Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
دعوت اسلامی اور اس کے طریق کار
ہماری دعوت کیا ہے؟
دعوت اسلامی کے تین نکات
بندگی رب کا مفہوم:
منافقت کی حقیقت:
تناقض کی حقیقت:
امامت میں تغیر کی ضرورت:
امامت میں انقلاب کیسے ہوتا ہے؟
مخالفت اور اس کے اسباب
ہمارا طریق کار
علماء اور مشائخ کی آڑ
زہد کا طعنہ:
رفقاء سے خطاب
مولانا امین احسن اصلاحی
اسلام کے اساسی معتقدات اور ان کا مفہوم
ایمان باللہ:
ایمان بالرسات :
ایمان بالکتب:
حق و باطل کے معرکے میں ہمارا فرض
مسلمانوں کی اقسام
تحریک اسلامی کا قیام اور اس کی غرض
کامیابی کا معیار:
نصرت حق کب آتی ہے؟
میاں طفیل محمد
گزری ہوئی زندگی کا محاسبہ:
خدا کے دین کا صحیح تصور:
نماز کا عملی مقصود
نماز کا سب سے پہلا کلمہ:
تکبیر تحریمہ:
تعویذ:
سورۂ فاتحہ:
سورۂ اخلاص:
رکوع‘ قومہ اور سجدہ:
التحیات:
درود شریف پڑھنے کا تقاضا:
دعاء قنوت کی روشنی میں جائزہ لیجئے:
دعاء قنوت:
آخری دعا اور سلام:
اقامت صلوٰۃ حقیقت
اذان کا مقصد اور اس کی حقیقت:
دین پوری زندگی پر حاوی ہے:
آج دنیا میں کروڑوں مسلمان موجود ہیں مگر نظام اسلام کا وجود نہیں!
دین میں دعوت اسلامی کی اہمیت:
دعوت کی راہ کا پہلا قدم:
دعوت کی راہ کا دوسرا قدم:
اس راہ کا تیسرا قدم:
عبادت کا اصل مفہوم اور اس کی روح:
روحانیت کیا ہے؟
دین اسلام صرف مسلمانوں کا دین نہیں یہ پوری نوع انسانی کا دین ہے:
دین اسلام کو صرف مان لینا کافی نہیں ہے‘ اس کی تبلیغ اور اقامت بھی لازم ہے:
غیر مسلموں کے لیے اسلام کا پیغام:
اور اس میں خواتین کا حصہ

دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

دعاء قنوت:

اللھم انا نستعینک و نستغفرک و نومن بک و نتوکل علیک و نثنی علیک الخیر۔ و نشکرک ولا نکفرک و نخلع و نترک من یفجرک۔ اللھم ایاک نعبد و لک نصلی و نسجد الیک نسعی ونحفد و نرجوا رحمتک و نخشٰی عذابک۔ ان عذابک بالکفار ملحق۔
’’اے اللہ! ہم تیری مدد چاہتے ہیں۔ تیری بخشش کے طلبگار ہیں۔ صدق دل سے تجھے اپنا خدا تسلیم کرتے ہیں۔ تو ہی ہمارا سہارا اور تجھی پر ہمارا بھروسہ ہے۔ ہم تیری بہترین ثناء کرتے ہیں (تیری نافرمانی تو درکنار) تیرے نافرمانوں سے ہم دور بھاگتے اور ان سے قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ اے اللہ ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تیرے ہی آگے جھکتے اور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ہماری تمام سعی و جہد تیرے لیے ہے۔ ہم تیری خدمت کے لیے حاضر اور اسی میں سرگرم مل ہیں۔ ہم تیری رحمت کے امیدوار اور تیری گرفت سے لرزاں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تیرا عذاب تیرے نافرمانوں پر لٹک رہا ہے‘‘
اب اس دعا کے پہلے جملے کو لیجئے اور بتائیے کہ:
(1 ) اللھم انا نستعینک کہتے ہیں تو اس استدعا کے وقت کون سے امور‘ کیا تمنائیں اور آرزوئیں اور کیا مقاصدپیش نظر ہوتے ہیں جن کے حصول کے لیے اللہ سے مدد مانگتے ہیں؟ کیا اللہ کی اطاعت؟ اس کے رسول کا اتباع؟ اس کے دین کی سربلندی؟ اس کی راہ میں استقامت؟ اس کے باغیوں سے کشمکش؟ دین حق کا غلبہ اور دین طاغوت کا استیصال؟ یا صرف خواہشات نفس کا حصول‘ نظام باطل میں روز افزوں پذیرائی‘ اس کے علمبرداروں کا تقرب اور اہل دنیا کے ہاں اعزاز اور ناموری؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ اکثر و بیشتر دعائوں میں یہ دوسری ہی چیزیں مقصود و مطلوب ہوتی ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو سوچنا چاہئے کہ کیا ایسے لوگ اللہ کی گرفت اور اس کے غضب سے اس قدر بے خوف و بے پرواہ ہوگئے ہیں کہ اس کی نافرمانی کے کاموں میں کامیابی کے لیے اسی سے دعائیں مانگنے لگے ہیں؟ ایسے لوگوں کو خوب جان لینا چاہئے کہ وہ نہایت غیور اور سخت انتقام لینے والا ہے۔ جب اس کی گرفت کا وقت آگیا تو ایک سانس کی بھی مہلت نہیں دی جائے گی۔
ولکل امۃ اجل فاذا جآء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون۔
(الاعراف: ۳۴)
’’ہر گروہ کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے۔ پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک لمحہ کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوتی‘‘
ہاں اس وقت معین تک کھلی چھٹی ہے کہ جو کچھ کوئی چاہے‘ کرتا رہے۔
(2) کیا آپ کی و نستغفرک کی دعا فی الواقع
اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسھم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم… ولم یصروا علی مافعلوا وھم یعلمون۔ (آل عمران: ۱۳۵)
’’اگر کبھی کوئی برا کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں… اور وہ جان بوجھ کر اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے‘‘
میں مذکور شرائط عفو و درگزر پر پوری اترتی ہے؟ کہ اصلاً تو آپ نے اللہ کی اطاعت اور اس کے رسولؐ کے اتباع کو اپنی پوری زندگی کا شیوہ بنا لیا ہے اور زندگی کے تمام معاملات و مراحل اور نشیب و فراز میں اسی کے احکام اور حدود کی پابندی کا اہتمام کرتے ہیں‘ اس کی نافرمانی سے بچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اگر کبھی بشری کمزوری یا غلبہ نفس کی بنا پر کوئی لغزش سرزد ہوجاتی ہے تو احساس ہوتے ہی فوراً ندامت سے سرجھکا دیتے ہیں اور اپنے رب کے حضور گڑگڑاتے ہیں‘ معافی اور درگزر کی درخواستیں کرتے ہیں اور آئندہ لغزشوں سے بچنے کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کرتے ہیں؟ لیکن اگر صورت یہ ہے کہ پوری بے پروائی اور تسلی کے ساتھ اس کی حدود کو توڑا‘ اس کی شریعت کو ٹھکرایا اور اس کی آیات کو قدم قدم پر عملاً جھٹلایا جاتا ہے‘ کہیں رسم و رواج کی پابندی ہے‘ کہیں شریعت برطانوی کا اتباع ہے‘ اور کہیں کسی دوسرے ازم یا خود اپنے نفس کی پیروی ہے‘ اور پھر یہ سب کچھ سہو و نادانی سے نہیں‘ پورے اطمینان‘ شعور اور ذوق و شوق کے ساتھ دن رات کیا جارہا ہے تو اس کے بعد و نستغفرک کی یہ درخواست اپنے رب سے مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ’’توبہ و استغفار‘‘ کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کہ اپنی منزل کی طرف صحیح راہ سے بڑھتے ہوئے کسی ایسے شخص کا پائوں جو نہیں چاہتا کہ گندگی و غلاظت کی ایک چھینٹ بھی اس پر پڑے‘ کبھی پوری احتیاط کے باوجود کسی گندی نالی میں پڑ جاتا ہے تو وہ اس آلودگی کا علم ہوتے ہی بے چین ہو کر پانی کی تلاش میں بھاگتا ہے اور جلد از جلد اس گندگی کو اپنے جسم سے دور کرکے پھر اپنے راستے پر اور زیادہ احتیاط سے روانہ ہو جاتا ہے۔ یہی حال اللہ کے ایک مومن و مسلم بندے کا ہے کہ وہ دین کی راہ پر پوری احتیاط سے چلتا ہے۔ مگر کہیں اتفاق سے اس کا پائوں راہ حق سے بھٹک کر گناہ کی غلاظت میں پڑ جاتا ہے تو وہ اس کا علم ہوتے ہی بے تاب ہو جاتا ہے۔ اللہ کے حضور روتا ہے‘ معافی مانگتا ہے‘ توبہ و استغفار اور صدقہ و خیرات تک کرتا ہے اور آئندہ زندگی میں پہلے سے زیادہ محتاط ہو جاتا ہے۔
لیکن جن لوگوںنے گناہ اور اللہ کی نافرمانی اور اس کے دین سے انحراف کو اپنا پیشہ اور معمول ہی بنا لیا ہو‘ ان کی زندگی اور وسائل قیام کفر‘ خدمت طاغوت اور اطاعت نفس میں لگے ہوں‘ ان کا خون تک خدا سے سرکشی کی راہ میں بہنے کے لیے بے تاب رہتا ہو‘ وہ اپنی اولاد کو بھی اسی راہ پر چلنے اور بڑھنے کے لیے پرورش کر رہے ہوں اور ان کی زندگی کا انتہائی مقصود اسی سمت میں بڑھنا ہو ااسی میں فلاح و ترقی بھی سمجھتے ہوں اور ضمیر کی کھجلی مٹانے کے لیے یا تقلید آباء کی بنا پر کچھ اسلامی رسوم و عبادات اور معاشرت کے طریقے بھی اختیار کیے ہوئے ہوں‘ ایسے حضرات کا و نستغفرک کا وظیفہ زبانی جمع خرچ سے زائد کیا حیثیت رکھتا ہے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ عفو و درگزر کا موجب ہوگا یا الٹا قذوقوا فلن نزید کم الا عذاباً (۷۸۔۳۰) ۱؎ کا باعث بنے گا۔
(3)کیا ’’ونومن بک‘‘ کے اقرار اور عہد کے بعد اب دوسرے سب زندہ و مردہ خدائوں سے فی الواقع کٹ کر صرف اللہ واحد سے اپنا رشتہ جوڑ لیا ہے کہ اب اپنا الٰہ‘ رب اور فرمانروا اسی کو مانتے ہیں‘ اسی کے دین پر چلتے ہیں‘ اسی کے قانون و شریعت کی پیروی کرتے ہیں‘ سب سے بڑھ کر اسی کے عذاب سے ڈرتے ہیں‘ سب سے زیادہ اسی کے انعام کا لالچ رکھتے ہیں‘ اسی کا کلمہ بلند کرنے کی فکر میں رہتے ہیں‘ اسی کی رحمت کی آس ہے‘ اسی کے عہد کا پاس ہے‘ اسی کی سرپرستی کی طلب ہے اور اسی سے ساری تمنائیں وابستہ ہیں؟ یا خدانخواستہ حقیقت اس کے خلاف یہ ہے کہ اللہ سے بیشتر معاملہ زبانی زبانی ہے اور عمل اکثر و بیشتر اپنے نفس اور دوسروں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ہے۔ اس لیے اگر اپنے ایمان میں کوئی کمزوری محسوس ہو تو اس کی سمت اور درستی کی سب سے پہلے فکر کرنی چاہئے۔
(4)’’ونتوکل علیک‘‘اللہ پر توکل ومن و مسلم ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔
قرآن مجید میں آیا ہے:
قال موسیٰ یقوم ان کنتم امنتم باللہ فعلیہ توکلوا ان کنتم مسلمین۔
(۱۱:۱۸۴)
