Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

دین اور شریعت

برادرانِ اسلام! مذہب کی باتوں میں آپ اکثر دو لفظ سنا کرتے ہیں اور بولتے بھی ہیں۔ ایک ’دین‘ دوسرے ’شریعت‘۔ لیکن آپ میں سے بہت کم آدمی ہیں جن کو یہ معلوم ہو گا کہ دین کے کیا معنی ہیں اور شریعت کا کیا مطلب ہے؟ بے پڑھے لکھے تو خیر مجبور ہیں، اچھے خاصے تعلیم یافتہ آدمی بلکہ بہت سے مولوی بھی یہ نہیں جانتے کہ ان دونوں لفظوں کا ٹھیک ٹھیک مطلب کیا ہے اور ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ اس ناواقفیت کی وجہ سے اکثر دین کو شریعت سے اور شریعت کو دین سے گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے اور اس سے بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ آج میں بہت سادہ الفاظ میں آپ کو ان کا مطلب سمجھاتا ہوں۔
دین کے معانی
دین کے کئی معنی ہیں:
٭ ایک معنی: عزت، حکومت، سلطنت، بادشاہی اور فرماں روائی کے ہیں۔
٭ دوسرے معنی اس کے بالکل برعکس ہیں، یعنی: زیردستی، اطاعت، غلامی، تابع داری اور بندگی۔
٭ تیسرے معنی: حساب کرنے اور فیصلہ کرنے اور اعمال کی جزا وسزا کے ہیں۔
قرآن شریف میں لفظ دین انھی تین معنوں میں آیا ہے۔ فرمایا:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (آل عمران 3:19)
یعنی خدا کے نزدیک دین وہی ہے جس میں انسان صرف اللہ کو عزت والا مانے، اور اس کے سوا کسی کے آگے اپنے آپ کو ذلیل نہ کرے، صرف اللہ کو آقا اور مالک اور سلطان سمجھے اور اس کے سوا کسی کا غلام، فرماں بردار اور تابع دار بن کر نہ رہے۔ صرف اللہ کو حساب کرنے اور جزا وسزا دینے والا سمجھے اور اس کے سوا کسی کے حساب سے نہ ڈرے، کسی کی جزا کا لالچ نہ کرے اور کسی کی سزا کا خوف نہ کھائے۔ اسی دین کا نام ’اسلام‘ ہے۔ اگر اس کو چھوڑ کرآدمی نے کسی اور کو اصلی عزت والا، اصلی حاکم، اصلی بادشاہ اور مالک، اصل جزا وسزا دینے والا سمجھا اور اس کے سامنے ذلت سے سرجھکایا، اس کی بندگی اور غلامی کی، اس کا حکم مانا اور اس کی جزاکا لالچ اورسزا کا خوف کھایا تو یہ جھوٹا دین ہو گا۔ اللہ ایسے دین کو ہرگز قبول نہیں کرتا، کیوں کہ یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ خدا کے سوا کوئی دوسری ہستی اس تمام کائنات میں اصلی عزت والی نہیں ہے، نہ کسی اور کی سلطنت اور پادشاہی ہے، نہ کسی اور کی غلامی اور بندگی کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے، نہ اس مالکِ حقیقی کے سوا کوئی اور جزا وسزا دینے والا ہے۔ یہی بات دوسری آیتوں میں اس طرح بیان فرمائی گئی:
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ (آل عمران 3:85)
یعنی جو شخص خدا کی سلطانی اور بادشاہی کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا مالک اور حاکم مانے گا اور اس کی بندگی اور غلامی اختیار کرے گا، اور اس کو جزا وسزا دینے والا سمجھے گا، اس کے دین کو خدا ہرگز قبول کرنے والا نہیں ہے۔ اس لیے کہ:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ (البیّنۃ 98:5)
انسانوں کو تو خدا نے اپنا بندہ بنایا ہے اور اپنے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کا انھیں حکم ہی نہیں دیا ہے۔ ان کا تو فرض یہ ہے کہ سب طرف سے منہ موڑ کر صرف اللہ کے لیے اپنے دین، یعنی اپنی اطاعت اور غلامی کو مخصوص کر دیں، اوریکسو ہو کر صرف اسی کی بندگی کریں اور صرف اسی کے حساب سے ڈریں۔
اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللہِ يَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَo (آل عمران 3:83)
کیا انسان خدا کے سوا کسی اور کی غلامی اور فرماں برداری کرناچاہتا ہے، حالانکہ زمین اور آسمان کی ساری چیزیں صرف خدا کی غلام اور فرماں بردار ہیں، اور ان ساری چیزوں کو اپنے حساب کتاب کے لیے خدا کے سوا کسی اور کی طرف نہیں جانا ہے۔ کیا انسان زمین اور آسمان کی ساری کائنات کے خلاف ایک نرالا راستہ اپنے لیے نکالنا چاہتا ہے؟
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o (التوبہ 9:33)
اللہ نے اپنے رسولؐ کو سچے دین کا علم دے کر اسی لیے بھیجا ہے کہ وہ سارے جھوٹے خدائوں کی خدائی ختم کر دے اور انسان کو ایسا آزاد کر دے کہ وہ خداوندِ عالم کے سوا کسی کا بندہ بن کر نہ رہے۔ چاہے کفار ومشرکین اس پراپنی جہالت سے کتنا ہی واویلا مچائیں اور کتنی ہی ناک بھوں چڑھائیں۔
وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (الانفال 8:39)
اور تم جنگ کرو تاکہ دنیا سے غیر اللہ کی فرماں روائی کا فتنہ مٹ جائے، اور دنیا میں بس خدا ہی کا قانون چلے، خدا ہی کی بادشاہی تسلیم کی جائے اور انسان صرف خدا کی بندگی کرے۔
اس تشریح سے آپ کو معلوم ہو گیا کہ دین کے کیا معنی ہیں:
۱۔خدا کو آقا اور مالک اور حاکم ماننا،
۲۔خدا ہی کی غلامی، بندگی اور تابع داری کرنا،
۳۔ اور خدا کے حساب سے ڈرنا، اس کی سزا کا خوف کھانا، اور اسی کی جزا کا لالچ کرنا۔
پھر چونکہ خدا کا حکم انسانوں کو اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ کے ذریعے ہی سے پہنچتا ہے، اس لیے رسولؐ کو خدا کا رسولؐ اور کتاب کو خدا کی کتاب ماننا اور اس کی اطاعت کرنا بھی دین ہی میں داخل ہے، جیسا کہ فرمایا:
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۝۰ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَ o (الاعراف 7:35)
اے بنی آدم! جب میرے رسول تمھارے پاس میرے احکام لے کر آئیں تو جو شخص تم میں سے ان احکام کو مان کر پرہیز گاری اختیار کرے گا اور ان کے مطابق اپنا عمل درست کر لے گا، اس کے لیے ڈر اور رنج کی کوئی بات نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست ہر انسان کے پاس اپنے احکام نہیں بھیجتا بلکہ اپنے رسولوں کے واسطے سے بھیجتا ہے۔ اس لیے جو شخص اللہ کو حاکم مانتا ہو، وہ اس کی فرماں برداری صرف اسی طرح کر سکتا ہے کہ اس کے رسولوں کی فرماں برداری کرے، اور رسول کے ذریعے سے جو احکام آئیں ان کی اطاعت کرے۔ اِسی کا نام دین ہے۔
شریعت کیا ہے؟
اب میں آپ کو بتائوں گا کہ شریعت کسے کہتے ہیں؟ شریعت کے معنی طریقے اور راستے کے ہیں۔ جب تم نے خدا کو حاکم مان لیا اور اس کی بندگی قبول کر لی اور یہ تسلیم کر لیا کہ رسولؐ اسی کی طرف سے حاکمِ مجاز ہے، اور کتاب اسی کی طرف سے ہے، تو تم دین میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد تم کو جس طریقے سے خدا کی بندگی کرنی ہے، اور اس کی فرماںبرداری میں جس راستے پرچلنا ہے اس کا نام شریعت ہے۔ یہ طریقہ اور راستہ بھی خدا اپنے رسول ہی کے ذریعے سے بتاتا ہے۔ وہی یہ سکھاتا ہے کہ اپنے مالک کی عبادت اس طرح کرو، طہارت اور پاکیزگی کایہ طریقہ ہے، نیکی اور تقویٰ کا یہ راستہ ہے، حقوق اس طرح ادا کرنے چاہییں، معاملات یوں انجام دینے چاہییں، اور زندگی اس طرح بسر کرنی چاہیے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ دین ہمیشہ سے ایک تھا، ایک ہی رہا اور اب بھی ایک ہی ہے، مگر شریعتیں بہت سی آئیں، بہت سی منسوخ ہوئیں، بہت سی بدلی گئیں، اور کبھی ان کے بدلنے سے دین نہیں بدلا۔
حضرت نوح ؑ کا دین بھی وہی تھا جو حضرت ابراہیم ؑ کا تھا، حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کا تھا، حضرت شعیب ؑ اور حضرت صالح ؑ اور حضرت ہودؑ کا تھا اور حضرت محمد a کا ہے، مگر شریعتیں ان سب کی کچھ نہ کچھ مختلف رہی ہیں۔ نماز اورروزے کے طریقے کسی میں کچھ تھے اور کسی میں کچھ۔ حلال اور حرام کے احکام، طہارت کے قاعدے، نکاح اور طلاق اور وراثت کے قانون ہر شریعت میں دوسری شریعت سے کچھ نہ کچھ مختلف رہے ہیں۔ ان کے باوجود سب مسلمان تھے۔ حضرت نوح ؑ کے پیرو بھی، حضرت ابراہیمؑ کے پیرو بھی، حضرت موسیٰ ؑ کے پیرو بھی اور ہم بھی۔ اس لیے کہ دین سب کا ایک ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کے احکام میں فرق ہونے سے دین میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ دین ایک ہی رہتا ہے، چاہے اس پر عمل کرنے کے طریقے مختلف ہوں۔
شریعتوں کے فرق کی نوعیت
اس فرق کو یوں سمجھو کہ ایک آقا کے بہت سے نوکر ہیں۔ جو شخص اس کو آقا ہی نہیں مانتا اور اس کے حکم کو اپنے لیے واجب التعمیل ہی نہیں سمجھتا، وہ تو نافرمان ہے اور نوکری کے دائرے ہی سے خارج ہے۔ اور جو لوگ اس کو آقا تسلیم کرتے ہیں، اس کے حکم کو ماننا اپنا فرض جانتے ہیں اوراس کی نافرمانی سے ڈرتے ہیں، وہ سب نوکروں کے زُمرے میں داخل ہیں۔ نوکری بجا لانے اور خدمت کرنے کے طریقے مختلف ہوں تو اس سے ان کے نوکر ہونے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اگر آقا نے کسی کو نوکری کا ایک طریقہ بتایا ہے اور دوسرے کو دوسرا طریقہ، تو ایک نوکر کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ میں نوکر ہوں اور وہ نوکر نہیں ہے۔ اسی طرح اگر آقا کا حکم سن کر ایک نوکر اس کا منشا کچھ سمجھتا ہے اور دوسرا کچھ اور، اور دونوں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں، تو نوکری میں دونوں برابر ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک نے مطلب سمجھنے میں غلطی کی ہو، اور دوسرے نے صحیح مطلب سمجھا ہو۔ لیکن جب تک اطاعت سے کسی نے انکار نہ کیا ہو کسی کو کسی سے یہ کہنے کا حق نہیں کہ تو نافرمان ہے یا تجھے آقا کی نوکری سے خارج کر دیا گیا ہے۔
