Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلام کا نظریۂ سیاسی
تمام اِسلامی نظریات کی اساس
انبیا علیہم السلا م کا مشن
الٰہ کے معنی
رَبّ کا مفہوم
فتنے کی جڑ
انبیاؑ کا اصل اصلاحی کام
نظریّۂ سیاسی کے اوّلیں اُصُول
اِسلامی اسٹیٹ کی نوعیت
ایک اعتراض
حُدودُ اللّٰہ کا مقصد
اِسلامی اسٹیٹ کا مقصد
ایجابی اسٹیٹ
جماعتی اور اُصولی اسٹیٹ
نظریہ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
اِسلامی جمہوریت کی حیثیت
انفرادیت اور اجتماعیت کا توازن
اِسلامی اسٹیٹ کی ہیئتِ ترکیبی

اسلام کا نظریۂ سیاسی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

حُدودُ اللّٰہ کا مقصد

مثال کے طور پر انسان کی معاشی زندگی کو لیجیے۔ اس میں اللّٰہ تعالیٰ نے شخصی ملکیت کا حق، زکوٰۃ کی فرضیت، سُود کی حرمت، جُوئے اور سٹے کی ممانعت، وراثت کا قانون اور دولت کمانے، جمع کرنے اور خرچ کرنے پر پابندیاں عائد کرکے چند سرحدی نشانات لگا دیے ہیں۔ اگر انسان ان نشانات کو برقرار رکھے اور ان کے اندر رَہ کر اپنے معاملات کی تنظیم کر لے تو ایک طرف شخصی آزادی (Personal Liberty) بھی محفوظ رہتی ہے اور دوسری طرف طبقاتی جنگ (Class-war) اور ایک طبقہ پر دوسرے طبقہ کے تسلّط کی وُہ حالت بھی پیدا نہیں ہو سکتی جو ظالمانہ سرمایہ داری سے شروع ہو کر مزدُوروں کی ڈکٹیٹر شپ پر منتہی ہوتی ہے۔
اسی طرح عائلی زندگی (Family Life) میں اللّٰہ نے حجابِ شرعی، مرد کی قوامیت، شوہر، بیوی، بچوں اور والدین کے حقوق و فرائض، طلاق اور خلع کے احکام، تعدّدِ ازواج کی مشروط اجازت، زنا اور قذف کی سزائیں مقرر کرکے ایسی حدیں کھڑی کر دی ہیں کہ اگر انسان ان کی ٹھیک ٹھیک نگاہِ داشت کرے اور ان کے اندر رَہ کر اپنی خانگی زندگی کو منضبط کر لے تو نہ گھر ظلم و ستم کا دوزخ بن سکتے ہیں اور نہ ان گھروں سے عورتوں کی شیطانی آزادی کا وُہ طوفان اُٹھ سکتا ہے جو آج پوری انسانی تہذیب کو غارت کر دینے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
اسی طرح انسانی تمدن و معاشرت کی حفاظت کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے قصاص کا قانون، چوری کے لیے ہاتھ کاٹنے کی سزا، شراب کی حرمت، جسمانی ستر کے حدود اور ایسے چند مستقل قاعدے مقرر کرکے فساد کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے ہیں۔
میرے لیے اتنا موقع نہیں ہے کہ مَیں حدودُ اللّٰہ کی ایک مکمل فہرست آپ کے سامنے پیش کرکے تفصیل کے ساتھ بتائوں کہ انسانی زندگی میں توازن و اعتدال قائم کرنے کے لیے ان میں سے ایک ایک حد کس قدر ضروری ہے۔ یہاں مَیں صرف یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس طریقہ سے ایک ایسا مستقل ناقابلِ تغیر و تبدّل دستور (Constitution) بنا کر انسان کو دے دیا ہے جو اس کی رُوحِ آزادی کو سلب اور اس کی عقل و فکر کو معطل نہیں کرتا، بلکہ اس کے لیے ایک صاف، واضح اور سیدھا راستہ مقرر کر دیتا ہے تاکہ وُہ اپنی جہالت اور اپنی کم زوریوں کے سبب سے تباہی کی بھول بھلیوں میں بھٹک نہ جائے، اس کی قوتیں غلط راستوں میں ضائع نہ ہوں اور وُہ اپنی حقیقی فلاح و ترقی کی راہ پر بڑھتا چلا جائے۔ اگر آپ کو کسی پہاڑی مقام پر جانے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ پُرپیچ پہاڑی راستوں میں جن کے ایک طرف عمیق غار اور دُوسری طرف بلند چٹانیں ہوتی ہیں۔ سڑک کے کناروں کو ایسی رُکاوٹوں سے محفوظ کر دیا جاتا ہے کہ مسافر غلطی سے کھڈ کی طرف نہ چلا جائے۔ کیا ان رُکاوٹوں کا مقصد راہ رو کی آزادی سلب کرنا ہے؟ نہیں! دراصل ان سے مقصد یہ ہے کہ اسے ہلاکت سے محفوظ رکھا جائے اور ہر پیچ، ہر موڑ اور ہر امکانی خطرے کے موقع پر اُسے بتایا جائے کہ تیرا راستہ اُدھر نہیں اِدھر ہے۔ تجھے اس رُخ پر نہیں اس رُخ پر مڑنا چاہیے تاکہ تُو بسلامت اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ سکے۔ بس یہی مقصد ان حدود کا بھی ہے جو خدا نے اپنے دستور میں مقرر کی ہیں۔ یہ حدیں انسان کے لیے زندگی کے سفرکا صحیح رُخ معین کرتی ہیں اور ہر پُرپیچ مقام، ہر موڑ اور ہر دوراہے پر اسے بتاتی ہیں کہ سلامتی کا راستہ اس طرف ہے۔ تجھے ان سمتوں پر نہیں بلکہ اس سمت پر پیش قدمی کرنی چاہیے۔
جیسا کہ عرض کر چکا ہوں خدا کا مقرر کیا ہوا یہ دستور ناقابلِ تغیر و تبدّل ہے۔ اگر آپ چاہیں تو بعض مغربیت زدہ مسلمان ملکوں کی طرح اس دستور کے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں مگر اسے بدل نہیں سکتے۔ یہ قیامت تک کے لیے اٹل دستور ہے۔ اِسلامی اسٹیٹ جب بنے گا اسی دستور پر بنے گا۔ جب تک قرآن اور سنتِ رسولؐ دنیا میں باقی ہے اُس دستور کی ایک دفعہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹائی جا سکتی، جسے مسلمان رہنا ہو وُہ اس کی پابندی پر مجبور ہے۔

شیئر کریں