’’موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو‘ اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘ تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو‘‘
اللہ پر توکل کے معنی یہ ہیں کہ ہر حالت اور تمام معاملات میں ہدایت‘ امداد و اعانت اور دستگیری کے لیے اللہ ہی پر بھروسہ رکھا جائے اور پورا پورا بھروسہ کیا جائے۔ اس کی بات کے مقابلے میں کسی کی بات کی‘ اس کے خوف کے مقابلے میں کسی کے خوف کی اور اس کے انعام کے مقابلے میں کسی کے انعام کی پراہ نہ کی جائے۔ یہاں تک کہ خدا کے رسولوں اور ان کے ساتھیوں کی مانند خدا کے کلمے کو سربلند اور خدا کے دین کو برپا کرنے کی جدوجہد میں کسی دوسرے کے خوف و لالچ‘ تکلیف و راحت‘ رعب و دبدبہ اور جاہ و جلال کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ آپ اپنا اور اپنے دل و دماغ اور جملہ معاملات کا جائزہ لے کر دیکھئے کہ کیا وہ اللہ پر توکل کی میزان پر پورے اترتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ حال یہ ہو کہ معمولی مالی و جانی نقصان کا خطرہ‘ بعض اعزہ و اقربا کی خفگی اور کچھ آسائشوں سے محروم ہو جانے کے اندیشے جیسی چیزیں بھی آپ کو خدا کی طرف بڑھنے سے روکنے کی کی قوت رکھتی ہیں تو بتائیے کہ یہ ’’ونتوکل علیک‘‘ کی خدا کے روبرو تکرار ایک جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟ آخر آپ نے اللہ پر بھروسہ کیا کس چیز میں ہے؟
(5)پھر وثنی علیک الخیر میں اللہ سے جس اخلاص اور وابستگی اور اس کے دین کے ساتھ جس شیفتگی کا اظہار کیا جاتا ہے‘ کیا اس کی کوئی شہادت آپ کی عملی زندگی اور روز مرہ کی دوڑ دھوپ میں پائی جاتی ہے؟ یا پھر اس عالم الغیب کے بارے میں بھی یہ سمجھ رکھا ہے کہ اسے بھی زبانی خوشامد اور کنی چپڑی باتوں سے بہلا کر کام نکال لیں گے۔ اللہ سے چال بازی کرنے والوں کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ وہ بھی خیر الماکرین ہے اور دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے۔ اس لیے اس کے مقابلے میں جن جن کی حاکمیت‘ عقیدت‘ محبت‘ اطاعت وابستگی اور کارسازی کا عقیدہ دل میں لے کر لوگ اس کے ساتھ محض زبانی تعریف و ستائش کا طرز عمل اختیار کریں گے‘ ایک دن وہ ان سب کو حقیقت کھول کر سامنے رکھ دے گا اور پھر اس وقت اس کے سوا نہ کوئی ولی یا سرپرست دکھائی دے گا‘ نہ کسی طرف سے کوئی مدد آسکے گی‘ اور جن فساق و فجار کی خدمت سرپرستی اور توقیر و تقرب پر آج ناز ہے‘ انہی کی قیادت میں اللہ کے عذاب کی طرف ہانکے جائیں گے۔
(6)اب و نشکرک ولا نکفرک و نخع و نترک من یفجرک کے الفاظ میں کیے جانے والے عہد کے آئینے میں بھی اپنی صورت دیکھیے اور خود ہی فیصلہ فرمائیے کہ اس عہد کو کہاں تک پورا کیا جارہا ہے۔ کیا آپ نے فی الواقع اپنی زندگی کو ناشکری سے پاک کرکے شکر گزاری اور فرمانبرداری کی راہ اختیار کرلی ہے اور اللہ کے نافرمانوں اور سرکش لوگوں سے اب کوئی واسطہ نہیں رکھتے؟ اور ہر ایک سے آپ کے تعلقات کی نوعیت اللہ اور اس کے دین کے بارے میں ان کی روش پر منحصر رہتی ہے‘ خواہ وہ آپ کا عزیز ترین دوست‘ بھائی‘ باپ‘ بیٹے‘ قومی قائدین یا پیرو مرشد ہی کیوں نہ ہوں‘ کیا اب آپ کے سارے وسائل اور آپ کی تمام قوتیں اور قابلیتیں اللہ کے شکر کی راہ میں صرف ہو رہی ہیں؟ دور نہ جائیے صرف انہی قوتوں اور چیزوں ہی کو لیجئے جن کو اللہ نے براہ راست آپ کے قبضہ قدرت اور تصرف میں دے رکھا ہے۔ کیا اب آپ کی آنکھیں وہی کچھ دیکھتی ہیں‘ کان وہی کچھ سنتے ہیں‘ زبان وہی کچھ بولتی ہے‘ دماغ وہی کچھ سوچتا ہے‘ دل اسی پر ریجھتا ہے‘ معدہ صرف وہی کچھ قبول کرتا ہے اور ہاتھ پائوں صرف اسی طرف حرکت کرتے ہیں جو اللہ کے نزدیک آپ کے لیے جائز ہے؟ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے تابع کر دیا ہے مثلاً اولاد‘ شاگرد‘ ماتحت ملازمین اور دوسرے خادمین اور زبردست لوگ‘ کیا آپ ان لوگوں کو اس راہ پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پسند کی ہے؟ اور کیا آپ کی سب قوتیں اور سارے وسائل اس غرض کے لیے استعمال ہوتے ہیں جس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں مرحمت فرمایا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقین نہیں ہے بلکہ ’’شکر‘‘ کے بجائے جان و مال اور دل و دماغ کی بہت سی قوتیں اللہ سے سرکشی میں تعاون اور اس کی زمین پر فتنہ و فساد کو فروغ دینے میں معاونت کر رہی ہیں اور باپ بیٹے سے‘ بھائی بھائی سے‘ بیوی شوہر سے‘ ملازم مالک سے اور مرید مرشد سے‘ اغراض نفس اور نفع دنیا کی خاطر بے شک ایک دوسرے سے ناراض و بیزاری کا اظہار بھی کر دیتے ہوں اور باہم قطع تعلق بھی کردیتے ہوں‘ لیکن اللہ اور اس کے دین کے معاملے میں ایک دوسرے سے علیحدگی کی نوبت تو درکنار‘ برہمی بیزاری کے اظہار کی ضرورت بھی کسی کو شاید ہی محسوس ہوتی ہے تو اس بے حسی کے ساتھ بار بار کی اس غلط بیانی کے انجام پر غور کرلینا چاہئے۔ یا تو اپنے کو اپنے اس عہد و اقرار کے مطابق تبدیل کیا جائے ورنہ اگر آدمی اپنے عمل سے نعوذ باللہ یہ شہادت دے رہا ہو کہ و نکفرک ولا نشکرک و نحب من یفجرک کہ ہم تیری ناشکری اور نافرمانی کرتے ہیں‘ تیرا شکر نہیں ادا کرتے اور تیرے نافرمانوں کو محبوب رکھتے ہیں (نعوذ باللہ من ذلک) تو زبانی دعویٰ شکر گزاری و فرمانبرداری سے کیا حاصل ہوگا۔
اللہ کا شکر محض ’’ش ک ر‘‘ سے مرکب لفظ کے تلفظ اور اس کی رٹ لگا دینے کا نام نہیں بلکہ اللہ کی کامل اطاعت و بندگی اور اس کی دی ہوئی ہر شے اور ہر قوت کو اسی کی مرضی کے مطابق اس کی بندگی اور اطاعت کے لیے خاص کر دینے کا نام ہے اور اسی کا اقرار و نشکرک ولا نکفرک و نخلع و نترک من یفجرک کے ذریعے کرایا جاتا ہے۔
