اس کے بعد دَور خلافت راشدہ کے نظائر ملاحظہ ہوں:
(۱) حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں ایک عورت جس کا نام ام قرفہ تھا اسلام لانے کے بعد کافر ہوگئی۔ حضرت ابوبکر نے اس سے توبہ کا مطالبہ کیا، مگر اس نے توبہ نہ کی۔ حضرت ابوبکر نے اسے قتل کرا دیا۔ (دارقطنی، بیہقی)
(۲)عمرو بن عاص حاکم مصر نے حضرت عمر کو لکھا کہ ایک شخص اسلام لایا تھا، پھر کافر ہوگیا۔ پھر اسلام لایا پھر کافر ہوگیا۔ یہ فعل وہ کئی مرتبہ کر چکا ہے۔ اب اس کا اسلام قبول کیا جائے یا نہیں۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ جب تک اللہ اس سے اسلام قبول کرتا ہے تم بھی کیے جائو۔ اس کے سامنے اسلام پیش کرو، مان لے تو چھوڑ دو ورنہ گردن مار دو۔ (کنز العمال)
(۳) سعد بن ابی وقاص اور ابو موسیٰ اشعری نے تُستُر کی فتح کے بعد حضرت عمرؓ کے پاس ایک قاصد بھیجا۔ قاصد نے حضرت عمرؓ کے سامنے حالات کی رپورٹ پیش کی۔ آخر میں حضرت عمرؓ نے پوچھا کوئی اور غیر معمولی بات؟ اس نے عرض کیا ہاں اے امیر المومنین! ہم نے ایک عرب کو پکڑا جو اسلام لانے کے بعد کافر ہوگیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا پھر تم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ اس نے کہا ہم نے اسے قتل کر دیا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا ’’تم نے ایسا کیوں نہ کیا کہ اسے ایک کمرے میں بند کرکے دروازہ کا تیغا لگا دیتے پھر تین دن تک روزانہ ایک روٹی اس کے پاس پھینکتے رہتے۔ شاید کہ وہ اس دوران میں توبہ کرلیتا۔ خدایا! یہ کام میرے حکم سے نہیں ہوا، نہ میرے سامنے ہوا، نہ میں اسے سن کر راضی ہوا۔‘‘ لیکن حضرت عمرؓ نے اس پر حضرت سعدؓ اور ابوموسیٰ اشعریؓ سے کوئی باز پُرس نہیں کی اور نہ کوئی سزا تجویز کی۔
(طحاوی کتاب السیر، بحث استتابۃ المرتد، نیز مؤطا، بیہقی، و کتاب الام للشافعی)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سعد اور ابوموسیٰ کا فعل تھا تو قانون کی حدود کے اندر، لیکن حضرت عمرؓ کی رائے میں قتل سے پہلے اس شخص کو توبہ کا موقع دینا زیادہ بہتر تھا۔
(۴) حضرت عبداللہ ابن مسعود کو اطلاع ملی کہ بنی حنیفہ کی ایک مسجد میں کچھ لوگ شہادت دے رہے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ نے پولیس بھیجی اور ان کو گرفتار کرکے بلا لیا۔ جب وہ لوگ ان کے سامنے پیش ہوئے تو سب نے توبہ کرلی اور اقرار کیا کہ ہم آئندہ ایسا نہ کریں گے۔ حضرت عبداللہ نے اوروں کو توچھوڑ دیا مگر ان میں سے ایک شخص عبداللہ ابن النواحہ کو موت کی سزا دی۔ لوگوں نے کہا یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ نے ایک ہی مقدمے میں دو مختلف فیصلے کیے۔ حضرت عبداللہ نے جواب دیا کہ یہ ابن النواحہ وہ شخص ہے جو مسیلمہ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفیر بن کر آیا تھا۔ میں اس وقت حاضر تھا۔ ایک دوسرا شخص حجر بن وثال بھی اس کے ساتھ سفارت میں شریک تھا۔ آنحضرت نے ان دونوں سے پوچھا کیا تم شہادت دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ان دونوں نے جواب دیا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے؟اس پر حضورؐ نے فرمایا کہ اگر سفارتی وفد کو قتل کرنا جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کر دیتا۔ یہ واقعہ بیان کرکے حضرت عبداللہ نے کہا میں نے اسی وجہ سے ابن النواحہ کو سزائے موت دی ہے۔۱؎ (طحاوی حوالہ مذکور)
واضح رہے کہ یہ واقعہ حضرت عمرؓ کے زمانے کا ہے جب کہ حضرت عبداللہؓ ابن مسعود ان کے ماتحت کوفہ کے چیف جج تھے۔
