Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
توحید ورسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت
سلامتی کا راستہ
اِسلام اور جاہلیت
دینِ حق
اِسلام کا اَخلاقی نقطۂ نظر
تحریکِ اِسلامی کی اَخلاقی بُنیادیں
بنائو اور بگاڑ
جہاد فی سبیل اللہ
شہادتِ حق
مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل
اِسلام کا نظامِ حیات

اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

دینِ حق

(یہ خطبہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۴۳ء کو جامعہ ملّیّہ ، دہلی میں دیا گیا تھا)
قرآن جس دعوے کے ساتھ نوعِ انسانی کو اپنے پیش کردہ مسلک کی طرف دعوت دیتا ہے وہ خود اس کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ آل عمران 19:3
یہی ذرا سا فقرہ میری اس تقریر کا موضوع ہے۔ زیادہ تفصیل کا موقع نہیں۔ بہت اختصار کے ساتھ میں پہلے اس کے معنی کی تشریح کروں گا جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ اس فقرے میں دراصل کس چیز کا دعوٰی کیا گیا ہے، پھر اس سوال پر بحث کروں گا کہ یہ دعوٰی تسلیم کیا جانا چاہیے یا نہیں، اور آخر میں بیان کروں گا کہ اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو پھر اسے تسلیم کر لینے کے مقتضیات کیا ہیں۔
عموماً اس فقرے کا جو سیدھا سادہ مفہوم بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’سچا مذہب تو اللہ کے نزدیک بس اِسلام ہی ہے۔‘‘ اور ’’اِسلام‘‘ کا جو تصوّر عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ ایک مذہب کا نام ہے جو اَب سے چودہ سو برس پہلے عرب میں پیدا ہوا تھا اور جس کی بنا حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ڈالی تھی… ’’بِنا ڈالی تھی‘‘ کا لفظ مَیں قصدًا اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ صرف غیر مسلم ہی نہیں بلکہ بکثرت مسلمان اور اچھے خاصے ذی علم مسلمان بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’بانیٔ اِسلام‘‘ کہتے اور لکھتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک اِسلام کی ابتدا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہوئی اور آپ ہی اس کے بانی (founder) ہیں۔ لہٰذا جب ایک غیر مسلم قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے اس فقرے پر پہنچتا ہے تو وہ یہ گمان کرکے سرسری طور پر اس سے گزر جاتا ہے کہ جس طرح ہر مذہب صرف اپنے ہی برحق ہونے اور دوسرے مذہبوں کے باطل ہونے کی مُدعی ہے اسی طرح قرآن نے بھی اپنے پیش کردہ مذہب کے برحق ہونے کا دعوٰی کر دیا ہے۔ اور جب ایک مسلمان اسے پڑھتا ہے تو وہ اس وجہ سے اس پر غور کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں سمجھتا کہ جس مذہب کو اس فقرے میں برحق کہا گیا ہے اسے وہ خود بھی برحق مانتا ہے۔ یا اگر غور وفکر کے لیے اس کے ذہن میں کوئی تحریک پیدا ہوتی ہے تو وہ بالعموم یہ رُخ اختیار کر لیتی ہے کہ عیسائیت، ہندومت، بودھ مت اور ایسے ہی دوسرے مذاہب سے اِسلام کا مقابلہ کرکے اس کی حقانیت ثابت کی جائے۔ لیکن درحقیقت قرآن میں یہ مقام ایسا ہے جس پر ایک سنجیدہ طالب علم کو ٹھیر کر بہت غور کرنا چاہیے، اُس سے زیادہ غور کرنا چاہیے جتنا اب تک اس پر کیا گیا ہے۔
قرآن کے اس دعوے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں ’’اَلدِّیْن‘‘اور ’’اَلْاِسْلَامُ‘‘کا مفہوم متعین کر لینا چاہیے۔
اَلِّدیْن َکا مفہوم
عربی زبان میں لفظ ’’دین‘‘ کئی معنوں میں آتا ہے۔ اس کے ایک معنی غلبہ اور استیلا کے ہیں۔ دوسرے معنی اطاعت اور غلامی کے۔ تیسرے معنی جزا اور بدلے کے۔ چوتھے معنی طریقے اور مسلک کے۔ یہاں یہ لفظ اسی چوتھے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی دین سے مراد طریقِ زندگی یا طرزِ فکر وعمل ہے جس کی پیروی کی جائے لیکن یہ خیال رہے کہ قرآن محض دین نہیں کہہ رہا ہے بلکہ الدین کہہ رہا ہے۔ اس سے معنی میں وہی فرق واضح ہو جاتا ہے جو انگریزی زبان میں (this is a way of life) کہنے کے بجائے (this is the way of life) کہنے سے واقع ہوتا ہے یعنی قرآن کا دعوٰی یہ نہیں ہے کہ اللہ کے نزدیک اِسلام ایک طریق زندگی ہے بلکہ اس کا دعوٰی یہ ہے کہ اِسلام ہی ایک حقیقی اور صحیح طریقِ زندگی یا طرز فکر وعمل ہے۔
پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن اس لفظ کو کسی محدود معنی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ وسیع ترین معنی میں استعمال کرتا ہے۔ طریقِ زندگی سے اس کی مراد زندگی کے کسی خاص پہلو یا کسی خاص شعبے کا طریق نہیں بلکہ پوری زندگی کا طریق ہے، الگ الگ ایک ایک شخص کی انفرادی زندگی ہی کا طریق نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی سوسائٹی کا طریق بھی ہے۔ ایک خاص ملک یا ایک خاص قوم یا ایک خاص زمانے کی زندگی کا طریق نہیں بلکہ تمام زمانوں میں انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا طریق ہے۔ لہٰذا قرآن کے دعوے کا مفہوم یہ نہیں کہ اللّٰہ کے نزدیک پوجا پاٹ اور عالمِ بالا کے اعتقاد اور حیات بعد الممات کے تصوّر کا ایک ہی صحیح مجموعہ ہے جس کا نام اِسلام ہے۔ نہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ افراد ِانسانی کے مذہبی طرز خیال وعمل (جیسا کہ لفظ ’’مذہبی‘‘ کا مفہوم آج کل کی مغربی اصطلاح میں لیا جاتا ہے) کی ایک صحیح صورت وہی ہے جسے اِسلام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ عرب کے لوگوں، یا فلاں صدی تک کے انسانوں، یا فلاں دور کے مثلاً صنعتی انقلاب سے پہلے تک کے آدمیوں کے لیے ایک صحیح نظامِ زندگی وہی ہے جسے اِسلام سے موسوم کیا گیا ہے۔ بلکہ صریح طور پر اس کا دعوٰی یہ ہے کہ ہر زمانے اور ہر دَور میں پوری نوعِ انسانی کے لیے زمین پر زندگی بسر کرنے کا ایک ہی ڈھنگ اللہ کے نزدیک صحیح ہے، اور وہ ڈھنگ وہی ہے جس کا نام ’’ا لاسلام‘‘ ہے۔
مجھے یہ سن کر بڑا تعجب ہوا کہ ایشیا اور یورپ کے درمیان کسی مقام پر قرآن کی کوئی نئی تفسیر کی گئی ہے جس کی رُو سے’’دین‘‘ کا مفہوم صرف بندے اور خدا کے انفرادی تعلق تک محدود ہے اور تمدن وریاست کے نظام سے اس کا کوئی علاقہ نہیں ہے۔({ FR 1275 })یہ تفسیر اگر خود قرآن سے اخذ کی گئی ہے تو یقینا بڑی دل چسپ چیز ہو گی لیکن میں نے اٹھارہ سال تک قرآن کا جو تحقیقی مطالعہ کیا ہے اس کی بِنا پر مَیں بلا خوف تردیدکہتا ہوں کہ قرآن اپنے تمام جدید مفسرین کی خواہشات کے علی الرغم‘ الدین کے لفظ کو محدود معنی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ اس سے تمام زمانوں کے تمام انسانوں کے لیے ان کی پوری زندگی کا نظام فکر وعمل مراد لیتا ہے۔
الاِسلام کا مفہوم
اب لفظ ’’اِسلام‘‘ کو لیجیے۔ عربی زبان میں اس کے معنی ہیں سپر ڈال دینا، جھک جانا، اطاعت قبول کر لینا، اپنے آپ کو سپرد کر دینا مگر قرآن محض اِسلام نہیں بولتا بلکہ اَلْاِسْلَاَمْ بولتا ہے جو اس کی خاص اصطلاح ہے۔ اس مخصوص اصطلاحی لفظ سے اس کی مراد خدا کے آگے جھک جانا، اس کی اطاعت قبول کر لینا، اس کے مقابلے میں اپنی آزادی سے دست بردار ہو جانا، اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دینا ہے۔ اس کی تسلیم واطاعت اور سپردگی وحوالگی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قانونِ طبیعت (law of nature)کے آگے سپر ڈال دے، جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا مفہوم قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ نہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے تخیل یا اپنے مشاہدات وتجربات سے خدا کی مرضی اور اس کے منشا کا جو تصوّر بطورِ خود اخذ کر لے اسی کی اطاعت کرنے لگے، جیسا کہ کچھ اور لوگوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے خود اپنے رسولوں کے ذریعے سے انسان کے لیے جس طریقِ فکر وعمل کی طرف راہ نمائی کی ہے اسے وہ قبول کر لے اور اپنی آزادیٔ فکر وعمل… یا بالفاظِ صحیح تر، آوارگیٔ فکر وعمل… چھوڑ کر اس کی پیروی واطاعت اختیار کر لے۔ اسی چیز کو قرآن ’’الاِسلام‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ درحقیقت کوئی جدید العہد مذہب نہیں ہے جس کی بِنا اب سے ۱۳۶۳ برس پہلے عرب میں محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ڈالی ہو بلکہ جس روز پہلی مرتبہ اس کرۂ زمین پر انسان کا ظہور ہوا اسی روز خدا نے انسان کو بتا دیا تھا کہ تیرے لیے صرف یہ ’’الاِسلام‘‘ ہی ایک صحیح طرز عمل ہے۔ اس کے بعد دُنیا کے مختلف گوشوں میں وقتاً فوقتاً جو پیغمبر بھی خدا کی طرف سے انسانوں کی راہ نمائی کے لیے مامور ہوئے ہیں اُن سب کی دعوت بھی بلا استثنا اِسی ’’الاِسلام‘‘ کی طرف رہی ہے جس کی طرف بالآخر محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دُنیا کو دعوت دی۔ یہ اور بات ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے پیروئوں نے بعد میں بہت سی مختلف چیزوں کی آمیزش کرکے ایک نظام ’’یہودیت‘‘ کے نام سے اور مسیح علیہ السلام کے پیروئوں نے ایک دوسرا نظام’’ مسیحیت‘‘ کے نام سے، اور اسی طرح ہندوستان، ایران، چین اور دوسرے ممالک کے پیغمبروں کی امتوں نے مختلف مخلوط ومرکب نظامات دوسرے ناموں سے بنا لیے ہوں۔ لیکن موسیٰؑ اور مسیحؑ اور دوسرے تمام معروف وغیر معروف انبیا علیہم السلام جس دین کی دعوت دینے آئے تھے وہ خالص اِسلام تھا نہ کہ کچھ اور۔
قرآن کا دعوٰی کیا ہے؟
اس تشریح کے بعد قرآن کا دعوٰی بالکل صاف اور واضح صورت میں ہمارے سامنے آ جاتا ہے اور وہ یہ ہے:
’’نوعِ انسان کے لیے خدا کے نزدیک صرف یہی ایک صحیح طریق زندگی ہے کہ وہ خدا کے آگے سرِتسلیم خم کر دے اور فکر وعمل کی اس راہ پر چلے جس کی طرف خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے راہ نمائی کی ہے۔‘‘
یہ ہے قرآن کا دعویٰ۔ اب ہمیں تحقیق کرنا ہے کہ آیا یہ دعوٰی قبول کیا جانا چاہیے؟ خود قرآن نے اپنے اس دعوے کی تائید میں جو دلائل قائم کیے ہیں، ان پر تو ہم غور کریں گے ہی، مگر کیوں نہ اس سے پہلے خود اپنی جگہ تلاش وتجسس کرکے یہ دریافت کر لیں کہ آیا ہمارے لیے اس دعوے کو قبول کرنے کے سوا کوئی اور چارۂ کار بھی ہے؟
طریقِ زندگی کی ضرورت
یہ ظاہر ہے کہ دُنیا میں انسان کو زندگی بسر کرنے کے لیے بہرحال ایک طریقِ زندگی درکار ہے جسے وہ اختیار کرے۔ انسان دریانہیں ہے جس کا راستہ زمین کے نشیب وفراز سے خود معیّن ہو جاتا ہے۔ انسان درخت نہیں ہے جس کے لیے قوانینِ فطرت ایک راہ طے کر دیتے ہیں۔ انسان نِرا جانور نہیں ہے جس کی راہ نمائی کے لیے تنہا جبلّت ہی کافی ہو جاتی ہے۔ اپنی زندگی کے ایک بڑے حصے میں قوانینِ طبیعت کا محکوم ہونے کے باوجود انسان زندگی کے بہت سے ایسے پہلو رکھتا ہے جن میں اسے کوئی لگا بندھا راستہ نہیں ملتا کہ حیوانات کی طرح بے اختیار اس پر چلتا رہے، بلکہ اسے اپنے انتخاب سے خود ایک راہ اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اسے فکر کی ایک راہ چاہیے جس پر وہ اپنے اور کائنات کے اُن بہت سے مسائل کو حل کرے جنھیں فطرت اس کے سوچنے والے دماغ کے سامنے پیش تو کرتی ہے مگر اُن کا کوئی حل غیر مشتبہ زبان میں نہیں بتاتی۔ اسے علم کی ایک راہ چاہیے جس پر وہ اُن معلومات کو منظم کرے جنھیں فطرت اس کے حواس کے ذریعے سے اس کے ذہن تک پہنچاتی تو ہے مگر انھیں بطور خود منظم کرکے اس کے حوالے نہیں کر دیتی۔ اسے شخصی برتائو کے لیے ایک راہ چاہیے جس پر وہ اپنی ذات کے بہت سے ان مطالبات کو پورا کرے جن کے لیے فطرت تقاضا تو کرتی ہے مگر انھیں پورا کرنے کا کوئی مہذب طریقہ معین کرکے نہیں دیتی۔ اسے گھریلو زندگی کے لیے، خاندانی تعلقات کے لیے، معاشی معاملات کے لیے، ملکی انتظام کے لیے، بین الاقوامی ربط وتعلق کے لیے اور زندگی کے بہت سے دوسرے پہلوئوں کے لیے بھی ایک راہ درکار ہے جس پر وہ محض ایک شخص ہی سے نہیں بلکہ ایک جماعت، ایک قوم، ایک نوع کی حیثیت سے بھی چلے اور ان مقاصد تک پہنچ سکے جو اگرچہ فطرتاً اس کے مقصود ومطلوب ہیں مگر فطرت نے نہ تو ان مقاصد کو صریح طور پر اس کے سامنے نمایاں کیا ہے اور نہ ان تک پہنچنے کا ایک راستہ معین کر دیا ہے۔
زندگی کا انقسام پذیر نہ ہونا
زندگی کے یہ مختلف پہلو جن میں کوئی ایک طریق اختیار کرنا انسان کے لیے ناگزیر ہے، بجائے خود مستقل شعبے اور ایک دوسرے سے بے نیاز محکمے نہیں ہیں، اس بنا پر یہ ممکن نہیں ہے کہ ان مختلف شعبوں کے لیے انسان ایسی مختلف راہیں اختیار کر سکتا ہو جن کی سمتیں الگ ہوں، جن کے زادراہ الگ ہوں، جن پر چلنے کے ڈھنگ اور انداز الگ ہوں، جن کی راہ نوردی کے مقتضیات الگ ہوں، اور جن کی منازلِ مقصود الگ ہوں۔ انسان اور اس کی زندگی کے مسائل کو سمجھنے کی ایک ذرا سی دانش مندانہ کوشش ہی آدمی کو اس پر مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے کہ زندگی بحیثیتِ مجموعی ایک کُل ہے جس کا ہر جز دوسرے جز سے اور ہر پہلو دوسرے پہلو سے گہرا ربط رکھتا ہے، ایسا ربط جو توڑا نہیں جا سکتا۔ اس کا ہر جز دوسرے جز پر اثر ڈالتا ہے اور اس سے اثر قبول کرتا ہے۔ ایک ہی روح تمام اجزا میں سرایت کیے ہوتی ہے اور وہ سب مل کر وہ چیز بناتے ہیں جسے انسانی زندگی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا فی الواقع جو چیز انسان کو درکار ہے وہ زندگی کے مقاصد نہیں بلکہ مقصد ہے جس کے ضمن میں سارے چھوٹے بڑے مقاصد پوری موافقت کے ساتھ اپنی اپنی جگہ لے سکیں اور جس کے حصول کی کوشش میں وہ سب حاصل ہو جائیں۔ اسے راستے نہیں بلکہ راستہ درکار ہے جس پر وہ اپنی پوری زندگی کو اس کے تمام پہلوئوں سمیت کامل ہم آہنگی کے ساتھ اپنے مقصودِ حیات کی طرف لے چلے۔ اسے فکر، علم، ادب، آرٹ، تعلیم، مذہب، اَخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست، قانون وغیرہ کے لیے الگ الگ نظامات نہیں بلکہ ایک جامع نظام درکار ہے جس میں یہ سب ہمواری کے ساتھ سموئے جا سکیں، جس میں ان سب کے لیے ایک مزاج اور ایک ہی طبیعت رکھنے والے مناسب اصول موجود ہوں، اور جس کی پیروی کرکے آدمی اور آدمیوں کا مجموعہ اور من حیث الکل پوری آدمیت اپنے بلند ترین مقصود تک پہنچ سکے۔ وہ جاہلیت کا تاریک دَور تھا جب زندگی کو مستقل جداگانہ شعبوں میں تقسیم کرنا ممکن خیال کیا جاتا تھا۔ اب اگر کچھ لوگ اس طرز خیال کی مہمل گفتگو کرنے والے موجود ہیں تو وہ بے چارے یا تو اخلاص کے ساتھ پرانے خیالات کی فضا میں اب تک سانس لے رہے ہیں اس لیے قابلِ رحم ہیں، یا پھر وہ ظالم حقیقت کو خوب جانتے ہیں مگر جان بوجھ کر یہ یہ گفتگو صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ جس ’’دین‘‘ کو وہ کسی انسانی آبادی میں رائج کرنا چاہتے ہیں({ FR 1276 }) اس کے اصولوں سے اختلاف رکھنے والوں کو انھیں یہ اطمینان دلانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اس دین کے تحت تمھیں زندگی کے فلاں فلاں شعبوں میں، جو بدقسمتی سے تمھیں عزیز تر ہیں، پورا تحفظ حاصل رہے گا۔ حالانکہ یہ تحفظ عقلاً محال، فطرتاً ممتنع، عملاً ناممکن ہے اور اس طرح کی گفتگو کرنے والے غالباً خود بھی جانتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے۔({ FR 1277 }) ہر دینِ غالب زندگی کے تمام شعبوں کو اپنی روح اور اپنے مزاج کے مطابق ڈھال کر رہتا ہے۔ جس طرح ہر کان نمک ان تمام چیزوں کو مبدّل بہ نمک کرکے ہی رہتی ہے جو اس کے حدود میں داخل ہو جائیں۔
زندگی کی جغرافی ونسلی تقسیم
پھر جس طرح یہ بات مہمل ہے کہ انسانی زندگی کو جدا گانہ شعبوں میں تقسیم کر دیا جائے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ مہمل بات یہ ہے کہ اسے جغرافی حلقوں یا نسلی دائروں میں تقسیم کیا جائے۔ انسان بلاشبہ زمین کے بہت سے حصوں میں پایا جاتا ہے جنھیں دریائوں نے، پہاڑوں نے، جنگلوں اور سمندروں نے یا مصنوعی سرحدوں نے تقسیم کر رکھا ہے۔ اور انسان کی بہت سی مختلف نسلیں اور قومیں بھی ضرور پائی جاتی ہیں جن کے درمیان تاریخی، نفسیاتی اور دوسرے اسباب سے انسانیت کے نشووارتقا نے مختلف صورتیں اختیار کی ہیں۔ لیکن اس اختلاف کو حجت قرار دے کر جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہر نسل، ہر قوم، اور ہر جغرافی آبادی کے لیے ’’دین‘‘ یعنی نظامِ زندگی الگ ہونا چاہیے وہ سراسر ایک مہمل بات کہتا ہے۔ اُس کی محدود نگاہ مظاہر اور عوارض کے اختلافات میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ اس ظاہری کثرت کے اندر جو ہر انسانیت کی وحدت کو وہ نہیں پا سکا۔ اگر فی الواقع یہ اختلافات اتنی اہمیت رکھتے ہیں کہ ان کی بِنا پر دین الگ الگ ہونے چاہییں تو مَیں کہوں گا کہ زیادہ سے زیادہ جو اختلافات ایک ملک اور دوسرے ملک، ایک نسل اور دوسری نسل کے درمیان آپ پاتے ہیں، اُن سب کو جس قدر مبالغے کے ساتھ چاہیں قلم بند کریں، اور پھر اُن اختلافات کا خالص علمی جائزہ لیں جو عورت اور مرد میں پائے جاتے ہیں، جوہر انسان اور دوسرے انسان میں پائے جاتے ہیں، جو ایک ماں اور باپ کے دو بچوں میں پائے جاتے ہیں۔ شاید میں مبالغہ نہ کروں گا اگر یہ دعوٰی کروں کہ علمی تحلیل وتجزیہ میں پہلی قسم کے اختلافات سے یہ دوسری قسم کے اختلافات بہرحال شدید تر ہی نکلیں گے۔ پھر کیوں نہ کہہ دیجیے کہ ہر فرد کا نظامِ زندگی الگ ہونا چاہیے؟ مگر جب آپ انفرادی، جنسی، خاندانی کثرتوں کے اندر وحدت کا ایک عنصر اور پائیدار عنصر ایسا پاتے ہیں جس کی بنیاد پر قوم، وطن یا نسل کا تصوّر قائم ہو سکتا ہے اور اس تصوّر کی بنا پر ایک قوم یا ایک ملک کی کثیر آبادی کے لیے ایک نظامِ زندگی ہونا ممکن خیال کیا جاتا ہے، تو آخر کس چیز نے آپ کو روک دیا ہے کہ قومی، نسلی، وطنی کثرتوں کے درمیان ایک بڑی اور بنیادی وحدت کا عنصر آپ نہیں پا سکتے جس پر انسانیت کا تصوّر قائم ہو، اور جس کی بنا پر تمام عالمِ انسانی کا ایک دین یا نظامِ زندگی ہونا ممکن خیال کیا جائے؟ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ تمام جغرافی، نسلی اور قومی اختلافات کے باوجود اصل بنیادی امور میں سب انسان بالکل یکساں ہیں؟کیا وہ قوانینِ طبعی یکساں نہیں ہیں جن کے تحت انسان دُنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے؟ کیا وہ نظامِ جسمانی یکساں نہیں ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے؟ کیا وہ خصوصیات یکساں نہیں ہیں جن کی بنا پر انسان دوسری موجودات سے الگ ایک مستقل نوع قرار پاتا ہے؟ کیا وہ فطری داعیات اور مطالبات یکساں نہیں ہیں جو ان کے اندر ودیعت کیے گئے ہیں؟ کیا وہ قوتیں یکساں نہیں ہیں جن کے مجموعے کو ہم نفسِ انسانی کہتے ہیں؟ اور کیا بنیادی طور پر وہ تمام طبعی، نفسیاتی، تاریخی، تمدنی اور معاشی عوامل بھی یکساں نہیں ہیں جو انسانی زندگی میں کارفرما ہیں؟ اگر یہ واقعہ ہے کہ ان تمام امور میں سب انسانوں کے درمیان یکسانی پائی جاتی ہے تو پھر یقینا ان اصولوں کو بھی، جو انسان بحیثیت انسان کی فلاح کے لیے صحیح ہوں، عالم گیر ہونا چاہیے۔ اُن کے قومی یا نسلی یا وطنی ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ قومیں اور نسلیں ان اصولوں کے تحت اپنی خصوصیات کا اظہار اور جزوی طور پر اپنے معاملاتِ زندگی کا بندوبست مختلف طریقوں سے کر سکتی ہیں۔ اور انھیں ایسا کرنا چاہیے۔ مگر انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے جس صحیح دین یا نظامِ زندگی کی ضرورت ہے وہ بہرحال ایک ہی ہونا چاہیے۔ عقل یہ باور کرنے سے انکار کرتی ہے کہ جو چیز ایک قوم کے لیے حق ہو وہ دوسری قوم کے لیے باطل ہوجائے اور جوایک قوم کے لیے باطل ہو وہ دوسری قوم کے لیے حق ہو جائے۔
زندگی کی زمانی تقسیم
ان مہملات اور جدید زمانے کے عالمانہ مہملات میں سے ایک اور بات، جو حقیقت کے اعتبار سے مہمل ترین ہے مگر حیرت ہے کہ یقینیت کے پورے وثوق کے ساتھ پیش کی جاتی ہے انسانی زندگی کی زمانی تقسیم ہے۔ یعنی کہا جاتا ہے، کہ جو نظامِ زندگی ایک دور میں حق ہوتا ہے وہ دوسرے دور میں باطل ہو جاتا ہے کیوں کہ زندگی کے مسائل ومعاملات ہر دَور میں بدل جاتے ہیں، اور نظامِ زندگی کا حق یا باطل ہونا سراسر ان مسائل ومعاملات ہی کی نوعیت پر منحصر ہے۔ یہ بات اسی انسانی زندگی کے متعلق کہی جاتی ہے جس کے متعلق ساتھ ارتقا کی گفتگو بھی کی جاتی ہے، جس کی تاریخ میں کارفرما قوانین بھی تلاش کیے جاتے ہیں، جس کے گزشتہ تجربات سے حال کے لیے سبق اور مستقبل کے لیے احکام بھی مستنبط کیے جاتے ہیں، اور جس کے لیے ’’انسانی فطرت‘‘ نامی ایک چیز بھی ثابت کی جاتی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کیا آپ کے پاس کوئی ایسا آلۂ پیمائش ہے جس سے آپ نوعِ انسانی کی اس مسلسل تاریخی حرکت کے درمیان دَور یا زمانے یا عہد کی واقعی حد بندیاں کر سکتے ہوں؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ ان حد بندیوں میں سے کسی ایک خط پر انگلی رکھ کر آپ کہہ سکتے ہوں کہ اس خط کے اس پار جو مسائل زندگی تھے وہ اس پار آ کر تبدیل ہو گئے، اور جو حالات اس پار تھے وہ اس پار باقی نہیں رہے؟ اگر فی الواقع انسانی سرگزشت ایسے ہی الگ الگ زمانی ٹکڑوں میں منقسم ہے تب تو یوں سمجھنا چاہیے کہ ایک ٹکڑا جو گزر چکا ہے وہ بعد والے ٹکڑے کے لیے محض ایک فضول ولا یعنی چیز ہو گیا۔ اس کے گزرتے ہی وہ سب کچھ ضائع ہو گیا جو انسان نے اس حصۂ دہر میں کیا تھا۔ اس زمانے میں جو تجربات انسان کو ہوئے وہ بعد والے زمانے کے لیے کوئی سبق اپنے اندر نہیں رکھتے۔ کیوں کہ وہ حالات ومسائل ہی فنا ہو گئے جن میں انسان نے بعض طریقوں کا، بعض اصولوں کا، بعض قدروں کے لیے سعی وجہد کا تجربہ کیا تھا۔ پھر یہ ارتقا کی گفتگو کیوں؟ یہ قوانینِ حیات کی تلاش کس لیے؟ یہ تاریخی استنباط کس بنا پر؟ جب آپ ارتقا کا نام لیتے ہیں تو لامحالہ یہ اس بات کو متضمن ہے کہ وہاں کوئی چیز ضرور ہے جو تمام تغیرات کا موضوع بنتی ہے اور ان تغیرات کے اندر اپنے آپ کو باقی رکھتے ہوئے پیہم حرکت کرتی ہے۔ جب آپ قوانینِ حیات پر بحث کرتے ہیں تو یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ ان ناپائدار حالات میں، ان رواں دواں مظاہر میں، ان بننے اور بگڑنے والی صورتوں میں کوئی پائدار اور زندہ حقیقت بھی ہے جو اپنی ایک ذاتی فطرت اور اپنے کچھ مستقل قوانین بھی رکھتی ہے۔ جب آپ تاریخی استنباط کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تاریخ کے اس طول طویل رستے پر جو مسافر مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا آ رہا ہے اور منزلوں پر منزلیں طے کرتا چلا آ رہا ہے، وہ خود اپنی کوئی شخصیت اور اپنا کوئی مستقل مزاج رکھتا ہے جس کے متعلق یہ حکم لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مخصوص حالات میں مخصوص طور پر کام کرتا ہے، ایک وقت میں بعض چیزوں کو قبول کرتا ہے اور دوسرے وقت میں انھیں رد کر دیتا ہے اور بعض دوسری چیزوں کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ زندہ حقیقت، یہ پائدار موضوعِ تغیرات، یہ شاہراہِ تاریخ کا مستقل مسافر وہی تو ہے جسے آپ غالباً ’’انسانیت‘‘ کہتے ہیں مگر کیا بات ہے کہ جب آپ راستے کی منزلوں اور ان میں پیش آنے والے حالات اور اُن سے پیدا ہونے والے مسائل پر گفتگو شروع کرتے ہیں تو اس گفتگو میں ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ خود مسافر آپ کو یاد نہیں رہتا؟ کیا یہ سچ ہے کہ منزلیں اور اُن کے حالات اور اُن کے مسائل بدل جانے سے مسافر اور اس کی حقیقت بھی بدل جاتی ہے؟ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک اس کی ساخت بالکل نہیں بدلی۔ اس کے عناصر ترکیبی وہی ہیں، اس کی فطرت کے تقاضے وہی ہیں، اس کی صفات وخصوصیات وہی ہیں، اس کے رجحانات ومیلانات وہی ہیں، اس کی قوتیں اور صلاحیتیں وہی ہیں، اس کی کم زوریاں اور قابلیتیں وہی ہیں، اس پر کار فرمائی کرنے والی قوتیں وہی ہیں، اور اس کا کائناتی ماحول بھی وہی ہے۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی ابتدائے آفرینش سے آج تک ذرّہ برابر فرق نہیں آیا ہے۔ کوئی شخص یہ دعوٰی کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ تاریخ کے دوران میں حالات اور اُن سے پیدا ہونے والے مسائلِ زندگی کے تغیر سے خود انسانیت بھی بدلتی چلی آئی ہے یا وہ بنیادیں بھی متغیر ہوتی رہی ہیں جو انسانیت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پھر جب حقیقت یہ ہے تو اس دعوے میں کیا وزن ہو سکتا ہے کہ انسان کے لیے جو چیز کل تریاق تھی وہ آج زہر ہے، جو چیز کل حق تھی وہ آج باطل ہے، جو چیز کل قدر رکھتی تھی وہ آج بے قدر ہے۔
انسان کیسے طریقِ زندگی کا حاجت مند ہے
اصل یہ ہے کہ انسانی افراد اور جماعتوں نے تاریخ کے دوران میں نفس ِ انسانیت کو اور اس سے تعلق رکھنے والی بنیادی چیزوں کو سمجھنے میں دھوکا کھا کر اور بعض حقیقتوں کے اعتراف میں مبالغہ اور بعض کے ادراک میں قصور کرکے جو غلَط نظامِ زندگی وقتاً فوقتاً اختیار کیے، اور جنھیں انسانیت کُبرٰی (humanity at large) نے تجربے کے بعد غلَط پا کر دوسرے ایسے ہی نظامات کے لیے جگہ خالی کرنے پر مجبور کر دیا، ان کی سرگزشت کے مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا گیا ہے کہ انسانیت کے لیے لازماً ہر دَور میں ایک الگ نظامِ زندگی درکار ہے جو صرف اُسی دَور کے حالات ومسائل سے پیدا ہواور انھی کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ حالانکہ زیادہ صحت کے ساتھ اس سرگزشت سے اگر کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ اس قسم کے زمانی اور دوری نظاماتِ زندگی، یا بالفاظِ دیگر موسمی حشرات الارض کو بار بارآزمانے اور ہرایک کی ناکامی کے بعد اس کے دوسرے جانشین کا تجربہ کرنے میں انسانیت کُبریٰ کا وقت ضائع ہوتا ہے، اس کی راہ ماری جاتی ہے، اس کے نشووارتقا اور اپنے کمالِ مطلوب کی طرف اس کے سفر میں سخت رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ وہ دَرحقیقت محتاج اور سخت محتاج ہے ایسے نظام زندگی کی جو خود اسے اور اس سے تعلق رکھنے والی تمام حقیقتوں کو جان کر عالم گیر، دائمی اور پائدار اصولوں پر قائم کرسکے۔ جسے لے کر وہ حال ومستقبل کے تمام متغیر حالات سے بخیریت گزر سکے، ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کر سکے اور زندگی کے راستے پر اُفتاںوخیزاں نہیں بلکہ رواں اور دواں اپنی منزلِ مقصود کی طرف بڑھ سکے۔
کیا انسان ایسا نظام خود بنا سکتا ہے؟
یہ ہے اس ’’دین‘‘ یا طریقِ زندگی یا نظامِ زندگی کی نوعیت جس کا انسان حاجت مند ہے۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اگرانسان خدا کی مدد سے بے نیاز ہوکر خود اپنے لیے اس نوعیت کا ایک دین بنانا چاہے تو کیا وہ اس کوشش میں کام یاب ہو سکتا ہے؟ میں آپ کے سامنے یہ سوال پیش نہ کروں گا کہ آیا انسان اب تک ایسا دین خود بنانے میں کام یاب ہوا ہے؟ کیوں کہ اس کا جواب تو قطعاً نفی میں ہے۔ خود وہ لوگ بھی جو آج بڑے بڑے بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ اپنے اپنے دین پیش کر رہے ہیں اور اُن کے لیے ایک دوسرے سے لڑ مر رہے ہیں، یہ دعوٰی نہیں کر سکتے کہ ان میں سے کسی کا پیش کردہ دین ان ضرورتوں کو پورا کرتا ہے جن کے لیے انسان من حیث الانسان ایک ’’الدّین‘‘ کا محتاج ہے۔ کسی کا دین نسلی وقومی ہے، کسی کا جغرافی، کسی کا طبقاتی اورکسی کا دین پیدا ہی اس دَور کے تقاضوں سے ہوا ہے جو ابھی کل ہی گزر چکا ہے، رہا وہ دَور جوکل آنے والا ہے اس کے حالات ومسائل کے متعلق کچھ پیشگی نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں بھی وہ کام دے سکے گا یا نہیں، کیوں کہ جو دَور اب گزر رہا ہے ابھی تو اسی کے تاریخی تقاضوں کا جائزہ لینا باقی ہے۔ اس لیے مَیں سوال یہ نہیں کر رہا ہوں کہ انسان ایسا دین بنانے میں کام یاب ہوا ہے یا نہیں، بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ کام یاب ہو بھی سکتا ہے یا نہیں؟
یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جس سے سرسری طور پر بحث کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ انسانی زندگی کے فیصلہ کن سوالات میں سے ایک ہے۔ اس لیے پہلے اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ چیز کیا ہے جسے وضع کرنے کا سوال درپیش ہے، اور اس شخص کی قابلیتیں کیا ہیں جس کے متعلق پوچھا جا رہا ہے کہ وہ اسے وضع کر سکتا ہے یا نہیں؟
الدین کی نوعیت
انسان کے لیے جس ’’الدین‘‘ کی ضرورت میں نے ابھی ثابت کی ہے اس سے مراد کوئی ایسا تفصیلی ضابطہ نہیں ہے جس میں ہر زمانے اور ہر قسم کے حالات کے لیے تمام چھوٹے بڑے جزئیات تک مرتب ہوں اور جس کی موجودگی میں انسان کا کام صرف اس کے مطابق عمل کرنا ہو بلکہ دراصل اس سے مراد ایسے ہمہ گیر ازلی وابدی اصول ہیں جو تمام حالات میں انسان کی راہ نمائی کر سکیں۔ اس کی فکر ونظر، سعی وجہد اور پیش قدمی کے لیے صحیح رُخ متعین کر سکیں، اور اسے غلَط تجربات میں وقت اور محنت اور قوت ضائع کرنے سے بچا سکیں۔
اس غرض کے لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا علم… قیاس وگمان نہیں بلکہ ’’علم‘‘… ہو کہ اس کی اور کائنات کی حقیقت کیا ہے اور کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے۔
پھر وہ اس بات کے جاننے کا… سمجھ بیٹھنے کا نہیں بلکہ جاننے کا… حاجت مند ہے کہ آیا زندگی بس یہی دُنیا کی زندگی ہے یا یہ پوری زندگی کا ایک ابتدائی حصہ ہے۔ آیا سفر بس پیدائش سے لے کر موت تک کی مسافت کا ہے یا یہ پورے سفر میں سے محض ایک مرحلہ ہے۔
پھر اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ایک ایسا مقصدِ زندگی اس کے لیے متعین ہو جو حقیقت کے اعتبار سے… نہ کہ محض خواہش کی بنا پر… واقعی حیاتِ انسانی کا مقصود ہو جس کے لیے دراصل انسان پیدا کیا گیا ہو، اور جس کے ساتھ ہر فرد، ہر مجموعۂ افراد، اور بحیثیتِ کلی تمام انسانیت کے مقاصد تمام زمانوں میں بلا کسی تصادم ومزاحمت کے ہم آہنگ ہو سکیں۔
پھر اسے اَخلاق کے ایسے پختہ اور ہمہ گیر اُصولوں کی ضرورت ہے جو اس کی فطرت کی تمام خصوصیات کے ساتھ مناسبت بھی رکھتے ہوں اور تمام ممکن حالات پر نظری وعملی حیثیت سے منطبق بھی ہو سکتے ہوں، تاکہ وہ انھی اصولوں کی بنیاد پر اپنی سیرت کی تعمیر کر سکے، انھی کی راہ نمائی میں سفر زندگی کی ہر منزل پر پیش آنے والے مسائل کو حل کر سکے اور کبھی اس خطرے میں مبتلا نہ ہو کہ تغیر پذیر حالات ومسائل کے ساتھ اس کے اَخلاقی اصول ٹوٹتے اور بنتے چلے جائیں اور وہ محض ایک بے اصولا، نِرااِبنُ الوقت بن کر رہ جائے۔
پھر اس کو تمدن کے ایسے جامع اور وسیع اصولوں کی ضرورت ہے جو انسانی اجتماع کی حقیقت وغایت اور اس کے فطری تقاضوں کو سمجھ کر بنائے جائیں۔ جن میں افراط وتفریط اور بے اعتدالی نہ ہو۔ جن میں تمام انسانوں کی مجموعی مصلحت ملحوظ رکھی گئی ہو۔ جن کی پیروی کرکے ہر زمانے میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کی تشکیل، تعمیر اور ترقی کے لیے سعی کی جا سکے۔
پھر اسے شخصی کردار اور اجتماعی رویّے اور انفرادی واجتماعی سعی وعمل کو صحیح سمتِ سفر کا پابند اور بے راہ روی سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسے جامع حدود کی ضرورت ہے جو شاہ راہِ زندگی پر نشاناتِ راہ کا کام دیں اور ہر موڑ، ہر دوراہے، ہر خطرناک مرحلے پر اسے آگاہ کر دیں کہ تیرا راستہ اِدھر نہیں ہے بلکہ اُدھر ہے۔
پھر اس کو چند ایسے عملی ضابطوں کی ضرورت ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے دائمی اور عالم گیر پیروی کے قابل ہوں اور انسانی زندگی کو اُس حقیقتِ نفس الامری، اُس مآلِ زندگی، اُس مقصدِ حیات، اُن اصولِ اَخلاق، اُن اصولِ تّمدن اور اُن حدودِ عمل سے ہمیشہ وابستہ رکھیں جن کی تعیین اُس الدّین میں کی گئی ہو۔
یہ ہے وہ چیز جسے وضع کرنے کا سوال درپیش ہے۔ اب غور کیجیے کیا انسان ایسے ذرائع رکھتا ہے جن سے وہ خود اپنے لیے ایک ایسا الدین وضع کر سکے؟
انسانی ذرائع کا جائزہ
انسان کے پاس اپنا ’’دین‘‘ یا طریقِ زندگی اخذ کرنے کے ذرائع چار سے زیادہ نہیں ہیں۔ پہلا ذریعہ خواہش ہے دوسرا ذریعہ عقل ہے، تیسرا ذریعہ مشاہدہ وتجربہ ہے۔ چوتھا ذریعہ پچھلے تجربات کا تاریخی ریکارڈ ہے۔ غالباً ان کے سوا کسی پانچویں ذریعے کی نشان دہی نہیں کی جا سکتی۔ ان چاروں ذرائع کا جتنا مکمل جائزہ لے کر آپ دیکھ سکتے ہوں، دیکھیے۔ کیا یہ ’’الدین‘‘ کے ایجاد کرنے میں انسان کی مدد کر سکتے ہیں؟ میں نے اپنی عمر کا متعدبہ حصّہ اس کی تحقیق میں صَرف کیا ہے اور بالآخر اس نتیجے پر میں پہنچا ہوں کہ یہ ذرائع الدین کی ایجاد میں تو مدد نہیں دے سکتے البتہ اگر کوئی غیر انسانی راہ نما ’’الدّین‘‘ کو پیش کر دے تو اسے سمجھنے، پرکھنے، پہچاننے اور اس کے مطابق زندگی کے تفصیلی نظام کو وقتاً فوقتاً مرتب کرتے رہنے میں ضرور مددگار بن سکتے ہیں۔
۱۔ خواہش
پہلے خواہش کو لیجیے۔ کیا یہ انسان کی راہ نما بن سکتی ہے؟ اگرچہ یہ انسان کے اندر اصلی محرکِ عمل ہے، مگر اس کی عین فطرت میں جو کم زوریاں موجود ہیں ان کی بنا پر یہ راہ نمائی کے قابل ہرگز نہیں ہو سکتی۔ تنہا راہ نمائی کرنا تو درکنار، عقل اور علم کو بھی اکثر اس نے گمراہ کیا ہے۔ اس کو تربیت سے خواہ کتنا ہی روشن خیال بنا دیا جائے، فیصلہ جب کبھی اس پر چھوڑا جائے گا یہ بلامبالغہ ۹۹ فی صدی حالات میں غیر مستقیم فیصلہ کرے گی۔ کیوں کہ اس کے اندر جو تقاضے پائے جاتے ہیں وہ اسے صحیح فیصلہ کرنے کے بجائے ایسا فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں جس سے مطلوب کسی نہ کسی طرح جلد اور بآسانی حاصل ہو جائے۔ یہ بجائے خود ’’خواہش نفسانی‘‘ کی طبعی کم زوری ہے، لہٰذا ایک فرد کی خواہش ہو یا ایک طبقے کی، یا وہ خواہشِ عام (general will) جس کا رو سونے ذکر کیاہے، بہرحال کسی قسم کی انسانی خواہش میں بھی فطرتاً یہ صلاحیت نہیں ہے کہ ایک الدّین کے وضع کرنے میں مددگار بن سکے بلکہ جہاں تک مسائل عالیہ (ultimate problems) مثلاً حیاتِ انسانی کی حقیقت، اس کے مآل اور اس کی غایت کا تعلق ہے، ان کو حل کرنے میں تو وہ کسی طرح مددگار بن ہی نہیں سکتی۔
۲۔ عقل
