اس راہ کا دوسرا قدم یہ ہے کہ گرد و پیش ہر طرف جو لاتعداد مسلمان دین حق سے غافل اور اس سے اپنی ناواقفیت اور ناسمجھی کی وجہ سے خلاف اسلام زندگی بسر کر رہے ہیں‘ انہیں بھی وہی کچھ کرنے کی دعوت دی جائے جو کچھ آپ نے سمجھا ہے۔ یعنی انہیں سمجھایا جائے کہ صحیح اور سچا مسلمان بننے اور بنے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ دین اسلام کو صرف نظری اور اعتقادی حد تک ہی نہیں اپنے نظام حیات اور طرز زندگی کے طور پر اختیار کیا جائے‘ اسلام کا صرف زبانی اقرار جس کی تائید اعمال و افعال سے نہ ہو‘ خدا کے ہاں برات کے لیے کافی نہیں ہے اور نہ اس سے اللہ اور اس کے رسولؐ کا منشا پورا ہوتا ہے۔ نیز ان کو بتانا چاہئے کہ مسلم سوسائٹی کے جمود اور اس کے تعطل کو توڑنے اور مسلمانوں کو اسلامی نظام زندگی قائم کرنے کے فریضہ کا احساس دلانے اور لوگوں کو اسلامی عقیدے اور نصب العین کی طرف بلانے کی ذمہ داری ہر صاحب ایمان پر ہے۔ مسلمانوں میں کوئی برہمن یا پادری طبقہ باقی ملت اسلامیہ سے الگ کرکے مذہبی امور کے لیے مخصوص نہیں کر دیا گیا ہے۔ ہر مسلمان مبلغ ہے اور اپنی استعداد کے مطابق تبلیغ اسلام کا ذمہ دار ہے۔ جو لوگ ان باتوں کو سمجھ لیں‘ ان پر ایک طرف یہ واضح کیا جائے کہ خدا سے بے نیاز اور اس سے منحرف نظام کے اندر رہتے ہوئے مسلمانوں کی سی زندگی بسر کرنا کیوں اور کس قدر دشوار ہے‘ اور اس نظام میں اسلام کا کتنا حصہ عملاً معطل ہوگیا ہے اور باطل نظام ہائے زندگی کی بدولت دنیا میں کتنا فساد برپا ہے اور دوسری طرف توحید و رسالت پر ایمان لانے کی برکات اور اس کے تقاضے ایک ایک کرکے ان کے سامنے لائے جائیں‘ اور یہ کہ ان برکات کے حصول اور اپنے آپ نیز نوع انسانی کو موجودہ ظلم و فساد سے نجات دلا کر بے لاگ عدل و انصاف مہیا کرنے کے لیے بھی اسلامی نظام حیات کا قیام ضروری ہے اور یہ ایک بنیادی دینی فریضہ ہے اور دوسرے اجتماعی کاموں کی طرح یہ کام بھی منظم جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