Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
تقریب
مسئلہ قتل مرتد شرعی حیثیت سے
حکم قتل مرتد کا ثبوت قرآن سے
حکم قتل مرتد کا ثبوت حدیث سے
خلافت راشدہ کے نظائر
مرتدوں کے خلاف خلیفۂ اوّل کا جہاد
ائمۂ مجتہدین کا اتفاق
دَارالاسلام میں تبلیغ کفر کا مسئلہ
مسئلہ کی تحقیق
اسلامی حکومت کا بنیادی مقصد
دارالاسلام میں ذمیوں اور مستامنوں کی حیثیت
دور نبوت اور خلافت راشدہ کا طرز عمل
قتل ِ مرتد پر عقلی بحث
معترضین کے دلائل
ایک بنیادی غلط فہمی
اعتراضات کا جواب
مجرد مذہب اور مذہبی ریاست کا بنیادی فرق
ریاست کا قانونی حق
انگلستان کی مثال
امریکا کی مثال
ریاست کا فطری حق
کافر اور مُرتد کے ساتھ مختلف معاملہ کیوں ہے؟
جوابی کارروائی کا خطرہ
پیدائشی مسلمانوں کا مسئلہ
تبلیغ کفر کے باب میں اسلامی رویے کی معقولیت

مرتد کی سزا

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

حکم قتل مرتد کا ثبوت قرآن سے

ذرائع معلومات کی کمی کی وجہ سے جن لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ ہے کہ شاید اسلام میں مرتد کی سزا قتل نہ ہو اور بعد کے ’’مولویوں‘‘ نے یہ چیز اپنی طرف سے اس دین میں بڑھا دی ہو، ان کو اطمینان دلانے کے لیے میں یہاں مختصراً اس کا ثبوت پیش کرتا ہوں۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِط وَنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ وَاِنْ نَّکَثُوْٓ ا اَیْمَانَھُمْ مِّنْ م بَعْدِ عَھْدِھِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِلا اِنَّھُمْ لَآ اَیْمَانَ لَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَنْتَھُوْنَo (التوبہ: ۹:۱۱۔۱۲)
’’پھر اگر وہ (کفر سے) توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں۔ ہم اپنے احکام اُن لوگوں کے لیے واضح طور پر بیان کر رہے ہیں جو جاننے والے ہیں۔ لیکن اگر وہ عہد (یعنی قبول اسلام کا عہد) کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمھارے دین پر زبان طعن دراز کریں تو پھر کفر کے لیڈروں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ شاید کہ وہ اس طرح باز آجائیں۔‘‘
یہ آیت سورۂ توبہ میں جس سلسلے میں نازل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ۹ ھ میں حج کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اعلان براء ت کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس اعلان کا مفاد یہ تھا کہ جو لوگ اب تک خدا اور اس کے رسول سے لڑتے رہے ہیں اور ہر طرح کی زیادتیوں اور بدعہدیوں سے خدا کے دین کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اُن کو اب زیادہ سے زیادہ چار مہینے کی مہلت دی جاتی ہے۔ اس مدت میں وہ اپنے معاملے پر غو کرلیں۔ اسلام قبول کرنا ہو تو قبول کرلیں، معاف کر دیے جائیں گے۔ ملک چھوڑ کر نکلنا چاہیں تو نکل جائیں، مدت مقررہ کے اندر ان سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو لوگ ایسے رہ جائیں گے جنھوں نے نہ اسلام قبول کیا ہو اور نہ چھوڑا ہو اُن کی خبر تلوار سے لی جائے گی۔ اس سلسلے میں فرمایا گیا کہ ’’اگر وہ توبہ کرکے ادائے نماز و زکوٰۃ کے پابند ہو جائیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں، لیکن اگر اس کے بعد وہ پھر اپنا عہد توڑ دیں تو کفر کے لیڈروں سے جنگ کی جائے۔‘‘ یہاں عہد شکنی سے مرادکسی طرح بھی سیاسی معاہدات کی خلاف ورزی نہیں لی جاسکتی۔ بلکہ سیاق عبارت صریح طور پر اس کے معنی ’’اقرار اسلام سے پھر جانا‘‘ متعین کر دیتا ہے۔ اور اس کے بعدفَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِ کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتے کہ تحریک ارتداد کے لیڈروں سے جنگ کی جائے۔

شیئر کریں