Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

خدا کی اطاعت کس لیے؟

برادرانِ اسلام! پچھلے کئی خطبوں سے میں آپ کے سامنے بار بار ایک یہی بات بیان کر رہا ہوں کہ ’اسلام‘ اللہ اور رسول a کی اطاعت کا نام ہے، اور آدمی ’مسلمان‘ بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہشات کی، رسم ورواج کی، دنیا کے لوگوں کی، غرض ہر ایک کی اطاعت چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت نہ کرے۔
آج میں آپ کے سامنے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ اوراس کے رسولؐ کی اطاعت پر اس قدر زور آخر کیوں دیا جاتا ہے؟ ایک شخص پوچھ سکتا ہے کہ کیا خدا ہماری اطاعت کا بھوکا ہے، نعوذباللہ، کہ وہ ہم سے اس طرح اپنی اور اپنے رسولؐ کی اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے؟
کیا نعوذ باللہ، خدا بھی دنیا کے حاکموں کی طرح اپنی حکومت چلانے کی ہوس رکھتا ہے کہ جیسے دنیا کے حاکم کہتے ہیں کہ ہماری اطاعت کرو اسی طرح خدا بھی کہتا ہے کہ میری اطاعت کرو؟ آج میں اسی کاجواب دینا چاہتا ہوں۔
اللہ کی اطاعت میں ہی انسان کی فلاح ہے
اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو انسان سے اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے وہ انسان ہی کی فلاح وبہتری کے لیے کرتا ہے۔ وہ دنیا کے حاکموں کی طرح نہیں ہے۔ دنیا کے حاکم اپنے فائدے کے لیے لوگوں کو اپنی مرضی کا غلام بنانا چاہتے ہیں، مگر اللہ تمام فائدوں سے بے نیاز ہے۔ اس کو آپ سے ٹیکس لینے کی حاجت نہیں ہے۔ اسے کوٹھیاں بنانے اور موٹریں خریدنے اور آپ کی کمائی سے اپنے عیش کے سامان جمع کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ وہ پاک ہے۔ کسی کا محتاج نہیں۔ دنیا میں سب کچھ اسی کا ہے، اور سارے خزانوں کا وہی مالک ہے۔ وہ آپ سے صرف اس لیے اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے کہ اسے آپ ہی کی بھلائی منظور ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ جس مخلوق کو اس نے اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ شیطان کی غلام بن کر رہے، یا کسی انسان کی غلام ہو، یاذلیل ہستیوں کے سامنے سر جھکائے۔ وہ نہیں چاہتا کہ جس مخلوق کو اس نے زمین پر اپنی خلافت دی ہے وہ جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتی پھرے، اور جانوروں کی طرح اپنی خواہشات کی بندگی کرکے اسفل السافلین میں جا گرے۔ اس لیے وہ فرماتا ہے کہ تم ہماری اطاعت کرو، ہم نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے جو روشنی بھیجی ہے اس کو لے کر چلو، پھر تم کو سیدھا راستہ مل جائے گا اور تم اس راستے پر چل کر دنیا میں بھی عزت اور آخرت میں بھی عزت حاصل کر سکو گے:
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۝۰ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌo اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ يُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۥۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ۝۰ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَo
(البقرہ 2:257-256)
یعنی دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت کا سیدھا راستہ جہالت کے ٹیڑھے راستوں سے الگ کرکے صاف صاف دکھا دیا گیا ہے۔ اب تم میں سے جو کوئی جھوٹے خدائوں اور گمراہ کرنے والے آقائوں کو چھوڑ کر ایک اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایسی مضبوط رسّی تھامی جو ٹوٹنے والی نہیں ہے، اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ جو لوگ ایمان لائیں ان کا نگہبان اللہ ہے۔ وہ ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے، اور جو لوگ کفرکا طریقہ اختیار کریں ان کے نگہبان ان کے جھوٹے خدا اور گمراہ کرنے والے آقا ہیں۔ وہ ان کو روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں۔ وہ دوزخ میں جانے والے ہیں جہاں ہمیشہ رہیں گے۔
غیر اللہ کی اطاعت ____ گُمراہی
اب دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی اطاعت سے آدمی اندھیرے میں کیوں چلا جاتا ہے، اور اس کی کیا وجہ ہے کہ روشنی صرف اللہ ہی کی اطاعت سے مل سکتی ہے؟
آپ دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں آپ کی زندگی بے شمار تعلقات سے جکڑی ہوئی ہے۔ سب سے پہلا تعلق تو آپ کا اپنے جسم کے ساتھ ہے۔ یہ ہاتھ، یہ پائوں، یہ آنکھیں، یہ کان، یہ زبان، یہ دل ودماغ، یہ پیٹ، سب آپ کی خدمت کے لیے اللہ نے آپ کو دیے ہیں۔ آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان سے کس طرح خدمت لیں؟ پیٹ کو کیا کھلائیں اور کیا نہ کھلائیں؟ ہاتھوں سے کیا کام لیں اور کیا نہ لیں؟ پائوں کو کس راستے پر چلائیں اور کس راستے پر نہ چلائیں؟ آنکھ اور کان سے کس قسم کے کام لیں اور کس قسم کے نہ لیں؟ زبان کو کن باتوں کے لیے استعمال کریں؟ دل میں کیسے خیالات رکھیں؟ دماغ سے کیسی باتیں سوچیں؟ ان سب خادموں سے آپ اچھے کام بھی لے سکتے ہیں اور برے بھی۔ یہ آپ کو بلند درجے کا انسان بھی بنا سکتے ہیں اور جانوروں سے بھی بدتر درجے میں پہنچا سکتے ہیں۔
پھر آپ کے تعلقات اپنے گھر کے لوگوں سے بھی ہیں۔ باپ،ماں، بہن، بھائی، بیوی، اولاد اور دوسرے رشتہ دار ہیں جن سے آپ کا رات دن کا تعلق ہے۔ یہاں آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان سے آپ کس طرح کا برتائو کریں؟ ان پر آپ کے کیا حق ہیں اور آپ پر اُن کے کیا حق ہیں؟ ان کے ساتھ ٹھیک ٹھیک برتائو کرنے ہی پردنیا اور آخرت میں آپ کی راحت، خوشی اور کامیابی کا انحصار ہے۔ اگرآپ غلط برتائو کریں گے تو دنیا کو اپنے لیے جہنم بنا لیں گے، اور دنیا ہی میں نہیں، بلکہ آخرت میں خدا کے سامنے بھی سخت جواب دہی آپ کو کرنی ہو گی۔
پھر آپ کے تعلقات دنیا کے بے شمار لوگوں سے ہیں۔ کچھ لوگ آپ کے ہمسائے ہیں۔ کچھ آپ کے دوست ہیں۔ کچھ آپ کے دشمن ہیں۔ بہت سے وہ لوگ بھی ہیں جو آپ کی خدمت کرتے ہیں اور بہت سے وہ لوگ بھی ہیں جن کی آپ خدمت کرتے ہیں۔کسی سے آپ کو کچھ لینا ہے اور کسی کو کچھ دینا۔ کوئی آپ پر بھروسا کرکے اپنے کام آپ کے سپرد کرتا ہے۔ کسی پرآپ خود بھروسا کرکے اپنے کام اُس کے سپرد کرتے ہیں۔ کوئی آپ کا حاکم ہے اور کسی کے آپ حاکم ہیں۔ غرض اتنے آدمیوں کے ساتھ آپ کو رات دن کسی نہ کسی قسم کا معاملہ پیش آتا ہے جن کا آپ شمار نہیں کر سکتے۔ دنیا میں آپ کی مسرت، آپ کی کامیابی، آپ کی عزت اور نیک نامی کا سارا انحصار اس پر ہے کہ یہ سارے تعلقات جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیے ہیں، صحیح اور درست ہوں۔ اسی طرح آخرت میں خدا کے ہاں بھی آپ صرف اسی وقت سرخ رُو ہو سکتے ہیں کہ جب اپنے مالک کے سامنے آپ حاضر ہوں تو اس حال میں نہ جائیں کہ کسی کا حق آپ نے مار رکھا ہو، کسی پر ظلم کیا ہو، کوئی آپ کے خلاف وہاں نا لش] فریاد[ کرے، کسی کی زندگی خراب کرنے کا وبال آپ کے سر پر ہو، کسی کی عزت یا جان یا مال کو آپ نے ناجائز طور پر نقصان پہنچایا ہو۔ لہٰذا آپ کو یہ فیصلہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ان بے شمار تعلقات کو درست کس طرح رکھا جائے، اور ان کو خراب کرنے والے طریقے کون سے ہیں جن سے پرہیز کیا جائے؟
