Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
عرض ناشر
حقیقت عبادت
نماز
فرض شناسی
تعمیر سیرت
ضبط ِ نفس
افراد کی تیاری کا پروگرام
تنظیمِ جماعت
نماز باجماعت
مسجد میں اجتماع
صف بندی
اجتماعی دُعائیں
امامت
روزہ
روزے کے اثرات
اِحساس بندگی
اِطاعت امر
تعمیر سیرت
ضبط نفس
انفرادی تربیت کا اجمالی نقشہ
روزے کا اجتماعی پہلو
تقوٰی کی فضا
جماعتی احساس:
امداد باہمی کی روح

اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر

ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

حقیقت عبادت

قرآن کی رو سے عبادت وہ اصل مقصد ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِo الذّٰریٰت56:51
میں نے نہیں پیدا کیا جن و انس کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔
انبیاء علیہم السلام جس غرض کے لیے دنیا میں بھیجے گئے وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ انسان کو خدا کی عبادت کی طرف دعوت دیں۔
اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ النحل 36:16
یہ کہ بندگی کرو اللہ کی اور دُور رہو طاغوت سے۔
پس ہمارے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ عبادت سے مراد کیا ہے اور اسلام میں جو عبادات ہم پر فرض کی گئی ہیں ان کی اصلی روح کیا ہے۔ اگر ان اُمور کو ہم نہ جانیں گے تو اس مقصد ہی کو پورا کرنے سے قاصر رہ جائیں گے، جس کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ہے۔
عبادات کا جاہلی تصور
اسلام میں عبادات کا مفہوم محض پوجا کا نہیں ہے، بلکہ بندگی (prayer)کا بھی ہے۔ عبادات کو محض پوجا کے معنی میں لینا دراصل جاہلیت کا تصور ہے۔ جاہل لوگ اپنے معبودوں کو انسانوں پر قیاس کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح بڑے آدمی، سردار یا بادشاہ، خوشامد سے خوش ہوتے ہیں، نذرانے پیش کرنے سے مہربان ہو جاتے ہیں، ذلت اور عاجزی کے ساتھ ہاتھ جوڑنے سے پسیج جاتے ہیں اور ان سے یوں ہی کام نکالا جاسکتا ہے، اسی طرح ان کا معبود بھی انسان سے خوشامد، نذر و نیاز اور اظہار عاجزی کا طالب ہے۔ انھی تدبیروں سے اسے اپنے حال پر مہربان کیا جاسکتا ہے اور اسے خوش کرکے کام نکالا جاسکتا ہے۔ اس تصور کی بنا پر جاہلی مذاہب چند مخصوص اوقات میں مخصوص مراسم ادا کرنے کو عبادت کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
عبادت کا جو گیا نہ تصور
اسی طرح اسلام میں عبادت کا یہ بھی تصور نہیں ہے کہ آدمی دنیا کی زندگی سے الگ ہو کر خدا سے لَو لگائے، مراقبہ (meditation)نفس کشی اور مجاہدات و ریاضت (spiritual exercises)کے ذریعہ سے اپنی اندرونی قوتوں کو نشوونما دے، کشف و کرامت کی قوتیں اپنے اندر پیدا کرے اور دنیوی زندگی کی ذمہ داریوں سے سبک دوشی حاصل کرکے اُخروی نجات حاصل کرے۔ عبادت کا یہ تصور ان مذاہب میں پایا جاتا ہے جن کی بنیاد زندگی کے راہبانہ تصور (ascetic View of Life) پر ہے، جو اس دنیا کو انسان کے لیے قید خانہ اور جسم کو روح کے لیے قفس سمجھتے ہیں، جن کے نزدیک دین داری اور دنیاداری ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جو دنیا کی زندگی‘ اس کی ذمہ داریوں اور اس کے تعلقات سے باہر نجات کا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ جن کے نزدیک روحانی ترقی کے لیے مادی انحطاط یا مادیات سے بے تعلقی ناگزیر ہے۔
