پچھلی بحث سے یہ بات تو صاف ہو گئی کہ قرآنِ مجید میں مسئلہ جبر و قدر کے متعلق جو اشارات مختلف مواقع پر کیے گئے ہیں ان میں درحقیقت کوئی تناقض و تعارض نہیں ہے، لیکن ایک سوال پھر بھی باقی رہ گیا اور وہ یہ ہے کہ مخلوقاتِ عالم میں انسان کی وہ کون سی امتیازی حیثیت ہے جس کے لحاظ سے ایک طرف تو وہ تمام موجودات کی طرح خدا کا محکوم ہے، قوانین خداوندی میں جکڑا ہوا ہے، مجبور ہے اور دوسری طرف اپنے افعال میں خود مختار بھی ہے، اپنے اعمال کا ذمہ دار بھی ہے، اپنی حرکات و سکنات کے لیے جواب دہ بھی ہے اور جزا و سزا کا مستحق بھی ہے؟ نیز جب انسان کا حال یہ ہے اور اس کی زندگی میں جبر و اختیار اس طرح ملے جلے ہیں، تو عدل کیوں کر ممکن ہے؟ اس لیے کہ صحیح انصاف کے ساتھ جزا و سزا کا فیصلہ کرنا بغیر اس تحقیق کے ممکن نہیں ہے کہ انسان کے افعال کی ذمہ داری خود اس پر کس حد تک ہے اور ذمہ داری کی تشخیص بغیر یہ معلوم کیے نہیں ہو سکتی کہ اس کے افعال میں اس کے آزادانہ اختیار کا کتنا حصہ ہے۔ اس مسئلے کی تحقیق کے لیے جب ہم قرآنِ مجید پر نظر ڈالتے ہیں تو اس سے ہم کو ایک ایسا تشفی بخش جواب ملتا ہے جو دنیا کی کسی دوسری کتاب اور دنیا کے کسی انسانی علم و فن سے نہیں ملتا۔