Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
موجودہ عمرانی مسائل کا تاریخی پس منظر
دور متوسط کا کالبرلزم
صنعتی انقلاب
جدید لبرلزم
جدید نظام سرمایہ داری
1۔ شخصی ملکیت کا حق
2 ۔آزادیِ سعی کا حق
3۔ ذاتی نفع کا محرکِ عمل ہونا
4۔ مقابلہ اور مسابقت
5۔اجیر اورمستاجر کے حقوق کا فرق
6۔ ارتقاء کے فطری اسباب پر اعتماد
7 ۔ریاست کی عدم مداخلت
خرابی کے اسباب
سوشلزم اور کمیونزم
سوشلزم اور اس کے اصول
کمیونزم اور اس کا میزانیہ ٔ نفع و نقصان
ردعمل
فاشزم اور نازی ازم
صحیح اور مفید کام
حماقتیں اور نقصانات
نظام سرمایہ داری کی اندرونی اصلاحات
وہ خرابیاں جو اَب تک نظام سرمایہ داری میں باقی ہیں
تاریخ کا سبق
اصلی اُلجھن
اسلامی نظم معیشت کے بنیادی ارکان
جدید معاشی پیچیدگیوں کا اسلامی حل
شخیصِ مرض
اسلامی علاج
1۔ زمین کی ملکیت
2۔ دوسرے ذرائع پیداوار
3۔ مالیات
4۔ زکوٰۃ
5۔حکومت کی محدود مداخلت
متوازن معیشت کے چار بنیادی اصول

اسلام اور جدید معاشی نظریات

یہ کتاب مولانا کی کتاب ’سود‘ کا ایک حصہ ہے۔ جسے بعد میں مولانا مودودیؒ خود ہی الگ کتابی شکل دے دی تھی۔ اس کتاب میں وہ حصہ شامل ہے جس کا براہِ راست تعلق سود سے نہیں ہے۔
اس کتاب میں عمرانی مسائل کا تاریخی پس منظر سمیت صنعتی انقلاب کے بعد دنیا میں ہونے والے تغیرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
سوشلزم اور کمیونزم نے جس طرح انسانیت کو تباہی سے دوچار کیا اور کررہی ہے اس کے نقصانات کا جائزہ لیا گیا۔
اسلامی نظام معیشت کے بنیادی ارکان
اکتساب مال کے ذرائع میں جائز ناجائز کی تفریق
مال جمع کرنے کی ممانعت
خرچ کرنے کا حکم
زکوٰة
قانونِ وراثت
کا ناصرف تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے وہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں جدید معاشی پیچیدگیوں کا اسلامی حل بھی بتایا گیا ہے۔
سر مایہ دارانہ نظام کے ہمہ گیر اثرات کے پیش نظر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے جن کی زندگی کا مشن ہی غیر اسلامی نظریہ و نظام کو اُکھاڑ پھینکنا ہے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور اس کے ہر پہلو پر اس تفصیل کے ساتھ ایسی مدلل بحث کی ہے کہ کسی معقول آدمی کو اس کی خرابیوں کے بارے میں شبہ باقی نہ رہے۔ اس کتاب میں معاشی نقطہ نظر سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مغرب کا دیا گیا معاشی نظام ہر پہلو سے انسانی معاشرے کے لیے مضرت رساں اور تباہ کن ہے۔ معاشیات کے طالب علموں سمیت کاروباری افراد کے لیے یہ کتاب نہایت اہم ہے اور انھیں اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

خرابی کے اسباب

یہ تھے وہ اصول جن کو پورے زور شور کے ساتھ جدید سرمایہ داری کی پیدائش کے زمانے میں پیش کیا گیا اور چونکہ ان کے اندر کسی حد تک مبالغہ کے باوجود صداقت پائی جاتی تھی، اس لیے ان کو بالعموم دنیا بھر سے تسلیم کرا لیا گیا۔ در حقیقت ان میں نئی بات کوئی بھی نہ تھی۔ ساری باتیں وہی تھیں جن پر غیر معلوم زمانے سے انسانی معیشت کا کاروبار انجام پاتا چلا آرہا تھا۔ جدت اگر تھی تو اس مبالغہ آمیز شدت میں تھی جو بعض اصولوں کو صنعتی انقلاب کے دور کی معیشت پر چسپاں کرنے میں بورژوا حضرات نے اختیار کی۔ مزید برآں انہوں نے اپنا سارا نظام صرف ان فطری اصولوں ہی پر نہیں اٹھایا جن کا اوپر ذکر ہوا ہے بلکہ ان کے ساتھ کچھ غلط اصولوں کی آمیزش بھی کردی۔ پھر انہوں نے بعض دوسرے ایسے اصولوںکو نظرانداز بھی کردیا جو ایک فطری نظام معیشت کے لیے اتنے ہی اہم ہیں جتنے آزاد معیشت کے مذکورہ بالا اصول۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنی خود غرضیوں سے خود اپنے ہی پیش کردہ بعض اصولوں کی نفی بھی کردی۔ یہی چاروں چیزیں مِل جل کر ان خرابیوں کی موجب ہوئیں جو بالآخر جدید سرمایہ داری میں پیدا ہوتی چلی گئیں اور اس حد تک بڑھیں کہ دنیا میں اس کے خلاف ایک عام شورش برپا ہوگئی۔
مختصراً ہمیں ان اسباب خرابی کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے:
-1 بے قید معیشت کی حمایت میں جن ’’فطری قوانین‘‘ کا یہ لوگ بار بار حوالہ دیتے رہے ہیں وہ اس مبالغہ کی حد تک صحیح نہیں ہیں جو ان لوگوں نے نہ صرف اپنے بیان میں بلکہ اپنے عمل میں برتنا چاہا۔ لارڈ کنیز نے بالکل سچ کہا ہے کہ ’’دنیا پر اخلاقی و فطری قوانین کی ایسی مضبوط حکومت قائم نہیں ہے جس کے زور سے افراد کے ذاتی مفاد اور سوسائٹی کے اجتماعی مفاد میں ضرور آپ ہی آپ موافقت ہوتی رہے۔ معاشیات کے اصولوں سے یہ استنباط کوئی صحیح استنباط نہیں کہ روشن خیال خود غرضی ہمیشہ اجتماعی فلاح و بہبود ہی کے لیے کوشش کیا کرتی ہے اور یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ خود غرضی ہمیشہ روشن خیال ہی ہوا کرتی ہے۔ اکثر تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ انفرادی طور پر اپنی اغراض کے لیے جدوجہد کرتے ہیں وہ اس قدر نادان یا کمزور ہوتے ہیں کہ وہ خود اپنی اغراض کو بھی پورا نہیں کرسکتے کجا کہ ان کے ہاتھوں اجتماعی مفاد کی خدمت ضرور اور ہمیشہ انجام پاتی رہے۔‘‘
صرف یہی نہیں کہ یہ مبالغہ آمیز باتیں عقلاً صحیح نہ تھیں بلکہ تجربہ سے خود بورژوا سرمایہ داروں کے اپنے عمل نے ثابت کردیا کہ ان کی خود غرضی روشن خیال نہیں تھی۔ انہوں نے خریدار پبلک، اجرت پیشہ کارکن اور پرامن حالات پیدا کرنے والی حکومت، تینوں کے مفاد کے خلاف جتھہ بندی کی اور باہم یہ سازش کرلی کہ صنعتی انقلاب کے سارے فوائد خود لوٹ لیں گے۔ ان کی اس باہمی ساز بار نے ان کی اس سب سے بڑی دلیل کو خود ہی توڑ دیا جو وہ آزاد معیشت کے حق میں پیش کرتے تھے، یعنی یہ کہ فطرۃً کسر و انکسار سے خود ہی سب لوگوں کے درمیان منفعت کا توازن قائم ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخر کار آدم سمتھ جیسے شخص کو بھی، جو آزاد معیشت کا سب سے بڑا وکیل تھا یہ کہنا پڑا کہ:
’’کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ جب کاروباری لوگ کہیں باہم جمع ہوں اور ان کی صحبت پبلک کے خلاف کسی سازش پر اور قیمتیں چڑھانے کے لیے کسی قرارداد پر ختم نہ ہو۔ حد یہ ہے کہ تقریبات تک میں مل بیٹھنے کا جو موقع مل جاتا ہے اس کو بھی یہ حضرات اس جرم سے خالی نہیں جانے دیتے۔‘‘
