Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
نظامِ حکومت کا طبعی اِرتقا
اصولی حکومت
خلافتِ الٰہیہ
اسلامی انقلاب کی سبیل
خام خیالیاں
اِسلامی تحریک کا مخصوص طریقِ کار

اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

خام خیالیاں

ہمارے ہاں یہ سمجھا جارہا ہے کہ بس مسلمانوں کی تنظیم تمام دردوں کی دوا ہے۔ ’’اسلامی حکومت‘‘ یا ’’آزاد ہندوستان میں آزاد اسلام‘‘ کے مقصد تک پہنچنے کی سبیل یہ سمجھی جارہی ہے کہ مسلمان قوم جن افراد سے مرکب ہے وہ سب ایک مرکز پر جمع ہوں، متحد ہوں، اور ایک مرکزی قیادت کی اطاعت میں کام کریں۔ لیکن دراصل یہ قوم پرستانہ پروگرام ہے۔ جو قوم بھی اپنا بول بالا کرنے کے لیے جدوجہد کرنا چاہے گی وہ یہی طریقِ کار اختیار کرے گی۔ خواہ وہ ہندو قوم ہو، یا سکھ، یا جرمن یا اطالوی قوم کے عشق میں ڈوبا ہوا ایک لیڈر جو موقع و محل کے لحاظ سے مناسب چالیں چلنے میں ماہر ہو اور جس میں حکم چلانے کی خاص قابلیت موجود ہو۔ ہر قوم کی سربلندی کے لیے مفید ہوتا ہے خواہ وہ مونجے یا ساور کر ہو یا ہٹلر یا مسولینی۔ ایسے ہزاروں لاکھوں نوجوان جو قومی عزائم کے لیے اپنے لیڈر کی اطاعت میں منظم حرکت کرسکتے ہوں، ہر قوم کا جھنڈا بلند کرسکتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ جاپانیت پر ایمان رکھتے ہوں یا چینیت پر۔ پس اگر مسلمان ایک نسلی و تاریخی قومیت کا نام ہے، اور پیشِ نظر مقصد صرف اس کا بول بالا کرنا ہے تو اس کے لیے واقعی یہی سبیل ہے جو تجویز کی جارہی ہے۔ اس کے نتیجہ میں ایک قومی حکومت بھی میسر آسکتی ہے اور بدرجہ اقل وطنی حکومت میں اچھا خاصا حصہ بھی مل سکتا ہے لیکن اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کے مقصد تک پہنچنے کے لیے یہ پہلا قدم بھی نہیں بلکہ الٹا قدم ہے۔
یہاں جس قوم کا نام مسلمان ہے وہ ہر قسم کے رطب و یا بس لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ کیریکٹر کے اعتبار سے جتنے ٹائپ کافر قوموں میں پائے جاتے ہیں، اتنے ہی اس قوم میں موجود ہیں۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دینے والے جس قدر کافر قومیں فراہم کرتی ہیں غالبًا اسی تناسب سے یہ بھی فراہم کرتی ہے۔ رشوت، چوری، زنا، جھوٹ اور دوسرے تمام ذمائم اخلاق میں یہ کفار سے کچھ کم نہیں ہے۔ پیٹ بھرنے اور دولت کمانے کے لیے جو تدبیریں کفار کرتے ہیں وہی اس قوم کے لوگ بھی کرتے ہیں۔ ایک مسلمان وکیل جان بوجھ کر حق کے خلاف اپنے موکل کی پیروی کرتے وقت اتنا ہی خدا کے خوف سے خالی ہوتا ہے جتنا ایک غیر مسلم وکیل ہوتا ہے۔ ایک مسلمان رئیس دولت پاکر یا ایک مسلمان عہدہ دار حکومت پاکر وہی سب کچھ کرتا ہے جو غیر مسلم کرتا ہے یہ اخلاقی حالت، جس قوم کی ہو اس کی تمام کالی اور سفید بھیڑوں کو جمع کرکے ایک منظم گلہ بنا دینا اور سیاسی تربیت سے انھیں لومڑی کی ہوشیاری سکھانا یا فوجی تربیت سے ان میں بھیڑیے کی درندگی پیدا کرنا، جنگل کی فرماںروائی حاصل کرنے کے لیے تو ضرور مفید ہوسکتا ہے، مگر میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اعلائے کلمۃ اللّٰہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ کون ان کی اخلاقی برتری تسلیم کرے گا؟ کس کی نگاہیں ان کے سامنے عزت سے جھکیں گی؟ کس کے دل میں انھیں دیکھ کر اسلام کے لیے عقیدت کا جذبہ پیدا ہوگا؟ کہاں ان کے انفاسِ قدسیہ سے یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًاOط
کا منظر دکھائی دے سکے گا؟ کس جگہ ان کی روحانی امامت کا سکہ جمے گا؟ اور زمین پر بسنے والے کہاں ان کا خیر مقدم اپنے نجات دہندوں کی حیثیت سے کریں گے؟ اعلائے کلمۃ اللّٰہ جس چیز کا نام ہے اس کے لیے تو صرف ان کارکنوں کی ضرورت ہے جو خدا سے ڈرنے والے اور خدا کے قانون پر فائدہ و نقصان کی پروا کیے بغیر جمنے والے ہوں، خواہ وہ اس نسلی قوم میں سے ملیں یا کسی دوسری قوم سے بھرتی ہو کر آئیں ایسے دس آدمی اس مقصد کے لیے زیادہ قیمتی ہیں بہ نسبت اس کے کہ وہ انبوہ جس کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں، ۲۵ لاکھ یا ۵۰ لاکھ کی تعداد میں بھرتی ہو جائے۔ اسلام کو تانبے کے ان سکوں کا خزانہ مطلوب نہیں جن پر اشرفی کا ٹھپّا لگایا گیا ہو۔ وہ سکہ کے نقوش دیکھنے سے پہلے یہ دریافت کرتا ہے کہ ان نقوش کے نیچے خالص سونے کا جوہر بھی ہے یا نہیں ایسا ایک سکہ ان جعلی اشرفیوں کے ڈھیرسے اس کے نزدیک زیادہ قیمتی ہے۔ پھر جس لیڈر شپ کی اعلائے کلمۃ اللّٰہ کے لیے ضرورت ہے وہ ایسی لیڈر شپ ہے جو ان اصولوں سے ایک انچ بھی ہٹنے کے لیے تیار نہ ہو۔ جن کا بول بالا کرنے کے لیے اسلام اٹھا ہے، خواہ اس ہٹ کی بدولت تمام مسلمان بھوکے ہی کیوں نہ مر جائیں، بلکہ تہِ تیغ ہی کیوں نہ کر دیے جائیں۔ ہر معاملہ میں اپنی قوم کا فائدہ تلاش کرنے والی اور اصول سے بے نیاز ہو کر ہر اس تدبیر کو جس میں قوم کی دنیوی فلاح نظر آئے، اختیار کرلینے والی لیڈر شپ اور وہ لیڈر شپ جس میں تقوٰی اور خدا ترسی کا رنگ مفقود ہو اس مقصد کے لیے قطعی ناکارہ ہے جس پر اسلام نے اپنی نظیر جما رکھی ہے۔
پھر وہ نظامِ تعلیم و تربیت جس کی بنیاد اس مشہور مقولہ پر رکھی گئی ہے کہ: ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ اس اسلام کی خدمت کے لیے کس طرح موزوں ہوسکتا ہے جس کا قطعی ناقابلِ ترمیم فیصلہ یہ ہے کہ ہوا خواہ کسی طرف کی ہو تم بہرحال اس راستہ پر چلو جو خدا نے تمھارے لیے متعین کر دیا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آج اگر آپ کو ایک خطۂ زمین حکومت کرنے کے لیے دے بھی دیا جائے تو آپ اسلامی اصول پر اس کا انتظام ایک دن بھی نہ چلا سکیں گے۔ اسلامی حکومت کو پولیس، عدالت، فوج، مال گزاری، فنانس، تعلیمات اور خارجی پالیسی کو چلانے کے لیے جس ذہنیت اور جس اخلاقی روح رکھنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے انھیںفراہم کرنے کا کوئی بندوبست آپ نے نہیں کیا ہے، یہ تعلیم جو آپ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جاری ہے، غیر اسلامی حکومت کے لیے تو سیکرٹری اور وزرا تک فراہم کرسکتی ہے مگر برا نہ مانیے اسلامی عدالتوں کے لیے چپراسی اور اسلامی پولیس کے لیے کانسٹیبل تک فراہم نہیں کرسکتی، اور یہ بات آپ ہی کے اس نظامِ تعلیم تک محدود نہیں ہے۔ ہمارا وہ پرانا نظامِ تعلیم جو حرکتِ زمین کا سرے سے قائل ہی نہیں ہے۔ وہ بھی اس معاملہ میں اتنا ناکارہ ہے کہ اس دور جدید میں اسلامی حکومت کے لیے ایک قاضی، ایک وزیر مال، ایک وزیر جنگ، ایک ناظم تعلیمات اور ایک سفیر بھی مہیا نہیں کرسکتا۔ اس تیاری پر اسلامی حکومت کا حوصلہ سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ یہ نام زبان پر لاتے ہیں ان کے ذہن اسلامی حکومت کے صحیح تصور سے خالی ہیں۔
