انسان کو ابتدا سے اپنے متعلق بڑی غلط فہمی رہی ہے اور اب تک اس کی یہ غلط فہمی باقی ہے کہ کبھی وہ افراط پر اترتا ہے تو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے زیادہ بلند ہستی سمجھ لیتا ہے۔ غرور و تکبر اور سرکشی کی ہوا اس کے دماغ میں بھر جاتی ہے۔ کسی طاقت کو اپنے سے بالاتر تو کیا معنی، اپنا مدمقابل بھی نہیں سمجھتا۔ مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً اور اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی کی صدا بلند کرتا ہے اور اپنے آپ کو غیر ذمے دار اور غیر جواب دہ سمجھ کر جبر و قہر کا دیوتا، ظلم و جور اور شر و فساد کا مجسمہ بن جاتا ہے۔ کبھی تفریط کی جانب مائل ہوتا ہے تو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے زیادہ ذلیل ہستی سمجھ لیتا ہے۔ درخت، پتھر، دریا، پہاڑ، جانور، ہوا، آگ، بادل، بجلی، چاند، سورج، تارے، غرض ہر اس چیز کے سامنے گردن جھکا دیتا ہے جس کے اندر کسی قسم کی طاقت یا مضرت یا منفعت نظر آتی ہے، اور خود اپنے جیسے آدمیوں میں بھی کوئی قوت دیکھتا ہے تو انھیں بھی دیوتا اورمعبود مان لینے میں تامل نہیں کرتا۔
انسان کی حقیقت
اسلام نے ان دونوں انتہائی تصورات کو باطل کرکے انسان کی اصلی حقیقت اس کے سامنے پیش کی ہے۔ وہ کہتا ہے:
فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَo خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍo يَّخْرُجُ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِo الطارق 86:7-5
انسان اپنی حقیقت تو دیکھے کہ کس چیز سے پیدا ہوا ہے؟ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے جو پُشت اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے کھنچ کر آتا ہے۔
اَوَلَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ہُوَخَصِيْمٌ مُّبِيْنٌo وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَہٗ۰ۭ یٰسٓ 77-78:36
کیا انسان یہ نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے ایک قطرۂ آب سے بنایا ہے، اور اب وہ کھلم کھلا حریف بنتا ہے اور ہمارے لیے مثالیں دیتا ہے اور اپنی اصل کو بھول گیا ہے۔
وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍo ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہِيْنٍo ثُمَّ سَوّٰىہُ وَنَفَخَ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ السجدہ 7-9:32
انسان کی ابتدا مٹی سے کی، پھر مٹی کے نچوڑ سے جو ایک حقیر پانی ہے اس کی نسل چلائی، پھر اس کی بناوٹ درست کی اور اس میں اپنی روح پھونکی۔
فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَيْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ۰ۭ وَنُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ۰ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَـيْــــًٔا۰ۭ الحج 5:22
ہم نے تمھیں مٹی سے، پھر قطرۂ آب سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر پوری اور ادھوری بنی ہوئی بوٹی سے پیدا کیا تاکہ تمھیں اپنی قدرت دکھائیں، اور ہم جس نطفے کو چاہتے ہیں ایک مدت مقررہ تک رحمِ مادر میں ٹھیرائے رکھتے ہیں، پھر تمھیں بچہ بنا کر نکالتے ہیں، پھر تمھیں بڑھا کر جوانی کو پہنچاتے ہیں۔ تم میں سے کوئی وفات پا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کو پہنچ جاتا ہے کہ سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے بعد پھر ناسمجھ ہو جائے۔
يٰٓاَ يُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَ بِّكَ الْكَرِيْمِo الَّذِيْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَo فِيْٓ اَيِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَo الانفطار 6-8:82
اے انسان! کس چیز نے تجھے اپنے ربِ کریم سے مغرور کر دیا؟ اس رب سے جس نے تجھے پیدا کیا، تیرے اعضا درست کیے، تیرے قوٰی میں اعتدال پیدا کیا اور جس صورت میں چاہا تیرے عناصر کو ترکیب دی۔
وَاللہُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا۰ۙ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَ بْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَۃَ۰ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَo النحل 78:16
اور اللّٰہ ہی نے تمھیں تمھاری مائوں کے پیٹوں سے نکالا۔ جب تم نکلے تو اس حال میں تھے کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے۔ اس نے تمھیں کان دیے، آنکھیں دیں، دل دیے۔ شاید کہ تم شکر کرو۔
اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تُمْـنُوْنَo ءَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَo نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِيْنَo عَلٰٓي اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَكُمْ وَنُنْشِـىَٔـكُمْ فِيْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰى فَلَوْلَا تَذَكَّرُوْنَo اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَo ءَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَo لَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّہُوْنَo اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَo بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَo اَفَرَءَيْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَo ءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَo لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَo اَفَرَءَيْتُمُ النَّارَ الَّتِيْ تُوْرُوْنَo ءَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَہَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِــُٔوْنَo نَحْنُ جَعَلْنٰہَا تَذْكِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَo فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِo الواقعہ 58-74:56
کیا تم نے اس نطفے پر غور کیا جسے تم عورتوں کے رحم میں ٹپکاتے ہو؟ اس سے (بچہ) تم پیدا کرتے ہو یا ہم اس کے پیدا کرنے والے ہیں؟ ہم نے ہی تمھارے درمیان موت کا اندازہ مقرر کیا ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمھاری جسمانی شکلیں بدل دیں اور ایک اور صورت میں تمھیں بنا دیں جسے تم نہیں جانتے۔ اور تم اپنی پہلی پیدائش کو تو جانتے ہی ہو۔ پھر کیوں نہیں اس سے سبق حاصل کرتے؟ پھر کیا تم نے دیکھا کہ یہ کھیتی باڑی جو تم کرتے ہو، اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہم ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے بھُس بنا دیں اور تم باتیں بناتے رہ جائو کہ ہم نقصان میں رہے، بلکہ محروم رہ گئے۔ پھر کیا تم نے اس پانی کو دیکھا، جسے تم پیتے ہو؟ اسے تم نے بادلوں سے اتارا ہے یا اتارنے والے ہم ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کھاری بنا دیں۔ پس تم کیوں نہیں شکر ادا کرتے؟ پھر کیا تم نے اس آگ کودیکھا جسے تم سلگاتے ہو؟ اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟ ہم نے اسے ایک یاد دلانے والی چیز اور مسافروں کے لیے سامانِ زیست بنایا ہے۔ پس اے انسان اپنے خدائے بزرگ کی تسبیح کر۔
وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًاo اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِيْلًاo اَمْ اَمِنْتُمْ اَنْ يُّعِيْدَكُمْ فِيْہِ تَارَۃً اُخْرٰى فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّيْحِ فَيُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْ۰ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَيْنَا بِہٖ تَبِيْعًاo بنی اسرائیل67-69:17
جب کبھی سمندر میں تم پر طوفان کی مصیبت آئی تو تم اپنے سب معبودانِ باطل کو بھول گئے اور اس وقت خدا ہی یاد آیا۔ پھر جب اس نے تمھیں بچا کر خشکی پر پہنچا دیا تو تم پھر اعراض کی روش پر اتر آئے۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔ کیا تم اس سے بے خوف ہو گئے کہ خدا تمھیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر ہوا کا طوفان بھیج دے اور تم کوئی اپنا مددگار نہ پائو؟ کیا تم اس سے بے خوف ہو گئے کہ خدا تمھیں دوبارہ اس سمندر میں لے جائے اور تم پر ہوا کاایسا جھکڑ بھیج دے جو تمھیں تمھاری نافرمانی کے بدلے میں غرقاب کردے اور پھر تم ہمارا پیچھا کرنے والا کوئی حمایتی نہ پائو۔
ان آیات میں انسان کے غرور و تکبر کو توڑا گیا ہے۔ اسے اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ذرا اپنی حقیقت تو دیکھ۔ ایک نجس اور حقیر پانی کا قطرہ جو رحمِ مادر میں مختلف قسم کی نجاستوں سے پرورش پا کر گوشت کا ایک لوتھڑا بنتا ہے۔ خدا چاہے تو اس لوتھڑے میں جان ہی نہ ڈالے اور وہ یوں ہی غیر مکمل حالت میں خارج ہو جائے۔ خدا اپنی قدرت سے اس لوتھڑے میں جان ڈالتا ہے، اس میں حواس پیدا کرتا ہے اور ان آلات اور ان قوتوں سے اسے مسلح کرتا ہے جن کی انسان کو دنیوی زندگی میں ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح تو دنیا میں آتا ہے۔ مگر تیری ابتدائی حالت یہ ہوتی ہے کہ تو ایک بے بس بچہ ہوتا ہے، جس میں اپنی کوئی حاجت پوری کرنے کی قدرت نہیں ہوتی۔ خدا ہی نے اپنی قدرت سے ایسا سامان کیا ہے کہ تیری پرورش ہوتی ہے۔ تو بڑھتا ہے، جوان ہوتا ہے، طاقت ور اور قادر ہوتا ہے۔ پھر تیری قوتوں میں انحطاط شروع ہوتا ہے۔ تو جوانی سے بڑھاپے کی طرف جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت میں تجھ پر پھر وہی بے بسی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو بچپن میں تھی۔ تیرے حواس جواب دے دیتے ہیں، تیری قوتیں ضعیف ہو جاتی ہیں، تیرا علم نسیاً منسیاً ہو جاتا ہے، اور آخر کار تیری شمعِ حیات بجھ جاتی ہے۔ مال، اولاد،عزیز، دوست اور اقارب سب کو چھوڑ کر قبر میں جا پہنچتا ہے۔ اس مختصر عرصۂ حیات میں تو ایک لمحے کے لیے بھی اپنے آپ کو زندہ رکھنے پر قادر نہیں ہے۔ تجھ سے بالاتر ایک قوت ہے جو تجھ کو زندہ رکھتی ہے اور جب چاہتی ہے تجھ کو دنیا چھوڑنے پرمجبور کر دیتی ہے۔ پھر جتنی مدت تو زندہ رہتا ہے، قوانینِ قدرت سے جکڑا رہتا ہے۔ یہ ہوا، یہ پانی، یہ روشنی، یہ حرارت، یہ زمین کی پیداوار، یہ قدرتی سازوسامان، جن پر تیری زندگی کا انحصار ہے، ان میں سے کوئی بھی تیرے بس میں نہیں۔ نہ تو انھیں پیدا کرتا ہے، نہ یہ تیرے احکام کے تابع ہیں۔ یہی چیزیں جب تیرے خلاف آمادۂ پیکار ہو جاتی ہیں تو تُو اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں بے بس پاتا ہے۔ ایک ہوا کا جھکّڑ تیری بستیوں کو تہ و بالا کردیتا ہے۔ ایک پانی کا طوفان تجھے غرقاب کر دیتا ہے۔ ایک زلزلے کا جھٹکا تجھے پیوندِ خاک کر دیتا ہے۔ تو خواہ کتنے ہی آلات سے مسلح ہو، اپنے علم سے (جو خود بھی تیرا اپنا پیدا کیا ہوا نہیں ہے) کیسی ہی تدبیریں ایجاد کر لے، قدرت کی طاقتوں کے سامنے یہ سب چیزیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس بَل بوتے پر اکڑتا ہے، پُھولا نہیں سماتا، کسی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتا، فرعونیت اور نمرودیت کا دم بھرتا ہے، جبار و قہار بنتا ہے، ظالم و سرکش بنتا ہے، خدا کے مقابلے میں بغاوت کرتا ہے، خدا کے بندوں کا معبود بنتا ہے اور خدا کی زمین میں فساد پھیلاتا ہے۔
کائنات میں انسان کا درجہ
یہ تو تھی تکبر شکنی، دوسری طرف اسلام نوعِ بشر کو بتاتا ہے کہ وہ اتنا ذلیل بھی نہیں ہے جتنا اس نے اپنے آپ کو سمجھ لیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًاo بنی اسرائیل 70:17
اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور انھیں خشکی اور تری میں سواریاں دیں اور انھیں پاک چیزوں سے رزق عطا کیا اور بہت سی ان چیزوں پر جو ہم نے پیدا کی ہیں انھیں ایک طرح کی فضیلت عطا کی ہے۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ الحج 65:22
اے انسان! کیا تو نہیں دیکھتا کہ اللّٰہ نے ان سب چیزوں کو جو زمین میں ہیں، تمھارے لیے مطیع بنا دیا ہے۔
وَالْاَنْعَامَ خَلَقَہَا۰ۚ لَكُمْ فِيْہَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَاْكُلُوْنَo وَلَكُمْ فِيْہَا جَمَالٌ حِيْنَ تُرِيْحُوْنَ وَحِيْنَ تَسْرَحُوْنَo وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِيْہِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ۰ۭ اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌo وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْہَا وَزِيْنَۃً۰ۭ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo وَعَلَي اللہِ قَصْدُ السَّبِيْلِ وَمِنْہَا جَاۗىِٕرٌ۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ لَہَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَo ہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَـرٌ فِيْہِ تُسِيْمُوْنَo يُنْۢبِتُ لَكُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُوْنَ وَالنَّخِيْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَo وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ۰ۙ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۰ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِہٖ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَo وَمَا ذَرَاَ لَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَo وَہُوَالَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْہُ لَحْمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ حِلْيَۃً تَلْبَسُوْنَہَا۰ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَo وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ وَاَنْہٰرًا وَّسُـبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَo وَعَلٰمٰتٍ۰ۭ وَبِالنَّجْمِ ہُمْ يَہْتَدُوْنَo اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ۰ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَo وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا۰ۭ اِنَّ اللہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo النحل 5-18:16
اور جانوروں کو پیدا کیا جن میں تمھارے لیے سردی سے حفاظت کا سامان ہے اور منفعتیں ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔ ان میں تمھارے لیے ایک شانِ جمال ہے جب کہ تم صبح انھیں لے جاتے ہو اور شام واپس لاتے ہو۔ وہ تمھارے بوجھ ڈھو کر اس مقام تک لے جاتے ہیں جہاں تک تم بغیر جان کاہی کے نہیں پہنچ سکتے۔ تمھارا رب بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ گھوڑے اور خچر اور گدھے تمھاری سواری کے لیے ہیں اور سامانِ زیست ہیں۔ خدا اور بہت سی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمھیں علم بھی نہیں ہے… وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا، اس میں سے کچھ تمھارے پینے کے لیے ہے اور کچھ درختوں کی پرورش کے کام آتا ہے جن سے تم اپنے جانوروں کا چارا حاصل کرتے ہو۔ اس پانی سے خدا تمھارے لیے کھیتی اور انگور اور طرح طرح کے پھل اگاتا ہے، ان چیزوں میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ اسی نے تمھارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند اور تارے مسخر کیے ہیں۔ یہ سب اسی خدا کے حکم سے مسخر ہیں۔ ان میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ اور بہت سی وہ مختلف الالوان چیزیں جو اس نے زمین میں تمھارے لیے پیدا کی ہیں، ان میں سبق حاصل کرنے والوں کے لیے بڑی نشانی ہے۔ اور وہ خدا ہی ہے جس نے سمندر کو مسخر کیا کہ اس سے تم تازہ گوشت (مچھلی) نکال کر کھائو، اور زینت کا سامان (موتی وغیرہ) نکالو جنھیں تم پہنتے ہو۔ اور تو دیکھتا ہے کہ کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی سمندر میں بہتی چلی جاتی ہیں۔ چنانچہ سمندر کو اس لیے بھی مسخر کیا ہے کہ تم لوگ اللّٰہ کا فضل تلاش کرو (یعنی تجارت کرو) شاید کہ تم شکر بجا لائو۔ اس نے زمین میں پہاڑ لگا دیے کہ زمین تمھیں لے کر جھک نہ جائے، اور دریا اور راستے بنا دیے کہ تم منزلِ مقصود کی راہ پائو، اور بہت سی علامات بنائیں، من جملہ ان کے تارے بھی ہیں جن سے لوگ راستہ معلوم کرتے ہیں۔ اور اگر تم خدا کی نعمتوں کا شمار کرو تو انھیں بے حساب پائو گے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔
ان آیات میں انسان کو یہ بتایا گیا ہے کہ زمین میں جتنی چیزیں ہیں وہ سب تیری خدمت اور فائدے کے لیے مسخر کی گئی ہیں اور آسمان کی بھی بہت سی چیزوں کا یہی حال ہے۔ یہ درخت، یہ دریا، یہ سمندر، یہ پہاڑ، یہ جانور، یہ رات اور دن، یہ تاریکی اور روشنی، یہ چاند، یہ تارے، غرض یہ سب چیزیں جنھیں تو دیکھ رہا ہے، تیری خادم ہیں، تیری منفعت کے لیے ہیں، اور تیرے لیے انھیں کار آمد بنایا گیا ہے۔ تو ان سب پر فضیلت رکھتا ہے، تجھے ان سب سے زیادہ عزت دی گئی ہے، تجھے ان کا مخدوم بنایا گیا ہے، پھر کیا تو اپنے ان خادموں کے سامنے سرجھکاتا ہے؟ انھیں اپنا حاجت روا سمجھتا ہے؟ ان کے آگے دستِ سوال دراز کرتا ہے؟ ان سے اپنی مدد کی التجائیں کرتا ہے؟ ان سے ڈرتا ہے اور خوف کھاتا ہے؟ ان کی عظمت وبزرگی کے گیت گاتا ہے؟ اس طرح تو اپنے آپ کو خود ذلیل کرتا ہے، اپنا مرتبہ آپ گراتا ہے، خادموں کا خادم، غلاموں کا غلام خود بنتا ہے۔
انسان نائب خدا ہے
اس سے معلوم ہوا کہ انسان نہ اتنا عالی مرتبہ ہے جتنا وہ بزعمِ خود اپنے آپ کو سمجھتا ہے اور نہ اتنا پست و ذلیل ہے جتنا اس نے خود اپنے آپ کو بنا لیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر اس دنیا میں انسان کا صحیح مرتبہ کیا ہے؟ اس کا جواب اسلام یہ دیتا ہے:
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۰ۭ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْہَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْہَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ۰ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ۰ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَۃِ۰ۙ فَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُo قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْۢبِئْـھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕہِمْ۰ۚ فَلَمَّآ اَنْۢبَاَھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕہِمْ۰ۙ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۙ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَo وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۰ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ۰ۤۡوَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَo وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّۃَ وَكُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا۰۠ وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَo فَاَزَلَّہُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِـمَّا كَانَا فِيْہِ۰۠
البقرہ 30-36:2
اور جب کہ تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں، تو انھوں نے عرض کیا کہ کیا تو زمین میں اسے نائب بناتا ہے جو وہاں فساد پھیلائے گا اور خوںریزیاں کرے گا؟ حالاں کہ ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح اور تیری تقدیس کرتے ہیں۔ اللّٰہ نے فرمایا: میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اور اس نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھا دیے، پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام مجھے بتائو۔ انھوں نے کہا پاک ذات ہے تیری، ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے جو تو نے ہمیں سکھا دیا ہے، تو ہی علم رکھنے والا ہے اور تو ہی حکمت کا مالک ہے۔ خدا نے کہا اے آدم! ان فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتا۔ پس جب آدم نے انھیں اشیا کے نام بتائے تو خدا نے کہا، کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی سب مخفی باتیں جانتا ہوں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے اور چھپاتے ہو اس سب کا علم رکھتا ہوں؟ اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا، بجز ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اورنافرمانوں میں سے ہو گیا۔ اور ہم نے آدم سے کہا کہ اے آدم! تو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو اور اس میں جہاں سے چاہو بافراغت کھائو، مگر اس درخت کے پاس بھی نہ پھٹکو کہ تم ظالموں میں سے ہو جائو گے۔ مگر شیطان نے انھیں جنت سے اکھاڑ دیا اور وہ جس خوش حالی میں تھے اس سے انھیں نکلوا دیا۔
