ذمّی کے خون کی قیمت مسلمان کے خون کے برابر ہے۔ اگر کوئی مسلمان ذمّی کو قتل کرے گا تو اس کا قصاص اُسی طرح لیا جائے گا جس طرح مسلمان کو قتل کرنے کی صورت میں لیا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مسلمان نے ایک ذمّی کو قتل کیا تو آپؐ نے اس کے قتل کا حکم دیا اور فرمایا کہ:۔
انا احق من وفٰی بذمتہ ’’اس کے ذمہ کو وفا کرنے کا سب سے زیادہ حقدار میں ہوں‘‘
(عنایہ شرح ہدایہ ج۸ ص ۲۵۶، دارقطنی نے یہی حدیث ابن عمرؓ کے حوالہ سے نقل کی ہے اور اس میں ’’انا اکرم من ونٰی بذمتہ‘‘ آیا ہے۔)
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک ذمّی کو قتل کر دیا۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ قاتل کو مقتول کے حوالہ کیا جائے۔ چنانچہ وہ مقتول کے وارثوں کو دے دیا گیا اور انہوںنے اس کو قتل کر دیا۔ (برہان شرح مواہب الرحمن ج۳ ص ۲۸۷)
حضرت عثمان کے زمانہ میں خود عبیداللہ بن عمرؓ کے قتل کا فتویٰ دے دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے ہرمزان اور ابو لولو کی بیٹی کو اس شبہ میں قتل کر دیا تھا کہ شاید وہ حضرت عمرؓ کے قتل کی سازش میں شریک تھے۔
حضرت علیؓ کے زمانہ میں ایک مسلمان ایک ذمّی کے قتل میں ماخوذ ہوا۔ ثبوت مکمل ہونے کے بعد آپؓ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ مقتول کے بھائی نے آ کر عرض کیا میں نے خون معاف کیا، مگر آپ مطمئن نہ ہوئے اور فرمایا:۔
لعلھم فزعوک اوھدّ روک’’شاید ان لوگوں نے تجھے ڈرایا دھمکایا ہے۔‘‘
اس نے جواب دیا کہ ’’نہیں مجھے خون بہا مل چکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اُس کے قتل سے میرا بھائی واپس نہیں آ جائے گا۔‘‘ تب آپ نے قاتل کو رہا کیا اور فرمایا کہ:۔
من کان لہٗ ذمتنا فدمہ کدمنا و دیتہ کدیتنا۔ (برہان جلد ۲ ص ۲۸۲)
’’جو کوئی ہمارا ذمّی ہو اس کا خون ہمارے خون کی طرح اور اس کی دیّت ہماری دیّت کی طرح ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علیؓ نے فرمایا:۔
انما قبلم اعقد الذمۃ لتکون اموالھم کا موالنا ودماؤھم کد مائنا۔
’’انہوں نے عقد ذمہ قبول ہی اس لیے کیا ہے کہ ان کے مال ہمارے مال کی طرح اور اُن کے خون ہمارے خون کی طرح ہو جائیں۔‘‘
اِسی بِنا پر فقہاء نے یہ جزئیہ نکالا ہے کہ اگرمسلمان کسی ذمّی کو بلا ارادہ قتل کرے تو اس کی دیّت بھی وہی ہو گی جو مسلمان کو خطاء قتل کرنے سے لازم آتی ہے۔ (در مختار، ج ۳ ص ۲۰۳)