(7) اور کیا اللھم ایاک نعبدو لک نصلی و نسجد کے اقرار کے مطابق اب آپ کی اطاعت و بندگی‘ تمام مراسم عبودیت‘ نماز اور سجدے سب فی الواقع صرف اللہ ہی کے لیے مخصوص ہو چکے ہیں‘ یا آپ نے اپنے ایمان و ضمیر‘ دل و دماغ اور جسم و جان کی جملہ قوتوں کی ایک دکان لگا رکھی ہے کہ ان میں سے جو چیز جس غرض کے لیے کوئی چاہے‘ خرید کر لے جائے۔ آپ کو ان کی قیمت مل جائے تو آپ کو اس سے کوئی بحث نہیں کہ ان کے عوض آپ کو کہاں اور کس کام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اگر آپ کے دل و دماغ اور ہاتھ پائوں کی قوتوں کا کرایہ آپ کو پیش کر دیا جائے تو آپ سود و قمار اور شراب و جوئے جیسے قبیح کاموں کا انتظام بھی بے دریغ کر سکتے ہیں۔ شریعت الٰہی کے صریحًا خلاف قوانین کے نفاذ و تشہیر کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ نظام کفر کی پوری گاڑی گھسیٹنے کی خدمت انجام دے سکتے ہیں اور حد یہ ہے کہ غلبہ کفر اور تسخیر حق کے لیے اپنا اور دوسروں کا خون تک بہا سکتے ہیں۔ اور عجیب تر بات یہ ہے کہ اس پر عوام ہی نہیں‘ بہت سے دیندار بھی مجبوری اور اضطرار کا عذر کرتے ہیں۔ لیکن وہ خدا کو گواہ کرکے بتائیں (کہ اصل معاملہ تو اسی سے ہے) کیا جو کچھ وہ حرام و ناجائز ذرائع سے حاصل کرتے ہیں وہ صرف اضطرار کی حالت میں اور قوت لایموت کے لیے رزق حاصل کرنے کی حد تک ہی ہوتا ہے یا آئندہ نسلوں تک کے لیے مال حرام سے تجوریاں بھر بھر کر رکھ رہے ہیں کہ بیٹے اور پوتے بھی اسی پر پلیں اور پروان چڑھیں اور ان کے جسم کی بھی ایک ایک بوٹی اسی مال سے بنے؟ کیا اس طریق پر حاصل کیا ہوا رزق کھاتے وقت اسی طرح کراہت اور بیزاری محسوس ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فاقوں مرتا آدمی بھی اگر اپنی جان بچانے کے لیے کوئی غلیظ و ناپاک شے کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے تو بھی لازمی طور پر فطرتاً محسوس کرتا ہے اور اسے محسوس ہونی چاہئے۔ کیا جو شخص حلال رزق نہ پاکر اضطراراً مردار کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے وہ اسی طرح مزے لے لے کر کھاتا ہے جس طرح خادمیں طاغوت کے ہاں ہو رہا ہے۔ کیا کوئی مضطر مسلمان اس طرح اطمینان کے ساتھ مردار پر ڈیرا ڈال کر بیٹھ سکتا ہے جس طرح اب قوم کی کثیر تعداد اطمینان کے ساتھ حرام ذرائع رزق پر جم کر بیٹھ گئی ہے اور اسے ان کو حلال ذرائع سے بدلنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کی ساری دوڑ دھوپ اسی کافرانہ نظام معیشت اور اجائز و حرام ذرائع رزق کو بڑھانے اور ترقی دینے کے لیے ہے۔
برادران عزیز‘ ابھی موقع ہے کہ ہم اپنے ایمان اور آخرت کی فکر کرلیں کہ اللہ کے ہاں فیصلہ مردم شماری کے رجسٹر کو دیکھ کر نہیں کیا جائے گا بلکہ اس پر کیا جائے گا کہ ہمارا کارنامہ حیات ایک نعبد و لک نصلی و نسجد کے اقرار اور والیک نسعیٰ و نحفد و نرجو رحمتک و نخشٰی عذابک کے عہد پر کہاں تک پورا اترتا ہے۔وہاں یہ دیکھا جائے گا کہ اس کی راہ میں جدوجہد کا حق ادا کیا یا نہیں‘ اس کے دین کی خدمت اور علم برداری کے لیے کہاں تک جان لڑائی‘ اور کیا آپ نے اپنے عہد کے مطابق واقعتاً اس کی نظر رحمت کے سوا کسی کی پرواہ نہ کی‘ اس کے عذاب کے سوا کسی کے عذاب کا ڈر نہ رکھا اور ان عذابک بالکفار ملحق پر کامل یقین کے ساتھ ساری زندگی اس طرح گزار دی کہ اللہ کی نافرمانی اور اس کے عذاب کے درمیان اتنا وقفہ بھی حائل نہیں ہے جتنا آگ میں ہاتھ ڈالنے اور اس کے جل جانے کے درمیان ہوتا ہے۔ آخر ایک حرکت قلب اور ایک سانس کے سوا دونوں کے درمیان اور کیا چیز حائل ہے؟ ادھر حرکت قلب اور سانس بند ہوئی اور خدا کا عذاب سامنے موجود ہے۔