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍo فَاِذَا سَوَّيْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِيْنَo فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ كُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَo اِلَّآ اِبْلِيْسَ۰ۭ اَبٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَo قَالَ يٰٓـاِبْلِيْسُ مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَo قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍo قَالَ فَاخْرُجْ مِنْہَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌo وَاِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَۃَ اِلٰى يَوْمِ الدِّيْنِo الحجر28-35:15
اور جب کہ تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک کالے، سڑے ہوئے، سوکھے گارے سے ایک بشر بنانے والا ہوں، پھر جب میں اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو تم اس کے لیے سربہ سجود گر جانا۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ خدا نے کہا: ابلیس! تجھے کیا ہو گیا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوتا؟ ابلیس نے کہا میں ایسا نہیں ہوں کہ اس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے کالے سڑے ہوئے سوکھے گارے سے بنایا ہے۔ خدا نے کہا تو جنت سے نکل جا کہ تو راندہ ٔدرگاہ ہے اور یوم الجزا تک تجھ پر پھٹکارہے۔
اس مضمون کو مختلف طریقوں سے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے، اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو خدا نے زمین میں اپنا نائب بنایا، اسے فرشتوں سے بڑھ کر علم دیا، اس کے علم کو فرشتوں کی تسبیح و تقدیس پر ترجیح دی، فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے اس نائب کو سجدہ کرو، فرشتوں نے اسے سجدہ کر لیا، اور اس طرح ملکوتیت اس کے آگے جھک گئی، مگر ابلیس نے انکار کیا، اور اس طرح شیطانی قوتیں انسان کے آگے نہ جھکیں۔ حقیقت میں تو وہ مٹی کا ایک حقیر پتلا تھا مگر خدا نے اس میں جو روح پھونکی تھی اور اسے جو علم بخشا تھا، اس نے اسے نیابت ِ خداوندی کا اہل بنا دیا۔ فرشتوں نے اس کی اس فضیلت کو تسلیم کر لیا، اور اس کے آگے جھک گئے، لیکن شیطان نے اسے تسلیم نہ کیا۔ اس جُرم میں شیطان پر لعنت بھیجی گئی، مگر اس نے قیامت تک کے لیے مہلت مانگ لی کہ انسان کو بہکانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ شیطان نے انسان کو بہکایا، جنت سے نکلوا دیا اور اس وقت سے انسان اور شیطان میں کش مکش برپا ہے۔ خدا نے انسان سے کہہ دیا کہ جو ہدایت میں تجھے بھیجوں اسے مانے گا تو جنت میں جائے گا، اور اپنے ازلی دشمن شیطان کا حکم مانے گا تو دوزخ تیرا ٹھکانا ہو گا۔
منصبِ نیابت کی تشریح
اس بیان سے چند امور معلوم ہوتے ہیں: انسان کی حیثیت اس دنیا میں خدا کے خلیفہ کی ہے۔ خلیفہ کہتے ہیں نائب کو۔ نائب کا کام یہ ہے کہ جس کا وہ نائب ہے اس کی اطاعت کرے۔ وہ نہ تو اس کے سوا کسی اور کی اطاعت کر سکتا ہے کہ ایسا کرے تو باغی سمجھا جائے گا، اور نہ وہ اس کا مجاز ہے کہ اپنے آقا کی رعیت اور اس کے نوکروں اور خادموں اور غلاموں کوخود اپنی رعیت، اپنا نوکر، اپنا خادم، اپنا غلام بنا لے کہ ایسا کرے گا تب بھی باغی قرار دیا جائے گا، اور دونوں حالتوں میں سزا کا مستحق ہو گا۔ اسے جس جگہ نائب بنایا گیا ہے وہاں وہ اپنے آقا کی املاک میں تصرف کر سکتا ہے، انھیں استعمال کر سکتا ہے، اس کی رعیت پر حکومت کر سکتا ہے، اس سے خدمت لے سکتا ہے، ان کی نگرانی کر سکتا ہے، مگر اس حیثیت سے نہیں کہ وہ خود آقا ہے، اور نہ اس حیثیت سے کہ اس آقا کے سوا کسی اور کا ماتحت ہے، بلکہ صرف اس حیثیت سے کہ وہ اپنے آقا کا نائب ہے اور جتنی چیزیں اس کے زیرِ حکم ہیں ان پر اپنے آقا کا امین ہے۔ اس بنا پر وہ سچا اور پسندیدہ اور مستحق انعام نائب اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ اپنے آقا کی امانت میں خیانت نہ کرے، اس کی ہدایت پر عمل کرے، اس کے احکام سے سرتابی نہ کرے، اس کی املاک، اس کی رعیت، اس کے نوکروں، اس کے خادموں اور اس کے غلاموں پر حکومت کرنے، ان سے خدمت لینے، ان میں تصرف کرنے اور ان کی نگرانی کرنے میں اس کے بنائے ہوئے قوانین پر کار بند ہو۔ اگر وہ ایسا نہ کرے گا تو نائب نہیں باغی ہو گا، پسندیدہ نہیں مردود ہو گا، مستحق انعام نہیں مستوجب سزا ہو گا۔
فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَo وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَo البقرہ38-39:2
توجس نے میری ہدایات کی پیروی کی، ایسے لوگوں کے لیے کسی سزا کا خوف اور کسی نامرادی کا رنج نہیں ہے، اور جنھوں نے نافرمانی کی اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
نائب اور امین خود مختار نہیں ہوتا کہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرے، اپنے آقا کے مال اور اس کی رعیت میں جیسا چاہے تصرف کرے، اور اس سے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ بلکہ وہ اپنے آقا کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے، اسے پائی پائی کا حساب دینا ہوتا ہے، اس کا آقا اس کی ہر حرکت کے متعلق سوال کر سکتا ہے، اور اس کی امانت، اس کے مال اور اس کی رعیت میں اس نے جس طرح تصرف کیا ہے اس کے لیے اسے ذمے دار قرار دے کر جزا اور سزا دے سکتا ہے۔
نائب کا اوّلین فرض یہ ہے کہ جس کا وہ نائب ہے اس کی فرماں روائی، اس کی حکومت اور اس کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے گا تو نہ اپنے نائب ہونے کی حیثیت کو سمجھ سکے گا، نہ اپنے امین ہونے کے منصب کا کوئی صحیح تصور اس کے ذہن میں پیدا ہو گا، نہ اپنے ذمے دار اور جواب دہ ہونے کا احساس کر سکے گا، اور نہ اس امانت میں جو اس کے سپرد کی گئی ہے اپنی ذمے داریاں اور اپنے فرائض صحیح طور پر ادا کرنے کے قابل ہو گا۔ اول تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی دوسرے تخیل کے تحت انسان وہ طرزِ عمل اختیار کر سکے جو نیابت و امانت کے تخیل کے تحت وہ اختیار کرے گا۔ اور اگر بفرضِ محال اس کا طرزِ عمل ویسا ہو بھی تو اس کی کوئی قیمت نہیں، کیوں کہ آقا کی فرماں روائی تسلیم کرنے سے انکار کرکے تو وہ پہلے ہی باغی ہو چکا ہے، اب اگر اس نے اپنے نفس یا کسی اور کے اتباع میں اچھے عمل کیے بھی تو اس کا اجر اس سے طلب کرے جس کا اس نے اتباع کیا ہے، اس کے آقا کے ہاں اس کے وہ اعمال بے کار ہیں۔
انسان اپنی اصل کے اعتبار سے ایک حقیر مخلوق ہے، مگر اسے جو عزت حاصل ہوئی ہے وہ اس روح کی بِنا پر ہے جو اس میں پھونکی گئی ہے اور اس نیابتِ الٰہی کی بِنا پر ہے جو اسے اس زمین میں عطا کی گئی ہے۔ اب اس عزت کی حفاظت منحصر ہے اس پر کہ وہ شیطان کی پیروی کرکے اپنی روح کو گندا نہ کر دے اور اپنے آپ کو نیابت کے درجے سے گرا کر بغاوت کے مرتبے میں نہ لے جائے، کیوں کہ اس حالت میں وہ پھر وہی حقیر ہستی رہ جائے گا۔
ملکوتی طاقتیں انسان کے نائب خدا ہونے کو تسلیم کر چکی ہیں اور وہ اس کے آگے بحیثیت نائبِ خدا ہونے کے جھکی ہوئی ہیں، مگر شیطانی طاقتیں اس کی نیابت کو تسلیم نہیں کرتیں اور وہ اسے اپنا تابع بنانا چاہتی ہیں۔ انسان اگر دنیا میں نیابت ِ الٰہی کا حق ادا کرے گا اور خدا کی ہدایت پر چلے گا تو ملکوتی طاقتیں اس کا ساتھ دیں گی، ملائکہ کی فوجیں اس کے لیے اتریں گی۔ وہ عالم ملکوت کو کبھی اپنے سے منحرف نہ پائے گا۔ ان طاقتوں کی مدد سے وہ شیطان اور اس کے لشکروں کو مغلوب کر لے گا۔ لیکن اگر وہ نیابت کا حق ادا کرنے میں کوتاہی کرے گا اور خدا کی ہدایت پر نہ چلے گا تو ملکوتی طاقتیں اس کا ساتھ چھوڑ دیں گی، کیوں کہ اس طرح وہ خود اپنے منصبِ نیابت سے دست بردار ہو چکا ہو گا۔ اور جب اس کا ساتھ دینے والی کوئی طاقت نہ رہے گی اور وہ محض مٹی کا ایک پُتلا رہ جائے گا تو شیطانی قوتیں اس پر غالب آ جائیں گی۔ پھر شیطان اور اس کے لشکر ہی اس کے حمایتی اور مددگار ہوں گے، انھی کے احکام کی وہ پیروی کرے گا اور انھی کا سا انجام اس کا بھی ہو گا۔
نائب خدا ہونے کی حیثیت سے انسان کا درجہ دنیا کی تمام چیزوں سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں اس کے ماتحت ہیں اور اس لیے ہیں کہ وہ انھیں استعمال کرے اور اپنے آقا کے بتائے ہوئے طریقے پر ان سے خدمت لے۔ ان ماتحتوں کے آگے جھکنا اس کے لیے ذلت ہے۔ اگر وہ جھکے گا تو اپنے اوپر آپ ظلم کرے گا اور گویا نیابتِ الٰہی کے منصب سے خود دست بردار ہوجائے گا۔ لیکن ایک ہستی ایسی ہے جس کے سامنے جھکنا اور جس کی اطاعت کرنا اس کا فرض ہے، اور جسے سجدہ کرنے میں اس کے لیے عزت ہے۔ وہ ہستی کون ہے؟ خدا …اس کا آقا، وہ جس نے انسان کو اپنا نائب بنایا ہے۔
نوعِ انسانی کا کوئی مخصوص فرد یا مخصوص گروہ نائبِ خدا نہیں ہے، بلکہ پوری نوعِ انسانی نیابتِ الٰہی کے منصب پر سرفراز کی گئی ہے اور ہر انسان خلیفۂ خدا ہونے کی حیثیت سے دوسرے انسان کے برابر ہے۔ اس لیے نہ کسی انسان کو دوسرے انسان کے آگے جھکنا چاہیے اور نہ کسی کو یہ حق ہے کہ اپنے آگے جھکنے کا کسی دوسرے انسان سے مطالبہ کرے۔ ایک انسان دوسرے انسان سے صرف اس چیز کا مطالبہ کر سکتا ہے کہ وہ آقا کے حکم اور اس کی ہدایت کی پیروی کرے۔ اس معاملے میں پیروی کرنے والا آمر ہو گا اور پیروی نہ کرنے والا مامور، کیوں کہ جو نیابت کا حق ادا کرتا ہے وہ حقِ نیابت ادا نہ کرنے والے سے افضل ہے۔ مگر فضیلت کے معنی یہ نہیں کہ وہ خود اس کا آقا ہے۔
نیابت اور امانت کا منصب ہر انسان کو شخصا ً شخصا ً حاصل ہے۔ اس میں کوئی مشترک ذمے داری نہیں ہے۔ اس لیے ہر شخص اپنی اپنی جگہ اس منصب کی ذمے داریوں کے بارے میں جواب دہ ہے۔ نہ ایک پر دوسرے کے عمل کی جواب دہی عائد ہوتی ہے، نہ ایک کو دوسرے کے عمل کا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے، نہ کوئی کسی کو اس کی ذمے داریوں سے سبک دوش کر سکتا ہے، اور نہ کسی کی غلط روی کا وبال دوسرے پر پڑ سکتا ہے۔
