اب اس مسئلہ کا آخری پہلو باقی رہ گیا ہے اور وہ دینیاتی پہلو ہے۔ دینیات میں یہ مسئلہ قریب قریب اسی حیثیت سے آتا ہے جس حیثیت سے فلسفے میں اس پر بحث کی گئی ہے مگر یہاں مشکلات اس سے بہت زیادہ ہیں۔ فلسفے کی نظر تو صرف امور ماورائے طبیعت پر ہے اور انسان کی عملی زندگی سے اس کو وہ تعلق نہیں جو حکمت عملی یا اخلاقیات کو ہے، مگر دینیات نے کسی نہ کسی طورسے حکمت عملی اور امور ماورائے طبیعت دونوں پر نظر کی ہے۔ اور اپنی تعلیمات میں دونوں کو جمع کیا ہے۔ دین ایک طرف تو انسان کو اوامرو نواہی کا مخاطب ٹھہراتا ہے اور اطاعت پر جزا اور عصیان پر سزا کے مترتب ہونے کا قانون پیش کرتا ہے۔ جس کے لیے انسان کا اپنے اعمال میں ذمہ دار اور کسی نہ کسی حد تک مختار ہونا ضروری ہے اور دوسری طرف وہ ایک ایسی بالاتر ہستی یا ایک ایسے بالاتر قانون کا تصور بھی پیش کرتا ہے جو انسان سمیت تمام کائنات کو محیط ہے اور جس کی گرفت میں سارا عالم کون و فساد جکڑا ہوا ہے۔ اس وجہ سے دینیات میں یہ مسئلہ فلسفے، طبیعیات اور اخلاقیات تینوں سے زیادہ مشکل ہے۔ کیونکہ یہ تینوں تو معاملہ کے محض کسی ایک پہلو کا اثبات کرنے اور دوسرے پہلو کو اس کے موافق کرنے کی خاطر توڑنے مروڑنے کے لیے آزاد ہیں، لیکن دین بیک وقت دونوں کا اثبات کرتا ہے اور وہ اپنے اس طریقے کو عقل کے مطابق ثابت کرنے کے لیے مجبور ہے کہ ان دونوں متعارض باتوں میں موافقت کی کوئی متوسط صورت نکالے۔
یہاں اس بحث کا موقع نہیں ہے کہ دنیا کے دوسرے مذاہب نے اس مشکل کو حل کرنے کی کیاصورت اختیار کی ہے، کیونکہ مجھ سے سوال صرف اسلام کے متعلق کیا گیا ہے اور اختصار کی خاطر بھی یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنی بحث کو صرف اسی حد تک محدود رکھوں۔