اسی طرح شخصی ملکیت اور آزادی سعی کے بارے میں ان کے یہ دعوے بھی بالکل مبالغہ آمیز تھے کہ ان عنوانات کے تحت افراد کو کچھ ایسے حقوق حاصل ہیں جن پر کوئی حد عائد نہ ہونی چاہیے۔ ایک شخص اپنی ملکیت میں اگر ایسے طریقے سے تصرف کرتا ہے جس سے ہزار ہا آدمیوں کی معیشت متاثر ہوجاتی ہے یا ایک آدمی اگر اپنے ذاتی نفع کے لیے سعی وعمل کی کوئی ایسی راہ نکالتا ہے جس سے پوری سوسائٹی کی صحت یا اخلاق یا عافیت پر برا اثر پڑتا ہے توآخر کیا وجہ ہے کہ اس کو ان کاموں کے لیے کھلی چھٹی دے دی جائے اور قانون ایسے حدود عائد نہ کرے جن سے اس کے انفرادی حقوق کا استعمال اجتماعی مفاد کے لیے مضر نہ ہونے پائے۔ حکومت کی عدم مداخلت کے مضمون کو ان لوگوں نے اس کی جائز حد سے اتنا زیادہ بڑھا دیا کہ وہ برے نتائج پیدا کئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ جب طاقتور افراد جتھہ بندی کرکے کثیر التعداد لوگوں سے ناجائز فائدے اٹھانے لگیں اور حکومت یا تو تماشہ دیکھتی رہے یا خود ان طاقتورافراد ہی کے مفاد کی حفاظت کرنے لگے، تو اس کا لازمی نتیجہ شورش ہے اور شورش جب برپا ہوجاتی ہے تو ہمیشہ اپنے ظہور کے لیے معقول راستوں ہی کی پابندی نہیں کیا کرتی۔
-2 خصوصیت کے ساتھ صنعتی انقلاب کے دور میں بے قید معیشت کے اصولوں کا اتنا سخت مبالغہ اور بھی زیادہ غلط تھا۔ صنعتی انقلاب کی وجہ سے طریق پیداوار میں جو بنیادی تغیر واقع ہوگیا تھا وہ یہ تھا کہ پہلے جو کام انسانی اور حیوانی طاقت سے کئے جاتے تھے اب ان کے لیے مشین کی طاقت استعمال کی جانے لگی۔ ایک مشین لگا لینے کے معنی یہ ہوگئے کہ دس آدمی وہ کام کرنے لگیں جو پہلے ہزار آدمی کرتے تھے۔ اس طریق پیداوار کی عین فطرت میں یہ چیز شامل ہے کہ وہ چند انسانوں کو کام پر لگا کر ہزاروں انسانوں کو بے کار کردیتا ہے۔ ایسے ایک طریقے کے متعلق ملکیت اور آزادی سعی کے مطلق حقوق کا دعویٰ اور حکومت کی عدم مداخلت کا مطالبہ اصولاً بالکل بے جا تھا۔ آخر یہ کس طرح جائز ہوسکتا تھا کہ ایک شخص یا گروہ محض اس وجہ سے کہ وہ ایسا کرنے کے ذرائع رکھتا ہے ایک خاص قسم کا مال تیار کرنے کے لیے اچانک ایک بڑا کارخانہ قائم کردے اور اس کی کچھ پروا نہ کرکے کہ اس کی اس حرکت سے پورے علاقے کے ان ہزار ہا آدمیوں کے روزگار پر کیا اثر پڑتا ہے جو پہلے اپنے گھروں اور دکانوں میں یا دستی کاریگری کی چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں میں بیٹھے وہی مال تیار کررہے تھے؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مشین کی طاقت کو صنعت میں استعمال نہ ہونا چاہیے تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اس طاقت کے استعمال کی اندھا دھند اجازت نہ ہونا چاہیے تھی اور حکومت کو اول روز ہی سے یہ فکر کرنی چاہیے تھی کہ ساتھ ساتھ ان لوگوں کے روزگار کا بندوبست بھی ہوتا جائے جن کو یہ نئی صنعتی طاقت بیکار کررہی تھی۔ چونکہ ایسا نہیں ہوا اسی وجہ سے مشینی طریق پیداوار کے وجود میں آتے ہی انسانی سوسائٹی میں بےروزگاری کا ایک مستقل مسئلہ اتنے بڑے پیمانے پر پیدا ہوگیا جس سے تاریخ پہلے کبھی آشنا نہ ہوئی تھی۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ بیروز گاری کسی ایک مسئلے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ انسان کی مادی، روحانی، اخلاقی اور تمدنی زندگی کے بے شمار پیچیدہ مسائل کا مورث اعلیٰ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک فرد یا چند افراد کو کیا حق ہے کہ اپنی ملکیت میںایسے طریقہ سے تصریف کریں جس سے اجتماعی زندگی میں اتنی زبردست پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں؟ اور اس طرح کے تصرف کے بارے میں کوئی مرد عاقل یہ کیسے دعویٰ کرسکتا ہے کہ یہ افراد کی وہ روشن خیال خود غرضی ہے جو آپ سے آپ اجتماعی مفاد کی خدمت کرتی رہتی ہے؟ اور ایسے انفرادی تصرفات کے معاملہ میں یہ خیال کرنا کتنی بڑی حماقت ہے کہ ان کا کھلا لائسنس دے کر قومی حکومت کو خاموش بیٹھ جانا چاہیے اور ان کے اثرات کی طرف سے آنکھیں بند کرلینی چاہییں جو ایک قلیل التعداد گروہ کی کارروائیوں سے پوری قوم کی زندگی پر پڑ رہے ہوں؟
