Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دینِ حق
اَلِّدیْن َکا مفہوم
الاِسلام کا مفہوم
قرآن کا دعوٰی کیا ہے؟
طریقِ زندگی کی ضرورت
زندگی کا انقسام پذیر نہ ہونا
زندگی کی جغرافی ونسلی تقسیم
زندگی کی زمانی تقسیم
انسان کیسے طریقِ زندگی کا حاجت مند ہے
کیا انسان ایسا نظام خود بنا سکتا ہے؟
الدین کی نوعیت
انسانی ذرائع کا جائزہ
۱۔ خواہش
۲۔ عقل
۳۔ سائنس
۴۔ تاریخ
مایوس کُن نتیجہ
اُمِّید کی ایک ہی کرن
قرآن کے دلائل
خدائی ہدایت کے پرکھنے کا معیار
ایمان کے تقاضے

دینِ حق

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

دینِ حق

(یہ خطبہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۴۳ء کو جامعہ ملّیّہ ، دہلی میں دیا گیا تھا)
قرآن جس دعوے کے ساتھ نوعِ انسانی کو اپنے پیش کردہ مسلک کی طرف دعوت دیتا ہے وہ خود اس کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ آل عمران 19:3
یہی ذرا سا فقرہ میری اس تقریر کا موضوع ہے۔ زیادہ تفصیل کا موقع نہیں۔ بہت اختصار کے ساتھ میں پہلے اس کے معنی کی تشریح کروں گا جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ اس فقرے میں دراصل کس چیز کا دعوٰی کیا گیا ہے، پھر اس سوال پر بحث کروں گا کہ یہ دعوٰی تسلیم کیا جانا چاہیے یا نہیں، اور آخر میں بیان کروں گا کہ اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو پھر اسے تسلیم کر لینے کے مقتضیات کیا ہیں۔
عموماً اس فقرے کا جو سیدھا سادہ مفہوم بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’سچا مذہب تو اللہ کے نزدیک بس اِسلام ہی ہے۔‘‘ اور ’’اِسلام‘‘ کا جو تصوّر عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ ایک مذہب کا نام ہے جو اَب سے چودہ سو برس پہلے عرب میں پیدا ہوا تھا اور جس کی بنا حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ڈالی تھی… ’’بِنا ڈالی تھی‘‘ کا لفظ مَیں قصدًا اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ صرف غیر مسلم ہی نہیں بلکہ بکثرت مسلمان اور اچھے خاصے ذی علم مسلمان بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’بانیٔ اِسلام‘‘ کہتے اور لکھتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک اِسلام کی ابتدا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہوئی اور آپ ہی اس کے بانی (founder) ہیں۔ لہٰذا جب ایک غیر مسلم قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے اس فقرے پر پہنچتا ہے تو وہ یہ گمان کرکے سرسری طور پر اس سے گزر جاتا ہے کہ جس طرح ہر مذہب صرف اپنے ہی برحق ہونے اور دوسرے مذہبوں کے باطل ہونے کی مُدعی ہے اسی طرح قرآن نے بھی اپنے پیش کردہ مذہب کے برحق ہونے کا دعوٰی کر دیا ہے۔ اور جب ایک مسلمان اسے پڑھتا ہے تو وہ اس وجہ سے اس پر غور کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں سمجھتا کہ جس مذہب کو اس فقرے میں برحق کہا گیا ہے اسے وہ خود بھی برحق مانتا ہے۔ یا اگر غور وفکر کے لیے اس کے ذہن میں کوئی تحریک پیدا ہوتی ہے تو وہ بالعموم یہ رُخ اختیار کر لیتی ہے کہ عیسائیت، ہندومت، بودھ مت اور ایسے ہی دوسرے مذاہب سے اِسلام کا مقابلہ کرکے اس کی حقانیت ثابت کی جائے۔ لیکن درحقیقت قرآن میں یہ مقام ایسا ہے جس پر ایک سنجیدہ طالب علم کو ٹھیر کر بہت غور کرنا چاہیے، اُس سے زیادہ غور کرنا چاہیے جتنا اب تک اس پر کیا گیا ہے۔
قرآن کے اس دعوے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں ’’اَلدِّیْن‘‘اور ’’اَلْاِسْلَامُ‘‘کا مفہوم متعین کر لینا چاہیے۔

شیئر کریں