انسان جب تک زمین میں ہے اور جب تک مٹی کے پُتلے (جسدِ انسانی) اور خدا کی پھونکی ہوئی روح میں تعلق باقی ہے، اس وقت تک وہ خدا کا نائب ہے۔ یہ تعلق منقطع ہوتے ہی وہ خلافتِ ارضی کے منصب سے الگ ہوجاتا ہے۔ اس کے زمانۂ نیابت کے افعال و اعمال کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے ۔ اس کے سپرد جو امانت کی گئی تھی، اس کا حساب کتاب ہونا چاہیے۔ اس پر نائب ہونے کی حیثیت سے جو ذمے داریاں عائد کی گئی تھیں، ان کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ اس نے انھیں کس طرح انجام دیا۔ اگر اس نے غبن، خیانت، نافرمانی، بغاوت اور نافرض شناسی کی ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے، اور اگر ایمان داری، فرض شناسی، اطاعت کوشی سے کام کیا ہے تو اس کا انعام بھی ملنا ضروری ہے۔
زندگی کا اسلامی تصور
اس لفظ خلافت ونیابت سے ایک اور اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ نکلتا ہے، نائب کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ اپنے آقا کی املاک میں اس کی جانشینی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے اور جہاں تک ممکن ہو ان میں اسی شان کا تصرف کرے جس شان کا تصرف خود حقیقی مالک کرتا ہے۔ بادشاہ اگر اپنی رعیت پر کسی شخص کو اپنا نائب بنائے تواس کے لیے اپنے منصبِ نیابت کے استعمال کا بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ رعیت کی خبر گیری، شفقت، مہربانی، حفاظت، عدل اور حسب موقع سختی کرنے میں وہی سیرت اختیار کرے جو خود بادشاہ کی سیرت ہے، اور بادشاہ کی املاک اور اس کے اموال میں ویسی ہی حکمت، تدبر، دانائی اور احتیاط سے تصرف کرے جس سے خود بادشاہ ان میں تصرف کرتا ہے۔
پس جب انسان کو خدا کا خلیفہ اور نائب قرار دیا گیا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسان خدا کی نیابت و خلافت کا پورا حق اس وقت ادا کر سکتا ہے، جب خدا کی مخلوق کے ساتھ برتائو کرنے میں اس کی روش بھی ویسی ہی ہو جیسی خود خدا کی روش ہے۔ یعنی جس شانِ ربوبیت کے ساتھ خدا اپنی مخلوق کی خبر گیری اور پرورش کرتا ہے ویسی ہی شان کے ساتھ انسان بھی اپنے محدود دائرۂ عمل میں ان چیزوں کی خبر گیری اور پرورش کرے جو اللّٰہ نے اس کے قبضۂ قدرت میں دی ہیں۔
اسی طرح جس شانِ رحمانی و رحیمی کے ساتھ خدا اپنی ملکیت میں تصرف کرتا ہے، جس شانِ عدل کے ساتھ خدا اپنی مخلوقات میں نظم قائم کرتا ہے، جس شانِ رحم و کرم کے ساتھ خدا اپنی صفتِ قہر و جبر کا اظہار کرتا ہے، چھوٹے پیمانے پر اسی شان کے ساتھ انسان بھی خدا کی اس مخلوق کے ساتھ معاملہ کرے جس پر اللّٰہ نے اسے حکومت بخشی ہے اور جسے اس کے لیے مسخر کیا ہے۔ یہی مفہوم ہے جو تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کے حکیمانہ جملے میں ادا کیا گیا ہے۔ مگر یہ اعلیٰ اخلاقی مرتبہ صرف اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب انسان اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ وہ اس دنیا میں کوئی خود مختار فرماں روا نہیں ہے بلکہ اس کے حقیقی فرماں روا کا نائب ہے، اور یہی نیابت کا منصب ہے جو دنیا کی تمام اشیا حتیٰ کہ خود اپنے جسم… اور جسمانی و نفسانی قوتوں کے ساتھ اس کے تعلق کی حیثیت اور حدود متعین کرتا ہے۔
منصبِ نیابت کی تشریح میں یہ جتنے نکات بیان ہوئے ہیں ان سب کی تفصیل قرآن مجید میں موجود ہے، جس سے دنیا اور انسان کے باہمی تعلق کا ہر پہلو روشن اور واضح ہو جاتا ہے۔
انسان نائب ہے نہ کہ مالک
کہا گیا ہے:
وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۰ۭ الانعام 165:6
وہ اللّٰہ ہی ہے جس نے تمھیں زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض سے اونچے درجے دیے، تاکہ جو کچھ اس نے تمھیں دیا ہے اس میں تمھاری آزمائش کرے۔
قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّہْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَo الاعراف 129:7
موسیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا قریب ہے کہ خدا تمھارے دشمن کو ہلاک کرے اور تمھیں زمین کی خلافت دے تاکہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟
يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَۃً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِo صٓ 26:38
اے دائود! ہم نے تجھے زمین میں اپنا نائب بنایا ہے پس تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور اپنی خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ یہ تجھے اللّٰہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللّٰہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لیے اس بِنا پر سخت عذاب ہے کہ وہ حساب کے دن کو بھول گئے۔
اَلَيْسَ اللہُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَo التین 8:95
کیا خدا تمام حاکموں کا حاکم نہیں ہے؟
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ الانعام 57:6
حکومت اللّٰہ کے سوا کسی کی نہیں ہے۔
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۰ۭ آل عمران 26:3
کہو کہ خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے، جسے چاہتا ہے معزز کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَo الاعراف 3:7
جو کچھ تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے ہدایت بھیجی گئی ہے صرف اسی کی پیروی کرو اور اس کے سوا دوسرے کارسازوں کی پیروی نہ کرو۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo الانعام 162:6
کہو کہ میری نماز اورمیری عبادت اورمیری زندگی اور میری موت سب خدا کے لیے ہے جو رب العالمین ہے۔
یہ آیات بتاتی ہیں کہ دنیا میں جتنی چیزیں انسان کے زیرِ تصرف اور زیرِ حکم ہیں حتیٰ کہ خود اس کا نفس بھی اس کی مِلک نہیں ہے۔ اصلی مالک اورحاکم اور فرماں روا خدا ہے۔ انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان چیزوں میں مالکانہ تصرّف کرے اور من مانے طریقوں سے ان کو استعمال کرے۔ اس کی حیثیت دنیا میں صرف نائب کی ہے اور اس کے اختیار کی حد بس اتنی ہے کہ خدا کی ہدایت پر چلے اور اس کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ان چیزوں میں تصرف کرے۔ اس حد سے تجاوز کرکے اپنے نفس کی پیروی کرنا یا فرماں روائے حقیقی کے سوا کسی اور فرماں روا کی پیروی کرنا بغاوت اور گم راہی ہے۔
دنیا میں کام یابی کی اوّلین شرط
کہا گیا کہ:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوْا بِاللہِ۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَo العنکبوت52:29
اور جو لوگ باطل پر ایمان لائے اور اللّٰہ سے کفر کیا، وہی دراصل نقصان میں ہیں۔
وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِہٖ فَيَمُتْ وَھُوَكَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۰ۚ البقرہ 217:2
تم میں سے جو کوئی اپنے دین یعنی خدا کی اطاعت سے پھر گیا اور اس حال میں مرا کہ وہ کافرتھا تو ایسے تمام لوگوں کے اعمال دنیا اورآخرت میں اکارت گئے۔
وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ۰ۡوَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo المائدہ 5:5
اور جو کوئی ایمان لانے سے انکار کرے اس کا عمل ضائع ہو گیا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ نائبِ خدا ہونے کی حیثیت سے دنیوی زندگی میں انسان کی کام یابی کا انحصار اس پر ہے کہ جس کا وہ نائب ہے اس کی فرماں روائی تسلیم کرے، اور دنیا میں جو کچھ کرے یہ سمجھ کر کرے کہ میں خدا کا نائب اور اس کا امین ہوں۔ اس حیثیت کو تسلیم کیے بغیر خدا کی ملکیت میں وہ جس قدر تصرف کرے گا وہ محض باغیانہ تصرف ہو گا۔ اور یہ قاعدے کی بات ہے کہ باغی اگر کسی ملک پر متصرف ہو کر بہتر کار گزاری بھی دکھائے تب بھی ملک کی اصلی حکومت اس کے حُسنِ عمل کو تسلیم نہ کرے گی۔ بادشاہ کی نگاہ میں باغی بہر حال باغی ہو گا، خواہ اس کی ذاتی سیرت اچھی ہو یا بُری، خواہ بغاوت کرکے اس نے ملک میں اچھی طرح تصرف کیا ہو یا بری طرح۔
دنیا برتنے کے لیے ہے
کہا گیا کہ:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا۰ؗۖ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌo اِنَّمَا يَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْۗءِ وَالْفَحْشَاۗءِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo البقرہ 168-169:2
اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال اور پاک ہے اس میں سے کھائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تمھیں بدی اور بے حیائی کا اور خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہنے کا حکم دیتا ہے جو تم نہیں جانتے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَo وَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ حَلٰلًا طَيِّبًا۰۠ وَّاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَo المائدہ 87-88:5
اے ایمان لانے والو! جو پاک چیزیں اللّٰہ نے تمھارے لیے حلال کی ہیں، انھیں اپنے اوپر حرام نہ کرو، اور حد سے بھی نہ گزرو کہ اللّٰہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور ان پاک اور حلال چیزوں میں سے کھائو جو اللّٰہ نے تمھیں عطا کی ہیں۔ اور اس خدا کے غضب سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَۃَ اللہِ الَّتِيْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ۰ۭ الاعراف 32:7
کہو کہ کس نے اللّٰہ کی اس زینت کو حرام کیا ہے جو اللّٰہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالی ہے اور کس نے پاک رزق کو حرام کر دیا ہے؟
يَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۰ۭ الاعراف 157:7
ہمارا پیغمبر انھیں نیکی کا حکم کرتا، اور بدی سے روکتا ہے، اور ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے اس بوجھ اور ان بندشوں کو دور کرتا ہے جو ان پر تھیں۔