-3 پھر اس طریق پیداوار نے جب ہزار ہا بلکہ لکھوکھا آدمیوں کو بیروزگار کردیا اور وہ مجبور ہوگئے کہ اپنے دیہات اور قصبات سے اور اپنے محلوں اور گلیوں سے نکل کل کر ان بڑے کارخانہ داروں اور تاجروں کے پاس مزدوری یا نوکری تلاش کرتے ہوئے آئیں تو لامحالہ اس کا نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا اور یہی ہوا کہ یہ بھوکے مرتے ہوئے طالبین روزگار ان کم سے کم اجرتوں پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوگئے جو سرمایہداروں نے ان کے سامنے پیش کیں۔ کام ان سب کو نہ ملا، بلکہ قابل کار آدمیوں کا ایک حصہ مستقلاً بے کار رہا۔ پھر جنہیں کام ملا وہ بھی اس اپوزیشن میں نہ تھے کہ سرمایہ دار سے سودا چکا کر بہتر شرائط منوا سکتے کیونکہ وہ تو خود طالب روزگار ہو کر آئے تھے، سرمایہ دار کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرتے تو شام کی روٹی تک کا بندوبست ان کے پاس نہ تھا اور اس پر بھی کچھ اکڑ دکھاتے تو دوسرے ہزاروں بھوکے جھپٹ کر انہی شرائط پر یہ روزگار اچک لینے کے لیے تیار تھے۔ اس طرح بورژوا حضرات کا وہ سارا استدلال غلط ثابت ہوگیا جو وہ اس اصول کے حق میں پیش کرتے تھے کہ کھلے مقابلے میں اجیر اور مستاجر کے درمیان کسر و انکسار سے مناسب اور منصفانہ اجرتیںآپ ہی آپ طے ہوتی رہتی ہیں۔ اس لیے کہ یہاں حقیقت میں مقابلے کے ساتھ اس کے ’’کھلے ہوئے‘‘ کی شرط مفقود تھی۔ یہاں یہ صورت تھی کہ ایک آدمی نے ہزاروں آدمیوں کا رزق چھین کر پہلے اپنے قابو میں کرلیا اور جب وہ بھوک سے تڑپ کر اس کے پاس آئے تو وہ ان سب کو نہیں بلکہ اس کے صرف دسویں یا بیسویں حصہ کو کام دینے پر راضی ہوا۔ ایسے حالات میں ظاہر ہے کہ سودا چکانے کی ساری طاقت اس ایک شخص کے پاس جمع ہوگئی اور ان ہزاروں طالبین روزگار میں سے کوئی بھی اپنی شرائط منوانے کے قابل نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس صنعتی انقلاب کے دور میں جدید سرمایہ داری جیسی جیسی بڑھتی گئی، سوسائٹی میں بے روزگاری کے علاوہ افلاس اور خستہ حالی کی مصیبت بھی بڑھتی چلی گئی۔ بڑے بڑے صنعتی و تجارتی مرکزوں میں جو لوگ محنت مزدوری اور نوکری کے لیے جمع ہوئے انہیں بہت کم اجرتوں پر بہت زیادہ وقت اور محنت کرنے پر راضی ہونا پڑا۔ وہ جانوروں کی طرح کام کرنے لگے۔ جانوروں سے بدتر حالت میں شہروں کے تنگ و تاریک مکانات میں رہنے لگے۔ ان کی صحتیں برباد ہونے لگیں، ان کی ذہنیتیں پست ہونے لگیں۔ ان کے اخلاق بری طرح بگڑنے شروع ہوگئے۔ نفسی نفسی کے عالم میں باپ بیٹے اور بھائی بھائی تک کے درمیان ہمدردی باقی نہ رہی۔ والدین کے لیے اولاد اور شوہروں کے لیے بیویاں تک وبال جان بن گئیں۔ عرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہ رہا جو اس غلط اور یک رُخی قسم کی آزاد معیشت کے برے اثرات سے بچا رہ گیا ہو۔
-4 اس پر مزید لطف یہ ہے کہ وہی بورژوا حضرات جو وسیع المشربی اور جمہوریت کے زبردست داعی تھے اور جنہوں نے لڑ بھڑ کر مالکان زمین کے مقابلہ میں اپنا ووٹ کا حق تسلیم کرایا تھا اس بات کے لیے تیار نہ تھے کہ یہی ووٹ کا حق ان لاکھوں کروڑوں عوام کو بھی حاصل ہو جن کی روزی کے یہ مالک بن گئے تھے۔ وہ اپنے لیے تو یہ حق سمجھتے تھے کہ ایک ایک پیشے کے مالکان کاروبار اپنی اپنی انجمنیں بنائیںاور باہمی قرارداد سے اشیاء کی قیمتیں، نوکروں کی تنخواہیں اور مزدوروں کی اجرتیں تجویز کریں لیکن وہ نوکروں اور مزدوروں کا یہ حق ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ وہ بھی منظم ہوں اور اجتماعی قوت سے اجرتوں اور تنخواہوں کے لیے سودا چکائیں۔ حد یہ ہے کہ ان حضرات کو اپنے اس حق پر بھی اصرار تھا کہ وہ جب چاہیں کارخانہ بند کرکے ہزار ہا ملازموں اور مزدوروں کو بیک وقت بے کار کردیں اور اس طرح انہیں بھوکار مار کر کم اجرتوں پر راضی ہونے کے لیے مجبور کریں۔ مگر وہ نوکروں اور مزدوروں کا یہ حق تسلیم کرنے کے لیے بالکل تیار نہ تھے کہ وہ بھی ہڑتال کرکے اپنی اجرتیں بڑھوانے کی کوشش کریں۔ اس کے ساتھ یہ حضرات اس بات کو سراسر جائز سمجھتے تھے کہ جو شخص انہی کے کارخانے یا تجارتی ادارے میں خدمت کرتے کرتے بوڑھا یا بیمار یا کسی طور پر ازکار رفتہ ہوگیا ہو اسے وہ رخصت کردیں، مگر وہ شخص جو رخصت کیا جارہا ہو اس کی یہ گزارش ان کے نزدیک بالکل ناروا تھی کہ حضور! صحت، طاقت، جوانی سب کچھ تو آپ کے کاروبار کی ترقی میں کھپا بیٹھا، اب اس جان ناتواں کو کہاں لے جائوں اور ہاتھ پائوں کی قوت کھو دینے کے بعد جو پیٹ بچا رہ گیا ہے اسے کس طرح بھروں؟ یہاں پہنچ کر بورژوا حضرات اپنے اس استدلال کوبھی بالکل بھول گئے جو وہ ذاتی مفاد کو ایک ہی صحیح محرک عمل قرار دینے کے حق میں پیش کرتے تھے۔ انہیں اپنے متعلق تو یہ یاد رہا کہ اگر ان کے لیے نفع کے امکانات غیر محدود ہوں گے تو وہ خوب کام کریں گے اور اس طرح اجتماعی ترقی و خوشحالی کی خدمت آپ سے آپ انجام پائے گی لیکن اپنے نوکروں اور مزدوروں کے معاملے میں وہ بھول گئے کہ جس کا نفع محدود ہی نہیں بلکہ تنگ ہو اور جس کا حال خراب اور مستقبل تاریک ہو وہ آخر کیوں دل لگا کر اور جان لڑا کو کام کرے اور کس بنا پر اپنے کام میں دلچسپی لے؟
5 علاوہ بریں ان لوگوں نے کاروبار کے فطری اور معقول طریقوں سے ہٹ کر اپنے ذاتی مفاد کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنے شروع کر دیئے جو صریحاً اجتماعی مفاد کے خلاف ہیں اور جن سے مصنوعی طور پر قیمتیں چڑھتی ہیں اور جن سے دولت کی پیداوار رکتی اور ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر:
یہ طریقہ کہ اپنے سرمائے کے زور سے اشیاء ضرروت کو خرید خرید کر ان کے کھتے بھرتے چلے جائیں یہاں تک کہ بازار میں ان کی رسد کم اور مانگ بڑھ جائے اور اس طرح قیمتیں مصنوعی طور پر گراں کی جاسکیں۔
اور یہ طریقہ کہ مال پیدا کرنے والے اور اصل استعمال کرنے والے کے درمیان سینکڑوں آدمی محض اپنے بینک کے روپے اور ٹیلیفون کے بل پر اس کو غائبانہ بیچتے اور خریدتے چلے جائیںاور اس طرح زبردستی ان کا منافع لگ لگ کر اس کی قیمت بڑھتی رہے بغیر اس کے کہ ان بیچ والوں نے اس مال کے پیدا کرنے یا ڈھونے یا اسے کارآمد بنانے کی کوئی خدمت انجام دی ہوجس کی بنا پر وہ منافع میں حصہ لینے کے لیے جائز حقدار ہوں۔
اور یہ طریقہ کہ پیدا شدہ مال کو صرف اس اندیشہ سے جلا یا جائے یا سمندر میں پھینک دیا جائے کہ اتنی بڑی مقدار مال کے منڈی میں پہنچ جانے سے قیمتیں گر جائیں گی۔
اور یہ طریقہ کہ وافر سرمایہ کے بل پر ایک چیز از قسم سامان تعیش تیار کی جائے اور پھر اشتہار سے، ترغیب سے، مفت بانٹ بانٹ کر، طرح طرح کی سخن سازیاں کرکر کے زبردستی اس کی مانگ پیدا کی جائے اور اسے ان غریب اور متوسط الحال لوگوں کی ضروریات زندگی میں خواہ مخواہ ٹھونس دیا جائے جو بیچارے اپنے فرائض حیات بھی پوری طرح بجا لانے کے قابل نہیں ہیں۔
اور یہ طریقہ کہ عامتہ الناس کو حقیقتاً جن چیزوں کی ضرورت اور شدید ضرورت ہے ان کی فراہمی پر تو سرمایہ اور محنت صرف نہ ہو اور ان کاموں پر وہ بے دریغ صرف کیا جائے جو بالکل غیر ضروری ہیں صرف اس لیے کہ پہلی قسم کے کاموں کی بہ نسبت دوسرے کام زیادہ نفع آور ہیں۔
اور یہ طریقہ کہ ایک شخص یا گروہ نہایت مضر صحت اور مخرب اخلاق اور مفسد تہذیب و تمدن چیزوں کو اپنے سرمائے کے زور سے خوشنما اور دلفریب بنا بنا کر لائے اور علانیہ پبلک کے سفلی جذبات کو اپیل کرکر کے انہیں اپنے اس کاروبار کی طرف کھینچے اور ان کو دیوانہ بنا بنا کر ان کی قلیل آمدنیوں کا بھی ایک معتدبہ حصہ بٹور لے در آنحالیکہ ان غریبوں کی آمدنیاں ان کا اور ان کے بال بچوں کا پیٹ بھرنے تک کے لیے کافی نہ ہوں۔
اور سب سے بڑھ کر خطرناک اور تباہ کن یہ طریقہ کہ اپنے تجارتی اور مالی مفاد کے لیے کمزور قوموں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے جائیں اور دنیا کو مختلف حلقہ ہائے اثر میں تقسیم کیا جائے اور ہرقوم کے بڑے بڑے ساہوکار اور صناع اور تاجر اپنی اپنی قوموں کو اپنی حد سے بڑھی ہوئی اغراض کا آلہ کار بنا کر ایک دوسرے کے خلاف ایسی دائمی کشمکش میں الجھا دیں جو نہ میدان جنگ میں سلجھنے پائے نہ ایوان صلح میں۔
کیا یہ سب واقعی اس بات کے ثبوت ہیں کہ اگر افراد کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے بے روک ٹوک کام کرنے دیا جائے تو ان کے ہاتھوں اجتماعی مفاد کی خدمت خود بخود انجام پاتی رہتی ہے؟ اس طرح تو دراصل انہوں نے اپنے عمل سے خود یہ ثابت کر دکھایا کہ بے قید خودغرضی بہت ہی کم روشن خیال ہوتی ہے، خصوصاً جب کہ معاشی و سیاسی طاقت بھی اسی کے ہاتھ میں مرتکز ہوجائے اور قانون ساز بھی وہ خود ہی ہو۔ ایسے حالات میں تو اس کی بیشتر کوششیں اجتماعی مفاد کی خدمت میں نہیں بلکہ جماعت کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر بھینٹ چڑھانے میں صرف ہونے لگتی ہیں۔
-6 ان سب حرکات پر مزید غضب انہوں نے یہ کیا کہ افراد کے لیے اس بات کو بالکل جائز اور معقول اور برحق ٹھیرایا کہ وہ سرمایہ کو جمع کرکے اسے سود پر چلائیں۔ سود ایک قابل نفرت برائی کی حیثیت سے تو دنیا کے اکثر معاشروں میں ہمیشہ موجود رہا ہے اور دنیا کے قوانین نے بھی بسا اوقات اس کو بکراہت گوارا کیا ہے لیکن قدیم جاہلیت عرب کے بعد یہ فخر صرف جدید جاہلیت غرب کے بورژوا مفکرین کو حاصل ہوا کہ انہوں نے اسے کاروبار کی ایک ہی معقول صورت اور پورے نظام مالیات کی ایک ہی صحیح بنیاد بنا کر رکھ دیا اور ملکی قوانین کو اس طرز پر ڈھالا کہ وہ قرض دار کے بجائے سودخوار کے مفاد کی پشت پناہ بن گئے۔ اس عظیم الشان غلطی پر اور اس کے نتائج پر تو ہم نے اپنی کتاب ’’سود‘‘ میںمفصل بحث کی ہے مگر یہاں اس سلسلۂ کلام میں مختصراً صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ سود کو قرض و استقراض اور مالی لین دین کی بنیاد بنا دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بے روک ٹوک صنعتی انقلاب کی وجہ سے طاقت، دولت، رسوخ و اثر اور تمام فوائد و منافع کا جو بہائو پہلے ہی ایک رخ پر چل پڑا تھا وہ اس کارروائی کی وجہ سے اور زیادہ یک رخا ہوگیا اور اس کی بدولت اجتماعی زندگی کا عدم توازن اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اب سوسائٹی میں سب سے زیادہ خوش قسمت وہ لوگ ہوگئے جو کسی نہ کسی ترکیب سے کچھ سرمایہ اکٹھا کرکے بیٹھ گئے ہوں۔ دماغی قابلیت رکھنے والے، محنت کرنے والے، کاروباری اسکیمیں سوچنے اور ان کی تنظیم کرنے والے اپنی جان کھپا کر کاروبار کو ہر مرحلے پر چلانے والے اور اشیاء ضرورت کی تیاری و فراہمی کے سلسلے کی ساری خدمات انجام دینے والے غرض سب کے سب اس ایک آدمی کے سامنے ہیچ ہوگئے جو کاروبار میں روپیہ قرض دے کر اطمینان سے گھر بیٹھا ہوا ہو۔ ان سب کا نفع غیر معین اور غیر یقینی ہے اور اس کا نفع معین اور یقینی۔ ان سب کے لیے نقصان کا خطرہ بھی ہے مگر اس کے لیے خالص منافع کی گارنٹی۔ یہ سب کاروبار کے بھلے اور برے میں دلچسپی لینے پر مجبور ہیں اور وہ ہر چیز سے بے پروا صرف اپنے سود سے غرض رکھتا ہے۔ کاروبار فروغ پاتا نظر آئے تو وہ بے تحاشا اس میں سرمایہ لگانا شروع کردیتا ہے یہاں تک کہ نفع کے امکانات ختم ہونے لگتے ہیں۔ کاروبار سرد پڑتا نظر آئے تو وہ مدد کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاتا بلکہ پہلے کا لگا ہوا سرمایہ بھی کھینچنے لگتا ہے یہاں تک کہ ساری دنیا پر سخت کساد بازاری کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ ہر حال میں نقصان، زحمت، خطرے، سب کچھ دوسروں کے لیے ہیں اور اس کے لیے حد سے حد اگر کوئی اتار چڑھائو ہے تو وہ صرف نفع کی کمی بیشی کا۔ تاجر اور صناع اور زمیندار ہی نہیں حکومتیں تک اس کی مزدور بنی ہوئی ہیں۔ اس کے دیئے ہوئے روپے سے وہ سڑکیں، ریلیں، نہریں اور دوسری چیزیں بناتی ہیں اور برسوں نہیں، صدیوں ایک ایک شخص سے ٹیکس وصول کرکے اس کا سود اس کے گھر پہنچاتی رہتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ قوم کو اگر کوئی لڑائی پیش آجاتی ہے تو جس کی جان جائے یا جس کے ہاتھ پائوں کٹیں یا جس کا گھر برباد ہو یا جو اپنے باپ بیٹے یا شوہر سے محروم ہوں، ان سب کے بار سے تو قومی خزانہ بآسانی سبکدوش ہوجاتا ہے لیکن قوم ہی کے جن چند افراد نے لڑائی کے لیے سرمایہ قرض دے دیا ہو ان کا سود سو سو اور دو دو سو برس تک ادا کیا جاتا رہتا ہے اور اس سود کی ادائیگی میں ان لوگوں تک کو ’’چندہ‘‘ دینا پڑتا ہے جنہوں نے اسی جنگ میں جانیں قربان کی تھیں۔ اس طرح یہ سودی نظام مالیات سوسائٹی کی دولت پیدا کرنے والے اصل عاملین کے ساتھ ہر طرح ہر جہت میں ایک ہمہ گیر بے انصافی کرتا ہے۔ اس نے ساری اجتماعی معیشت کی باگیں چند خود غرض سرمایہ داروں کے ہاتھ میں دے دی ہیں جو نہ تو اجتماع کی فلاح و بہبود سے کوئی دلچسپی رکھتے ہیں نہ فی الواقع اجتماع کی کوئی خدمت ہی انجام دیتے ہیں مگر چونکہ پورے معاشی کاروبار کی جان، یعنی سرمایہ ان کے قبضہ میں ہے اور قانون نے ان کو اسے روک رکھنے اور سود پر چلانے کے اختیارات دے رکھے ہیں، اس لیے وہ صرف یہی نہیں کہ اجتماع کی مجموعی محنت سے پیدا ہونے والی دولت کے شریک غالب بن گئے ہیں، بلکہ ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئی ہے کہ پورے اجتماع کو اپنے مفاد کا خادم بنالیں اور قوموں اور ملکوں کی قسمتوں سے کھیلتے رہیں۔
