’’التحیات‘‘ کے بعد نماز کو سلام پر ختم کرنے سے پہلے ہم یہ درود شریف پڑھتے ہیں:
اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ ال محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم و علیٰ ابراھیم انک حمید مجید۔
اللھم بارک علٰی محمد و علیٰ آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم و علیٰ ابراھیم انک حمید مجید۔
’’اے اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ماننے والوں پر رحمت فرما۔ جس طرح کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں پر رحمت فرمائی۔ بے شک تو بہت ہی قابل تعریف اور بزرگ و برتر ہے۔
اے اللہ‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ماننے والوں کو برکت و اقبال عطا فرما جس طرح کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کو برکت و اقبال سے نوازا۔ بے شک تو بہت ہی قابل تعریف اور بزرگ و برتر ہے‘‘
اب اپنے اس درود و سلام کو سامنے رکھ کر بتائیے کہ جس رسولؐ اور جس رسولؐ کے نام لیوائوں تک کے لیے زبان سے آپ اس قدر محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں کہ رات دن ان کے لیے خیر و برکت اور ترقی و سربلندی کی۔ اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ الہ محمد اور اللھم بارک علٰی محمد و علیٰ ال محمد پڑھ پڑھ کر دعائیں کرتے ہیں کیا ان کے اس مقصد زندگی اور مشن کے لیے جس میں انہوں نے اپنی جان کھپا دی‘ ان کی سربلندی کے لیے کوئی کام بھی کر رہے ہیں؟ کیا آپ کا دل حقیقت میں ان دعائوں کے ساتھ ہے؟ کیا آپ روزانہ زندگی اور اس کے مشاغل‘ آپ کی مصروفیتیں اور سعی و جہد اور آپ کے جان و مال کا صرفہ ان ہی دعائوں اور اسی مقصد کی تکمیل کے لیے ہے؟ یا اصل صورت حال یہ ہے کہ بغل میں چھری اور منہ سے رام رام کہتے جارہے ہیں کہ اپنی سب نہیں تو بیشتر قوتیں اور وسائل تو دین محمدیؐ کو ملک بدر اور دین طاغوت کو سربلند کرنے میں لگا رکھے ہیں اور زبان پر دعا اور درود جاری ہے؟ صاحبو! خود بھی اپنے قول و عمل کا موازنہ کیجئے اور اپنی قوم کو بھی اس طرز عمل کی طرف توجہ دلائیے کہ سوچ سمجھ کر چلیں کہ معاملہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے ہے۔ آخر اس دوغلے کردار کے ساتھ بھیجا ہوا درود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روحانی خوشی اور مسرت کا موجب ہو رہا ہوگا یا اذیت کا؟ عملی زندگی اور دوڑ دھوپ سے قطع نظر چند منتروں کا جاپ یا کچھ اوراد کی تکرار اینٹ‘ پتھر سے گھڑے ہوئے دیوتائوں کو تو ممکن ہے‘ خوش کر دے مگر اس علیم و خبیر خدا اور اس کے رسولؐ کے ہاں تو اس سے رسائی نہیں ہوسکتی۔
اور پھر: