تیسری اہم مد ان قرضوں کی ہے جو حکومتوں کو کبھی وقتی حوادث کے لیے، اور کبھی غیر نفع آور ملکی ضروریات کے لیے، اور کبھی جنگ کے لیے لینے ہوتے ہیں۔ موجودہ نظامِ مالیات میں ان سب مقاصد کے لیے روپیہ تمام تر قرض، اور وہ بھی سودی قرض کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اسلامی نظامِ مالیات میں یہ عین ممکن ہوگا کہ ادھر حکومت کی طرف سے ضرورت کا اظہار ہو اور ادھر قوم کے افراد اور ادارے خود لا لا کر چندوں کے ڈھیر اس کے سامنے لگا دیں۔ اس لیے کہ سود کی بندش اور زکوٰۃ کی تنظیم لوگوں کو اس قدر آسودہ اور مطمئن کر دے گی کہ انہیں اپنے اندوختے (savings) اپنی حکومت کو یونہی دے دینے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔ اس پر بھی اگر بقدرِ ضرورت روپیہ نہ ملے تو حکومت قرض مانگے گی اور لوگ دل کھول کر اسے قرضِ حسن دیں گے۔ لیکن اگر اس سے بھی ضروریات پوری نہ ہوسکیں، تو اسلامی حکومت اپنا کام چلانے کے لیے حسب ذیل طریقے اختیار کرسکتی ہے:
(۱) زکوٰۃ و خُمس کی رقمیں استعمال کرے۔
(۲) تمام بینکوں سے ان کی رقومِ امانت کا ایک مخصوص حصہ حکماً بطور قرض طلب کرلے جس کا اسے اتنا ہی حق پہنچتا ہے جتنا وہ افرادِ قوم سے لازمی فوجی خدمت (conscription) طلب کرنے اور لوگوں سے ان کی عمارتیں اور موٹریں اور دوسری چیزیں بزور حاصل کرنے (requisition) کا حق رکھتی ہے۔
(۳) بدرجۂ آخر وہ اپنی ضروریات کے مطابق نوٹ چھاپ کر بھی کام چلا سکتی ہے جو دراصل قوم ہی سے قرض لینے کی ایک دوسری صورت ہے۔ لیکن یہ محض ایک آخری چارۂ کار ہے جو بالکل ناگزیر حالات ہی میں اختیار کیا جاسکتا ہے کیوں کہ اس کی قباحتیں بہت زیادہ ہیں۔