بعض لوگ یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ غیر اسلامی طرز ہی کی سہی مسلمانوں کی قومی اسٹیٹ قائم تو ہو جائے پھر رفتہ رفتہ تعلیم و تربیت اور اخلاقی اصلاح کے ذریعہ سے اسے اسلامی اسٹیٹ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ مگر میں نے تاریخ، سیاسیات اور اجتماعیات کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس کی بناپر میں اسے سخت مشکل سمجھتا ہوں اور اگر یہ منصوبہ کام یاب ہو جائے تو میں اسے ایک معجزہ سمجھوں گا جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، حکومت کا نظام اجتماعی زندگی میں بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے۔ جب تک اجتماعی زندگی میں تغیر واقع نہ ہو کسی مصنوعی تدبیر سے نظامِ حکومت میں کوئی مستقل تغیر نہیں کیا جاسکتا، عمر بن عبدالعزیز جیسا زبردست فرماں روا جس کی پشت پر تابعین و تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت بھی تھی، اس معاملہ میں قطعی ناکام ہو چکا ہے۔ کیوں کہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی اس اصلاح کے لیے تیار نہ تھی۔ محمد تغلق اور عالَم گیر جیسے طاقت وَر بادشاہ اپنی شخصی دین داری کے باوجود نظام حکومت میں کوئی تغیر نہ کرسکے۔ مامون الرشید جیسا باجبروت حکم ران نظامِ حکومت میں نہیں صرف اس کی اوپری شکل میں تبدیلی پیدا کرنا چاہتا تھا، اور اس میں بھی ناکام ہوا۔ یہ اس وقت کا حال ہے جب کہ ایک شخص کی طاقت بہت کچھ کرسکتی تھی۔ اب میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو قومی اسٹیٹ جمہوری طرز پر تعمیر ہوگی وہ اس بنیادی اصلاح میں آخر کس طرح مدد گار ہوسکتی ہے؟ جمہوری حکومت میں اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں آتا ہے جنھیں ووٹروں کی پسندیدگی حاصل ہو۔ ووٹروں میں اگر اسلامی ذہنیت اور اسلامی فکر نہیں ہے، اگر وہ صحیح اسلامی کیریکٹر کے عاشق نہیں ہیں، اگر وہ اس بے لاگ عدل اور ان بے لچک اصولوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جن پر اسلامی حکومت چلائی جاتی ہے، تو ان کے ووٹوں سے کبھی ’’مسلمان‘‘ قسم کے آدمی منتخب ہو کر پارلیمنٹ یا اسمبلی میں نہیں آسکتے۔ اس ذریعہ سے تو اقتدار انھی لوگوں کو ملے گا جو مردم شماری کے رجسٹر میں تو چاہے مسلمان ہوں مگر اپنے نظریات اور طریقِ کار کے اعتبار سے جنھیں اسلام کی ہوا بھی نہ لگی ہو۔ اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں جس مقام پر غیر مسلم حکومت میں تھے۔ بلکہ اس سے بھی بدتر مقام پر۔ کیوں کہ وہ ’’قومی حکومت‘‘ جس پر اسلام کا نمائشی لیبل لگا ہوگا، اسلامی انقلاب کا راستہ روکنے میں اس سے بھی زیادہ جری و بے باک ہوگی، جتنی غیر مسلم حکومت ہوتی ہے۔ غیر مسلم حکومت جن کاموں پر قید کی سزا دیتی ہے، مسلم ’’قومی حکومت‘‘ ان کی سزا پھانسی اور جلاوطنی کی صورت میں دے گی اور پھر بھی اس حکومت کے لیڈر جیتے جی غازی اور مرنے کے بعد رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی رہیں گے۔ پس یہ سمجھنا قطعی غلط ہے کہ اس قسم کی ’’قومی حکومت‘‘ کسی معنی میں بھی اسلامی انقلاب لانے میں مددگار ہوسکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہمیں اس حکومت میں بھی اجتماعی زندگی کی بنیادیں بدلنے ہی کی کوشش کرنا پڑے گی اور اگر ہمیں یہ کام حکومت کی مدد کے بغیر بلکہ اس کی مزاحمت کے باوجود اپنی قربانیوں ہی سے کرنا ہوگا، تو ہم آج ہی سے یہ راہِ عمل کیوں نہ اختیار کریں؟ اس نام نہاد ’’قومی حکومت‘‘ کے انتظار میں اپنا وقت یا اس کے قیام کی کوشش میں اپنی قوت ضائع کرنے کی حماقت آخر ہم کیوں کریں جب کہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ ہمارے مقصد کے لیے نہ صرف غیر مفید ہوگی بلکہ کچھ زیادہ ہی سدِراہ ثابت ہوگی۔

شیئر کریں