عبادت کا اسلامی تصور
اسلام کا تصور ان دونوں سے مختلف ہے۔ اسلام کی نگاہ میں انسان خدائے واحد کا بندہ ہے۔ اس کا خالق، اس کا رازق، اس کا مالک، اس کا حاکم صرف خداوند عالم ہے۔ خدا نے اس زمین پر اسے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے مامور کیا ہے۔ یہاں کچھ اختیارات اسے عطا کیے ہیں، کچھ ذمہ داریاں اور کچھ خدمتیں اس کے سپرد کی ہیں۔ اپنی مملکت اور اپنی رعیت کے ایک حصہ پر اسے کچھ اقتدار دیا ہے۔ اس کاکام اپنے مالک کے مقصد کو پورا کرنا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور ادا کرنا ہے۔ آقا کی سپرد کی ہوئی خدمتوں کو انجام دینا ہے۔ اپنے اختیارات اور اپنی قوتوں کو حاکم اصلی کے قانون اور اس کی رضا کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ جس قدر زیادہ سرگرمی و جاں فشانی کے ساتھ وہ زمین کی زندگی میں اپنی ذمہ داریوں اور اپنی متعلقہ خدمات کو بجا لائے گا اور جتنی زیادہ وفاداری اور فرماں برداری کے ساتھ اپنے اختیارات کے استعمال میں مالک کے قانون کی پیروی کرے گا، اتنا ہی زیادہ وہ کام یاب ہوگا۔ اس کی آیندہ ترقی کا انحصار اسی پر ہے کہ اپنی ماموریت کی مدت ختم کرنے کے بعد جب وہ مالک کے سامنے حساب کے لیے پیش ہو تو اس کے کارنامۂ زندگی سے یہ ثابت ہو کہ وہ ایک فرض شناس اور مطیع و فرماں بردار بندہ تھا، نہ یہ کہ سست، کام چور، نافرض شناس تھا، یا یہ کہ باغی و نافرمان تھا۔
اس نقطۂ نظر سے عبادت کے وہ دونوں تصور جو ابتدا میں بیان کیے گئے ہیں غلط اور قطعی غلط ہیں۔ جو شخص اپنے اوقات میں سے تھوڑا سا وقت خدا کو پوجنے کے لیے الگ کرتا ہے اور اس تھوڑے سے وقت میں عبادت کے چند مخصوص مراسم ادا کر دینے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ میں نے خدا کا حق ادا کر دیا ہے، اب میں آزاد ہوں کہ اپنی زندگی کے معاملات کو جس طرح چاہوں انجام دوں، اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی ملازم جسے آپ نے رات دن کے لیے نوکر رکھا ہو، اور جسے پوری تنخواہ دے کر آپ پرورش کر رہے ہوں، وہ بس صبح شام آکر آپ کو جھک جھک کر سلام کر دیا کرے، اور اس کے بعد آزادی کے ساتھ جہاں چاہے کھیلتا پھرے یا جس جس کی چاہے نوکری بجا لائے۔ اسی طرح جو شخص دنیا اور اس کے معاملات سے الگ ہو کر ایک گوشے میں جا بیٹھتا ہے اور اپنا سارا وقت نماز پڑھنے، روزے رکھنے، قرآن پڑھنے اور تسبیح پھیرنے میں صرف کر دیتا ہے، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جسے آپ اپنے باغ کی رکھوالی کے لیے مقرر کریں، مگر وہ باغ اور اس کے کام کاج کو چھوڑ کر آپ کے سامنے ہر وقت ہاتھ باندھے کھڑا رہے، صبح سے شام اور شام سے صبح تک آقا آقا پکارتا رہے، اور باغ بانی کے متعلق جو ہدایات آپ نے اسے دی ہیں انھیں نہایت خوش الحانی اور ترتیل کے ساتھ بس پڑھتا ہی رہے ان کے مطابق باغ کی اصلاح و ترقی کے لیے کام ذرا نہ کرکے دے۔ ایسے ملازموں کے متعلق جو کچھ رائے آپ قائم کریں گے وہی رائے اسلام کی بھی ایسے عبادت گزاروں کے متعلق ہے۔ اور جو برتائو اس قسم کے ملازموں کے ساتھ آپ کریں گے، وہی برتائو ان غلط تصورات کے تحت عبادت کرنے والوں کے ساتھ خدا بھی کرے گا۔