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ۰ۭ البقرہ 198:2
تمھارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ اپنے رب کا فضل (یعنی کاروبار کے ذریعے سے روزی) تلاش کرو۔
وَرَہْبَانِيَّۃَۨ ابْتَدَعُوْہَا مَا كَتَبْنٰہَا عَلَيْہِمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَانِ اللہِ الحدید 27:57
اور رہبانیت کا طریقہ جو مسیح کے پیرووں نے خود نکال لیا تھا، یہ انھوں نے محض خدا کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، وہ ہم نے ان پر نہیں لکھا تھا۔
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــہَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۰ۡۖ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۰ۡوَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَo الاعراف 179:7
ہم نے جہنم کے لیے بہتیرے جن اور انسان پیدا کیے ہیں۔ ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سوچتے سمجھتے نہیں، اور ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں، اور ان کے پاس کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہی لوگ غفلت میں ہیں۔
یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ انسان کا کام دنیا کو چھوڑ دینا نہیں ہے، نہ دنیا کوئی ایسی چیز ہے کہ اس سے پرہیز اور حذر کیا جائے، اس سے دور بھاگا جائے، اس کے کاروبار، اس کے معاملات، اس کی نعمتوں اور اس کی لذتوں اور زینتوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا جائے۔ یہ دنیا انسان ہی کے لیے بنائی گئی ہے اور اس کا کام یہ ہے کہ اسے برتے اور خوب برتے، مگر برے اور بھلے، پاک اورناپاک، مناسب اور نامناسب کے فرق کو ملحوظ رکھ کر برتے، خدا نے اسے آنکھیں دی ہیں اس لیے کہ وہ ان سے دیکھے۔ کان دیے ہیں کہ ان سے سنے۔ عقل دی ہے کہ اس سے کام لے۔ اگر وہ اپنے حواس، اپنے اعضا اور اپنے قوائے ذہنی کو استعمال نہ کرے، یا استعمال کرے مگر غلط طریقے سے تو اس میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔
دنیوی زندگی کا مآل
کہا گیا:
اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا۰۪ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللہِ الْغَرُوْرُo
لقمان 33:31
آخرت کے متعلق اللّٰہ کا وعدہ یقینا ً سچا ہے۔ پس دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ فریب کار (شیطان) تمھیں خدا سے بے فکر کرے۔
وَاتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِيْہِ وَكَانُوْا مُجْرِمِيْنَo ھود 116:11
جن لوگوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا وہ ان دنیوی لذتوں کے پیچھے پڑے رہے جو انھیں دی گئی تھیں اور وہ مجرم تھے۔
وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ہَشِيْمًا تَذْرُوْہُ الرِّيٰحُ۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًاo اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۚ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ اَمَلًاo الکہف 45-46:18
ان کے سامنے دنیوی زندگی کی مثال پیش کر، وہ ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کی بدولت زمین کے برگ و بار گھنے ہو گئے، پھر آخر کار یہ سب نباتات بھوسا ہو کر رہ گئے، جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں۔ اللّٰہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ مال اور اولاد محض دنیوی زندگی کی زینت ہیں۔ مگر تیرے رب کے نزدیک ثواب اور آیندہ کی توقع کے اعتبار سے باقی رہنے والی نیکیاں ہی زیادہ بہتر ہیں۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَo المنافقون63:9
اے ایمان لانے والو! تمھارے اموال اورتمھاری اولاد تمھیںخدا کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ جو لوگ ایسا کریں گے دراصل وہی ٹوٹے میں ہیں۔
وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِيْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓي اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۰ۡ سبا 37:34
تمھارے اموال اور تمھاری اولاد وہ چیزیں نہیں ہیں جو تمھیں ہم سے قریب کرنے والی ہوں۔ ہم سے قریب صرف وہ ہے جو ایمان لایا اور جس نے نیک عمل کیا۔
اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِيْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۰ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ يَہِيْجُ فَتَرٰىہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا۰ۭ الحدید 20:57
جان رکھو کہ دنیا کی زندگی ایک کھیل، ایک تماشا، ایک ظاہری شان ہے، اور آپس میں تمھارا ایک دوسرے پر فخر کرنا، اور مال اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ بارش ہوئی، اس کی روئیدگی نے نافرمانوں کو خوش کر دیا۔ پھر وہ پک گئی اور تو نے دیکھا کہ وہ زرد پڑ گئی، پھر آخر کار وہ بھوسا ہو کر رہ گئی۔
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْــعٍ اٰيَۃً تَعْبَثُوْنَo وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَo
الشعرائ 128:26
کیا تم ہر اونچی جگہ بے نتیجہ یادگاریں بناتے اور عمارتیں کھڑی کرتے ہو؟ شاید کہ تمھیں ہمیشہ یہاں رہنا چاہے۔
اَتُتْرَكُوْنَ فِيْ مَا ہٰہُنَآ اٰمِنِيْنَo فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍo وَّزُرُوْعٍ وَّنَخْلٍ طَلْعُہَا ہَضِيْمٌo وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِہِيْنَo الشعرائ 146-149:26
کیا تم ان چیزوں میں جو یہاں ہیں اطمینان سے چھوڑ دیے جائو گے؟ ان باغوں، ان چشموں، ان کھیتیوں، ان نخلستانوں میں جن کے خوشے ٹوٹے پڑتے ہیں؟ تم پہاڑ کاٹ کاٹ کر گھر بنا رہے ہو اور خوش ہو۔
اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَۃٍ۰ۭ النسائ 78:4
تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں آئے گی، خواہ تم بڑے مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ ہو۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۰ۣ ثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَo العنکبوت57:29
ہر ہستی کو موت آنی ہے۔ پھر تم سب ہماری طرف واپس لائے جائو گے۔
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَo المومنون115:23
کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمھیں بے نتیجہ پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف واپس نہ لائے جائو گے؟
پہلے کہا گیا تھا کہ دنیا تمھارے لیے ہے، اور اسی لیے بنائی گئی ہے کہ تم اسے خوب اچھی طرح برتو۔ اب معاملے کا دوسرا رخ پیش کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ مگر تم دنیا کے لیے نہیں ہو، نہ اس لیے بنائے گئے ہو کہ یہ دنیا تمھیں برتے اور تم اسی میں اپنے آپ کو گم کر دو۔ دنیا کی زندگی سے دھوکا کھا کرکبھی یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ہمیں دائماً یہیں رہنا ہے۔ خوب یاد رکھو کہ یہ مال، یہ دولت، یہ شان و شوکت کے سامان، سب ناپائدار ہیں۔ سب کچھ دیر کا بہلاوا ہیں۔ سب کا انجام موت ہے اور تمھاری طرح یہ سب خاک میں مل جانے والے ہیں۔ اس ناپائدار عالم میں سے اگر کوئی چیز باقی رہنے والی ہے تو وہ صرف نیکی ہے، دل اور روح کی نیکی، عمل اور فعل کی نیکی۔
اعمال کی ذمے داری اور جواب دہی
پھر کہا گیا:
اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِيَۃٌ اَكَادُ اُخْفِيْہَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا تَسْعٰيo طٰہٰ 15:20
فیصلے کی گھڑی جسے ہم چھپانے کا ارادہ رکھتے ہیں آنے والی ہے تاکہ ہر نفس کو اس کی سعی کے مطابق بدلہ ملے۔
ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo النمل 90:27
کیا تمھیں تمھارے عملوں کے سوا کسی اور چیز کے لحاظ سے جزا دی جائے گی؟
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىo وَاَنَّ سَعْيَہٗ سَوْفَ يُرٰىo ثُمَّ يُجْزٰىہُ الْجَزَاۗءَ الْاَوْفٰىo وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَہٰىo النجم 39-42:53
اور یہ کہ انسان کو اتنا ہی ملے گا جتنی اس نے کوشش کی ہے اور اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ ملے گا، اور یہ کہ آخر کار سب کو تیرے پروردگار کے پاس پہنچنا ہے۔
وَمَنْ كَانَ فِيْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰى فَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًاo بنی اسرائیل 72:17
جو اس دنیا میں اندھا تھا، وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا، اور وہ راہِ راست سے بہت ہٹا ہوا ہے۔
وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo
البقرہ 110:2
تم اپنے لیے جو نیکیاں اس دنیا سے بھیجو گے انھیں اللّٰہ کے ہاں پائو گے۔ تم جو کچھ کرتے ہو اللّٰہ اسے دیکھتا ہے۔
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْہِ اِلَى اللہِ۰ۣۤ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَo البقرہ 281:2
اس دن سے ڈرو جب تم اللّٰہ کے پاس واپس کیے جائو گے، پھر ہرنفس کو اس کے کیے کا بدلہ ملے گا اور ان پر ہرگز ظلم نہ کیا جائے گا۔
يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا۰ۚۖۛ وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْۗءٍ۰ۚۛ
آل عمران 30:3
وہ دن جب کہ ہر نفس اپنی کی ہوئی نیکی اور اپنی کی ہوئی بدی کو حاضر پائے گا۔
وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَظْلِمُوْنَo
الاعراف 8-9:7
اس دن اعمال کا تولا جانا برحق ہے۔ جن کے اعمال کا پلڑا بھاری ہو گا، وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے، اور جن کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہو گا، وہی لوگ اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے ہوں گے، کیوں کہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے۔
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗo وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗo
الزلزال99:8-7
