Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
دعوت اسلامی اور اس کے طریق کار
ہماری دعوت کیا ہے؟
دعوت اسلامی کے تین نکات
بندگی رب کا مفہوم:
منافقت کی حقیقت:
تناقض کی حقیقت:
امامت میں تغیر کی ضرورت:
امامت میں انقلاب کیسے ہوتا ہے؟
مخالفت اور اس کے اسباب
ہمارا طریق کار
علماء اور مشائخ کی آڑ
زہد کا طعنہ:
رفقاء سے خطاب
مولانا امین احسن اصلاحی
اسلام کے اساسی معتقدات اور ان کا مفہوم
ایمان باللہ:
ایمان بالرسات :
ایمان بالکتب:
حق و باطل کے معرکے میں ہمارا فرض
مسلمانوں کی اقسام
تحریک اسلامی کا قیام اور اس کی غرض
کامیابی کا معیار:
نصرت حق کب آتی ہے؟
میاں طفیل محمد
گزری ہوئی زندگی کا محاسبہ:
خدا کے دین کا صحیح تصور:
نماز کا عملی مقصود
نماز کا سب سے پہلا کلمہ:
تکبیر تحریمہ:
تعویذ:
سورۂ فاتحہ:
سورۂ اخلاص:
رکوع‘ قومہ اور سجدہ:
التحیات:
درود شریف پڑھنے کا تقاضا:
دعاء قنوت کی روشنی میں جائزہ لیجئے:
دعاء قنوت:
آخری دعا اور سلام:
اقامت صلوٰۃ حقیقت
اذان کا مقصد اور اس کی حقیقت:
دین پوری زندگی پر حاوی ہے:
آج دنیا میں کروڑوں مسلمان موجود ہیں مگر نظام اسلام کا وجود نہیں!
دین میں دعوت اسلامی کی اہمیت:
دعوت کی راہ کا پہلا قدم:
دعوت کی راہ کا دوسرا قدم:
اس راہ کا تیسرا قدم:
عبادت کا اصل مفہوم اور اس کی روح:
روحانیت کیا ہے؟
دین اسلام صرف مسلمانوں کا دین نہیں یہ پوری نوع انسانی کا دین ہے:
دین اسلام کو صرف مان لینا کافی نہیں ہے‘ اس کی تبلیغ اور اقامت بھی لازم ہے:
غیر مسلموں کے لیے اسلام کا پیغام:
اور اس میں خواتین کا حصہ

دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

دین اسلام کو صرف مان لینا کافی نہیں ہے‘ اس کی تبلیغ اور اقامت بھی لازم ہے:

یہ واضح کر دینے کے بعد کہ خدا کے دین اور اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب کی دعوت تمام انسانوں کی طرف عام ہے اور وہ سب اس کے یکساں مخاطب ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بھی بالکل واضح فرما دیا ہے کہ اس کے دین کو صرف اپنی ذات کی حد تک مان لینا کافی نہیں ہے۔ بلکہ جو لوگ اس کے حق اور انسان کے لیے واحد صحیح راہ عمل ہونے کو تسلیم کریں‘ ان کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ اسے اپنے علاوہ اپنے گرد و پیش کی دنیا میں بھی جاری اور برپا کرنے کی انتہائی جدوجہد کریں‘ اور اگر ضرورت پیش آئے تو اس راہ میں حائل ہونے والی قوتوں سے جہاد بھی کریں۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے فرمایا کہ تم ’’مسلم‘‘ (خدا کے تابع فرمان) ہو۔ تمہیں ہم نے اپنے کام کے لیے منتخب کیا ہے اور تمہارا کام یہ ہے کہ اسلام کا جو عملی نمونہ ہمارے رسولؐ نے اپنی زندگی میں تمہارے سامنے پیش کیا‘ اسے تم اپنے دور کے لوگوں کے سامنے پیش کرو‘ چنانچہ رکوع و سجود اور نیکی اور بھلائی کے کاموں کی تاکید کرنے کے بعد فرمایا:
وجاھدوا فی اللہ حق جہادہ ھوا جتبکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملۃ ابیکم ابراھیم ھو سمائکم المسلمین۔ من قبل و فی ھذا لیکون الرسول شھیداً علیکم و تکونوا شھدآء علی الناس۔ (الحج:۷۸)
’’اللہ کی بندگی اور اس کی رضا جوئی کی راہ میں جو قوتیں مزاحم ہوں‘ ان کے خلاف جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ کا راستہ ہے۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ’’مسلم‘‘ رکھا تھا اور اب اس (قرآن) میں بھی تمہارا یہی نام ہے تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو (کہ جس طرح سے رسولؐ نے دین تمہیں پہنچایا اسی طرح سے تم اسے اپنے اپنے دور کے لوگوں تک پہنچائو‘‘
