یہ شواہد و نظائر اس پورے دور کے عملدرآمد کا نقشہ پیش کرتے ہیں جس میں قرآن کے منشا کی تفسیر خود قرآن کے لانے والے نے اور اس کے براہ راست شاگردوں نے اپنے اقوال اور اعما ل میں کی تھی۔ اس نقشے کو دیکھنے کے بعد کسی شخص کے لیے اس طرح کا کوئی شبہ تک کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ زمین کے معاملے میں اسلام کے پیش نظریہ اصول تھا کہ اسے شخصی ملکیتوں سے نکال کر اجتماعی ملکیت بنا دیا جائے۔ اس کے بالکل برعکس اس نقشے سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ اسلام کی نگاہ میں زمین سے انتفاع کی فطری اور صحیح صورت صرف یہی ہے کہ وہ افراد کی ملکیت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اتنا ہی نہیں کیا کہ اکثر و بیشتر حالات میں سابق ملکیتوں ہی کو برقرار رکھا ، بلکہ جن صورتوں میں آپؐ نے پچھلی ملکیتیں منسوخ کیں ان میں بھی نئی انفرادی ملکیتیں پیدا کر دیں، اور آئندہ کے لیے غیر مملوکہ اراضی پر نئی ملکیتوں کے قیام کا دروازہ کھول دیا، اور خود سرکاری املاک کو بھی افراد میں تقسیم کر کے انہیں حقوق ملکیت عطا فرمائے۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ سابق نظامِ ملکیت کو محض ایک ناگزیر برائی کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا بلکہ ایک اصول برحق کی حیثیت سے اس کو باقی رکھا گیا اور آئندہ کے لیے اسی کو جاری کیا گیا۔
اس کا مزید ثبوت وہ احکام ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق ملکیت کے احترام کے متعلق دیے ہیں۔ مسلم نے متعدد حوالوں سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمرؓ کے بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہ پر ایک عورت نے مروان بن حکم کے زمانے میں دعویٰ دائر کیا کہ انہوں نے میری زمین کا ایک حصہ ہضم کرلیا ہے۔ اس کے جواب میں حضرت سعیدؓ نے مروان کی عدالت میں جو بیان دیا وہ یہ تھا کہ میں اس کی زمین کیسے چھین سکتا تھا جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے ہیں کہ مَنْ اَخَذَ شِبْرًا مِّنَ الْاَرْضِ ظُلْمًا طُوِّقَہٗ اِلٰی سَبْعِ اَرْضِیْنَ ’’جس شخص نے بالشت بھر زمین بھی ازراہِ ظلم لی اس کی گردن میں سات تہوں تک اسی زمین کو طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا۔‘‘ اسی مضمون کی احادیث مسلم نے حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عائشہؓ سے بھی نقل کی ہیں۔
(مسلم، کتاب المساقاۃ والمزارعہ۔ باب تحریم الظلم وغضب الارض)
ابو دائود، نسائی اور ترمذی نے متعدد حوالوں سے یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَیْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ ’’دوسرے کی زمین میں بلااستحقاق آبادکاری کرنے والے کے لیے کوئی حق نہیں ہے۔‘‘
رافع بن خدیجؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: مَنْ زَرَعَ فِیْ اَرْضِ قَوْمٍ بِغَیْرِ اِذْنِھِمْ فَلَیْسَ لَہٗ مِنَ الزَّرْعِ شَیْءٌ وَلَہٗ نَفْقَتُہٗ’’جس نے دوسرے لوگوں کی زمین میں ان کی اجازت کے بغیر کاشت کی وہ اس کھیتی پر تو کوئی حق نہیں رکھتا، البتہ اس کا خرچ اسے دلوا دیا جائے گا۔‘‘ (ابودائود، ابن ماجہ، ترمذی)
عروہ بن زبیر کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مقدمہ آیا جس میں ایک شخص نے ایک انصاری کی زمین میں کھجور کے درخت لگا دیے تھے۔ اس پر آنحضرتؐ نے فیصلہ دیا کہ وہ درخت اکھاڑ کر پھینک دیے جائیں اور زمین اصل مالک کے حوالے کی جائے۔ (ابو دائود)
یہ احکام کس چیز کی شہادت دیتے ہیں؟ کیا اس بات کی کہ زمین کی شخصی ملکیت کوئی برائی تھی جسے مٹانا مطلوب تھا مگر ناگزیر سمجھ کر مجبوراً اس کو برداشت کیا گیا ہے؟ یا اس بات کی کہ یہ سراسر ایک جائز و معقول حق تھا جس کا احترام افراد اور حکومت، دونوں پر فرض کر دیا گیا؟