پس جو شخص ذرّہ برابر نیک عمل کرے گا، اس کا نتیجہ دیکھ لے گا، اور جو ذرہ برابر برا عمل کرے گا، اس کا نتیجہ بھی دیکھ لے گا۔
فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى۰ۚ
آل عمران 195:3
اللّٰہ نے ان کی دعا قبول کی اور کہا کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہ کروں گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔
وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ۰ۙ فَاَصَّدَّقَ وَاَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَo وَلَنْ يُّؤَخِّرَ اللہُ نَفْسًا اِذَا جَاۗءَ اَجَلُہَا۰ۭ المنافقون 10-11:63
ہم نے تمھیں جو کچھ بخشا ہے اس میں سے خرچ کر دو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے اور وہ کہے کہ میرے رب! کاش تو مجھے تھوڑی مہلت اور دیتا تو میں تیرے راستے میں خرچ کرتا اور نیکو کاروں میں سے ہوتا۔ مگر اللّٰہ کسی نفس کی مدتِ مقررہ آن پہنچنے کے بعد پھر اسے مہلت ہرگز نہیں دیتا۔
وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَo … … فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِيْتُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا۰ۚ اِنَّا نَسِيْنٰكُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo السجدہ 12-14:32
کاش تم وہ وقت دیکھتے جب مجرم اپنے رب کے سامنے سرجھکائے کھڑے ہوں گے اور کہیں گے کہ پروردگار! ہم نے اب دیکھ لیا اور سن لیا، اب تو ہمیں واپس کر دے ہم اچھے عمل کریں گے۔ اب ہمیں ایقان حاصل ہو گیا ہے… مگر کہا جائے گا کہ اب اس کوتاہی کا مزا چکھو کہ تم نے اس دن ہمارے پاس حاضر ہونے کو بھلا دیا، اب ہم بھی تمھیں بھلا چکے ہیں۔ پس اب ہمیشگی کے عذاب کا مزا چکھو ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے۔
یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا دارُالعمل ہے، سعی اور کوشش کی جگہ ہے، اور آخرت کی زندگی دارُالجزا ہے، نیکی اور بدی کے پھل اور اعمال کے بدلے کا گھر ہے۔ انسان کو موت کی گھڑی تک دنیا میں عمل کرنے کی مہلت ملی ہوئی ہے۔ اس کے بعد اسے پھر عمل کی مہلت ہرگز نہ ملے گی۔ لہٰذا اس عرصۂ حیات میں اسے یہ سمجھ کر سعی کرنی چاہیے کہ میرا ہر کام، میری ہر حرکت، میری ہر برائی اور بھلائی اپنا ایک اثر رکھتی ہے، ایک وزن رکھتی ہے، اور اس اثر اور وزن کے مطابق مجھے بعد کی زندگی میں اچھا یا برا نتیجہ ملنے والا ہے۔ مجھے جو کچھ ملے گا وہ میری یہاں کی کوشش اور میرے یہاں کے عمل کا بدلہ ہو گا۔ نہ میری کوئی نیکی ضائع ہو گی اور نہ کوئی بدی سزا سے بچے گی۔
انفرادی ذمے داری
اس ذمے داری کے احساس کو مزید تقویت دینے کے لیے یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ ہر شخص خود اپنے فعل کا ذمے دار ہے۔ نہ کوئی دوسرا اس کی ذمے داری میں شریک ہے، اور نہ کوئی شخص کسی کو اس کے نتائجِ عمل سے بچا سکتا ہے۔
عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ۰ۚ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَيْتُمْ۰ۭ المائدہ 105:5
تم پر تمھارے اپنے نفس کی ذمے داری ہے۔ اگر تم ہدایت پائو تو دوسرا گم راہ ہونے والا تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْہَا۰ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰي۰ۚ الانعام 164:6
ہر نفس جو کچھ کماتا ہے اس کا بوجھ اسی پر ہے۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔
لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ۰ۚۛ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۰ۚۛ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo الممتحنہ60:3
قیامت کے دن تمھارے رشتے اورتمھاری اولاد ہرگز کام نہ آئے گی۔ تمھارے درمیان اللّٰہ فیصلہ کرے گا، اور اس کی نظر تمھارے عملوں پر ہے۔
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ۰ۣ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَہَا۰ۭ بنی اسرائیل 7:17
اگر تم نیک کام کرو گے تو اپنے نفس کے لیے کرو گے اور اگر برے کام کرو گے تو اسی کے لیے۔
وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۰ۭ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰى حِمْلِہَا لَا يُحْمَلْ مِنْہُ شَيْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى۰ۭ فاطر 18:35
کوئی شخص کسی دوسرے کا بارِ گناہ اپنے سر نہ لے گا، اور اگر کسی پر گناہوں کا بڑا بار ہو اور وہ اپنا ہاتھ بٹانے کے لیے کسی کو بلائے تو وہ اس کے بوجھ کا کوئی حصہ اپنے اوپر نہ لے گا، خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِيْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِہٖ۰ۡوَلَا مَوْلُوْدٌ ہُوَجَازٍ عَنْ وَّالِدِہٖ شَـيْـــــًٔا۰ۭ لقمان 33:31
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جب کہ نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کے کام آئے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آ سکے گا۔
مَنْ كَفَرَ فَعَلَيْہِ كُفْرُہٗ۰ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِہِمْ يَمْہَدُوْنَo الروم 44:30
جس نے کفر کیا اس کے کفر کا وبال اس کے سر ہے اور جس نے نیک عمل کیا تو ایسے لوگ خود اپنی بہتری کے لیے راستہ صاف کر رہے ہیں۔
یہاں ہر انسان پر فرداً فرداً اس کے تمام اچھے اور برے اعمال کی کامل ذمے داری کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ نہ یہ امید باقی رہنے دی گئی ہے کہ کوئی ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کا کفارہ ادا کرے گا، نہ اس توقع کے لیے کوئی گنجائش چھوڑی گئی ہے کہ کسی کے تعلق اور کسی کے واسطے سے ہم اپنے جرائم کی پاداش سے بچ جائیں گے، اورنہ اس خطرے کا کوئی موقع باقی رکھا گیا ہے کہ کسی کا جرم ہمارے حسنِ عمل پر اثر انداز ہو گا، یا خدا کے سوا کسی کی خوشی کو ہمارے اعمال کی مقبولیت و نامقبولیت میں کوئی دخل ہے۔ جس طرح آگ میں ہاتھ ڈالنے والے کو جلنے سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی، اور شہد کھانے والے کو شیرینی کے احساس سے کوئی شے نہیں روک سکتی، نہ جلنے کی مضرت میں کوئی دوسرا شخص اس کا شریک و سہیم ہو سکتا ہے اور نہ شیرینی کی لذت سے کوئی دوسرا اسے محروم کر سکتا ہے، اسی طرح بدکاری کے نتیجہ ٔ بد اور نیکوکاری کے انجامِ نیک میں بھی ہر شخص بجائے خود منفرد ہے۔ لہٰذا دنیا کو برتنے میں ہر شخص کو اپنی پوری ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور دنیا و مافیہا سے قطع نظر کرکے یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرنی چاہیے کہ اپنے ہر عمل کا ذمے دار میں خود ہوں، برائی کا وبال بھی تنہا میرے اوپر ہے، اور بھلائی کا فائدہ بھی اکیلا میں اٹھانے والا ہوں۔
اوپر اسلام کے تصورِ حیاتِ دنیا کی جو تحلیل کی گئی ہے اس سے وہ تمام اجزا آپ کے سامنے آگئے ہیں جن سے یہ تصور مرکب ہے۔ اب تحلیل و تجزیہ کے پہلو کو چھوڑ کر ترکیب و تالیف کے پہلو پر نظر ڈالیے اور یہ دیکھیے کہ ان متفرق اجزا کے ملنے سے جو کلی تصور حاصل ہوتا ہے، وہ کس حد تک فطرت اور واقعے کے مطابق ہے؟ اور دنیوی زندگی کے متعلق دوسری تہذیبوں کے تصورات کی نسبت سے اس کا کیا مرتبہ ہے؟ اور اس تصورِ حیات پر جس تہذیب کی بنیاد قائم ہے، وہ انسان کے فکر و عمل کو کس سانچے میں ڈھالتی ہے؟
زندگی کا فطری تصور
تھوڑی دیر کے لیے اپنے ذہن کو تمام ان تصورات سے، جو دنیا اور حیاتِ دنیا کے متعلق مذاہب نے پیش کیے ہیں، خالی کرکے ایک مبصر کی حیثیت سے اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نگاہ ڈالیے اور غور کیجیے کہ اس پورے ماحول میں آپ کی حالت کیا ہے؟ اس مشاہدے میں آپ کو چند باتیں واضح طور پر نظر آئیں گی۔
آپ دیکھیں گے کہ جتنی قوتیں آپ کو حاصل ہیں ان کا دائرہ محدود ہے۔ آپ کے حواس جن پر آپ کے علم کا انحصار ہے، آپ کے قریبی ماحول کی حدود سے آگے نہیں بڑھتے۔ آپ کے جوارح جن پر آپ کے عمل کا انحصار ہے، بہت تھوڑی سی اشیا پر دست رس رکھتے ہیں۔ آپ کے گرد و پیش بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو آپ سے جسم اور طاقت میں بڑھی ہوئی ہیں اور ان کے مقابلے میں آپ کی ہستی نہایت حقیر اور کم زور نظر آتی ہے۔ دنیا کے اس بڑے کارخانے میں جو زبردست قوتیں کار فرما ہیں ان میں سے کوئی بھی آپ کے دستِ قدرت میں نہیں ہے اور آپ ان قوتوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں۔ جسمانی حیثیت سے آپ ایک متوسط درجے کی ہستی رکھتے ہیں جو اپنے سے چھوٹی چیزوں پر غالب اوراپنے سے بڑی چیزوں سے مغلوب ہے۔
لیکن ایک اور قوت آپ کے اندر ایسی ہے جس نے آپ کو ان تمام چیزوں پر شرف عطا کر دیا ہے۔ اسی قوت کی بدولت آپ اپنی جنس کے تمام حیوانات پر قابو پا لیتے ہیں اور ان کی جسمانی طاقتوں کو جو آپ کی جسمانی طاقت سے بہت بڑھی ہوئی ہیں، مغلوب کر لیتے ہیں۔ اسی قوت کی بدولت آپ اپنے گرد و پیش کی چیزوں میں تصرف کرتے ہیں اور ان سے اپنی مرضی کے مطابق خدمت لیتے ہیں۔ اسی قوت کی بدولت آپ طاقت کے نئے نئے خزانوں کا پتا چلاتے ہیں اور انھیں نکال نکال کر نئے نئے طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ اسی قوت کی بدولت آپ اپنے وسائلِ اکتسابِ علم کو وسعت دیتے ہیں اور ان چیزوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں جو آپ کے طبیعی قوٰی کی دست رس سے باہر ہیں۔ غرض ایک قوت ہے جس کی بدولت تمام دنیا کی چیزیں آپ کی خادم بن جاتی ہیں اور آپ ان کے مخدوم ہونے کی مزیت حاصل کر تے ہیں۔
پھر کارگاہِ ہستی کی وہ بالاتر قوتیں بھی جو آپ کے دستِ قدرت میں نہیں ہیں، اس ڈھنگ پر کام کر رہی ہیں کہ بالعموم وہ آپ کی دشمن و مخالف نہیں بلکہ آپ کی مددگار اور آپ کے مفاد و مصلحت کی تابع ہیں۔ ہوا، پانی، روشنی، حرارت اور ایسی ہی دوسری قوتیں جن پر آپ کی زندگی کا انحصار ہے، کسی ایسے نظام کے ماتحت عمل کر رہی ہیں جس کا مقصد آپ کی مساعدت کرنا ہے، اور اسی بِنا پر آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سب آپ کے لیے مسخر ہیں۔
اپنے اس ماحول پر جب آپ ایک عمیق نگاہ ڈالتے ہیں توآپ کو ایک زبردست قانون کارفرما نظر آتا ہے جس کی گرفت میں حقیر ترین ہستیوں سے لے کر عظیم ترین ہستیوں تک یکساں جکڑی ہوئی ہیں اور جس کے ضبط و نظم پر تمام عالم کی بقا کا انحصار ہے۔ آپ خود بھی اس قانون کے تابع ہیں، مگر آپ میں اور دوسری اشیائے عالَم میں ایک بڑا فرق ہے۔ دوسری تمام چیزیں اس قانون کے خلاف حرکت کرنے پر ذرّہ برابر قدرت نہیں رکھتیں لیکن آپ کو اس کے خلاف چلنے کی قدرت حاصل ہے۔ یہی نہیں بلکہ جب آپ اس کے خلاف چلنا چاہتے ہیں تو وہ قانون اس خلاف ورزی میں بھی آپ کی مساعدت کرتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ہر ایسی خلاف ورزی اپنے ساتھ کچھ مضرتیں رکھتی ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ آپ اس کی مخالفت کرنے کے بعد اس کے بُرے اثرات سے بچ جائیں۔
اس عالم گیر اور اٹل قانون کے تحت دنیا میں کون و فساد کے مختلف مظاہر آپ کو نظر آتے ہیں۔ تمام عالم میں بننے اور بگڑنے کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ جس قانون کے تحت ایک چیز کو پیدا اور پرورش کیا جاتا ہے اسی قانون کے تحت اسے مٹایا اور ہلاک بھی کر دیا جاتا ہے، دنیا کی کوئی شے اس قانون کے نفاذ سے محفوظ نہیں ہے۔ بظاہر جو چیزیں اس سے محفوظ نظر آتی ہیں اور جن پر استمرار و دوام کا شبہ ہوتا ہے انھیں بھی جب آپ تعمق کی نظر سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حرکت و تغیر کا عمل ان میں بھی جاری ہے اور کون و فساد کے چکر سے انھیں بھی نجات حاصل نہیں ہے۔ چوں کہ کائنات کی دوسری چیزیں شعور و ادراک نہیں رکھتیں یا کم از کم ہمیں اس کا علم نہیں ہے، اس لیے ہم ان کے اندر اس بننے اور بگڑنے سے کسی لذت اور الم کا اثر محسوس نہیں کرتے۔ اور اگر انواعِ حیوانی میں اس کا اثر محسوس ہوتا بھی ہے تو وہ بہت محدود ہوتا ہے۔ لیکن انسان جو ایک صاحبِ شعور وادراک ہستی ہے، اپنے گردو پیش ان تغیرات کو دیکھ کر لذت اور الم کے شدید اثرات محسوس کرتا ہے۔ کبھی مناسبِ طبع امور سے اس کی لذت اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ وہ اسے بھول جاتا ہے کہ اس دنیا میں فساد بھی ہے، اور کبھی مخالفِ طبع امور سے اس کا الم اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ اس دنیا میں اسے نرا فساد ہی فساد نظر آنے لگتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ یہاں کَون بھی ہے۔
مگر خواہ آپ کے اندر لذت اور الم کے کیسے ہی متضاد احساسات ہوں اور ان کے زیر اثر دنیوی زندگی کے متعلق آپ کا نظریہ کتنا ہی افراط یا تفریط کی طرف مائل ہو، بہرحال آپ اپنی جبلت سے مجبور ہیں کہ اس دنیا کو جیسی بھی ہے، عملاً برتیں، اور ان قوتوں سے جو آپ کے اندر موجود ہیں کام لیں۔ آپ کی جبلت میں زندہ رہنے کی خواہش موجود ہے، اور اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے آپ کے اندر بھوک کی ایک زبردست قوت رکھ دی گئی ہے، جو دائماً آپ کو عمل پر مجبور کرتی رہتی ہے۔ فطرت کا قانون آپ کی نوع کے استمرار کے لیے آپ سے خدمت لینا چاہتا ہے اور اس کے لیے اس نے شہوت کی ایک ناقابل دفع قوت آپ کے اندر رکھ دی ہے جو آپ سے اپنا مقصد پورا کرا کے ہی چھوڑتی ہے۔ اسی طرح آپ کی جبلت میں کچھ دوسرے مقاصد کے لیے کچھ اور قوتیں بھی رکھ دی گئی ہیں اور وہ سب آپ سے بزور اپنا کام لے لیتی ہیں۔ اب یہ آپ کی اپنی فراست و دانائی پر موقوف ہے کہ فطرت کے ان مقاصد کی خدمت اچھے طریقے سے انجام دیں یا بُرے طریقے سے، بطیبِ نفس انجام دیں یا بَہ جبر و اکراہ۔ یہی نہیں بلکہ خود فطرت ہی نے مخصوص طور پر آپ کو یہ قدرت بھی عطا کی ہے کہ ان مقاصد کی خدمت انجام دیں یا نہ دیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس فطرت کا قانون یہ بھی ہے کہ اس کی خدمت بجا لانا اور اچھے طریقے سے بطیبِ نفس بجا لانا آپ کے لیے مفید ہوتا ہے، اور اگر آپ اس سے رو گردانی کریں، یا اگر اس کی متابعت کریں بھی تو بُری طرح کریں، تو یہ خود آپ ہی کے لیے مضر ہوتا ہے۔
مختلف مذاہب کے تصورات
ایک صحیح الفطرت اور وسیع النظر آدمی جب دنیا پر نظر ڈالے گا اور اس دنیا کی نسبت سے اپنی حالت پر غور کرے گا، تو وہ تمام پہلو اس کی نگاہ کے سامنے آ جائیں گے جو اوپر بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن نوعِ انسانی کے مختلف گروہوں نے اس مرقع کو مختلف گوشوں سے دیکھا ہے، اور اکثر ایسا ہوا ہے کہ جسے جو پہلو نمایاں نظر آیا اس نے حیاتِ دنیا کے متعلق اسی پہلو کے لحاظ سے ایک نظریہ قائم کر لیا اوردوسرے پہلوئوں پرنگاہ ڈالنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
مثال کے طور پر ایک گروہ نے انسان کی کم زوری اور بے بسی اور اس کے مقابلے میں فطرت کی بڑی بڑی طاقتوں کی شوکت و جبروت کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا کہ دنیا میں وہ ایک نہایت ہی حقیر ہستی ہے، اور یہ نافع وضار قوتیں جو دنیا میں نظر آتی ہیں، کسی عالم گیر قانون کی تابع نہیں ہیں بلکہ خود مختار یا نیم خود مختار طاقتیں ہیں۔ یہ تخیل ان کے ذہن پر اتنا غالب ہوا کہ وہ پہلو جس سے تمام کائنات پر انسان کو شرف و مزیت حاصل ہے، ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ وہ اپنی ہستی کے روشن پہلو کو بھی بھول گئے اور اپنی عزت و بزرگی کے احساس کو انھوں نے اپنی کم زوری و ناتوانی کے مبالغہ آمیز اعتراف پر قربان کر دیا۔ بت پرستی، شجر پرستی، ستارہ پرستی اور دوسرے قوائے فطرت کی پرستش اسی نظریے کی پیداوار ہے۔
ایک دوسرے گروہ نے دنیا کو اس نظر سے دیکھا کہ اس میں بس فساد ہی فساد ہے۔ تمام کارخانۂ ہستی اس لیے چل رہا ہے کہ انسان کو تکلیف اور رنج و الم پہنچائے۔ دنیا کے جتنے تعلقات اور روابط ہیں، سب انسان کو پریشانیوں اور مصیبتوں میں پھانسنے والے پھندے ہیں۔ ایک انسان پر ہی کیا موقوف ہے، تمام کائنات افسردگی اور ہلاکت کے پنجے میں گرفتار ہے۔ یہاں جو کچھ بنتا ہے بگڑنے کے لیے بنتا ہے۔ بہار اس لیے آتی ہے کہ خزاں اس کا چمن لوٹ لے۔ زندگی کا شجر اس لیے برگ و بار لاتا ہے کہ موت کا عفریت اس سے لطف اندوز ہو۔ بقا کا جمال سنور سنور کر اس لیے آتا ہے کہ فنا کے دیوتا کو اس سے کھیلنے کا خوب موقع ملے۔ اس تخیل نے ان لوگوں کے لیے دنیا اور اس کی زندگی میں کوئی دل چسپی باقی نہ چھوڑی اور انھوں نے اپنے لیے نجات کی راہ بس اسی میں دیکھی کہ دنیا سے کنارہ کش ہو جائیں، نفس کشی اور ریاضت سے اپنے تمام احساسات کو باطل کر دیں، اور فطرت کے اس ظالم قانون کو توڑ ڈالیں جس نے محض اپنے کارخانے کو چلانے کے لیے انسان کو آلۂ کار بنایا ہے۔
ایک اور گروہ نے اس دنیا کو اس نظر سے دیکھا کہ اس میں انسان کے لیے لذت و عیش کے سامان فراہم ہیں اور اسے ایک تھوڑی سی مدت ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے مل گئی ہے۔ تکلیف اور الم کا احساس ان لذتوں کو بدمزا کر دیتا ہے۔ اگر انسان اس احساس کو باطل کر دے، اور کسی چیز کو اپنے لیے موجبِ الم اور باعثِ تکلیف نہ رہنے دے، تو یہاں پھر لطف ہی لطف ہے۔ آدمی کے لیے جو کچھ بھی ہے یہی دنیا ہے اور اسے جو کچھ مزے اڑانے ہیں اسی دنیوی زندگی میں اڑانے ہیں۔ موت کے بعد نہ وہ ہوگا، نہ دنیا ہو گی،نہ اس کی لذتیں ہوں گی، سب کچھ نسیا ًمنسیا ًہو جائے گا۔
اس کے مقابلے میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو دنیا اور اس کی لذتوں اورمسرتوں بلکہ خود دنیوی زندگی ہی کو سراسر گناہ سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک انسانی روح کے لیے دنیا کی مادی آلائشیں ایک نجاست اور ایک ناپاکی کا حکم رکھتی ہیں۔ اس دنیا کو برتنے اور اس کے کاروبار میں حصہ لینے اور اس کی لذتوں اور مسرتوں سے لطف اندوز ہونے میں انسان کے لیے کوئی پاکیزگی اور کوئی صلاح اور خیر نہیں ہے۔ جو شخص انسانی بادشاہت سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہو اسے دنیا سے الگ تھلگ رہنا چاہیے، اور جو دنیا کی دولت و حکومت اور دنیوی زندگی کا لطف اٹھانا چاہتا ہو اسے یقین رکھنا چاہیے کہ آسمانی بادشاہت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے۔ پھر جب اس گروہ نے محسوس کیا کہ انسان اس دنیا کو برتنے اور اس کے دھندوں میں پھنسنے کے لیے اپنی جبلت سے مجبور ہے، اور آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے کا خیال خواہ کتنا ہی دل فریب ہو، مگر وہ اتنا قوی نہیں ہو سکتا کہ انسان اس کے بل پر اپنی فطرت کے اقتضا کا مقابلہ کر سکے، تو انھوں نے آسمانی بادشاہت تک پہنچنے کے لیے ایک قریب کا راستہ نکال لیا، اور وہ یہ تھا کہ ایک ہستی کے کفارے نے ان سب لوگوں کو ان کے اعمال کی ذمے داریوں سے سبک دوش کر دیا ہے جو اس ہستی پر ایمان لے آئیں۔
ایک اور گروہ نے قانونِ فطرت کی ہمہ گیری کو دیکھ کر انسان کو ایک مجبورِ محض ہستی سمجھ لیا۔ اس نے دیکھا کہ نفسیات، عضویات، حیاتیات اور قانونِ توریث کی شہادتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان ہرگز کوئی مرید و مختار ہستی نہیں ہے۔ فطرت کے قانون نے اسے بالکل جکڑ رکھا ہے۔ وہ اس قانون کے خلاف نہ کچھ سوچ سکتا ہے، نہ کسی چیز کا ارادہ کر سکتا ہے، اور نہ کوئی حرکت کرنے پر قادر ہے۔ لہٰذا اس پر اپنے کسی فعل کی ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔
اس کے بالکل برعکس ایک گروہ کی نگاہ میں انسان نہ صرف ایک صاحبِ ارادہ ہستی ہے، بلکہ وہ کسی بالاترارادے کا تابع اور کسی اعلیٰ طاقت کا مطیع و فرماں بردار نہیں ہے اور نہ اپنے اعمال و افعال میں خود اپنے ضمیر یا انسانی حکومت کے قانون کے سوا کسی کے آگے جواب دہ ہے۔ وہ اس دنیا کا مالک ہے۔ دنیا کی سب چیزیں اس کے لیے مسخر ہیں۔ اسے اختیار ہے کہ انھیں جس طرح چاہے برتے۔ اس نے اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور اپنے اعمال و افعال میں ایک ضبط و نظم پیدا کرنے کے لیے اپنی حیاتِ انفرادی پر خود ہی پابندیاں عائد کر لی ہیں، مگر اجتماعی حیثیت سے وہ بالکل مطلق العنان ہے اور کسی بالاتر ہستی کے آگے مسئول ہونے کا تخیل سراسر لغو ہے۔
