قرآن میں اور بھی بہت سے گناہوں کی ممانعت کا حکم آیا ہے، اور ان پر سخت وعیدیں بھی ہیں، لیکن اتنے سخت الفاظ کسی دوسرے گناہ کے بارے میں وارد نہیں ہوئے۔( ایک حدیث میں ہے کہ سود کا گناہ اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنے سے ستر درجہ زیادہ ہے۔ (ابن ماجہ))اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی قلمرو میں سود کو روکنے کے لیے سخت کوشش فرمائی۔ آپؐ نے نجران کے عیسائیوں سے جو معاہدہ کیا اس میں صاف طور پر لکھ دیا کہ اگر تم سودی کاروبار کرو گے تو معاہدہ کالعدم ہو جائے گا اور ہم کو تم سے جنگ کرنی پڑے گی۔ بنو مغیرہ کے سودخور عرب میں مشہور تھے۔ فتح مکہ کے بعد حضورؐ نے ان کی تمام سودی رقمیں باطل کر دیں اور اپنے عاملِ مکہ کو لکھا کہ اگر وہ باز نہ آئیں تو ان سے جنگ کرو۔ خود حضورؐ کے چچا حضرت عباسؓ ایک بڑے مہاجن تھے۔ حجتہ الوداع میں آپؐ نے اعلان فرمایا کہ جاہلیت کے تمام سود ساقط کیے جاتے ہیں اور سب سے پہلے میں خود اپنے چچا عباسؓ کا سود ساقط کرتا ہوں۔ آپؐ نے یہاں تک فرما دیا کہ سود لینے والے اور دینے والے، اور اس کی دستاویز کے کاتب، اور اس پر گواہی دینے والے، سب پر اللہ کی لعنت!
ان تمام احکام کا منشا یہ نہ تھا کہ محض سود کی ایک خاص قسم یعنی یوژری (مہاجنی سود) کو بند کیا جائے اور اس کے سوا تمام اقسام کے سودوں کا دروازہ کھلا رہے۔ بلکہ ان سے اصل مقصد سرمایہ دارانہ اخلاق، سرمایہ دارانہ ذہنیت، سرمایہ دارانہ نظام تمدن اور سرمایہ دارانہ نظمِ معیشت کا کلی استیصال کر کے وہ نظام قائم کرنا تھا جس میں بخل کے بجائے فیاضی ہو، خود غرضی کے بجائے ہمدردی اور امداد باہمی ہو، سود کے بجائے زکوٰۃ ہو، بینک کی جگہ قومی بیت المال ہو، اور وہ حالات ہی سرے سے پیش نہ آئیں جن سے مقابلہ کرنے کے لیے نظامِ سرمایہ داری میں کوآپریٹو سوسائٹیوں اور انشورنس کمپنیوں اور پراویڈنٹ فنڈز وغیرہ کی ضرورت پیش آتی ہے اور آخر کار اشتراکیت کا غیر فطری پروگرام اختیار کرنا پڑتا ہے۔