میری اس کتاب کا حصّہ اوّل اس سے پہلے شائع ہوچکا ہے‘ جو دراصل تین اجزاء پر مشتمل تھا۔
۱- میرے وہ مضامین جو ۱۹۳۷ء میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصّہ اول‘‘ کے نام سے ابتداء ً شائع ہوئے تھے‘ اور پھر ایک مدّت تک اسی نام سے کتابی صورت میں شائع ہوتے رہے۔
۲- وہ مضامین جو میں نے ۱۹۳۸ء میں’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش حصّہ دوم‘‘ کے نام سے شائع کئے تھے‘ اور وہ بھی ایک مدّت تک اسی نام سے شائع ہوتے رہے۔
۳- میری کتاب ’’مسئلہ قومیّت‘‘ کے بعض حصے جو ۱۹۳۹ء میں لکھے گئے تھے۔ ان سب کا موضوع ہندستان کے مسلمانوں کو ان خطرات سے آگاہ کرنا تھا‘ جو ملک کے تمام باشندوں کو ایک قوم فرض کر کے ایک لادینی جمہوری قومی ریاست میں ضم کر دینے سے ان کے دین‘ ان کی تہذیب اور ان کی انفرادیت کو لاحق ہوسکتے تھے۔ اگرچہ اب وہ زمانہ گزر چکا ہے‘ اور حالات بدل گئے ہیں‘ لیکن بہرحال ان مضامین کی ایک تاریخی اہمیت تھی‘ اس لیے ان کو ’’تحریک آزادیِ ہند اور مسلمان‘‘‘ حصّہ اوّل کے نام سے از سرِ نو شائع کیا گیا۔
اب اسی کتاب کا یہ دوسرا حصّہ شائع کیا جا رہا ہے‘ جو دو اجزاء پر مشتمل ہے:
۱- میرے وہ مضامین جو مئی ۳۹ء سے اپریل ۴۱ء تک لکھے گئے تھے‘ اور مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش حصّہ سوم کے نام سے اسی زمانے میں شائع ہوچکے تھے۔ ان میں سے ہر مضمون کی تاریخِ اشاعت درج کر دی گئی ہے‘ جس سے معلوم ہوسکتا ہے‘ کہ کیا بات کن حالات میں کہی گئی تھی۔
۲- وہ مضامین جو سیاسی کش مکش حصّہ سوم کی اشاعت کے بعد اسی موضوع سے تعلق رکھنے والے مسائل پر ۱۹۴۴ء سے ۱۹۴۸ء تک لکھے گئے۔ یہ سب مضامین اگرچہ رسالہ ترجمان القرآن میں اپنے اپنے وقت پر شائع ہوتے رہے تھے‘ لیکن ان کو کہیں یک جامرتّب نہیں کیا گیا تھا۔ اب پہلی مرتّبہ ان کو مرتّب کر کے اس کتاب میں ان کا اضافہ کر دیا گیا ہے‘ اور ان میں سے بھی ہر مضمون کی تاریخ اشاعت درج کر دی گئی ہے‘ تاکہ ہر بات کو اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھا اور سمجھا جا سکے۔
چونکہ یہ مضامین…… خصوصاً اس کتاب کے جزو ِاوّل کے مضامین……
برسوں سے میرے خلاف معاندانہ پروپیگنڈے کے لئے خوب خوب استعمال ہوئے ہیں‘ اور ان کی عبارتوں کو سیاق وسباق سے الگ کر کے عجیب عجیب معنی پہنائے جاتے رہے ہیں۔ اس لیے میں نے ترتیب ونظر ثانی کے وقت ان کی عبارات میں کوئی تغیّر نہیں کیا ہے۔اگر کسی چیز کی تشریح کرنے یا کسی چیز کا اضافہ کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے‘ تو اسے حاشیہ کی صورت میں درج کیا ہے‘ اور قدیم وجدید حواشی کے درمیان فرق کرنے کے لیے قوسین میں قدیم‘ یا جدید کے الفاظ لکھ دئیے ہیں‘ تاکہ کوئی غلط فہمی بھی پیدا نہ ہو‘ اور کوئی یہ بھی نہ کہہ سکے کہ معترضین کے اعتراضات سے بچنے کے لیے عبارتوں میں ردّو بدل کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی ایک تاریخی دستاویز ہے‘ جس سے معلوم ہوسکتا ہے‘ کہ میں ۱۹۳۹ء سے تقسیمِ ہند کے وقت تک ہندستان کے مسلمانوں سے کیا کہتا رہا ہوں ‘اور تقسیم کے بعد پاکستان کے مسلمانوں کو میں نے اسلام کے اصل نصب العین کی طرف توجہ دلانے کے لیے ۱۹۴۸ء میں کس طرح اپنی کوششوں کا آغاز کیا۔ تقسیم کے بعد گزشتہ ۲۵ سال کے دوران میں پیش آنے والے حالات کو نگاہ میں رکھ کر ہر شخص دیکھ سکتا ہے‘ کہ جو کچھ میں نے اس وقت لکھا تھا وہ حق تھا یانہیں۔معترضین کے پیش کردہ اقتباسات‘ جو زیادہ تر سیاق وسباق سے الگ نکال کر اور تاریخی سیاق کو بھی نظر انداز کر کے پیش کیے گئے ہیں‘ کسی شخص کو صحیح اور منصفانہ رائے قائم کرنے میں مدد نہیں دے سکتے۔ میری اصل عبارتیں پوری تاریخی ترتیب کے ساتھ بے کم وکاست اس کتاب میں ناظرین کے سامنے موجود ہیں۔ انہیں پڑھیں اور جو رائے قائم کرنا چاہیں کریں۔
لاہور
یکم نومبر ۱۹۷۲ء ابوالاعلیٰ