یہ فرق جو مالک اور مالیوں کے نقطۂ نظر میں ہے، ٹھیک یہی فرق، دُنیا کے مالک اور دنیا والوں کے نقطۂ نظر میں بھی ہے۔ دُنیا کی مختلف قومیں، زمین کے جس جس خطے میں بستی ہیں، اُن کا دعویٰ یہی ہے کہ یہ خطہ ہمارا قومی وطن ہے، پشت ہا پشت سے ہم اور ہمارے باپ دادا یہاں رہتے چلے آئے ہیں، اس ملک پر ہمارے پیدائشی حقوق ہیں، لہٰذا یہاں انتظام ہمارا اپنا ہی ہونا چاہیے، کسی دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ باہر سے آ کر یہاں کا انتظام کرے، مگر زمین کے اصلی مالک خدا کا نقطہ نظر، یہ نہیں ہے۔ اُس نے کبھی اُن قومی حقوق کو تسلیم نہیں کیا ہے، وہ نہیں مانتا کہ ہر ملک پر اُس کے باشندوں کا پیدائشی حق ہے، جس سے اُنھیں کسی حال میں بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ کوئی قوم اپنے وطن میں کیا کام کر رہی ہے۔ اگر وہ بنائو اور سنوار کے کام کرتی ہو، اگر وہ اپنی قوتیں زمین کی اصلاح و ترقی میں استعمال کرتی ہو، اگر وہ برائیوں کی پیدا وار روکنے اور بھلائیوںکی کھیتی سینچنے میں لگی ہوئی ہو تو مالکِ کائنات کہتا ہے کہ بے شک تم اس کے مستحق ہو کہ یہاں کا انتظام تمھارے ہاتھ میں رہنے دیا جائے۔ تم پہلے سے یہاں آباد بھی ہو اور اہل بھی ہو، لہٰذا تمھارا ہی حق دوسروں کی بہ نسبت مقدم ہے۔ لیکن اگر معاملہ برعکس ہو، بنائو کچھ نہ ہو اور سب بگاڑ ہی کے کام ہوئے جا رہے ہوں، بھلائیاں کچھ نہ ہوں اور بُرائیوں ہی سے خدا کی زمین بھری جا رہی ہو، جو کچھ خدا نے زمین پر پیدا کیا ہے، اُسے بے دردی کے ساتھ تباہ کیا جا رہا ہو اور کوئی بہتر کام اُس سے لیا ہی نہ جاتا ہو، تو پھر خدا کی طرف سے، پہلے کچھ ہلکی اور کچھ سخت چوٹیں لگائی جاتی ہیں، تاکہ یہ لوگ ہوش میں آئیں اور اپنا رویہ درست کر لیں۔ پھر جب وہ قوم اِس پر درست نہیں ہوتی تو اسے ملک کے انتظام سے بے دخل کر دیا جاتا ہے اور کسی دوسری قوم کو، جو کم از کم اس کی بہ نسبت اہل تر ہو، وہاں کی حکومت دے دی جاتی ہے۔
بات اس پر بھی ختم نہیں ہوتی، اگر ماتحت بننے کے بعد بھی، باشندگانِ ملک کسی لیاقت و اہلیت کا ثبوت نہیں دیتے اور اپنے عمل سے یہی ظاہر کرتے ہیں کہ اُن سے کچھ بھی بن نہ آئے گا، بلکہ کچھ بگڑ ہی جائے گا، تو خدا پھر ایسی قوم کو مٹا دیتا ہے اور دوسروں کولے آتا ہے جو اس کی جگہ بستے ہیں۔ اس معاملے میں خدا کا نقطۂ نظر، ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو مالک کا ہونا چاہیے۔ وہ اپنی زمین کے انتظام میں دعوے داروں اور امید واروں کے آبائی یا پیدائشی حقوق نہیں دیکھتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ ان میں کون بنائو کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت اور بگاڑ کی طرف کم از کم میلان رکھتا ہے۔ ایک وقت کے امیدواروں میں سے، جو اس لحاظ سے اہل تر نظر آتے ہیں، انتخاب انھی کا ہوتا ہے اور جب تک اُن کے بگاڑ سے اُن کا بنائو زیادہ رہتا ہے، یا جب تک ان کی بہ نسبت زیادہ اچھا بنانے والا اور کم بگاڑنے والا کوئی میدان میں نہیں آ جاتا، اُس وقت تک انتظام انھی کے سپرد رہتا ہے۔