-7 جدید سرمایہ داری کی ان بنیادوں پر جو نیا معاشرہ وجود میں آیا وہ ہمدردی، تعاون، رحم، شفقت اور اس نوع کے تمام جذبات سے عاری اور اس کے برعکس صفات سے لبریز تھا۔ اس نظام میں غیر تو غیر، بھائی پر بھائی کا یہ حق نہ رہا کہ وہ اسے سہارا دے۔ ایک طرف ہر نئی مشین کی ایجاد سینکڑوں اور ہزاروں کو بہ یک وقت بیکار کئے دے رہی تھی اور دوسری طرف حکومت، سوسائٹی، کارخانہ دار یا ساہو کار، کسی کی بھی یہ ذمہ داری نہ تھی کہ جو لوگ بے روزگار ہوجائیں یا کام کرنے کے قابل نہ ہوں، یا ناکارہ ہوجائیں، ان کی بسر اوقات کا کوئی بندوبست کرے۔ یہی نہیں بلکہ اس نئے نظام نے ایسے حالات پیدا کر دیئے اور ایسے اخلاقیات بھی عام لوگوں کے اندر ابھار دیئے کہ کسی گرے ہوئے یا گرتے ہوئے انسان کو سنبھالنا کسی کا فرض نہ رہا۔ حوادث بیماری، موت اور تمام دوسرے ناموافق حالات کے لیے اس نظام نے جتنے علاج بھی تجویز کئے، ان لوگوں کے لیے جو فی الوقت کما رہے ہوں اور اپنی موجودہ ضروریات سے اتنا زیادہ کما رہے ہوں کہ کچھ پس انداز کرسکیں۔ لیکن جو کما ہی نہ رہا ہو یا بس بہ قدر سدر مق کما رہا ہو وہ اپنے برے وقت پر کہاں سے مدد پائے؟ اس کا کوئی جواب جدید سرمایہ داری کے پاس اس کے سوا نہیں ہے کہ ایسا شخص مہاجن کے پاس جائے اور اپنے پہننے کے کپڑے یا گھر کے برتن، یا جورو کا زیور رہن رکھ کر تین تین سو فی صد سالانہ سود پر قرض لے اور جب یہ قرض مع سود ادا نہ ہو سکے تو پھر اسی مہاجن سے اسی کا قرض و سود ادا کرنے کے لیے مزید سودی قرض لے لے۔
-8 ظاہر ہے کہ جب سوسائٹی میں لاکھوں آدمی بے روزگار ہوں اور کروڑوں اس قدر قلیل المعاش ہوں کہ سخت حاجت مند ہونے کے باوجود وہ مال نہ خرید سکیں جو دکانوں میں بھرا پڑا ہو تو صنعت اور تجارت کو پورا پورا ممکن فروغ کس طرح ہوسکتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم یہ عجیب و غریب صورت حال دیکھ رہے ہیں کہ اگرچہ ابھی دنیا میں بے حدو حساب قابل استعمال ذرائع موجود ہیں اور کروڑوں آدمی کام کرنے کے قابل بھی موجود ہیں اور وہ انسان بھی کروڑہا کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں جو اشیاء ضرورت کے محتاج اوراشیاء عیش و رفاہیت خریدنے کے خواہشمند ہیں مگر یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دنیا کے کارخانے اپنی استعداد کارسے بہت گھٹ کر جو مال تیار کرتے ہیں وہ بھی منڈیوں میں اس لیے پڑا رہ جاتا ہے کہ لوگوں کے پاس خریدنے کو روپیہ موجود نہیں اور لاکھوں بے روزگار آدمیوں کو کام پر اس لیے نہیں لگایا جاسکتا کہ جو تھوڑا مال بنتا ہے وہی بازار میں نہیں نکلتا، اور سرمایہ اور قدرتی ذرائع بھی پوری طرح زیر استعمال اس لیے نہیں آنے پاتے کہ جس قلیل پیمانے پر وہ استعمال میں آرہے ہیں اسی کا بار آور ہونا مشکل ہو رہا ہے کجا کہ مزید ذرائع کی ترقی پر مزید سرمایہ لگانے کی کوئی ہمت کرسکے۔ یہ صورت حال بورژوا مفکرین کے اس استدلال کی جڑ کاٹ دیتی ہے جو وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش کرتے تھے کہ بے قید معیشت میں اپنے انفرادی نفع کے لیے افراد کی تگ و دو خود بخود ذرائع و وسائل کی ترقی اور پیداوار کی افزائش کا سامان کرتی رہتی ہے۔ ترقی اور افزائش تو در کنار، یہاں تو تجربے سے یہ ثابت ہوا کہ انہوں نے اپنی نادانی سے خود اپنے منافع کے راستے میں بھی رکاوٹیں پیدا کرلی۔

شیئر کریں