یہاں یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ خدا کے دین کے سلسلے میں جو ذمہ داری رسولؐ پر تھی‘ وہی ذمہ داری اب قیام تک کے لیے حضورؐ کی امت پر ہے۔ جس طرح سے قیامت کے روز رسولؐ کو اس امر کا ثبوت پیش کرنا ہوگا کہ انہوںنے نہ صرف قولاً اس دین کی پوری تعلیمات کو ٹھیک ٹھیک امت تک پہنچا دیا بلکہ عملاً دکھا دیا کہ اسلام کے عقائد یہ ہیں‘ اس کے اخلاق‘ اطوار‘ تہذیب اور تمدن یہ ہیں۔ اس کی معاشرت‘ معیشت‘ سیست اور عدالت کے ڈھنگ یہ ہیں‘ اسی طرح سے امت کو بھی خدا کے حضور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے بھی ان چیزوں کو اپنے اپنے زمانے میں اپنی ہم عصر دنیا کے سامنے پوری طرح پیش کر دیا تھا۔ اس کے بغیر چھٹکارا نہیں ہوسکے گا۔ یہ کام اس قدر ضروری‘ اہم اور بنیادی ہے کہ فرمایا:
ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف وینھنون عن المنکر واوئک ھم المفلحون۔ (آل عمران: ۱۰۴)
’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرو ر رہنے چاہئیںجو نیکی کی طرف بلائیں‘ بھلائی کا حکم دیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے‘ وہی فلاح پائیں گے‘‘
مطلب یہ ہے کہ اصلاً تو ساری امت کی دوڑ دھوپ کا محور دعوت الی الخیر‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہونا چاہئے۔ لیکن کچھ لوگ تو لازماً ایسے مقرر ہونے چاہئیں جو اسی کام کے لیے وقف ہوں۔ باقی لوگ ان کے پشتیبان اور معاون و مددگار ہوں اور ضروری رسائل و ذرائع اس کام کے لیے فراہم کریں۔
اس کام کی اہمیت اور اس کے لزوم کا اندازہ اس امر سے باآسانی کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بعثت کی غرض یہ بتائی ہے کہ:
ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔
(الصف:۹)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے رسولؐ کو دین حق اور ہدایت دے کر اس مقصد کے لیے بھیجا ہے کہ وہ اسے دوسرے تمام ادیان اور نظامہائے زندگی پر غالب کردے‘‘
یہی نہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو دنیا میں جاری اور برپا اور دوسرے تمام نظامہائے زندگی پر غالب کرنے کے لیے بھیجا تھا‘ بلکہ اللہ کا ہر رسول اسی مشن کو لے کر دنیا میں آیا۔ چنانچہ فرمایا:
شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً و الذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین۔ (الشوریٰ: ۱۳)
’’تمہارے لیے بھی وہی دین (نظام زندگی) مقرر کیا گیا ہے جو نوح ؑ کو دیا گیا تھا۔ (یہی نہیں بلکہ) جو دین تمہاری طرف وحی کیا گیا ہے‘ یہی ابراہیم ؑ ‘ موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کو دیا گیا تھا (سب کو اسی بات پر مامور کیا گیا تھا کہ اس دین کو قائم اور برپا کرو‘‘
اگر خدا کا دین قائم نہ ہو اور اس پر کوئی دوسرا نظام زندگی یا نظریہ حیات غالب ہو تو خدا کے نزدیک یہ فتنہ و فساد کی صورت ہے جسے دور کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ جو لوگ اس فرض کو انجام نہیں دیتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ آخر ار ملیا میٹ کر دیتا ہے۔ فرمایا:
وقتلوھم حتیٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ۔ (البقرہ: ۱۹۳)
’’تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے‘‘
صاف واضح ہے کہ اگر اللہ کے دین کے بجائے کسی دوسرے نظام زندگی کا غلبہ ہو تو خدا کے نزدیک یہ فتنے کی حالت ہے جسے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ضروری ہے۔ پچھلی امتوں کی اس فرض میں کوتاہی اور اس کی پاداش میں ان کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
فلولا کان میں القرون من قبلکم اولوا بقیۃ ینھون عن الفساد فی الارض الا قلیلاً ممن انجینا منھم واتبع الذین ظلموا ما اتر فوافیہ و کانوا مجرمین۔ وما کان ربک لیھلک القریٰ بظلم و اھلھا مصلحون۔ (ھود: ۱۱۶۔۱۱۷)
’’پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں‘ ایسے اہل خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے۔ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت تھوڑے جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا۔ ورنہ ظالم انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان ان کو فراوانی کے ساتھ دئیے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے۔ تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح میں لگے ہوں‘‘
پس اہل ایمان کے لیے لازم ہے کہ خدا کے دین کو جہاں وہ غالب اور حکمران نہیں ہے‘ اسے غالب اور حکمران بنانے کی امکانی کوشش کریں۔ اور اگر اس کے لیے کوئی کوشش ان کے گرد و پیش ہو رہی ہو تو دل و جان کے ساتھ اس میں شریک ہوں۔ اگر ایسی کوئی کوشش نہ رہی ہو یا ہو تو رہی ہے لیکن وہ اس سے مطمئن نہیں تو خود اس کام کے لیے اٹھیں اور اس فریضہ کو بہتر طریق پر انجام دے کر دوسروں کی رہنمائی کریں۔ بہرحال اس سے پہلو تہی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی کا جو انجام ہے اس سے ڈراتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
و اتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ واعلموا ان اللہ شدید العقاب۔ (الانفال: ۲۵)
’’بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘
اور یہ صورت رونما کب ہوتی ہے‘ اس بارے میں فرمایا کہ:
فلما نسوا ماذکرو ابہ اجینا الذین ینھون عن السوء و اخذنا الذین ظلموا بعذاب بئیس بما کانوا یفسقون۔ (الاعراف: ۱۶۵)
’’آخر کار جب انہوں نے ان ہدایات کو بھلا دیا جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا‘‘
یعنی بچایا صرف ان لوگوں کو گیا جو اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔ دوسرے سب کے سب عذاب میں پکڑ لیے گئے‘ وہ بھی جو بالفعل برائیوں میں مبتلا تھے اور وہ بھی جو گرچہ خود برائیوں میں مبتلا نہ تھے‘ لیکن دوسروں کو برائی سے روکتے نہیں تھے۔ اسی بات کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کے ساتھ اس طرح فرمایا:
ان اللہ لا یعذب العامۃ بعمل الخاصۃ حتٰی یروا المنکر بین ظھر انیھم وھم قاددون علٰی ان ینکروہ فلا ینکروہ فاذا فعلوا ذالک عذب اللہ الخاصۃ والعامۃ۔
’’اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگو ں کو عذاب نہیں دیتا جب تک کہ لوگوں کی یہ حالت نہ ہو جائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے برے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کو منع کرنے اور ان کے خلاف اظہار ناراضی کرنے کی قدرت رکھتے ہوں اور پھر بھی نہ ان کو روکیں اور نہ ان پر اظہار ناراضی کریں۔ جب لوگوں کا یہ حال ہوتا ہے تو اللہ بلاتمیز خاص و عام سب کو عذاب میں پکڑ لیتا ہے‘‘
اللھم نعوذ بک من ذالک۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے یہ بات روز روشن کی طرح سے واضح ہو جاتی ہے کہ دین اسلام کو صرف ذاتی طور پر مان لینا کافی نہیں ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو اور ان کی امت ہونے کی حیثیت سے ہم پر واجب ہے کہ نہ صرف اس کی تبلیغ و اشاعت کریں بلکہ اس کی اقامت کی جدوجہد میں جان و مال کی بازی لگا دیں۔ کیونکہ اس کے بغیر دین حق پر ایمان لانے کا دعویٰ ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔

شیئر کریں