اسلام کے ساتھ ہماری نسبت ان مسلمات ہی کے تسلیم کرنے سے قائم ہے۔ یہ بنیادی اصول ہیں جن پر ہم سب مسلمان متفق ہیں۔ ان پر قائم رہنا کچھ آسان کام نہیں ہے۔ شیطان کاکام ہی یہ ہے کہ ترغیب سے ترہیب اور دلوں میں وسوسہ اندازی کرکے خدا سے غاوت کی راہ پر لائے۔ لیکن ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم کم سے کم اتنی ہمت تو دکھائیں کہ شیطان کو دانتوں پسینہ آجائے۔ یہ کیا ہے کہ اپنے آپ کو بزدلانہ طاغوت کے حوالے بھی کردیں اور دینداری کا دعویٰ بھی کرتے رہیں۔ خدا سے بھی تعلق رکھیں۔ اور اہرمن سے بھی۔ اس پر ایک لطیفہ یاد آیا۔ کہئے تو عرض کردوں۔ کوئی مسلمان ہوا۔ لیکن اس کے باوجود جب وہ کسی مندر کے سامنے سے گزرا تو مورتیوں کے آگے ڈنڈوت بھی کرلیتا۔ کسی نے کہا کہ مسلمان ہونے کے بعد یہ حرکت اچھی نہیں ہے۔ اس نے کہا ’’بھئی بگاڑ کسی سے اچھا نہیں ہے‘‘۔ دین حق میں معاف کیجئے۔ اس رواداری کی گنجائش نہیں ہے۔ مسیح علیہ السلام نے کہا ہے ’’جو ہمارے ساتھ نہیں‘ وہ ہمارا دشمن ہے‘‘
حق و باطل کی لڑائی قدیمی ہے جو باوا آدم کے وقت سے چلی آرہی ہے‘ یہ جنگ عقلی بھی ہے‘ اخلاقی بھی ہے اور مادی بھی۔ ہم ایک ہی ساتھ اللہ اور اہرمن دونوں کو خوش نہیں کرسکتے۔
میں آپ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ دین کے مسلم مسائل ہیں۔ کیا مسلمان موجودہ حالات میں اسلام کے ان مقتضیات کو پورا کر رہے ہیں؟ ہم تو ٹھنڈی سڑک سے جنت تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ’’حفت الجنۃ بالمکارہ‘‘ ،’’جنت ناگوار شدائد سے گھیر دی گئی ہے‘‘۔ یہ حضورؐ نے فرمایا ہے۔ ہمیں لامحالہ جان و مال کی بازی کھیلنی پڑے گی۔ اس طرح کی ’’سہل پسند‘‘ قسم کی زندگی صرف ایک شکل میں اختیار کی جاسکتی ہے کہ آدمی کا کوئی اصول نہ ہو‘ لیکن جب کوئی اصول اختیار کیا جائے گا تو زندگی کی راہ کانٹوں سے بھر جائے گی‘ یا تو ہر تیز رو کے پیچھے بھاگے یا ایک اصول اختیار کرنے کے بعد اس کے لیے تن من اور دھن کی قربانی کیجئے۔ دو اور دو مل کر چار ہوتے ہیں۔ اگر آپ اتنی سی بات بھی مان لیتے ہیں تو حساب درست کرنے کے لیے راتوں کو کتنی نیند خراب کرنی پڑتی ہے اور کتنا تیل جلانا پڑتا ہے۔ لیکن اگر آپ کا خیال ہو کہ دو اور دو مل کر چار بھی ہوتے ہیں اور چھ بھی‘ آٹھ بھی ہوتے ہیں اور سولہ بھی۔ تو پھر درد سری کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ غور تو کیجئے‘ جب مسلمان اتنے مسلمات مانتا ہے تو اسے کتنا خون جلانا پڑے گا۔