ذرا سوچئے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق ہیں‘ کیا انہیں ادا کرنے کی کوئی سعی آپ کر رہے ہیں؟ کیا اس کے لیے کبھی کوئی تردد کیا ہے‘ اس کی راہ میں کوئی چوٹ کھانا یا نقصان اٹھانا تو درکنار اس کی تمنا بھی کبھی آپ کے دل میں پیدا ہوئی ہے؟ یا پھر الٹا دین ہی کو اپنی اغراض کے لیے استعمال کرنے کے لیے اپنے ساتھ لگا رکھا ہے کہ کوئی برا وقت پڑے یا کوئی مصیبت آئے تو اسلام اسلام پکارنا شروع کر دیا۔ کچھ جلسے کیے‘ کچھ جلوس نکالے‘ کچھ نعرے لگائے‘ کچھ لوگوں کو الو بنایا‘ اپنے مخالفین کو مرعوب کرکے اپنا سکہ جمایا اور اپنا کام نکال کر اللہ کے دین کو پھر میان میں بند کرکے کسی تہ خانہ میں رکھ دیا۔ کیا اس وقت ’’مسلمانوں‘‘ کے ہاں دین کا مصرف یہی نہیں رہ گیا ہے کہ طاغوت کی چاکری ۱؎ کے مناصب‘ اس کی کونسلوں کی ممبری‘ اس کی عنایت سے استفادہ‘ مادی مفادات کے حصول و تحفظات اور ایسے ہی دوسرے حقیر و مادی فائدے اٹھانے کے لیے اسے استعمال کیا جائے؟ اور کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ اللہ کا دین عام طور پر اسی حد تک قابل قبول ہے جہاں تک خواہشات نفس‘ خوشنودی طاغوت اور جاہ دنیا کے حصول میں کام آسکے؟ گویا اب ’’فرزندان توحید‘‘ کا مطالبہ یہ ہے کہ ان کو خدا کے دین کے خادم نہیں بلکہ خدا کے دین کو ان کا خادم ہونا چاہئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اگر آپ دعائے مذکور کے بجائے وتر کی قنوت میں یہ دعا پڑھتے ہیں:
اللھم اھدنی فیمن ھدیت و عافنی فی من عافیتت و نولنی فی من نولیت و بارک لی فیما اعطیت وقنی شرما قضیت فانک نقضی ولا یقضٰی علیک انہ لا یذل من والیت تبارکت ربنا و تعالیت۔
’’اے میرے اللہ‘ اپنی ہدایت کی طرف میری رہنمائی فرما‘ اپنے دامن عافیت میں مجھے عافیت عطا فرما‘ تو خود میری سرپرستی فرما‘ جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے‘ اسی میں برکت عطا فرما۔ جس شرکا تو نے فیصلہ کرلیا ہے‘ اس سے مجھے محفوظ رکھ‘ کیونکہ تیرا فیصلہ سب پر نافذ ہوتا ہے کسی دوسرے کا فیصلہ تجھ پر نافذ نہیں ہوسکتا۔ جس کی تو سرپرستی فرمائے اسے کوئی ذلیل نہیں کرسکتا۔ اے ہمارے رب‘ تو بہت ہی برکت والا اور بلند مرتبہ ہے‘‘
تو یہ بتائیے کہ آپ اللہ کی ہدایت‘ عافیت‘ برکت اور سرپرستی حاصل کرنے کے لیے کیا کوشش کر رہے ہیں؟ یا پھر انک قضی تقضی ولا یقضیٰ علیک کے اس اقرار کے بعد اللہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اپنے ارادے اور اختیار سے تو ہم اس پر چلنے والے نہیں ہیں ہاں اگر تو چاہتا ہے تو اپنی غیبی طاقت سے ان چیزوں کو زبردستی ہم پر نافذ کردے۔

شیئر کریں