اس مثال سے آپ دین اور شریعت کے فرق کو بڑی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ نبی کریم a سے پہلے اللہ تعالیٰ مختلف رسولوں کے ذریعے سے مختلف شریعتیں بھیجتا رہا۔ کسی کو نوکری کا ایک طریقہ بتایا اور کسی کو دوسرا طریقہ۔ ان سب طریقوں کے مطابق جن جن لوگوں نے مالک کی اطاعت کی وہ سب مسلمان تھے، اگرچہ ان کی نوکری کے طریقے مختلف تھے۔ پھر جب نبی کریم a تشریف لائے تو آقا نے حکم دیا کہ اب پچھلے طریقوں کو ہم منسوخ کرتے ہیں۔ آئندہ سے جس کو ہماری نوکری کرنی ہو، وہ اس طریقے پر نوکری کرے جو اَب ہم اپنے آخری پیغمبر a کے ذریعے سے بتاتے ہیں۔ اس کے بعد کسی نوکر کو پچھلے طریقوں پر نوکری کرنے کا حق باقی نہیں رہا کیوں کہ اب اگر وہ نئے طریقے کو نہیں مانتا، اور پرانے طریقوں پر چل رہا ہے تو وہ دراصل آقا کا حکم نہیں مانتا بلکہ اپنے دل کا کہا مان رہا ہے۔ اس لیے وہ نوکری سے خارج ہے، یعنی مذہب کی زبان میں کافر ہو گیا ہے۔
فقہی مسلکوں کے فرق کی نوعیت
یہ تو پچھلے انبیا ؑ کے ماننے والوں کے لیے ہے۔ رہے نبی a کے پیرو، تو ان پر اس مثال کا دوسرا حصہ صادق آتا ہے۔ اللہ نے جو شریعت نبی a کے ذریعے سے ہم کو بھیجی ہے اس کو خدا کی شریعت ماننے والے، اور اسے واجب التعمیل سمجھنے والے، سب کے سب مسلمان ہیں۔ اب اگر اس شریعت کے احکام کو ایک شخص کسی طرح سمجھتا ہے اور دوسرا کسی اورطرح، اور دونوں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس پر عمل کرتے ہیں، توچاہے ان کے عمل میں کتنا ہی فرق ہو، ان میں سے کوئی بھی نوکری سے خارج نہ ہو گا۔ اس لیے کہ ان میں سے ہرایک جس طریقے پر چل رہا ہے یہی سمجھ کر تو چل رہا ہے کہ یہ آقا کا حکم ہے۔ پھر ایک نوکر کو یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ میں تو نوکر ہوں اور فلاں شخص نوکر نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ بس وہ یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آقا کے حکم کا صحیح مطلب سمجھا اور اس نے صحیح نہیں سمجھا، مگر وہ اس کو نوکری سے خارج کر دینے کا مجاز کیسے ہو گیا؟ جو شخص ایسی جرأت کرتا ہے وہ گویا خود آقا کا منصب اختیار کرتا ہے۔
وہ گویا یہ کہتا ہے کہ تو جس طرح آقا کے حکم کو ماننے پر مجبور ہے اسی طرح میری سمجھ کو بھی ماننے پر مجبور ہے۔ اگر تومیری سمجھ کو نہ مانے گا تو میں اپنے اختیار سے تجھ کو آقا کی نوکری سے خارج کر دوں گا۔ غور کرو یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اسی لیے نبیؐ نے فرمایا ہے کہ ’’جو شخص کسی مسلمان کو ناحق کافر کہے گا اس کا قول خود اسی پر پلٹ جائے گا‘‘۔ کیوں کہ مسلمان کو تو خدا نے اپنے حکم کا غلام بنایا ہے، مگر یہ شخص کہتا ہے کہ نہیں، تم میری سمجھ اور میری رائے کی بھی غلامی کرو۔ یعنی صرف خدا ہی تمھارا خدا نہیں ہے بلکہ میں بھی چھوٹا خدا ہوں، اور میرا حکم نہ مانو گے تومیں اپنے اختیار سے تم کو خدا کی بندگی سے خارج کر دوں گا چاہے خدا خارج کرے یا نہ کرے۔ ایسی بڑی بات جوشخص کہتا ہے اس کے کہنے سے چاہے دوسرا مسلمان کافر ہو یا نہ ہو، مگر وہ خود تو اپنے آپ کو کفر کے خطرے میں ڈال ہی دیتا ہے۔
