اب میں دستور کے چند بڑے بڑے اور بنیادی مسائل کو لے کر مختصراً یہ بتائوں گا کہ اسلام کے اصلی مآخذ میں ان کے متعلق کیا قواعد ہمیں ملتے ہیں۔ اس سے آپ خود یہ اندازہ کر سکیں گے کہ اسلام دستوری مسائل میں کوئی راہ نمائی کرتا ہے یا نہیں، اور کرتا ہے تو آیا اس کی نوعیت محض سفارشات کی ہے یا ایسے قطعی احکام کی جنھیں ہم مسلمان ہوتے ہوئے ردّ نہیں کر سکتے۔ اس سلسلے میں طوالت سے بچنے کے لیے میں دستور کے صرف ۹بنیادی مسائل پر گفتگو کروں گا:۔
(۱) پہلا سوال یہ ہے کہ حاکمیت کس کی ہے؟ کسی بادشاہ کی؟ یا کسی طبقے کی؟ یا پوری قوم کی؟ یا خدا کی؟
(۲) دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیٹ کے حدودِ عمل کیا ہیں؟ کس حد تک وہ اطاعت کا مستحق ہے اور کہاں اس کی اطاعت کا حق ساقط ہو جاتا ہے؟
(۳)تیسرا بنیادی سوال دستور کے بارے میں ہے کہ ریاست کے مختلف اعضاء (Organs of the state) یعنی انتظامیہ (Executve) عدلیہ (Judiciary) اور مقننہ (Legislature) کے الگ الگ حدودِ عمل کیا ہیں؟ ان میں سے ہر ایک کیا فریضہ ادا کرے گا اور کن حدود کے اندر کرے گا؟ اورپھر ان کے درمیان تعلق کی کیا نوعیت ہو گی؟
(۴)چوتھا اہم سوال یہ ہے کہ اسٹیٹ کا مقصدِ وجود کیا ہے؟ کس غرض کے لیے سٹیٹ کام کرے گا اور اس کی پالیسی کے بنیادی اصول کیا ہیں؟
(۵)پانچواں سوال یہ ہے کہ ریاست کے نظام کو چلانے کے لیے حکومت کی تشکیل کیسے کی جائے گی؟
(۶) چھٹا سوال یہ ہے کہ حکومت کے نظام کو چلانے والوں کی صفات (Qualifications) کیا ہوں گی؟ کون لوگ اس کو چلانے کے لیے اہل قرار دیے جائیں گے؟
(۷)ساتواں سوال یہ ہے کہ دستور میں شہریت کی بنیادیں کیا ہوں گی؟ کیسے کوئی شخص اس ریاست کا شہری قرار پائے گا اور کیسے نہیں؟
(۸)آٹھواں سوال یہ ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کیا ہیں؟ اور پھر
(۹)نواں سوال یہ ہے کہ شہریوں پر اسٹیٹ کے حقوق کیا ہیں؟
ہر دستور کے معاملے میں یہ سوالات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمیں دیکھنا ہے کہ اسلام ان سوالات کا کیا جواب دیتا ہے۔