Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
مقدمہ
مسئلہ جبر و قدر کی حقیقت
اختیار و اضطرار کا ابتدائی اثر
مسئلہ جبر و قدر کا نقطۂ آغاز
مابعد الطبیعی نقطۂ نظر
فلسفے کی ناکامی
طبیعی نقطۂ نظر
سائنس کی ناکامی
اخلاقی نقطۂ نظر
اخلاقیات کی ناکامی
دینیاتی نقطۂ نظر
صحیح اسلامی مسلک
متکلمین اسلام کے مذاہب
مذہب قدر
قرآن مجید سے قدریہ کا استدلال
مذہب جبر
قرآنِ مجید سے جبریہ کا استدلال
متکلمین کی ناکامی
تحقیق مسئلہ
امور ماورائے طبیعت کے بیان سے قرآن کا اصل مقصد
مسئلہ قضا و قدر کے بیان کا منشا
عقیدۂ تقدیر کا فائدہ عملی زندگی میں!
تناقض کی تحقیق
حقیقت کی پردہ کشائی
مخلوقات میں انسان کی امتیازی حیثیت
ہدایت و ضلالت
عدل اور جزا و سزا
جبرو قدر

مسئلہ جبرو قدر

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

حقیقت کی پردہ کشائی

پچھلی بحث سے یہ بات تو صاف ہو گئی کہ قرآنِ مجید میں مسئلہ جبر و قدر کے متعلق جو اشارات مختلف مواقع پر کیے گئے ہیں ان میں درحقیقت کوئی تناقض و تعارض نہیں ہے، لیکن ایک سوال پھر بھی باقی رہ گیا اور وہ یہ ہے کہ مخلوقاتِ عالم میں انسان کی وہ کون سی امتیازی حیثیت ہے جس کے لحاظ سے ایک طرف تو وہ تمام موجودات کی طرح خدا کا محکوم ہے، قوانین خداوندی میں جکڑا ہوا ہے، مجبور ہے اور دوسری طرف اپنے افعال میں خود مختار بھی ہے، اپنے اعمال کا ذمہ دار بھی ہے، اپنی حرکات و سکنات کے لیے جواب دہ بھی ہے اور جزا و سزا کا مستحق بھی ہے؟ نیز جب انسان کا حال یہ ہے اور اس کی زندگی میں جبر و اختیار اس طرح ملے جلے ہیں، تو عدل کیوں کر ممکن ہے؟ اس لیے کہ صحیح انصاف کے ساتھ جزا و سزا کا فیصلہ کرنا بغیر اس تحقیق کے ممکن نہیں ہے کہ انسان کے افعال کی ذمہ داری خود اس پر کس حد تک ہے اور ذمہ داری کی تشخیص بغیر یہ معلوم کیے نہیں ہو سکتی کہ اس کے افعال میں اس کے آزادانہ اختیار کا کتنا حصہ ہے۔ اس مسئلے کی تحقیق کے لیے جب ہم قرآنِ مجید پر نظر ڈالتے ہیں تو اس سے ہم کو ایک ایسا تشفی بخش جواب ملتا ہے جو دنیا کی کسی دوسری کتاب اور دنیا کے کسی انسانی علم و فن سے نہیں ملتا۔

شیئر کریں