حاضرین! آپ نے دین اور شریعت کا فرق اچھی طرح سمجھ لیا ہو گا، اور یہ بھی آپ نے جان لیا ہو گا کہ بندگی کے طریقوں میں اختلاف ہو جانے سے دین میں اختلاف نہیں ہوتا، بشرطیکہ آدمی جس طریقے پر عمل کرے نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھ کر عمل کرے کہ خدا اور اس کے رسولؐ نے وہی طریقہ بتایا ہے جس پر وہ عامل ہے، اور اس کے پاس اپنے اس طرزِ عمل کے لیے خدا کی کتاب یا اس کے رسولؐ کی سنت سے کوئی سند موجود ہو۔
دین اور شریعت کا فرق نہ سمجھنے کی خرابیاں
اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ دین اور شریعت کے اس فرق کو نہ سمجھنے سے آپ کی جماعت میں کتنی خرابیاں واقع ہو رہی ہیں۔
مسلمانوں میں نماز پڑھنے کے مختلف طریقے ہیں۔ ایک شخص سینے پر ہاتھ باندھتا ہے، اور دوسرا ناف پر باندھتا ہے۔ ایک شخص امام کے پیچھے فاتحہ پڑھتا ہے، اور دوسرا نہیں پڑھتا۔ ایک شخص آمین زور سے کہتا ہے، دوسرا آہستہ کہتا ہے۔ ان میں سے ہر شخص جس طریقے پر چل رہا ہے، یہی سمجھ کر چل رہا ہے کہ یہ نبی a کا طریقہ ہے اور اس کے لیے وہ اپنی سند پیش کرتا ہے۔ اس لیے نماز کی صورتیں مختلف ہونے کے باوجود دونوں حضورؐ ہی کے پیرو ہیں، مگر جن ظالموں نے شریعت کے ان مسائل کو دین سمجھ رکھا ہے انھوں نے محض انھی طریقوں کے اختلاف کو دین کا اختلاف سمجھ لیا۔ اپنی جماعتیں الگ کر لیں، اپنی مسجدیں الگ کر لیں، ایک نے دوسرے کو گالیاں دیں، مسجدوں سے مار مار کرنکال دیا، مقدمے بازیاں کیں اور رسولؐ اللہ کی امت کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔
اس سے بھی لڑنے اور لڑانے والوں کے دل ٹھنڈے نہ ہوئے توچھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک نے دوسرے کو کافراور فاسق اور گمراہ کہنا شروع کردیا۔ ایک شخص قرآن سے یا حدیث سے ایک بات اپنی سمجھ کے مطابق نکالتا ہے تو وہ اس کو کافی نہیں سمجھتا کہ جو کچھ اس نے سمجھا ہے اس پر عمل کرے، بلکہ یہ بھی ضروری سمجھتا ہے کہ دوسروں سے بھی اپنی سمجھ زبردستی تسلیم کرائے، اور اگر وہ اسے تسلیم نہ کریں تو ان کو خدا کے دین سے خارج کر دے۔
آپ مسلمانوں میں حنفی، شافعی، اہل حدیث وغیرہ جو مختلف مذہب دیکھ رہے ہیں یہ سب قرآن وحدیث کو آخری سند مانتے ہیں اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق وہیں سے احکام نکالتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک کی سمجھ صحیح ہو اور دوسرے کی غلط ہو۔ میں بھی ایک طریقے کا پَیرو ہوں اور اس کو صحیح سمجھتا ہوں، اور اس کے خلاف جو لوگ ہیں ان سے بحث بھی کرتا ہوں، تاکہ جو بات میرے نزدیک صحیح ہے وہ ان کو سمجھائوں اور جس بات کو میں غلط سمجھتا ہوں اسے غلط ثابت کروں۔ لیکن کسی شخص کی سمجھ کا غلط ہونا اور بات ہے اور اس کا دین سے خارج ہو جانا دوسری بات۔ اپنی اپنی سمجھ کے مطابق شریعت پر عمل کرنے کا ہر مسلمان کو حق ہے۔ اگر دس مسلمان دس مختلف طریقوں پر عمل کریں تو جب تک وہ شریعت کو مانتے ہیں، وہ سب مسلمان ہی ہیں۔ ایک ہی امت ہیں، ان کی جماعتیں الگ ہونے کی کوئی وجہ نہیں، مگر جو لوگ اس چیز کو نہیں سمجھتے وہ انھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر فرقے بناتے ہیں، ایک دوسرے سے کٹ جاتے ہیں، اپنی نمازیں اور مسجدیں الگ کر لیتے ہیں، ایک دوسرے سے شادی بیاہ، میل جول اور ربط وضبط بند کر دیتے ہیں اور اپنے اپنے ہم مذہبوں کے جتھے اس طرح بنا لیتے ہیں کہ گویا ہر جتھا ایک الگ امت ہے۔
فرقہ بندی کے نقصانات
آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس فرقہ بندی سے مسلمانوں کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ کہنے کو مسلمان ایک امت ہیں۔ ہندستان{ FR 1610 } میں ان کی آٹھ کروڑ کی تعداد ہے۔ اتنی بڑی جماعت اگر واقعی ایک ہو اور پورے اتفاق کے ساتھ خدا کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کام کرے تو دنیا میں کون اتنا دم رکھتا ہے جو اس کو نیچا دکھا سکے، مگر حقیقت میں اس فرقہ بندی کی بدولت اس امت کے سیکڑوں ٹکڑے ہو گئے ہیں۔ ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ یہ سخت سے سخت مصیبت کے وقت میں بھی مل کر نہیں کھڑے ہو سکتے۔ ایک فرقے کا مسلمان دوسرے فرقے والوں سے اتنا ہی تعصب رکھتا ہے جتنا ایک یہودی ایک عیسائی سے رکھتا ہے، بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کر۔ ایسے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ ایک فرقے والے نے دوسرے فرقے والے کو نیچا دکھانے کے لیے کفار کا ساتھ دیا ہے۔ ایسی حالت میں اگر مسلمانوں کو آپ مغلوب دیکھ رہے ہیں تو تعجب نہ کیجیے۔ یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ ان پر وہ عذاب نازل ہوا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پاک میں اس طرح بیان کیا ہے کہ:
اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ۝۰ۭ (الانعام 6:65)
یعنی اللہ کے عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ تم کو مختلف فرقوں میں تقسیم کر دے اورتم آپس میں ہی کٹ مرو۔
بھائیو! یہ عذاب جس میں سارے ہندستان کے مسلمان مبتلا ہیں، اس کے آثار مجھے پنجاب میں سب سے زیادہ نظر آرہے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کے فرقوں کی لڑائیاں ہندستان کے ہر خطے سے زیادہ ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پنجاب کی آبادی میں کثیر التعداد ہونے کے باوجود آپ کی قوت بے اثر ہے۔ اگر آپ اپنی خیر چاہتے ہیں تو ان جتھوں کو توڑئیے۔ ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہئیے، اورایک امت بن جائیے۔ خدا کی شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر اہل حدیث، حنفی، دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سنی وغیرہ الگ الگ امتیں بن سکیں۔ یہ امتیں جہالت کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ اللہ نے صرف ایک امت ’’امت مسلمہ‘‘ بنائی تھی۔

شیئر کریں