Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

بنیادی حقوق کوئی نیا تصوّر نہیں
بنیادی حقوق کا سوال کیوں؟
دور حاضر میں انسانی حقوق کے شعور کا اِرتقا
اسی طرح دفعہ ۵۵ میں اقوام متحدہ کا یہ منشور کہتا ہے:
حُرمتِ جان یا جینے کا حق
معذوروں اور کمزوروں کا تحفظ
تحفظِ ناموس خواتین
معاشی تحفظ
عادلانہ طرز معاملہ
نیکی میں تعاون اور بدی میں عدم تعاون
مساوات کا حق
معصیت سے اجتناب کا حق
ظالم کی اطاعت سے انکار کا حق
سیاسی کار فرمائی میں شرکت کا حق
آزادی کا تحفظ
نجی زندگی کا تحفظ
ظلم کے خلاف احتجاج کا حق
ضمیر واعتقاد کی آزادی کا حق
مذہبی دِل آزاری سے تحفظ کا حق
آزادیِ ٔاجتماع کا حق
عملِ غیر کی ذمہ داری سے بریّت
شبہات پر کارروائی نہیں کی جائے گی

انسان کے بنیادی حقوق

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

حُرمتِ جان یا جینے کا حق

قرآن مجید میں دنیا کے سب سے پہلے واقعۂ قتل کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا اولین سانحہ تھا جس میں ایک انسان نے دوسرے انسان کی جان لی۔ اس وقت پہلی مرتبہ یہ ضرورت پیش آئی کہ انسان کو انسانی جان کا احترام سکھایا جائے اور اسے بتایا جائے کہ ہر انسان جینے کا حق رکھتا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کہتا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا۝۰ۭ وَمَنْ اَحْيَاہَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۝۰ۭ [المائدہ 5:32]
جس نے کسی متنفس کو بغیر اس کے کہ اس نے قتلِ نفس کا ارتکاب کیا ہو، یا زمین میں فساد انگیزی کی ہو، قتل کر دیا، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے اسے زندہ رکھا، تو اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔
اس آیت میں قرآن کریم نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانی دنیا کا قتل بتایا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیّت کی جان بچانے کے مترادف ٹھہرایا ہے۔ ’’احیا‘‘ کے معنی ہیں زندہ کرنا۔ دوسرے الفاظ میں اگر کسی شخص نے انسانی زندگی کو بچانے کے لیے کوشش کی، اس نے انسان کو زندہ کرنے کا کام کیا۔ یہ کوشش اتنی بڑی نیکی ہے کہ اسے ساری انسانیّت کے زندہ کرنے کے برابر ٹھہرایا گیا ہے۔ اس اصول سے صرف دو حالتیں مستثنیٰ ہیں۔
ایک یہ کہ کوئی شخص قتل کا مرتکب ہو‘ اور اسے قصاص کے طور پر قتل کیا جائے۔
دوسری یہ کہ کوئی شخص زمین میں فساد برپا کرے تو اسے قتل کیا جائے۔
ان دو حالتوں کے ماسِوا انسانی جان کو ضائع نہیں کیا جا سکتا۔{ مزید ملاحظہ ہو آیت:وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۭ [بنی اسرائیل17:33]
قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔
}
انسانی جان کے تحفظ کا یہ اصول اللہ تعالیٰ نے تاریخ انسانی کے ابتدائی دور میں واضح کر دیا تھا۔ انسان کے بارے میں یہ خیال کرنا غلط ہے کہ وہ تاریکی میں پیدا ہوا ہے اور اپنے ہم جنسوں کو قتل کرتے کرتے کسی مرحلہ پر اس نے یہ سوچا کہ انسان کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ خیال سراسر غلط ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانی پر مبنی ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شروع سے انسان کی راہ نمائی کی ہے اور اسی راہ نمائی میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ اس نے انسان کو انسان کے حقوق سے آشنا کیا۔

شیئر کریں