اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کو اپنے دین پر قائم رہنے کی جو آزادی بخشی گئی ہے اور جزیہ کے معاوضے میں ان کی جان و مال اور ان کی مذہبی زندگی کے تحفظ کا جو ذمہ لیا گیا ہے اس کامآل زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہے کہ جس طریقے پر وہ خود چلنا چاہتے ہیں اس پر چلتے رہیں۔ اس سے تجاوز کرکے اگر وہ اپنے طریقے کو غالب کرنے کی کوشش کریں گے تو کوئی اسلامی حکومت جو اس نام سے موسوم کیے جانے کے قابل ہو، انھیں اس کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتی۔ جزیہ کا قانون قرآن مجید کی جس آیت میں بیان ہوا ہے اس کے صاف الفاظ یہ ہیں کہ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ھُمْ صٰغِرُوْنَo (التوبہ ۹:۲۹) (یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں)۔اس آیت کی رُو سے ذمیوں کی پوزیشن اسلامی حکومت میں یہ ہے کہ وہ ’’صاغرون‘‘ بنے رہنے پر راضی ہوں۔ ’’کابرون‘‘ بننے کی کوشش وہ ذمی ہوتے ہوئے نہیں کرسکتے۔ اسی طرح باہر سے آنے والے غیر مسلم جو مستامن کی حیثیت سے دارالاسلام میں داخل ہوں، تجارت، صنعت و حرفت، سیاست، حصول تعلیم، اور دوسرے تمام تمدنی مقاصد کے لیے تو ضرور آسکتے ہیں، لیکن اس غرض کے لیے ہرگز نہیں آسکتے کہ اللہ کے کلمہ کے مقابلے میں کوئی دوسرا کلمہ بلند کریں۔ اللہ نے کفار کے خلاف جو مدد اپنے پیغمبر کو اور اس کے بعد مسلمانوں کو دی یا آئندہ دے گا، اور جس کے نتیجے میں دارالاسلام پہلے قائم ہوا یا آئندہ کبھی قائم ہوگا، اس کی غرض صرف یہ تھی، اور آئندہ بھی یہی ہوگی کہ کفر کا بول نیچا ہو اور اللہ کا بول بالا ہو کر رہے۔فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہ‘ عَلَیْہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی ط وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا۔ط (التوبہ ۹:۴۰) پس مسلمان سخت احسان فراموش اور کافر نعمت ہوں گے اگر اللہ کی اس مدد سے فائدہ اٹھانے کے بعد وہ اپنے حدودِ اختیار میں کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا کو سُفْلٰی سے پھر عُلْیَا ہونے کے لیے کوشش کرنے دیں۔