یہ دنیوی زندگی کے متعلق مختلف مذاہبِ فکر و رائے کے مختلف تصورات ہیں اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جن پر مختلف تہذیبوں کی عمارتیں تعمیر ہوئی ہیں۔ ہر تہذیب کی عمارت میں جو مختلف طرز و انداز ہمیں نظر آ رہے ہیں، ان کے ایک مخصوص اور جداگانہ ہیئت اختیار کرنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کی بنیاد میں دنیوی زندگی کا ایک خاص تصور ہے جو اس مخصوص ہیئت کا مقتضی ہوا ہے۔ اگر ہم ان میں سے ہر ایک کی تفصیلات پر نظر ڈال کر یہ تحقیق کریں کہ اس نے کس طرح ایک خاص طرز و انداز کی تہذیب پیدا کی ہے تو یہ یقیناً ایک دل چسپ بحث ہو گی۔ لیکن یہ بحث ہمارے موضوع سے غیر متعلق ہے، کیوں کہ ہم صرف اسلامی تہذیب کی خصوصیات کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ زندگی کے یہ جتنے تصورات آپ کے سامنے بیان ہوئے ہیں، یہ سب دنیا کو ایک خاص گوشۂ نظر سے دیکھنے کا نتیجہ ہیں۔ ان میں سے کوئی تصور ایسا نہیں ہے جو مجموعی حیثیت سے تمام کائنات پر ایک کلی نگاہ ڈالنے اور موجوداتِ عالم میں انسان کی صحیح حیثیت متعین کرنے کے بعد قائم کیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر تصور ہماری نظر میں باطل ہو جاتا ہے جب ہم اس کے زاویۂ نگاہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے زاویۂ نگاہ سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔ اور پھر دنیا کے کلی ملاحظہ کے بعد تو ان تمام ہی تصورات کی غلطی ہم پر روشن ہو جاتی ہے۔
اسلامی تصور کی خصوصیت
اب یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے کہ زندگی کے تمام تصورات میں صرف اسلام ہی کا تصور ایک ایسا تصور ہے جو فطرت اور حقیقت کے مطابق ہے، اور جس میں دنیا اور انسان کے تعلق کو ٹھیک ٹھیک ملحوظ رکھا گیا ہے۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو دنیا کوئی ترک اور نفرت کے قابل چیز ہے اور نہ ایسی چیز ہے کہ انسان اس کا فریفتہ ہواور اس کی لذتوں میں گم ہو جائے۔ نہ وہ سراسر کون ہے نہ سراسر فساد، نہ اس سے اجتناب درست ہے اور نہ اس میں کلی انہماک صحیح، نہ وہ بالکل نجاست و آلودگی ہے اور نہ تمام تر پاکیزگی و طہارت۔ پھر اس دنیا سے انسان کا تعلق نہ اس قسم کا ہے جیسا ایک بادشاہ کا اپنی مملکت سے ہوتا ہے اور نہ اس قسم کا جیسا ایک قیدی کا اپنے قید خانے سے ہوتا ہے۔ نہ انسان اتنا حقیر ہے کہ دنیا کی ہر قوت اس کی مسجود ہو اور نہ اتنا غالب وقاہر کہ وہ دنیا کی ہر شے کا مسجود بن جائے۔ نہ وہ اتنا بے بس ہے کہ اس کا ذاتی ارادہ کوئی چیز ہی نہ ہو اور نہ اتنا طاقت وَر ہے کہ بس اسی کا ارادہ سب کچھ ہو۔ نہ وہ عالمِ ہستی کا مطلق العنان فرماں روا ہے نہ کروڑوں آقائوں کا بے چارہ غلام۔ حقیقت جو کچھ ہے وہ ان مختلف اطراف و نہایات کے درمیان ایک متوسط حالت ہے۔
یہاں تک تو فطرت اور عقلِ سلیم ہماری راہ نُمائی کرتی ہے، لیکن اسلام اس سے آگے بڑھتا ہے اور اس امر کا ٹھیک ٹھیک تعین کرتا ہے کہ دنیا میں انسان کا حقیقی مرتبہ کیا ہے؟ انسان اور دنیا کے درمیان کس نوع کا تعلق ہے؟ اور انسان دنیا کو برتے تو کیا سمجھ کر برتے؟ وہ یہ کہہ کرانسان کی آنکھیں کھول دیتا ہے کہ تو عام مخلوقات کی طرح نہیں ہے بلکہ رُوئے زمین پر رب العالمین کا ذمے دار وائسرائے ہے۔ دنیا اور اس کی طاقتوں کو تیرے لیے مسخر کیا گیا ہے۔ تو سب کا حاکم اور ایک کا محکوم ہے۔ سب کا فرماں روا اور صرف ایک کا تابع فرمان ہے۔ تجھے تمام مخلوقات پر عزت و شرف حاصل ہے، مگر عزت کا استحقاق تجھے اس وقت حاصل ہو سکتا ہے جب تو اس کا مطیع اور فرماں بردار ہو اور اس کے احکام کا اتباع کرے جس نے تجھے نیابت کا منصب عطا کرکے دنیا پر شرف بخشا ہے۔ دنیا میں تو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ اسے برتے اور اس میں تصرف کرے۔ پھر تو اس دنیا کی زندگی میں جس طرح صحیح یا غلط عمل کرے گا اس پر وہ اچھے یا برے نتائج مترتب ہوں گے جنھیں تو بعد کی زندگی میں دیکھے گا۔ لہٰذا دنیوی زندگی کی اس تھوڑی سی مدت میں تجھے اپنی شخصی ذمے داری اور مسئولیت کا ہر لمحے احساس رہنا چاہیے، اور کبھی اس سے غافل نہ ہونا چاہیے کہ جو چیزیں رب العالمین نے اپنے نائب کی حیثیت سے تیری امانت میں دی ہیں، ان سب کا تجھ سے پورا پورا حساب لیا جائے گا۔
اس میں شک نہیں کہ یہ تصور اپنے جزئیات کے ساتھ ہر مسلمان کے ذہن میں حاضر نہیں ہے اور نہ اہل ِ علم کے مخصوص گروہ کے سوا کوئی ان جزئیات کا واضح ادراک رکھتا ہے، لیکن چوں کہ یہ تصور اسلامی تہذیب کی بیخ و بنیادمیں متمکن ہے، اس لیے مسلمان کی سیرت اپنی اصلی شان اور اپنی حقیقی خصوصیات سے بہت کچھ عاری ہو جانے کے باوجود آج بھی اس کے اثرات سے خالی نہیں ہے۔ ایک مسلمان جس نے اسلامی تہذیب کے ماحول میں تربیت پائی ہو، اس کا عمل خواہ بیرونی اثرات سے کتنا ہی ناقص ہو گیا ہو، لیکن خود داری و عزتِ نفس کا احساس، خدا کے سوا کسی کے آگے نہ جھکنا، خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرنا، خدا کے سوا کسی کو اپنا مالک اور آقا نہ سمجھنا، دنیا میں اپنے آپ کو شخصا ً مسئول سمجھنا، دنیا کو دارالعمل اور آخرت کو دارالجزا سمجھنا، صرف اپنے ذاتی اعمال کے حسن و قبح پر اپنی آخرت کی کام یابی و ناکامی کو منحصر سمجھنا، دنیا اور اس کی دولت و لذت کو ناپائدار اور صرف اپنے اعمال اور ان کے نتائج کو باقی و دائم خیال کرنا، یہ ایسے امور ہیں جو اس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہوں گے اور ایک عمیق النظر مبصر اس کی باتوں اور اس کی حرکات و سکنات میں اس عقیدے کے اثرات (خواہ وہ کتنے ہی دھندلے کیوں نہ ہوں) صاف محسوس کر لے گا جو اس کی روح اور اس کے دل کی گہرائیوں میں اُترا ہوا ہے۔
پھر جو شخص تہذیب ِ اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرے گا اُسے یہ بات نمایاں طور پر محسوس ہو گی کہ اس میں جب تک خالص اسلامیت رہی، اس وقت تک یہ ایک خالص عملی تہذیب تھی۔ اس کے پیروئوں کے نزدیک دنیا آخرت کی کھیتی تھی۔ وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے تھے کہ دنیا میں جتنی مدت وہ زندہ رہیں اس کا ہر لمحہ اس کھیتی کے بونے اور جوتنے میں صرف کر دیں اور زیادہ سے زیادہ تخم ریزی کریں، تاکہ بعد کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ فصل کاٹنے کا موقع ملے۔ انھوں نے رہبانیت اور لذتیت کے درمیان ایک ایسی معتدل اورمتوسط حالت میں دنیا کو برتا جس کا نام و نشان بھی ہمیں کسی دوسری تہذیب میں نظر نہیں آتا۔ خلافتِ الٰہی کا تصور انھیں دنیا میں پوری طرح منہمک ہونے اور اس کے معاملات کو انتہائی سرگرمی کے ساتھ انجام دینے پر ابھارتا تھا اور اس کے ساتھ مسئولیت اور ذمے داری کا خیال انھیں حد سے متجاوزبھی نہ ہونے دیتا تھا۔ وہ نائبِ خدا ہونے کی وجہ سے انتہا درجے کے خود دار تھے اور پھر یہی تصور اُن میں تکبر اور غرور کی پیدائش کو روکتا بھی تھا۔ وہ خلافت کے فرائض انجام دینے کے لیے ان تمام چیزوں کی طرف رغبت رکھتے تھے جو دنیا کا کام چلانے کے لیے ضروری ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی ان چیزوں کی طرف انھیں کوئی رغبت نہ تھی جو دنیا کی لذتوں میں گم کرکے انسان کو اس کے فرائض سے غافل کر دینے والی ہیں۔ غرض وہ دنیا کے کام کو اس طرح چلاتے تھے کہ گویا انھیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے، اور پھر اس کی لذتوں میں منہمک ہونے سے اس طرح بچے رہتے تھے کہ گویا دنیا ان کے لیے ایک سرائے ہے جہاں محض عارضی طور پر وہ مقیم ہو گئے ہیں۔
بعد میں جب اسلامیت کا اثر کم ہو گیا اور دوسری تہذیبوں سے متاثر ہو کر مسلمانوں کی سیرت میں پوری اسلامی شان باقی نہیں رہی تو انھوں نے وہ سب کچھ کیا جو دنیوی زندگی کے اسلامی تصور کے خلاف تھا۔ عیش و عشرت میں منہمک ہوئے۔ عالی شان قصر تعمیر کیے۔ موسیقی، مصوری، سنگ تراشی اور دوسرے فنونِ لطیفہ میں دل چسپی لی۔ معاشرت اور طرزِ بودو ماند میں اس اسراف اور اس شان و شکوہ کو اختیار کیا جو اسلامی مذاق کے بالکل خلاف تھی۔ حکومت و سیاست اور دوسرے دنیوی معاملات میں وہ طریقے اختیار کر لیے جو بالکل غیر اسلامی تھے۔ مگر اس کے باوجود دنیوی زندگی کا اسلامی تصور جو ان کے دل میں اترا ہوا تھا، کہیں نہ کہیں اپنا اثر نمایاں کرکے رہتا تھا اور یہی اثر ان کے اندر دوسروں کے مقابلے میں ایک امتیازی شان پیدا کر دیتا تھا۔ ایک مسلمان بادشاہ جمنا کے کنارے ایک عالی شان قصر تعمیر کرتا ہے اور اس میں لطف و تفریح اور شان و شوکت کے وہ تمام سامان فراہم کرتا ہے جن کا انسان اس زمانے میں تصور کر سکتا تھا مگر اس قصر کی سب سے زیادہ پر لطف تفریح گاہ میں پشت کی جانب (یعنی قبلے کے رخ پر )یہ رباعی بھی کندہ کرتا ہے:
اے بند بپائے و قفل بر دِل ہشدار
وے دوختہ چشم و پائے در گل ہشدار
عزم سفرِ مغرب وَ رُو دَر مشرق
اے راہ روِ پشت بمنزل ہشدار
وہ قصر اپنی جگہ بے نظیر نہیں ہے، اس سے بہتر قصر دنیا کی دوسری قوموں میں مل سکتے ہیں، مگر اس تخیل کی مثال دنیا کی کسی قوم میں نہیں مل سکتی جو رُوئے زمین پر فردوس بنانے والے کو ’’اے راہ روِ پشت بمنزلِ ہشدار‘‘ کی تنبیہ کرتا ہے۔ ۱؎
اسلامی تاریخ میں اس قسم کی مثالیں بکثرت ملیں گی کہ قیصر و کسریٰ کے نمونوں پر بادشاہی کرنے والوں نے بھی جب کسی دشمن پر فتح پائی تو اپنی کبریائی کا اظہار کرنے کے بجائے خدائے واحد کے سامنے خاک پر سربہ سجود ہو گئے۔ بڑے بڑے جابر و گردن کش فرماں روائوں نے جب شریعت اسلامی کے خلاف عمل کرنا چاہا تو کسی بندۂ خدا نے انھیں برملا ٹوک دیا اور وہ خوفِ خدا سے کانپ اٹھے۔ انتہا درجے کے بدعمل اور سیہ کار لوگوں کو کسی ایک معمولی بات سے تنبیہ ہو گئی اور دفعتاً ان کی زندگی کا رنگ بدل گیا۔ دولتِ دنیا پر جان فدا کرنے والوں کے دل میں دنیا کی ناپائداری اور آخرت کے حساب کتاب کا خیال آیا اور انھوں نے خدا کے بندوں پر سب کچھ تقسیم کرکے ایک مقتصدانہ زندگی اختیار کر لی۔ غرض ان تمام غیر اسلامی اثرات کے باوجود، جو مسلمانوں کی زندگی میں پھیل گئے ہیں، آپ کو ہر قدم پر ان کی قومی سیرت میں اسلامی تصور کا جلوہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور نظر آئے گا اور اسے دیکھ کر آپ ایسا محسوس کریں گے کہ گویا اندھیرے میں دفعتاً روشنی نمودار ہو گئی۔
٭…٭…٭…٭…٭