اب آپ غور کیجیے کہ اپنے جسم سے، اپنے گھر والوں سے اور دوسرے تمام لوگوں سے صحیح تعلق رکھنے کے لیے آپ کو ہر ہرقدم پر علم کی روشنی درکار ہے۔ قدم قدم پرآپ کو یہ معلوم ہونے کی ضرورت ہے کہ صحیح کیا ہے اورغلط کیا؟ حق کیا ہے اور باطل کیا؟ انصاف کیا ہے اور ظلم کیا؟ کس کا حق آپ پر کتنا ہے اور کس پر آپ کا حق کتنا ہے؟کس چیز میں حقیقی فائدہ ہے اور کس چیز میں حقیقی نقصان ہے؟ یہ علم اگر آپ خود اپنے نفس کے پاس تلاش کریں گے تو وہاں یہ نہ ملے گا۔ اس لیے کہ نفس تو خود جاہل ہے۔ اس کے پاس خواہشات کے سوا کیا دھرا ہے؟ وہ تو کہے گا کہ شراب پیو، زنا کرو، حرام کھائو، کیوں کہ اس میں بڑا مزا ہے۔ وہ تو کہے گا کہ سب کا حق مار کھائو اور کسی کا حق ادا نہ کرو، کیوں کہ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے، لے لیا سب کچھ اور دیا کچھ نہیں۔ وہ تو کہے گا کہ سب سے اپنا مطلب نکالو اور کسی کے کچھ کام نہ آئو، کیونکہ اس میں نفع بھی ہے اور آسائش بھی۔ ایسے جاہل کے ہاتھ میں جب آپ اپنے آپ کو دیں گے تو وہ آپ کو نیچے کی طرف لے جائے گا، یہاں تک کہ آپ انتہا درجے کے خود غرض، بدنفس اور بدکار ہو جائیں گے، اور آپ کی دنیا اور دین دونوں خراب ہوں گے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آپ نفس کے بجائے اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں پر بھروسا کریں اور اپنی باگ اُن کے ہاتھ میں دے دیں کہ جدھر وہ چاہیں ادھر لے جائیں۔ اس صورت میں یہ خطرہ ہے کہ ایک خود غرض آدمی کہیں آپ کو خود اپنی خواہش کا غلام نہ بنا لے، یا ایک جاہل آدمی خود بھی گمراہ ہو، اور آپ کو بھی گمراہ کر دے، یا ایک ظالم آپ کو اپنا ہتھیار بنائے اور دوسروں پر ظلم کرنے کے لیے آپ سے کام لے۔ غرض یہاں بھی آپ کو علم کی وہ روشنی نہیں مل سکتی جو آپ کو صحیح اور غلط کی تمیز بتا سکتی ہو، اور دنیا کی اس زندگی میں ٹھیک ٹھیک راستے پر چلا سکے۔
حقیقی ہدایت____ صرف اللہ کی طرف سے
اس کے بعد صرف ایک خدائے پاک کی وہ ذات رہ جاتی ہے جہاں سے یہ روشنی آپ کو مل سکتی ہے۔ خدا علیم اور بصیر ہے۔ وہ ہر چیز کی حقیقت کو جانتا ہے۔ وہی ٹھیک ٹھیک بتا سکتا ہے کہ آپ کا حقیقی نفع کس چیز میں ہے اور حقیقی نقصان کس چیز میں۔ آ پ کے لیے کون سا کام حقیقت میں صحیح ہے اور کون سا غلط۔ پھر خداوند تعالیٰ بے نیاز بھی ہے۔ اس کی اپنی کوئی غرض ہے ہی نہیں۔ اسے اس کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ معاذ اللہ آپ کو دھوکا دے کر کچھ نفع حاصل کرے۔ اس لیے وہ پاک، بے نیاز مالک جو کچھ بھی ہدایت دے گا بے غرض دے گا اور صرف آپ کے فائدے کے لیے دے گا۔ پھر خداوند تعالیٰ عادل بھی ہے۔ ظلم کا اس کی ذاتِ پاک میں شائبہ بھی نہیں ہے۔ اس لیے وہ سراسر حق کی بنا پر حکم دے گا۔ اس کے حکم پرچلنے میں اس بات کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ آپ خود اپنے اوپر یا دوسرے لوگوں پر کسی قسم کا ظلم کر جائیں۔
الٰہی ہدایت سے استفادہ کیسے؟
یہ روشنی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے دو باتوں کی ضرورت ہے:
o ایک یہ کہ آپ اللہ پر، اور اس کے رسولؐ پر جس کے واسطے سے یہ روشنی آ رہی ہے، سچے دل سے ایمان لائیں۔ یعنی آپ کو پورا یقین ہو کہ خدا کی طرف سے اس کے رسولِ پاکؐ نے جو کچھ ہدایت دی ہے وہ بالکل برحق ہے، خواہ اس کی مصلحت آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
