اس میں شک نہیں کہ موجودہ زمانہ میں آزادی اور ترقی اور وقار و شرف حاصل کرنے کا ایک ہی مجرب نسخہ دنیا کی قوموں کو معلوم ہے اور وہ یہی نیشنلزم کا نسخہ ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہروہ قوم جو اُبھرنا چاہتی ہے اسی نسخہ کی طرف دوڑنے لگتی ہے، مگر قبل اس کے کہ دوسروں کو اس کی طرف دوڑتے دیکھ کر ہم بھی اسی کی طرف دوڑ جائیں، ہمیں سوچنا چاہیے کہ دنیا کی یہ حالت کیوں ہے… دنیا اس حالت میں صرف اس لیے مبتلا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی خواہشات کو ضابطہ میں لانے والی، حوصلوں اور تمنائوں کو جائز حدود میں رکھنے والی سعی و عمل کی قوتوں کو سیدھا راستہ دکھانے والی اور آزادی، ترقی اور عزت و وقار کے حصول کا صحیح طریقہ بتانے والی کوئی تعلیم حکمت و اَخلاق دُنیا کے پاس نہیں ہے۔ اسی چیز نے قوموں کو بھٹکا دیا ہے ۔ یہی محرومی اور یہی فقدان ہے جس نے قوموں کو جاہلیت اور ظلم و عدوان کی طرف دھکیل دیا ہے۔ خود ہمارے اپنے ملک کے ہندو اور سکھ اور پارسی وغیرہ بھی جس وجہ سے مغرب کے قوم پرستانہ خیالات قبول کررہے ہیں وہ یہی ہے کہ یہ بیچارے اس ہدایت و رہنمائی سے محروم ہیں۔ اس مصیبت کا علاج اور اس گمراہی کی اصلاح اگر کہیں ہے تو وہ شرائع الٰہیہ میں ہے اور دنیا میں صرف مسلمان ہی وہ جماعت ہے جو شرائع الٰہیہ کی نمایندگی کرتی ہے، لہٰذا یہ مسلمان کا کام تھا کہ وہ آگے بڑھ کر اس عصبیت جاہلیہ کی جڑیں کاٹتا جو اکاس بیل کی طرح دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور دنیا کی ہرقوم کو بتاتا کہ تمھارے لیے نہ صرف آزادی، ترقی اور وقار و شرف کا بلکہ اس کے ساتھ سلامتی، امن اور حقیقی خوش حالی کا راستہ بھی وہی ہے جو خدا کی طرف سے اس کے رسول لائے ہیں نہ کہ وہ جو شیطان کی طرف سے فتنہ و شر کے امام تمھیں دکھا رہے ہیں لیکن یہ دورِحاضر کی سب سے زیادہ دردناک ٹریجڈی ہے کہ دنیا کو تباہی اور گمراہی سے بچانے والی وہ ایک ہی جماعت مسلمان جس کو اللہ نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کا مشن قائم کرنے اور پھیلانے پر مامور کیا تھا، اپنے فرائضِ منصبی کو فراموش کربیٹھی ہے اور اب بجائے اس کے کہ وہ ہدایت کی شمع لے کر تاریکیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو روشنی دکھائے وہ خود ان بھٹکنے والوں ہی کے پیچھے چلنے پر آمادہ ہورہی ہے۔ افسوس اس بیمارستان میں ایک ہی ڈاکٹر تھا اور وہ بھی بیماروں میں شامل ہوا جاتا ہے۔
مژدہ باد اے مگر! عیسیٰ آپ ہی بیمار ہے