اسلام کا تصورِ عبادت یہ ہے کہ آپ کی ساری زندگی خدا کی بندگی میں بسر ہو۔ آپ اپنے آپ کو دائمی اور ہمہ وقتی ملازم (whole time servant) سمجھیں۔ آپ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو۔ اس دنیا میں آپ جو کچھ بھی کریں، خدا کی شریعت کے مطابق کریں۔ آپ کا سونا اور جاگنا، آپ کا کھانا اور پینا، آپ کا چلنا اور پھرنا، غرض سب کچھ خدا کے قانون({ FR 658 }) شرعی کی پابندی میں ہو۔ خدا نے جن تعلقات میں آپ کو باندھا ہے ان سب میں آپ بندھیں، اور انھیں اس طریقے سے جوڑیں یا توڑیں جس طریقے سے خدا نے انھیں جوڑنے یا توڑنے کا حکم دیا ہے۔ خدا نے جو خدمات آپ کے سپرد کی ہیں اور دنیوی زندگی میں جو فرائض آپ سے متعلق کیے ہیں، ان سب کا بار آپ نفس کی پوری رضامندی کے ساتھ سنبھالیں اور انھیں اس طریقے سے ادا کریں جس کی طرف خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے آپ کی راہ نمائی کی ہے۔ آپ ہر وقت ہر کام میں خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری محسوس کریں، اور سمجھیں کہ آپ کو اپنی ایک ایک حرکت کا حساب دینا ہے۔ اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ، اپنے محلہ میں ہم سایوں کے ساتھ، اپنی سوسائٹی میں دوستوں کے ساتھ اور اپنے کاروبار میں اہل معاملہ کے ساتھ برتائو کرتے وقت ایک ایک بات اور ایک ایک کام میں خدا کی مقرر کردہ حدود کا آپ کو خیال رہے۔ جب آپ رات کے اندھیرے میں ہوں اور کوئی نافرمانی اس طرح کرسکتے ہوں کہ کوئی آپ کو دیکھنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ کو یہ خیال رہے کہ خدا آپ کو دیکھ رہا ہے۔ جب آپ جنگل میں جارہے ہوں اور وہاں کوئی جرم اس طرح کرسکتے ہوں کہ کسی پکڑنے والے اور کسی گواہی دینے والے کا کھٹکا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا کو یاد کرکے ڈر جائیں اور جرم سے باز رہیں۔ جب آپ جھوٹ، بے ایمانی اور ظلم سے بہت سا فائدہ حاصل کرسکتے ہوں اور کوئی آپ کو روکنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا سے ڈریں اور فائدے کو اس لیے چھوڑ دیں کہ خدا اس سے ناراض ہوگا۔ اور جب سچائی اور ایمان داری میں سراسر آپ کو نقصان پہنچتا ہو اس وقت بھی نقصان اٹھانا قبول کرلیں، صرف اس لیے کہ خدا اس سے خوش ہوگا۔
پس دنیا کو چھوڑ کر کونوں اورگوشوں میں جا بیٹھنا اور اللہ اللہ کرنا عبادت نہیں ہے، بلکہ دنیا کے دھندوں میں پھنس کر اور دنیوی زندگی کی ساری ذمہ داریوں کو سنبھال کر خدا کے قانون کی پابندی کرنا عبادت ہے۔ ذکر الٰہی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان پر اللہ اللہ جاری ہو، بلکہ اصلی ذکر الٰہی یہ ہے کہ جو چیزیں خدا سے غافل کرنے والی ہیں ان میں پھنسو اور پھر خدا سے غافل نہ ہو۔ دنیا کی زندگی میں جہاں قانون الٰہی کو توڑنے کے بے شمار مواقع، بڑے بڑے نقصانوں کا خوف لیے ہوئے سامنے آتے ہیں، وہاں خدا کو یاد کرو اور اس کے قانون کی پیروی پر قائم رہو۔ حکومت کی کرسی پر بیٹھو اور وہاں یاد رکھو کہ میں بندوں کا خدا نہیں ہوں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔ عدالت کے منصب پر متمکن ہو اور وہاں ظلم پر قادر ہونے کے باوجود خیال رکھو کہ خدا کی طرف سے مَیں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں۔ زمین کے خزانوں پر قابض و متصرف ہو اور پھر یاد رکھو کہ میں ان خزانوں کا مالک نہیں ہوں بلکہ امین ہوں اور پائی پائی کا حساب مجھے اصل مالک کو دینا ہے۔ فوجوں کے کمانڈر بنو اور پھر خوف خدا تمھیں طاقت کے نشے میںمدہوش ہونے سے بچاتا رہے۔ سیاست و جہاں بانی کا کٹھن کام ہاتھ میں لو اور پھر سچائی، انصاف اور حق پسندی کے مستقل اصولوں پر عمل کرکے دکھائو۔ تجارت، مالیات اور صنعت کی باگیں سنبھالو اور پھر کام یابی کے ذرائع میں پاک اور ناپاک کا امتیاز کرتے ہوئے چلو۔ ایک ایک قدم پر حرام تمھارے سامنے ہزار خوش نمائیوں کے ساتھ آئے اور پھر تمھاری رفتار میں لغزش نہ آنے پائے۔ ہر طرف ظلم، جھوٹ، دغا، فریب اور بدکاری کے راستے تمھارے سامنے کھلے ہوئے ہوں اور دنیوی کام یابیاں اور مادی لذتیں ہر راستے کے سرے پر جگمگاتے ہوئے تاج پہنے کھڑی نظر آئیں اور پھر خدا کی یاد اور آخرت کی باز پرس کا خوف تمھارے لیے پابند پا بن جائے۔ حدود اللہ میں سے ایک ایک حد قائم کرنے میں ہزاروں مشکلیں دکھائی دیں، حق کا دامن تھامنے اور عدل و صداقت پر قائم رہنے میں جان و مال کا زیاں نظر آئے۔ اور خدا کے قانون کی پیروی کرنا زمین و آسمان کو دشمن بنالینے کا ہم معنی ہو جائے، پھر بھی تمھارا ارادہ متزلزل نہ ہو اور تمھاری جبین عزم پر شکن تک نہ آئے۔ یہ ہے اصلی عبادت۔ اس کا نام ہے یاد خدا۔ اسی کو ذکر الٰہی کہتے ہیں، اور یہی وہ ذکر ہے جس کی طرف قرآن میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ:
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَo الجمعہ 10:62
پس جب نماز ختم ہو جائے تو پھیل جائو زمین میں اور تلاش کرو اللہ کے فضل میں سے اور یاد کرو اللہ کو بہت تاکہ تم فلاح پائو۔
روحانی ارتقا اور خدا کی یافت کا راستہ
اسلام نے روحانی ترقی اور خدا کی یافت کا بھی یہی راستہ بتایا ہے۔ انسان خدا کو جنگلوں اور پہاڑوں میں یا عزلت کے گوشوں میں نہیں پاسکتا۔ خدا اسے انسانوں کے درمیان، دنیوی زندگی کے ہنگامۂ کار زار میں ملے گا اور اس قدر قریب ملے گا کہ گویا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ جس کے سامنے حرام کے فائدے، ظلم کے مواقع اور بدکاری کے راستے قدم قدم پر آئے اور ہر قدم پر وہ خدا سے ڈر کر ان سے بچتا ہوا چلا۔ اسے خدا کی یافت ہوگئی۔ ہر قدم پر وہ اپنے خدا کو پاتا رہا، بلکہ آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ نہ پاتا اور نہ دیکھتا تو اس دشوار گھاٹی سے بخیریت کیوں کر گزر سکتا تھا؟ جس نے گھر میں تفریح کے لمحوں میں اور کاروبارکے ہنگاموں میں ہر کام اس احساس کے ساتھ کیا کہ خدا مجھ سے دور نہیں ہے، اس نے خدا کو ہر لمحہ اپنے سے قریب اور بہت قریب پایا، جس نے سیاست، حکومت، صلح و جنگ، مالیات اور صنعت و تجارت جیسے ایمان کی سخت آزمایش کرنے والے کام کیے اور یہاں کام یابی کے شیطانی ذرائع سے بچ کر خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود کا پابند رہا اس سے بڑھ کر مضبوط اور سچا ایمان اور کس کا ہوسکتا ہے؟ اس سے زیادہ خدا کی معرفت اور کسے حاصل ہوسکتی ہے؟ اگر وہ خدا کا ولی اور مقرب بندہ نہ ہوگا تو اور کون ہوگا؟
اسلامی نقطۂ نظر سے انسان کی روحانی قوتوں کی نشوونما کا راستہ یہی ہے۔ روحانی ارتقا اس کا نام نہیں ہے کہ آپ پہلوان کی طرح ورزشیں کرکے اپنی قوت ارادی (will power) کو بڑھالیں اور اس کے زور سے کشف و کرامت کے شعبدے دکھانے لگیں۔ بلکہ روحانی ارتقا اس کا نام ہے کہ آپ اپنے نفس کی خواہشات پر قابو پائیں، اپنے ذہن اور اپنے جسم کی تمام طاقتوں سے صحیح کام لیں، اپنے اخلاق میں خدا کے اخلاق سے قریب تر ہونے کی کوشش کریں۔ دنیوی زندگی میں جہاں قدم قدم پر آزمایش کے مواقع پیش آتے ہیں، اگر آپ حیوانی اور شیطانی طریق کار سے بچتے ہوئے چلیں اور پورے شعور اور صحیح تمیز کے ساتھ اس طریقے پر ثابت قدم رہیں جو انسان کے شایان شان ہے، تو آپ کی انسانیت یوماً فیوماً ترقی کرتی چلی جائے گی۔ اور آپ روز بروز خدا سے قریب تر ہوتے جائیں گے۔ اس کے سوا روحانی ترقی اور کسی چیز کا نام نہیں۔({ FR 659 })
اسلام میں مراسم عبادت کی حیثیت کیا ہے؟
یہ خلاصہ ہے اسلامی تصور عبادت کا۔ اسلام انسان کی پوری دنیوی زندگی کو عبادت میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے، اس کا مطالبہ یہ ہے کہ آدمی کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو، لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے ساتھ ہی یہ بات لازم آجاتی ہے کہ جس اللہ کو آدمی نے اپنا معبود تسلیم کیا ہے، اس کا عبد یعنی بندہ بن کر رہے، اور بندہ بن کر رہنے ہی کا نام عبادت ہے۔ کہنے کو تو یہ چھوٹی سی بات ہے اور بڑی آسانی کے ساتھ اسے زبان سے ادا کر دیا جاسکتا ہے، مگر عملاً آدمی کی ساری زندگی کا اپنے تمام گوشوں کے ساتھ عبادت بن جانا آسان کام نہیں، اس کے لیے بڑی زبردست ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خاص طور پر ذہن کی تربیت کی جائے۔ مضبوط کیریکٹر پیدا کیا جائے۔ عادات اور خصائل کو ایک سانچے میں ڈھالا جائے، اور صرف انفرادی سیرت ہی کی تعمیر پر اکتفا نہ کر لیا جائے، بلکہ ایک ایسا اجتماعی نظام قائم کیا جائے جو بڑے پیمانہ پر افراد کو اس عبادت کے لیے تیار کرنے والا ہو، اور جس میں جماعت کی طاقت فرد کی پشت پناہ، اس کی مددگار اور اس کی کم زوریوں کی تلافی کرنے والی ہو۔ یہی غرض ہے جس کے لیے اسلام میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی عبادتیں فرض کی گئی ہیں۔ انھیں عبادت کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس یہی عبادت ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس اصلی عبادت کے لیے آدمی کو تیار کرتی ہیں۔ یہ اس کے لیے لازمی ٹریننگ کورس ہیں۔ انھی سے وہ مخصوص ذہنیت بنتی ہے، اس خاص کیریکٹر کی تشکیل ہوتی ہے، منظم عادات و خصائل کا وہ پختہ سانچا بنتا ہے، اور اس اجتماعی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں جس کے بغیر انسان کی زندگی کسی طرح عبادت الٰہی میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ ان چار چیزوں کے سوا اور کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے جس سے یہ مقصد حاصل ہوسکے۔ اسی بنا پر انھیں ارکان({ FR 660 }) اسلام قرار دیا گیا ہے۔ یعنی یہ وہ ستون ہیں جن پر اسلامی زندگی کی عمارت قائم ہوتی اور قائم رہتی ہے۔
آئیے، اب ہم دیکھیں کہ ان میں سے ایک ایک رکن اسلامی زندگی کی عمارت کو کس طرح قائم کرتا ہے، اور کس طرح انسان کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرتا ہے جس کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے۔

شیئر کریں