o دوسرے یہ کہ ایمان لانے کے بعد آپ اس کی اطاعت کریں، اس لیے کہ اطاعت کے بغیر کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ فرض کیجیے ایک شخص آپ سے کہتا ہے کہ فلاں چیز زہر ہے، مار ڈالنے والی چیز ہے، اُسے نہ کھائو۔ آپ کہتے ہیں کہ بے شک تم نے سچ کہا، یہ زہر ہی ہے، مار ڈالنے والی چیز ہے، مگر یہ جاننے اور ماننے کے باوجود آپ اس چیز کو کھا جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ وہی ہو گا جو نہ جانتے ہوئے کھانے کا ہوتا۔ ایسے جاننے اورماننے سے کیا حاصل؟ اصلی فائدہ تو اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب آپ ایمان لانے کے ساتھ اطاعت بھی کریں۔ جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس پر فقط زبان ہی سے آمَنَّا وَصَدَّقْنَا { FR 1607 }نہ کہیں، بلکہ اس پر عمل بھی کریں، اور جس بات سے روکا گیا ہے، اس سے پرہیز کرنے کا زبانی اقرار ہی نہ کریں، بلکہ اپنے اعمال میں اس سے پرہیز بھی کریں۔
اسی لیے حق تعالیٰ بار بار فرماتا ہے :
اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (المائدہ 5:92)
میری اطاعت کرو، اورمیرے رسولؐ کی اطاعت کرو۔
وَاِنْ تُطِيْعُوْہُ تَہْتَدُوْا۝۰ۭ (النور 24:54)
اگر میرے رسولؐ کی اطاعت کرو گے تب ہی تم کو ہدایت ملے گی۔
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ (النور 24:63)
وہ لوگ جو ہمارے رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں وہ کسی آفت میں نہ پڑ جائیں۔
اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کا مطلب
برادرانِ اسلام! یہ جو بار بار میں آپ سے کہتا ہوں کہ صرف اللہ اور اس کے رسول a کی اطاعت کرنی چاہیے اس کا مطلب آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ آپ کو کسی آدمی کی بات ماننی ہی نہیں چاہیے۔ نہیں، دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ آنکھیں بند کرکے کسی کے پیچھے نہ چلیں، بلکہ ہمیشہ یہ دیکھتے رہیں کہ جو شخص آپ سے کسی کام کو کہتا ہے وہ خدا اور رسولؐ کے حکم کے مطابق کہتا ہے یا اس کے خلاف۔ اگر مطابق کہتا ہے تو اس کی بات ضرور ماننی چاہیے، کیوں کہ اس صورت میں آپ اس کی اطاعت کب کر رہے ہیں؟ یہ تو دراصل اللہ اور اس کے رسولؐ ہی کی اطاعت ہے۔ اور اگر وہ حکمِ خدا ا وررسولؐ کے خلاف کہتا ہے تو اس کی بات اس کے منہ پر دے ماریے، خواہ وہ کوئی ہو، کیوں کہ آپ کے لیے سوائے خدا اور رسولؐ کے کسی کے حکم کی اطاعت جائز نہیں ہے۔
یہ بات آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود تو آپ کے سامنے آ کر حکم دینے سے رہا۔ اس کو جو کچھ احکام دینے تھے وہ اس نے اپنے رسول a کے ذریعے سے بھیج دیے۔ اب رہے حضرت رسولِ کریم a، تو آپؐ بھی ساڑھے تیرہ سو برس پہلے وفات پا چکے ہیں۔{ FR 1608 } آپؐ کے ذریعے سے جو احکام خدا نے دیے تھے وہ قرآن اور حدیث میں ہیں۔ لیکن قرآن اور حدیث خود بھی چلنے پھرنے اور بولنے اور حکم دینے والی چیزیں نہیں ہیں کہ آپ کے سامنے آئیں اور آ کر کسی بات کا حکم دیں اور کسی بات سے روکیں۔ قرآن اور حدیث کے احکام کے مطابق آپ کو چلانے والے بہرحال انسان ہی ہوں گے۔ اس لیے انسانوں کی اطاعت کے بغیر توچارہ نہیں، البتہ ضرورت جس بات کی ہے وہ یہ ہے کہ آپ انسانوں کے پیچھے آنکھیں بند کرکے نہ چلیں، بلکہ جیسا کہ میں نے ابھی آپ سے کہا کہ یہ دیکھیے کہ وہ قرآن وحدیث کے مطابق چلا رہے ہیں یا نہیں۔ اگر قرآن وحدیث کے مطابق چلائیں تو ان کی اطاعت آپ پر فرض ہے، اور اگر اس کے خلاف چلائیں تو ان کی اطاعت حرام ہے۔
٭…٭…٭

شیئر کریں