پھر عقل کو لیجیے، اس کی تمام بہترین صلاحیتیں مسلّم، انسانی زندگی میں اس کی اہمیت بھی ناقابلِ انکار اور یہ بھی تسلیم کہ انسان کے اندر یہ بہت بڑی راہ نما طاقت ہے لیکن قطع نظر اس سوال کے کہ انسان کے لیے ’’الدین‘‘ کس کی عقل وضع کرے گی، زید کی؟ بکر کی؟ تمام انسانوں کی؟ یا انسانوں کے کسی خاص گروہ کی؟ اس زمانے کے لوگوں کی؟ یا کسی پچھلے زمانے والوں کی؟ یا آیندہ آنے والوں کی؟ سوال صرف یہ ہے کہ بجائے خود عقلِ انسانی کے حدود کا جائزہ لینے کے بعد کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’’الدین‘‘ کے وضع کرنے میں اُس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ اس کے تمام فیصلے منحصر ہیں اُس مواد پر جو حواس اُس کو فراہم کرکے دیں۔ وہ غلَط مواد فراہم کرکے دیں گے تو یہ غلَط فیصلہ کر دے گی، وہ ناقص مواد فراہم کرکے دیں گے تو یہ ناقص فیصلہ کر دے گی اور جن امور میں وہ کوئی مواد فراہم کرکے نہ دیں گے ان میں اگر یہ خود شناس ہے تو کوئی فیصلہ نہ کرے گی اور اگر برخود غلَط ہے تو اندھیرے میں چوبائی تیر چلاتی رہے گی۔ یہ محدود یتیں جس بے چاری عقل کے ساتھ لگی ہوئی ہیں وہ آخر کس طرح اس کی اہل ہو سکتی ہے کہ نوعِ انسانی کے لیے ’الدین‘ بنانے کی تکلیف اسے دی جائے۔ ’’الدین‘‘ بنانے کا انحصار جن مسائلِ عالیہ کے حل پر ہے اُن میں حواس سرے سے کوئی مواد فراہم ہی نہیں کرتے ہیں۔ پھر کیا عقل سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ناقص مواد پر صحیح وکامل قدریں متعین کرے گی۔ اسی طرح ’’الدین‘‘ کے جو دوسرے اجزائے ترکیبی میں نے بیان کیے ہیں ان میں سے کسی ایک جز کے لیے بھی حواس سے بالکل صحیح اورمکمل مواد حاصل نہیں ہو سکتا جس کی بنا پر عقل ایک جامع اور مکمل نظام بنا سکے۔ اور اس پر مزید یہ ہے کہ عقل کے ساتھ خواہش کا عنصر مستقل طور پر لگا ہوا ہے جو اسے ٹھیٹھ عقلی فیصلے دینے سے روکتا ہے اور اس کی راست روی کو کچھ ٹیڑھ کی طرف مائل کرکے ہی چھوڑتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ عقلِ انسانی حواس کے فراہم کردہ مواد کی ترتیب اور اس سے استدلال کرنے میں کوئی غلطی نہ کرے گی، تب بھی اپنی کم زوریوں کی بنا پر وہ اتنا بل بوتا نہیں رکھتی کہ اتنے بڑے کام کا بوجھ اس پر ڈالا جا سکے۔ یہ بوجھ اس پر ڈالنا اس پر بھی ظلم کرنا ہے اور خود اپنے اوپر بھی۔
۳۔ سائنس
اب تیسرے ذریعے کو لیجیے، یعنی وہ علم جو مشاہدات وتجربات سے حاصل ہوتا ہے۔ میں اس علم کی قدر وقیمت کا اعتراف کرنے میں کسی طالب علم سے پیچھے نہیں ہوں اور نہ ذرّہ برابر اس کی تحقیر کرنا پسند کرتا ہوں لیکن اس کی محدودیتوں کو نظر انداز کرکے اسے وہ وسعت دینا جو فی الواقع اسے حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک بے علمی ہے۔ ’’علم انسانی‘‘ کی حقیقت پر جس شخص کی بھی نظر ہو گی وہ اس بات کو ماننے سے انکار نہ کرے گا کہ جہاں تک مسائلِ عالیہ کا تعلق ہے، ان کی کنہ تک اس کی رسائی محال ہے کیوں کہ انسان کو وہ ذرائع حاصل ہی نہیں ہیں جن سے وہ اس تک پہنچ سکے۔ نہ وہ اس کا براہِ راست مشاہدہ کر سکتا ہے اور نہ مشاہدہ وتجربہ کے تحت آنے والی اشیا سے استدلال کرکے اس کے متعلق ایسی رائے قائم کر سکتا ہے جس پر ’’علم‘‘ کا اطلاق ہو سکتا ہو۔ لہٰذا ’’الدین‘‘ وضع کرنے کے لیے جن مسائل کا حل معلوم کرنا سب سے پہلی ناگزیر ضرورت ہے وہ تو علم کی دست رس سے باہر ہی ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ اَخلاقی قدریں، تمدّن کے اصول، اور بے راہ روی سے بچانے والے حدود معین کرنے کا کام آیا علم کے حوالے کیا جا سکتا ہے یا نہیں، تو اس بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ یہ کام کس شخص یا گروہ یا کس زمانے کا علم انجام دے گا، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ علمی طور پر یہ کام انجام دینے کے لیے ناگزیر شرائط کیا ہیں۔ اس کے لیے اوّلین شرط یہ ہے کہ اُن تمام قوانینِ فطرت کا علم ہو جن کے تحت انسان اس دُنیا میں جی رہا ہے۔ اس کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ خود انسان کی اپنی زندگی سے جو علوم تعلق رکھتے ہیں وہ مکمل ہوں۔ اس کے لیے تیسری شرط یہ ہے کہ ان دونوں قسم کے علوم یعنی کائناتی اور انسانیاتی علوم کی معلومات یک جا ہوں اور کوئی ذہنِ کامل انھیں صحیح ترتیب دے کر، اُن سے صحیح استدلال کرکے، انسان کے لیے اَخلاقی قدروں کا، تمدّن کے اصولوں کا اور بے راہ روی سے بچانے والی حدوں کا تعین کرے۔ یہ شرائط نہ اس وقت تک پوری ہوئی ہیں، نہ امید کی جا سکتی ہے کہ پانچ ہزار برس بعد پوری ہو جائیں گی۔ ممکن ہے کہ انسانیت کی وفات سے ایک دن پہلے یہ پوری ہو جائیں، مگر اس وقت اس کا فائدہ ہی کیا ہو گا۔
۴۔ تاریخ
آخر میں اُس ذریعۂ علم کو لیجیے جسے ہم پچھلے انسانی تجربات کا تاریخی ریکارڈ یا انسانیت کا نامۂ اعمال کہتے ہیں۔ اس کی اہمیت اور اس کے فائدوں سے مجھے انکار نہیں ہے۔ مگر میں کہتا ہوں، اور غور کریں گے تو آپ بھی مان لیں گے کہ ’’الدین‘‘ وضع کرنے کا عظیم الشان کام انجام دینے کے لیے یہ بھی ناکافی ہے۔ میں یہ سوال نہیں کرتا کہ یہ ریکارڈ ماضی سے حال کے لوگوں تک صحت اور جامعیت کے ساتھ پہنچا بھی ہے یا نہیں؟ میں یہ بھی نہیں پوچھتا کہ اس ریکارڈ کی مدد سے ’’الدین‘‘ وضع کرنے کے لیے انسانیت کا نمایندہ کس ذہن کو بنایا جائے گا؟ ہیکل کے ذہن کو؟ مارکس کے ذہن کو؟ ارنسٹ ہیکل کے ذہن کو؟ یا کسی اور ذہن کو؟ میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ماضی، حال، یا مستقبل میں کس تاریخ تک کا ریکارڈ ایک ’’الدین‘‘ وضع کرنے کے لیے کافی مواد فراہم کر سکے گا؟ اُس تاریخ کے بعد پیدا ہونے والے خوش قسمت ہیں۔ باقی رہے اس سے پہلے گزر جانے والے تو ان کا بس اللہ ہی حافظ ہے۔
مایوس کُن نتیجہ
یہ مختصر اشارات جو میں نے کیے ہیں، مجھے توقع ہے کہ میں نے ان میں کوئی علمی یا استدلالی غلطی نہیں کی ہے۔ اور اگر انسان کے ذرائع کا جائزہ جو میں نے لیا ہے، صحیح ہے تو پھر ہمیں کوئی چیز اس یقین تک پہنچنے سے باز نہیں رکھ سکتی کہ انسان اپنے لیے کوئی کچا پکا، غلَط سلط، وقتی اور مقامی ’’دین‘‘ تو وضع کر سکتا ہے، لیکن وہ چاہے کہ ’’الدین‘‘ وضع کر لے، تو یہ قطعی محال ہے۔ پہلے بھی محال تھا۔ آج بھی محال ہے، اور آیندہ کے لیے بھی اس کے امکان سے پوری مایوسی ہے۔
اب اگر کوئی خدا راہ نمائی کے لیے موجود نہیں ہے جیسا کہ منکرینِ خدا کا خیال ہے تو انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ خود کشی کر لے۔ جس مسافر کے لیے نہ کوئی راہ نما موجود ہو اور نہ جس کے اپنے پاس راستہ معلوم کرنے کے ذرائع موجود ہوں، اس کے لیے یا س اور کامل یاس کے سوا کچھ مقدر نہیں۔ اس کا کوئی ہم درد اس کے سوا اُسے اور کیا مشورہ دے سکتا ہے کہ سرِراہ ایک پتھر سے اپنی مشکل آسان کر لے۔ اوراگر خدا ہے لیکن راہ نمائی کرنے والا خدا نہیں ہے، جیسا کہ بعض فلسفیانہ اور سائنٹیفک طرز کے مثبتینِ خدا کا گمان ہے تو یہ اور بھی افسوس ناک صورت حال ہے۔ جس خدا نے موجوداتِ عالم کے بقا ونشوونما کے لیے ہر اس چیز کی فراہمی کا انتظام کیا ہے جس کی ضرورت کا تصوّر کیا جا سکتا ہو، لیکن ایک نہیں کیا تو صرف انسان کی اُس سب سے بڑی ضرورت کا انتظام جس کے بغیر پوری نوع کی زندگی غلَط ہوئی جاتی ہے، اس کی بنائی ہوئی دُنیا میں رہنا ایک مصیبت ہے، ایسی سخت مصیبت جس سے بڑھ کر کسی دوسری مصیبت کا تصوّر ممکن نہیں۔ آپ غریبوں اور مفلسوں، بیماروں اور زخمیوں، مظلوموں اور دکھی جنتائوں کی مصیبت پر کیا روتے ہیں، رویے اس پوری نوع کی مصیبت پر جو اس بیچارگی کے عالم میں چھوڑ دی گئی ہے کہ بار بار غلَط تجربہ کرکے ناکام ہوتی ہے، ٹھوکریں کھا کر گرتی ہے اور پھر اٹھ کر چلتی ہے تاکہ پھر ٹھوکر کھائے، ہر ٹھوکر پر ملک کے ملک اور قومیں کی قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اُس غریب کو اپنے مقصدِ زندگی تک کی خبر نہیں ہے، کچھ نہیں جانتی کہ کاہے کے لیے سعی وعمل کرے اور کس ڈھنگ پر کرے۔ یہ سب کچھ وہ خدا دیکھ رہا ہے جو اسے زمین پر وجود میں لایا ہے، مگر وہ بس پید ا کرنے سے مطلب رکھتا ہے، راہ نمائی کی پروا نہیں کرتا۔
