اِسلام کی اصطلاحی زبان کے جو الفاظ کثرت سے زبان پر آتے ہیں ان میں سے ایک لفظ ’’مجدّد‘‘ بھی ہے۔ اس لفظ کا ایک مجمل مفہوم تو قریب قریب ہر شخص سمجھتا ہے، یعنی یہ کہ جو شخص دین کو ازسر نو زندہ اور تازہ کرے وہ مجدّدہے۔ لیکن اس کے تفصیلی مفہوم کی طرف بہت کم ذہن منتقل ہوتے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ تجدید دین کی حقیقت کیا ہے ٗ کس نوعیت کے کام کو ’’تجدید‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ٗ اس کام کے کتنے شعبے ہیں ٗ مکمل تجدید کا اطلاق کس کارنامے پر ہو سکتا ہے اور جزوی تجدید کیا ہوتی ہے۔ اسی ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ لوگ ان مختلف بزرگوں کے کارناموں کی پوری طرح تشخیص نہیں کر سکتے جنھیں تاریخ اسلام میں مجدد قرار دیا گیا ہے۔ وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ عمربن عبدالعزیزؒ بھی مجدد،ٗ امام غزالیؒ بھی مجدد ، ابنِ تیمیہؒ بھی مجدد، شیخ احمد سرہندیؒ بھی مجدد اور شاہ ولی اللّٰہؒ بھی مجدد ، مگر انھیںیہ معلوم نہیں کہ کون کس حیثیت سے مجدد ہے اور اس کا تجدیدی کارنامہ کس نوعیت اورکس مرتبہ کا ہے؟ اس ذہول اور غفلت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جن ناموں کے ساتھ ’’حضرت‘‘، ’’امام‘‘ ، ’’حجۃ الاِسلام‘‘، ’’قطب العارفین‘‘، ’’زبدۃ السالکین‘‘ اوراسی قسم کے الفاظ لگ جاتے ہیں ان کی عقیدت مندی کا اتنا بوجھ دماغوں پر پڑ جاتا ہے کہ پھر کسی میں یہ طاقت نہیں رہتی کہ آزادی کے ساتھ ان کے کاموں کا جائزہ لے کر ٹھیک ٹھیک مشخص کر سکے کہ کس نے اس تحریک کے لیے کتنا اور کیسا کام کیا ہے، اور اس خدمت میں اس کا حصہ کس قدر ہے۔ عموماً تحقیق کی نپی تلی زبان کے بجائے ان بزرگوں کے کارنامے عقیدت کی شاعرانہ زبان میں بیان کیے جاتے ہیں جن سے پڑھنے والے پر یہ اثر پڑتا ہے ، اور شاید لکھنے والے کے ذہن میں بھی یہی ہوتا ہے کہ جس کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ فرد کامل تھا اور اس نے جو کچھ بھی کیا وہ ہر حیثیت سے کمال کے آخری مرتبے پر پہنچا ہوا تھا۔ حالانکہ اگر اب ہمیں تحریکِ اسلامی کی تجدید و احیا کے لیے کوئی کوشش کرنی ہے تو اس قسم کی عقیدت مندی اور اس ابہام و اجمال سے کچھ کام نہ چلے گا۔ ہمیںپوری طرح اس تجدید کے کام کو سمجھنا پڑے گا اور اپنی پچھلی تاریخ کی طرف پلٹ کر دیکھنا ہو گا کہ ان بہت سی صدیوں میں ہمارے مختلف لیڈروں نے کتنا کتنا کام کس کس طرح کیا ہے، ان کے کارناموں سے ہم کس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ان سے کیا کچھ چھوٹ گیا ہے جس کی تلافی پر اب ہمیں متوجہ ہونا چاہیے۔
یہ مضمون، ایک مستقل کتاب چاہتا ہے۔ مگر کتاب لکھنے کی فرصت کہاں۔ یہی غنیمت ہے کہ شاہ ولی اللّٰہ صاحب کا ذکر خیر چھڑ گیا جس کی وجہ سے اس مضمون کی طرف چند اشارے کرنے کا موقع نکل آیا۔ شاید کہ انھی اشاروں سے کسی اللّٰہ کے بندے کو تاریخ تجدید و احیائے دین کی تدوین کا راستہ مل جائے۔
یہ مقالہ جو اس وقت کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے ٗ ابتدائً جریدئہ ’’الفرقان‘‘ بریلی کے (شاہ ولی اللہ نمبر) کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس لیے اس میں شاہ صاحبؒ کے تجدیدی کارناموں پر نسبتاً زیادہ مفصل نگاہ ڈالی گئی ہے اور دوسرے مجددین کے کام کا ذکر ضمنی طور پر کیا گیا ہے۔ اس مقالہ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ اس میں تمام مجددین کے کارناموں کا احاطہ مقصود نہیں ہے بلکہ صرف ان بڑے بڑے مجددین کا ذکر کیا گیا ہے جو اسلام کی تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گئے ہیں۔ نیز یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ تجدید کا کام بہت لوگوں نے کیا اور ہر زمانہ میں بہت لوگ کرتے ہیں مگر ’’مجدد‘‘ کا لقب پانے کے مستحق کم ہی ہوتے ہیں۔
ابو الاعلیٰ
محرم ۱۳۶۰ھ، فروری ۱۹۴۰ء