(۵) کوفہ میں چند آدمی پکڑے گئے جو مسیلمہ کی دعوت پھیلا رہے تھے۔ حضرت عثمانؓ کو اس باب میں لکھا گیا۔ آپ نے جواب میں لکھا ان کے سامنے دین حق اور شہادت لا الٰہ الا اللہ و محمد رسول اللہ پیش کی جائے، جو اسے قبول کرے اور مسیلمہ سے براء ت کا اظہار کردے اُسے چھوڑ دیا جائے اور جو دین مُسیلمہ پر قائم رہے اسے قتل کر دیا جائے۔ (طحاوی حوالہ مذکور)
(۶) حضرت علیؓ کے سامنے ایک شخص پیش کیا گیا جو پہلے عیسائی تھا، پھر مسلمان ہوا پھر عیسائی ہوگیا۔ آپ نے اس سے پوچھا تیری اس روش کا کیا سبب ہے؟ اس نے جواب دیا میں نے عیسائیوں کے دین کو تمھارے دین سے بہتر پایا۔ حضرت علیؓ نے پوچھا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تیرا کیا عقیدہ ہے؟ اس نے کہا وہ میرے رب ہیں، یا یہ کہا کہ وہ علی کے رب ہیں۔ اس پر حضرت علیؓ نے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ (طحاوی، حوالہ مذکور)
(۷) حضرت علی کو اطلاع دی گئی کہ ایک گروہ عیسائی سے مسلمان ہوا پھر عیسائی ہوگیا۔ حضرت علیؓ نے ان لوگوں کو گرفتار کرا کے اپنے سامنے بلوایا اور حقیقت حال دریافت کی۔ انھوں نے کہا ہم عیسائی تھے، پھر ہمیں اختیار دیا گیا کہ عیسائی رہیں یا مسلمان ہو جائیں، ہم نے اسلام کو اختیار کرلیا، مگر اب ہماری رائے یہ ہے کہ ہمارے سابق دین سے افضل کوئی دین نہیں ہے، لہٰذا اب ہم عیسائی ہوگئے۔ اس پر حضرت علی کے حکم سے یہ لوگ قتل کر دیے گئے اور ان کے بال بچے غلام بنا لیے گئے۔ (طحاوی حوالہ مذکور)
(۸) حضرت علیؓ کو اطلاع دی گئی کہ کچھ لوگ آپ کو اپنا رب قرار دیتے ہیں۔ آپ نے انھیں بلا کر پوچھا تم کیا کہتے ہو؟ انھوں نے کہا آپ ہمارے رب ہیں اور ہمارے خالق و رازق ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا، تمھاری حالت پر افسوس ہے، میں تم جیسا ایک بندہ ہوں، تمھاری طرح کھاتا اور پیتا ہوں، اگر اللہ کی اطاعت کروں گا تو وہ مجھے اجر دے گا اور اس کی نافرمانی کروں گا تو مجھے خوف ہے کہ وہ مجھے سزا دے گا۔ لہٰذا تم خدا سے ڈرو اور اپنے اس عقیدہ کو چھوڑدو۔ مگر انھوں نے انکار کیا۔ دوسرے دن قنبر نے آکر عرض کیا کہ وہ لوگ پھر وہی بات کہہ رہے ہیں۔ آپ نے انھیں بلا کر دریافت کیا اور انھوں نے وہی سب باتیں دُہرا دیں۔ تیسرے روز حضرت علی نے انھیں بلا کر دھمکی دی کہ اگر اب تم نے وہ بات کہی تو میں تم کو بدترین طریقہ سے قتل کروں گا، مگر وہ اپنی بات پر اَڑے رہے۔ آخرکار حضرت علیؓ نے ایک گڑھا کھدوایا، اس میں آگ جلوائی، پھر ان سے کہا: دیکھو اب بھی اپنے اس قول سے باز آجائو ورنہ میں تمھیں اس گڑھے میں پھینک دوں گا، مگروہ اپنے اسی عقیدے پر قائم رہے۔ تب حضرت علیؓ کے حکم سے وہ سب اُس گڑھے میں پھینک دیے گئے۔ (فتح الباری جلد۱۲، ص ۲۳۸)
(۹) حضرت علی رَحبہ کے مقام پر تھے کہ آپ کو ایک شخص نے آکر اطلاع دی کہ یہاں ایک گھر کے لوگوں نے اپنے ہاں ایک بُت رکھ چھوڑا ہے اور اس کی پرستش کرتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت علیؓ خود وہاں تشریف لے گئے۔ تلاشی لینے پر بُت نکل آیا۔ حضرت علیؓ نے اس گھر میں آگ لگا دی اور وہ گھر والوں سمیت جل گیا۔ (فتح الباری جلد۱۲، صفحہ ۲۳۹)
(۱۰) حضرت علیؓ کے زمانے میں ایک شخص پکڑا ہوا آیا جو مسلمان تھا پھر کافر ہوگیا۔ آپ نے اسے ایک مہینے تک توبہ کی مہلت دی، پھر اس سے پوچھا، مگر اس نے توبہ سے انکار کر دیا۔ آخر کار آپ نے اسے قتل کرا دیا۔
(کنز العمال جلد۱،ص۸)
یہ دس نظیریں پورے دَور خلافت راشدہ کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ چاروں خلفا کے زمانے میں جب بھی ارتداد کا واقعہ پیش آیا ہے اس کی سزا قتل ہی دی گئی ہے، اور ان میں سے کسی واقعہ میں بھی نفس ارتداد کے سوا کسی دوسرے جرم کی شمولیت ثابت نہیں ہے جس کی بنا پر یہ کہا جاسکے کہ قتل کی سزا دراصل اس جرم پر دی گئی تھی نہ کہ ارتداد پر۔