اُمِّید کی ایک ہی کرن
اس تصویر کے بالکل برعکس قرآن ہمارے سامنے صورتِ حال کا ایک دوسرا نقشہ پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا محض پیدا ہی کر دینے والا نہیں ہے بلکہ راہ نمائی کرنے والا بھی ہے۔ اس نے موجوداتِ عالم میں سے ہر چیز کو وہ ہدایت بخشی ہے جو اس کی فطرت کے لحاظ سے اس کے لیے ضروری ہے: الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰىo طٰہٰ 50:20 اگر اس کا ثبوت چاہو تو جس چیونٹی، جس مکھی، جس مکڑی کو چاہو پکڑ کر دیکھ لو۔ جو خدا ان مخلوقات کی راہ نمائی کر رہا ہے وہی خدا انسان کی بھی راہ نمائی کرنے والا ہے۔ لہٰذا انسان کے لیے صحیح طریقِ کار یہ ہے کہ خود سَری چھوڑ کر اُس کے آگے سرِ تسلیم خم کر دے اور جس جامع اورمکمل نظامِ زندگی یا ’’الدّین‘‘ کی ہدایت اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجی ہے، اس کی پیروی اختیار کر لے۔
دیکھیے! ایک طرف تو وہ نتیجہ ہے جو انسان کی قوتوں اور اس کے ذرائع کا بے لاگ جائزہ لینے سے ہم کو حاصل ہوتا ہے، اور دوسری طرف قرآن کا یہ دعوٰی ہے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ یا تو اس دعوے کو قبول کریں، یا پھر اپنے آپ کو مایوسی اور اُس مایوسی کے حوالے کر دیں جس کے اندھیرے میں کہیں برائے نام بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ دراصل صورتِ حال یہ ہے ہی نہیں کہ ’’الدین‘‘ حاصل ہونے کے دو وسیلے موجود ہوں، اور سوال یہ ہو کہ ہم ان میں سے کس وسیلے سے مدد لیں۔ اصلی صورتِ حال یہ ہے کہ ’’الدین‘‘ جس وسیلے سے ہمیں مل سکتا ہے وہ صرف ایک ہے اور انتخاب کا سوال صرف اس امر میں ہے کہ آیا ہم اس تنہا وسیلے سے مدد لیں یا اس کی دست گیری کا فائدہ اٹھانے کے بجائے تاریکی میں بھٹکتے پھرنے کو ترجیح دیں۔
قرآن کے دلائل
یہاں تک جو استدلال میں نے کیا ہے وہ تو ہمیں محض اس حد تک پہنچاتا ہے کہ ہماری فلاح کے لیے قرآن کے اس دعوے کو قبول کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ یعنی بالفاظ دیگر’’کافرنتوانی شُد، ناچار مسلمان شو‘‘ لیکن قرآن اپنے دعوے کی تائید میں جو دلائل پیش کرتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ اعلیٰ واشرف ہیں، کیوں کہ وہ ہمیں بادلِ نخواستہ مسلمان ہونے کے بجائے برضا ورغبت مسلمان ہونے پر آمادہ کرتے ہیں۔ اس کی بہت سی دلیلوں میں سے چار سب سے زیادہ پُرزور ہیں اور انھی کو اُس نے بار بار بَہ تکرار پیش کیا ہے۔
(۱) انسان کے لیے اِسلام ہی ایک صحیح طریقِ زندگی ہے اس لیے کہ یہی حقیقت نفس الامری کے مطابق ہے اور اس کے سوا ہر دوسرا رویّہ خلافِ حقیقت ہے:
اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللہِ يَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَo آل عمران 83:3
’’کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ سب چیزیں جو آسمانوںمیں ہیں اور جو زمین میں ہیں چار وناچار اسی کے آگے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں اور اُسی کی طرف انھیں پلٹ کر جانا ہے۔‘‘
(۲) انسان کے لیے یہی ایک صحیح طریقِ زندگی ہے، کیوں کہ یہی حق ہے اور ازروئے انصاف اس کے سوا کوئی دوسرا رویّہ صحیح نہیں ہو سکتا۔
اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ۝۰ۣ يُغْشِي الَّيْلَ النَّہَارَ يَطْلُبُہٗ حَثِيْثًا۝۰ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍؚبِاَمْرِہٖ۝۰ۭ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَo الاعراف 54:7
’’حقیقت میں تمھارا رب (مالک وفرماں روا) تو اللّٰہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں ( یا دَوروں) میں پیدا کیا۔ پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ گر ہوا، جو دن کو رات کا لباس اڑھاتا ہے اور پھر رات کے تعاقب میں دن تیزی کے ساتھ دوڑاتا ہے۔ سورج اور چاند تارے سب کے سب جس کے تابع فرمان ہیں۔ سنو! خلق بھی اُسی کی ہے اور امر بھی اُسی کا۔ بڑا برکت والا ہے وہ کائنات کا ربّ۔‘‘
(۳) انسان کے لیے یہی رویّہ صحیح ہے، کیوں کہ تمام حقیقتوں کا صحیح علم صرف خدا ہی کو ہے اور بے خطا ہدایت وہی کر سکتا ہے۔
اِنَّ اللہَ لَا يَخْفٰى عَلَيْہِ شَيْءٌ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِo آل عمران 5:3
’’درحقیقت اللّٰہ سے نہ زمین کی کوئی چیز چھپی ہوئی ہے اور نہ آسمان کی‘‘۔
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ۝۰ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ۝۰ۚ البقرہ 255:2
’’جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے، اور لوگ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر حاوی نہیں ہو سکتے، بجز ان چیزوں کے جن کا علم وہ خود اُنھیں دینا چاہے۔‘‘
قُلْ اِنَّ ہُدَى اللہِ ہُوَالْہُدٰي۝۰ۭ الانعام 71:6
’’اے پیغمبر کہہ دو کہ اصلی ہدایت صرف خدا ہی کی ہدایت ہے۔‘‘
(۴) انسان کے لیے یہی ایک راہِ راست ہے، کیوں کہ اُس کے بغیر عدل ممکن نہیں۔ اس کے سوا جس راہ پر بھی انسان چلے گا وہ بالآخر ظلم ہی کی طرف جائے گی۔
وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۝۰ۭ الطلاق 1:65
’’جو اللہ کی مقرر کردہ حدوںسے تجاوز کرے اس نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا۔‘‘
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَo المائدہ 45:5
’’جو اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی ظالم ہیں۔‘‘
یہ دلائل ہیں جن کی بِنا پر معقول انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اللہ کے آگے سرِتسلیم خم کر دے اور ہدایت کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرے۔
خدائی ہدایت کے پرکھنے کا معیار
اب آگے بڑھنے سے پہلے مَیں ایک سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں جو لازماً اس مرحلے پر پہنچ کر ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے اور اپنی تحقیق کے دَوران میں خود میرے دل میں بھی پیدا ہو چکا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہر اس شخص کی بات مان لیں جو ایک دین ہمارے سامنے اس دعوے کے ساتھ پیش کر دے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو آخر ہمارے پاس وہ کیا معیار ہے جس سے ہم انسانی ساخت کے دین اور خدائی ہدایت کے دین میں فرق کر سکیں۔ اس کا جواب اگرچہ بڑی مفصل تحقیقی بحث چاہتا ہے، مگر میں یہاں مختصر اشاروں میں وہ چار بڑے معیار بیان کروں گا جو انسانی فکر اور خدائی فکر کو ممیز کرتے ہیں۔
انسانی فکر کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علم کی غلطی، اور محدودیت کا اثر لازماً پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خدائی فکر میں غیر محدود علم اور صحیح علم کی شان بالکل نمایاں ہوتی ہے۔ جو چیز خدا کی طرف سے ہو گی اس میں آپ ایسی کوئی چیز نہیں پا سکتے جو کبھی کسی زمانے میں کسی ثابت شدہ علمی حقیقت کے خلاف ہو، یا جس کے متعلق یہ ثابت کیا جا سکے کہ اس کے مصنف کی نظر سے حقیقت کا فلاں پہلو اوجھل رہ گیا۔ مگر اس معیارِ تحقیق کو استعمال کرتے ہوئے یہ بات نہ بھول جائیے کہ علم، اور علمی قیاس، اور نظریۂ علمی میں بڑا فرق ہے۔ ایک وقت میں جو علمی قیاسات اور علمی نظریات دماغوں پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں، اکثر غلطی سے ان کو ’’علم‘‘ سمجھ لیاجاتا ہے۔ حالانکہ ان کے غلَط ہونے کا بھی اتنا ہی امکان ہوتا ہے جتنا ان کے صحیح ہونے کا۔ تاریخ علم میں ایسے بہت کم قیاسات ونظریات کی نشان دہی کی جا سکتی ہے جو بالآخر ’’علم‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔
انسانی فکر کی دوسری بڑی کم زوری نقطۂ نظر کی تنگی ہے۔ اس کے برخلاف خدائی فکر میں وسیع ترین نقطۂ نظر پایا جاتا ہے۔ جب آپ خدائی فکر سے نکلی ہوئی کسی چیز کودیکھیں گے تو آپ کو ایسا محسوس ہو گا جیسے اس کا مصنف ازل سے ابد تک دیکھ رہا ہے، پوری کائنات کو دیکھ رہا ہے، تمام حقیقتوں کو بیک نگاہ دیکھ رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں بڑے سے بڑے فلسفی اور مفکّر کی فکر بھی ایک بچے کی فکر محسوس ہو گی۔
انسانی فکر کا تیسرا اہم خاصہ یہ ہے کہ اس میں حکمت ودانش، جذبات وخواہشات کے ساتھ کہیں نہ کہیں ساز باز اور مصلحت کرتی نظر آ ہی جاتی ہے۔ بخلاف اس کے خدائی فکر میں بے لاگ حکمت اور خالص دانش مندی کی شان اتنی نمایاں ہوتی ہے کہ اس کے احکام میں کہیں آپ جذباتی جھکائو کی نشان دہی نہیں کر سکتے۔ انسانی فکر کی ایک اور کم زوری یہ ہے کہ جو نظامِ زندگی وہ خود تصنیف کرے گا اس میں جانب داری، انسان اور انسان کے درمیان غیر عقلی امتیاز اور غیر عقلی بنیادوں ہی پر ترجیحِ بعض علیٰ بعض کا عنصر لازماً پایا جائے گا کیوں کہ ہر انسان کی کچھ ذاتی دل چسپیاں ہوتی ہیں، جو بعض انسانوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں اور بعض کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتیں۔ بخلاف اس کے خدائی فکر سے نکلا ہوا نظامِ زندگی ایسے ہی عنصر سے بالکل پاک ہو گا۔
اس معیار پر آپ ہر اُس نظام کو جانچ کر دیکھیے جو اپنے آپ کو خدا کی طرف سے ’’الدین‘‘ کہتا ہو۔ اگر وہ انسانی فکر کی ان تمام خصوصیات سے خالی ہو اور پھر جامعیت اور ہمہ گیری کی وہ شان بھی رکھتا ہو جو اس سے پہلے مَیں نے ’’اَلدّین‘‘کی ضرورت ثابت کرتے ہوئے بیان کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ اس پر ایمان لانے میں تامل کریں۔
ایمان کے تقاضے
اب مجھے اپنے خطبے کے بنیادی سوالات میں سے آخری سوال پر کچھ گفتگو کرنی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی جب قرآن کے اس دعوے کوتسلیم کر لے اور اُس ’’الدین‘‘پر ایمان لے آئے جس کے من جانب اللّٰہ ہونے کا اطمینان اُسے حاصل ہو گیا ہو، تو اس تسلیم کرنے اور ایمان لانے کے مقتضیات کیا ہیں۔
مَیں ابتدا میں عرض کر چکا ہوں کہ اِسلام کے معنی جھک جانے، سپر ڈال دینے، اپنے آپ کو سپرد کر دینے کے ہیں۔ اس جھکائو، سپردگی اور سپر اندازی کے ساتھ خودرائی، خود مختاری اور فکر وعمل کی آزادی ہرگز نہیں نبھ سکتی۔ جس دین پر بھی آپ ایمان لائیں آپ کو اپنی پوری شخصیت اس کے حوالے کر دینا ہو گی۔ اپنی کسی چیز کو بھی آپ اس کی پیروی سے مستثنیٰ نہیں کر سکتے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ آپ کے دل اور دماغ کا دین ہو، آپ کی آنکھ اور کان کا دین ہو، آپ کے ہاتھ اور پائوں کا دین ہو، آپ کے پیٹ اور دھڑ کا دین ہو، آپ کے قلم اور زبان کا دین ہو، آپ کے اوقات اور آپ کی محنتوں کا دین ہو، آپ کی سعی اور عمل کا دین ہو، آپ کی مَحبّت اور نفرت کا دین ہو، آپ کی دوستی اور دشمنی کا دین ہو، غرض آپ کی شخصیت کا کوئی جُز اور کوئی پہلو بھی اس دین سے خارج نہ ہو۔ اپنی کسی چیز کوجتنا اور جس حیثیت سے بھی آپ اس دین کے احاطے سے باہر اور اس کی پیروی سے مستثنیٰ رکھیں گے، سمجھ لیجیے کہ اسی قدر آپ کے دعوائے ایمان میں جھوٹ شامل ہے اور ہر راستی پسند انسان کا فرض ہے کہ اپنی زندگی کو جھوٹ سے پاک رکھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔
پھر یہ بھی مَیں ابتدا میں عرض کر چکا ہوں کہ انسانی زندگی ایک کُل ہے جسے الگ الگ شعبوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا انسان کی پوری زندگی کا ایک ہی دین ہونا چاہیے۔ دو دو اور تین تین دینوں کی بیک وقت پیروی بجز اس کے کچھ نہیں کہ ایمان کے ڈانواں ڈول اور عقلی فیصلے کے مضطرب ہونے کا ثبوت ہے۔ جب فی الواقع کسی دین کے ’’الدین‘‘ہونے کا اطمینان آپ حاصل کر لیں اور اس پر ایمان لے آئیں تو لازماً اسے آپ کی زندگی کے تمام شعبوں کا دین ہونا چاہیے۔ اگر وہ شخصی حیثیت سے آپ کا دین ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہی آپ کے گھر کا دین بھی نہ ہو اور وہی آپ کی تربیتِ اولاد کا، آپ کی تعلیم اور آپ کے مدرسے کا، آپ کے کاروبار اور کسب معاش کا، آپ کی مجلسی زندگی اور قومی طرزِ عمل کا، آپ کے تمدّن اور سیاست کا اور آپ کے ادب اور آرٹ کا دین بھی نہ ہو۔ جس طرح یہ بات محال ہے کہ ایک ایک موتی اپنی جگہ تو موتی ہو مگر جب تسبیح کے رشتے میں بہت سے موتی منظم ہوں تو سب مل کر دانۂ نَخُوْد بن جائیں، اسی طرح یہ بات بھی میرے دماغ کو اپیل نہیں کرتی کہ انفرادی حیثیت سے تو ہم ایک دین کے پیرو ہوں، مگر جب اپنی زندگی کو منظم کریں تو اس منظم زندگی کا کوئی پہلو اس دین کی پیروی سے مستثنیٰ رہ جائے۔
ان سب سے بڑھ کر ایمان کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ جس دین کے ’’الدین‘‘ہونے پر آپ ایمان لائیں اس کی برکتوں سے اپنے ابنائے نوع کو بہرہ مند کرنے کی کوشش کریں اور آپ کی تمام سعی وجہد کا مرکز ومحور یہ ہو کہ یہی ’’الدین‘‘تمام دُنیا کا دین ہو جائے۔ جس طرح حق کی فطرت یہ ہے کہ وہ غالب ہو کر رہنا چاہتا ہے اسی طرح حق پرستی کی بھی یہ عین فطرت ہے کہ وہ حق کو جان لینے کے بعد اسے غالب کرنے کی سعی کیے بغیر چین نہیں لے سکتی۔ جو شخص دیکھ رہا ہو کہ باطل ہر طرف زمین اور اس کے باشندوں پر چھایا ہوا ہے اور پھر یہ منظر اس کے اندر کوئی بے کلی، کوئی چبھن، کوئی تڑپ پیدا نہیں کرتا، اس کے دل میں اگر حق پرستی ہے بھی تو سوئی ہوئی ہے۔ اسے فکر کرنی چاہیے کہ نیند کا سکوت کہیں موت کے سکوت میں تبدیل نہ ہو جائے۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں