اس کی تحقیق کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی اُس وقت کی دینی حالت کا جائزہ لینا چاہیے کیوں کہ ہمارے لیے سب سے زیادہ اہمیت اپنے دین ہی کی ہے۔ وہی ہماری زندگی کا قوام ہے۔ اسی نے ہم کو ایک قوم اور ایک ملت بنایا ہے۔ اسی کے بل پر ہم دنیا میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔
ہماری پچھلی تاریخ اس امرکی شاہد ہے کہ اس ملک میں اسلام کسی منظم کوشش کے نتیجے میں نہیں پھیلا ہے۔ سندھ کی ابتدائی اسلامی فتح اور اس کے بعد کی ایک صدی کو مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔ اس کو چھوڑ کر بعد کے کسی دَور میں کوئی ایسی منظم طاقت نہیں رہی جو یہاں ایک طرف اسلام کو پھیلاتی اور جہاں جہاں وہ پھیلتا جاتا وہاں اس کو جمانے اور مضبوط ومستحکم کرنے کی کوشش بھی ساتھ ساتھ کرتی جاتی۔ بالکل ایک غیر منظم طریقے سے کہیں کوئی صاحبِ علم آ گیا جس کے اثر سے کچھ لوگ مسلمان ہو گئے، کہیں کوئی تاجر پہنچ گیا جس کے ساتھ ربط ضبط رکھنے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے کلمہ پڑھ لیا اورکہیں کوئی نیک نفس اور خدا رسیدہ بزرگ تشریف لے آئے جن کے بلند اخلاق اور پاکیزہ زندگی کو دیکھ کر بہت سے لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے مگر نہ تو ان متفرق افراد کے پاس ایسے ذرائع تھے کہ جن لوگوں کو وہ مسلمان کرتے جاتے ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام بھی ساتھ ساتھ کرتے چلے جاتے اور نہ وقت کی حکومتوں ہی کو اس کی کچھ فکر تھی کہ دوسرے اللّٰہ کے بندوں کی کوششوں سے جہاں جہاں اسلام پھیل رہا تھا، وہاں لوگوں کی اسلامی تعلیم وتربیت کا کوئی انتظام کر دیتیں۔
اس غفلت کی وجہ سے ہمارے عوام ابتدا سے جہالت اور جاہلیت میں مبتلا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں سے اگر فائدہ اٹھایا ہے، تو زیادہ تر متوسط طبقوں نے اٹھایا ہے یا پھراونچے طبقوں نے۔ عوام الناس اسلام کی تعلیمات سے بے خبر اور اس کے اصلاحی اثرات سے بڑی حد تک محروم ہی رہے۔ اسی کا نتیجہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ قبیلے کے قبیلے غیر مسلم قوموں سے نکل کر اسلام میں آئے مگر آج تک ان میں جاہلیت کی وہ بہت سی رسمیں موجود ہیں جو اسلام قبول کرنے سے پہلے ان میں پائی جاتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے خیالات تک پوری طرح نہ بدل سکے۔ ان کے اندر آج بھی وہ بہت سے مشرکانہ عقائد اور مشرکانہ اوہام موجود ہیں جو اپنے غیر مسلم آبائو اجداد کے مذہب سے انھیں وراثت میں ملے تھے۔ بڑے سے بڑا فرق جو مسلمان ہونے کے بعد ان کے اندر واقع ہوا، وہ بس یہ تھا کہ انھوں نے اپنے پچھلے معبودوں کی جگہ کچھ نئے معبود خود اسلام کی تاریخ میں سے ڈھونڈ نکالے اور پرانے اعمال کے نام بدل کر اسلامی اصطلاحات میں سے کچھ نئے نام اختیار کر لیے۔ عمل جوں کا توں رہا، صرف اس کا ظاہری روپ بدل گیا۔
اس کا ثبوت اگر آپ چاہیں تو کسی علاقے میں جا کر عوام کی مذہبی حالت کا جائزہ لیجئے اور پھر تاریخ میں تلاش کیجیے کہ اسلام کے آنے سے پہلے اس علاقے میں کون سا مذہب رائج تھا۔ آپ دیکھیں گے کہ آج بھی وہاں اس سابق مذہب سے ملتے جلتے عقائد واعمال ایک دوسری شکل میں رائج ہیں۔ مثلاً جہاں پہلے بدھ مذہب پایا جاتا تھا وہاں کسی زمانے میں بودھ کے آثار پوجے جاتے تھے۔ کہیں اس کا کوئی دانت رکھا ہوا تھا، کہیں اس کی کوئی ہڈی محفوظ تھی۔ کہیں اس کے دوسرے تبرکات کو مرکز توجہات بنا کر رکھا گیا تھا۔ آج آپ دیکھیں گے کہ اس علاقے میں وہی معاملہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مُوئے مبارک، یا آپؐ کے نقشِ قدم یا دوسرے بزرگانِ دین کے آثار متبرکہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اسی طرح آپ پرانے مسلم قبیلوں کے موجودہ رسم ورواج کا جائزہ لیں اور پھر تحقیق کریں کہ ان ہی قبیلوں کی غیر مسلم شاخوں میں کیا رسمیں رائج ہیں۔ دونوں میں آپ بہت کم فرق پائیں گے۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ پچھلی صدیوں میں جو لوگ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار رہے ہیں انھوں نے بالعموم اپنا فرض انجام دینے میں سخت کوتاہی کی ہے۔ انھوں نے اسلام پھیلانے والے بزرگوں کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا۔ کروڑوں آدمی اسلام کی کشش سے کھچ کھچ کر اس کے دائرے میں آئے مگر جو اسلام کے گھر کے منتظم اور متولی تھے، انھوں نے ان بندگانِ خدا کی تعلیم، تربیت، ذہنی اصلاح اور زندگی کے تزکیے کا کوئی انتظام نہ کیا۔ اس وجہ سے یہ قوم مسلمان ہو جانے کے باوجود اسلام کی برکات اور توحید کی نعمتوں سے پوری طرح بہرہ مند نہ ہو سکی اور ان نقصانات سے نہ بچ سکی، جو شرک وجاہلیت کے لازمی نتیجے ہیں۔
پھر دیکھیے کہ ان پچھلی صدیوں میں ہمارے علما کا کیا حال ہے۔ چند مقدس بزرگوں نے تو فی الواقع اس دین کی غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ جن کے اثرات پہلے بھی نافع ہوئے اور آج تک نفع بخش ثابت ہو رہے ہیں مگر عام طور پر علمائے دین جن مشاغل میں مشغول رہے وہ یہ تھے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر مناظرہ بازیاں کریں۔ چھوٹے مسائل کو بڑے مسائل بنایا اور بڑے مسائل کو مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ اختلافات کو مستقل فرقوں کی بنیاد بنایا اور فرقہ بندی کو جھگڑوں اور لڑائیوں کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا۔ معقولات کے پڑھنے پڑھانے میں عمریں گزار دیں اور قرآن وحدیث سے نہ خود ذوق رکھا نہ لوگوں میں پیدا کیا۔ فقہ میں اگر کوئی دل چسپی لی تو موشگافیوں اور جزئیات کی بحثوں کی حد تک لی۔ تفقّہ فی الدین پیدا کرنے کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ ان کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچے لوگوں کی نگاہیں خوردبین بن کر رہ گئیں۔ دور بین وجہاں بین نہ بن سکیں۔ آج یہ پوری میراث جھگڑوں اور مناظروں، اور فرقہ بندیوں اور روز افزوں فتنوں کی لہلہاتی ہوئی فصل کے ساتھ ہمارے حصے میں آئی ہے۔
صوفیا کا حال دیکھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ چند پاکیزہ ہستیوں کے سوا جنھو ںنے اسلام کے حقیقی تصوف پر خود عمل کیا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دی،باقی سب ایک ایسے تصوف کے معلم ومبلغ تھے جس میں اشراقی اور ویدانتی اور مانوی اور زردشتی فلسفوں کی آمیزش ہو چکی تھی اور جس کے طریقوں میں جوگیوں اور راہبوں اور اشراقیوں اور رواقیوں کے طریقے اس اس طرح مل جل گئے تھے کہ اسلام کے خالص عقائد واعمال سے ان کو مشکل ہی سے کوئی مناسبت رہ گئی تھی۔ خلقِ خدا ان کی طرف خدا کا راستہ پانے کے لیے رجوع کرتی تھی اور وہ ان کو دوسرے راستے بتاتے تھے۔ پھر جب اگلوں کے بعد پچھلے ان کے سجادوں پر بیٹھے تو انھوں نے میراث میں دوسری املاک کے ساتھ اپنے بزرگوں کے مرید بھی پائے اور ان سے تربیت وارشاد کے بجائے صرف نذرانوں کا تعلق باقی رکھا۔ ان حلقوں کی تمام تر کوشش پہلے بھی یہ رہی ہے اور آج بھی ہے کہ جہاں جہاں بھی ان کی پیری وپیرزادگی کا اثر پھیلا ہوا ہے وہاں دین کا صحیح علم کسی طرح نہ پہنچنے پائے۔ کیوں کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ عوام الناس پر ان کی خداوندی کا طلسم اسی وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک وہ اپنے دین سے جاہل رہیں۔