُوالدِّیْنَ (جب تک وہ دین قائم کرتے رہیں) اور مَا اِذَا حَکَمُوْا فَعَدَلُوْا وَوَعَدُوْا فَوَفَّوْ اوَاسْتَرْحَمُوْا (جب تک وہ اپنے فیصلوں میں عدل کرتے رہیں اور اپنے وعدے وفا کرتے رہیں اور خلقِ خدا پر رحم کرتے رہیں) یہ ارشادات خود ظاہر کر رہے تھے کہ خلیفہ کے لیے قرشی ہونے کی شرط ایک دائمی دستوری قاعدہ نہیں ہے۔ اسی بات کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سقیفۂ بنی ساعدہ میں واضح فرمایا تھا کہ اِنَّ ہٰذَا الْاَمْرَ فِیْ قُرَیْشٍ مَآ اَطَاعُوا اللّٰہَ وَاسْتَقَامُوْا عَلٰی اَمْرِہ (یہ حکومت قریش ہی میں رہے گی جب تک وہ اللہ کی اطاعت کرتے رہیں اور اس کے حکم پر ٹھیک ٹھیک چلتے رہیں) مزید برآں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اس قول سے کہ اگر میری موت کے وقت ابوعبیدہ زندہ نہ ہوں تو میں معاذ بن جبل کو خلیفہ بنائوں گا۔ یہ بات کھول دی تھی کہ خلافت محض نسل و نسب کی بنا پر قریش کا کوئی مستقل قانونی حق نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن۔ دسمبر ۱۹۵۸ئ)
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں