Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
مقدمہ
باب اوّل: دُنیوی زندگی کا اسلامی تصور
دُنیوی زندگی کا اِسلامی تصوّر
باب دوم: زندگی کا نصب العین
زِندگی کا نصب العین
حصہ سوم: ۱۔ ایمان کی حقیقت و اہمیت
۲۔اسلام کے ایمانیات
۳۔ ایمان باللّٰہ
۴۔ ایمان بالملائکہ
۵۔ ایمان بالرُّسُل
۶۔ ایمان بالکتب
۷۔ ایمان بالیوم الآخر
۸۔ اسلامی تہذیب میں ایمان کی اہمیت
ضمیمہ: زندگی بعد موت

اسلامی تہذیب اور اس کے اُصول ومبادی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

حصہ سوم: ۱۔ ایمان کی حقیقت و اہمیت

نظریۂ حیات اور مقصدِ حیات سے گزر کر اب ہمارے سامنے تیسرا سوال آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام نے انسانی سیرت کی تعمیر کس بنیاد پر کی ہے؟
سیرت اور اس کی ذہنی بنیاد
انسان کے جملہ اعمال و افعال کا سرچشمہ اس کا ذہن ہے۔ مبدأ افعال ہونے کی حیثیت سے ذہن کی دو حالتیں ہیں: ایک حالت یہ ہے کہ اس میں کسی خاص قسم کے خیالات راسخ نہ ہوں۔ مختلف، پراگندہ اورمنتشر خیالات آتے رہیں اور ان میں سے جو خیال بھی قوی ہو، وہی عمل کے لیے متحرک بن جائے۔ دوسری حالت یہ ہے کہ وہ پراگندہ خیالی کی آماج گاہ نہ رہے بلکہ چند مخصوص خیالات اس میں اس طرح راسخ ہو جائیں کہ اس کی عملی زندگی مستقل طور پر انھی کے زیر اثر ہو، اور اس سے منتشر اعمال سرزد ہونے کے بجائے مرتب اورمنضبط اعمال صادر ہوا کریں۔ پہلی حالت کو ہم ایک سڑک سے تشبیہ دیتے ہیں جو ہر آیند و روند کے لیے کھلی ہوئی ہے، کسی وارد و صادر کی اس میں تخصیص نہیں۔ دوسری حالت ایک ایسے سانچے کی سی ہے جس میں سے ہمیشہ ایک متعین شکل و ہیئت کے پُرزے ڈھل کر نکلتے ہیں۔ جب انسان کا ذہن پہلی حالت میں ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس کی کوئی سیرت نہیں ہے۔ وہ شیطان بھی ہو سکتا ہے اور فرشتہ بھی۔ اس کی طبیعت میں تَلَوُّن ہے۔ یقین نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے کب کس قسم کے افعال کاصدور ہو۔ بخلاف اس کے جب وہ دوسری حالت میں آ جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ اپنی ایک سیرت رکھتا ہے۔ اس کی عملی زندگی میں ایک نظم ہے۔ ایک ترتیب ہے۔ اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کن حالات میں کیا فعل کرے گا۔
تنظیمِ عمل کی پہلی شرط
پس معلوم ہوا کہ انسان کی عملی زندگی کا ایک قابلِ اعتماد نظم و ترتیب اختیار کرنا منحصر ہے اس پر کہ اس کی ایک مستقل سیرت بن جائے، اور سیرت کے بننے کا انحصار اس پر ہے کہ اس کا ذہن پراگندہ خیالی کی حالت سے نکل جائے، چند مخصوص خیالات اس کے اندر متمکن ہو جائیں، اور ان خیالات میں اتنا رسوخ، اتنا جمائو، اتنی مضبوطی ہو کہ کسی دوسری طرح کے خیالات کو آنے اور ذہن کی دنیا میں برہمی پیدا کرنے کا موقع نہ دیں۔ یہ خیالات جتنے زیادہ گہرے جمے ہوئے ہوں گے، سیرت اتنی ہی زیادہ مضبوط ہو گی، اور انسان کی عملی زندگی اتنی ہی زیادہ مرتب، منظم اور قابلِ اعتماد ہو گی۔ برعکس اس کے ان میں جتنی کم زوری ہو گی، مخالف خیالات کو راہ دینے کی جتنی زیادہ صلاحیت ہو گی، اتنی ہی سیرت بھی کم زور ہو گی اور عملی زندگی بھی اسی قدر بے نظم اور ناقابل وثوق ہو جائے گی۔
ایمان کے معنی
قرآن کی اصطلاح میں انسانی سیرت کی اسی ذہنی بنیاد کا نام ’’ایمان‘‘ ہے۔ ایمان کا لفظ مادۂ ’’امن‘‘ سے نکلا ہے۔ امن کے اصلی معنی نفس کے مطمئن اور بے خوف ہو جانے کے ہیں۔ اسی سے امانت ہے، جو ضد ہے خیانت کی۔ یعنی امانت وہ ہے جس میں خیانت کا خوف نہ ہو۔ امین کو امین اسی لیے کہتے ہیں کہ اس کی نیک معاملگی پر دل ٹھک جاتا ہے، وثوق ہوتا ہے کہ وہ بدمعاملگی نہ کرے گا۔ جو اونٹنی غریب اور مطیع ہوتی ہے اسے اَمُوْن کہتے ہیں۔ کیوں کہ اس سے سرکشی اور شرارت کا خوف نہیں ہوتا۔ اسی مادے کا باب افعال ’’ایمان‘‘ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نفس میں کوئی بات بربنائے تصدیق و یقین اس طرح جما لی جائے کہ اب اس کے خلاف کسی بات کے راہ پانے اور داخل ہو جانے کا خوف ہی باقی نہ رہے۔ ایمان کا کم زور ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ نفس اس بات پر پوری طرح مطمئن نہیں ہوا، قلب کو پوری طرح سکون نہیں ہوا، اس کے خلاف باتوں کو بھی ذہن میں داخل ہو جانے کا موقع مل گیا۔ اسی سے سیرت کم زور ہوئی اور اس نے عملی زندگی میں بے نظمی پیدا کر دی۔ ایمان کا قوی اور مضبوط ہونا اس کا عکس ہے۔ مضبوط ایمان کے معنی یہ ہیں کہ سیرت بالکل ٹھوس اور یقینی بنیادوں پر قائم ہو گئی، اب اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ اعمال ٹھیک ٹھیک اس تخیل اور اس مفکورہ کے مطابق و مناسب صادر ہوں گے جو دل میں جم گیا ہے اور جس سے سیرت کا سانچا تیار ہوا ہے۔
تہذیب کی تاسیس میں ایمان کا مرتبہ
اگر مختلف افراد مختلف قسم کے عقائد و افکار پر ایمان رکھتے ہوں اور ان کی سیرتیں مختلف و متضاد بنیادوں پر قائم ہو جائیں تو کوئی اجتماعی ہیئت نہیں بن سکتی۔ ان کی مثال ایسی ہو گی جیسے ایک میدان میں بہت سے پتھر بکھرے پڑے ہوں۔ ہر پتھر بلاشبہ اپنی جگہ مضبوط ہے، مگر ان کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے۔ بخلاف اس کے اگر ایک ہی مشترک تخیل بہت سے افراد کے دلوں میں ایمان بن کر جم جائے تو اشتراکِ ایمانی کا رابطہ انھیں ایک قوم بنا دے گا۔ گویا وہی پتھر جو بکھرے پڑے تھے، چونے سے جوڑ دیے گئے اور ایک مضبوط دیوار قائم ہو گئی۔ اب ان کے درمیان تعامل و تعاون شروع ہو جائے گا جس سے ترقی کی رفتار تیز اور تیز تر ہوتی چلی جائے گی۔ ایک قسم کا ایمان ان کی سیرتوں میں ہم آہنگی اور ان کے اعمال میں یک رنگی پیدا کر دے گا۔ اس سے ایک خاص تمدن پیدا ہوگا۔ ایک خاص شان کی تہذیب ظاہر ہو گی۔ ایک نئی قوم، نئی سیرت، نئی ذہنیت، نئے خیالات، نئے طریقِ عمل کے ساتھ اٹھے گی اور اپنی تہذیب کا قصر ایک نئے انداز پر تعمیر کرے گی۔
اس تقریر سے آپ نے سمجھ لیا کہ ایک تہذیب میں اس اساسی تخیل کا کیا مرتبہ ہے جو اجتماعی طور پر اس تہذیب کے متبعین میں ایمان بن کر راسخ ہو جائے۔

ایمان کی دو قسمیں
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ایمان کے اعتبار سے دنیا کی مختلف تہذیبوں کا کیا حال ہے۔ ایمان کا لفظ اصل میں تو ایک مذہبی اصطلاح ہے، مگر چوں کہ یہاں ہم اسے اساسی تخیل کے معنی میں بول رہے ہیں، اس لیے اس معنی میں ایمان کی دو قسمیں قرار دی جا سکتی ہیں۔ ایک وہ ایمان جو مذہبی نوعیت رکھتا ہو۔ مذہبی نوعیت کا ایمان صرف اس تہذیب کی اساس بن سکتا ہے جس کی بنیاد مذہب پر ہو، کیوں کہ اس صورت میں ایک ہی ایمان دین اور دنیا دونوں پر حکمران ہوتا ہے۔ مگر جس تہذیب کی بنیاد مذہب پر نہ ہو اس میں دنیوی ایمان مذہبی ایمان سے الگ ہوجاتا ہے اور مذہبی ایمان کا شخصی و قومی زندگی پر کوئی اثر نہیں رہتا۔
۱۔ مذہبی ایمان
مذہبی ایمان عموماً ایسے امور پر ہوتا ہے جو انسانی سیرت کو رُوحانی اور اَخلاقی بنیادوں پر تعمیر کرتے ہیں۔ مثلاً ایک یا متعدد معبود جنھیں مخصوص صفات سے متصف کیا گیا ہو، کتابیں جن کا الہامی ہونا تسلیم کر لیا گیا ہو، اور پیشوا جن کی تعلیم اور سنت پر اعتقاد و عمل کی بنیاد رکھی گئی ہو، دینی نقطۂ نظر کو چھوڑ کر خالص دنیوی نقطۂ نظر سے اس قسم کے ایمان کی کام یابی دو چیزوں پر منحصر ہے۔ ایک یہ کہ مذہب نے جن امور کی تصدیق کرنے اور جن پر یقین کرنے کا مطالبہ کیا ہے، وہ عقلی اعتبار سے قابلِ تصدیق ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ ایسے امور ہوں جن کی بنیاد پر انسانی سیرت کی تعمیر صحیح طور سے ہو سکتی ہو۔ یعنی وہ سیرت کو اس طرح سے بنائیں کہ اس کی روحانیت ایک اعلیٰ درجے کے نظامِ اخلاق کی تاسیس کرنے والی ہو، اور اس کا اخلاق اپنی پاکیزگی و طہارت کے ساتھ ساتھ دنیوی زندگی میں بھی انسان کو کام یابی حاصل کرنے کے لیے مستعد کرنے والا ہو۔
پہلی شرط اس لیے ضروری ہے کہ اگر ایمانیات محض اوہام کا مجموعہ ہوں، یا ان میں اوہام زیادہ اور معقولات کم ہوں، تو انسان کے ذہن پر ان کا استیلا کلیتاً جہالت و نادانی کا زیربارِ منت رہے گا۔ جوں ہی کہ ارتقائے عقلی کے بلند مدارج کی طرف انسان نے قدم اٹھایا، اوہامِ باطلہ کا طلسم ٹوٹنا شروع ہو جائے گا، ایمان کی بنیادیں متزلزل ہونے لگیں گی اور اس کے ساتھ ہی روحانیت اور اخلاق کا وہ سارا نظام بھی درہم برہم ہوتا چلا جائے گا جس پر شخصی اور قومی سیرت کی بنیادیں اٹھائی گئی تھیں۔ اس کی مثال میں ہم ان اعتقادات کو پیش کر سکتے ہیں جو مختلف مشرکانہ مذاہب نے دیوتائوں، معبودوں، خدائوں اور پیشوائوں کے متعلق پیش کیے ہیں۔ انھیں جن صفات سے متصف کیا گیا ہے، جو افعال ان کی طرف منسوب کیے گئے ہیں، جو افسانے ان کے متعلق گھڑے گئے ہیں، وہ ایسے ہیں کہ عقلِ سلیم ان کی تصدیق کرنے اور ان پر ایمان لانے سے انکار کرتی ہے۔ اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ ان پراعتقاد رکھنے والی قوم دنیا میں ترقی اور غلبہ حاصل کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتی۔ باطل اوہام اس کے ذہن پر ایسا برا اثر ڈالتے ہیں کہ عمل کی بہترین قوتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ہیں۔ نہ حوصلوں میں بلندی پیدا ہوتی ہے، نہ عزائم میں شدت، نہ نگاہ میں وسعت، نہ دماغ میں روشنی، نہ دل میں جرأت۔ آخر کار یہی چیز اس قوم کے لیے دائمی نکبت، ذلت، مقہوری اور غلامی کا سبب بن جاتی ہے۔ برعکس اس کے جن قوموں پر کچھ دوسرے اسباب سے ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں وہ عقل و علم کے اعتبار سے جتنی ترقی کرتی جاتی ہیں، اپنے خدائوں، معبودوں اور پیشوائوں پر سے ان کا اعتقاد اٹھتا جاتا ہے۔ اوّل اوّل محض نظامِ اجتماعی کے تحفظ کی خاطر ان غلط ایمانیات کو مصلحتاً برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر رفتہ رفتہ ان کے خلاف دل اور دماغ کی بغاوت اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ آخر کار قوم کے ذہن پر اُن کے لیے کوئی گرفت باقی نہیں رہتی۔ صرف ایک مختصر سا روحانی گروہ ان پر حقیقی یا پیشہ وارانہ یقین رکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور باقی ساری قوم کے نفس و رُوح پرایک دوسرے ایمان کا تسلط ہو جاتا ہے جسے ہم نے دنیوی ایمان سے تعبیر کیا ہے۔
دوسری شرط کا ضروری ہونا بالکل ظاہر ہے۔ جو ایمانیات انسان کو دنیوی زندگی میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں کر سکتے، ان کا اثر محض روحانی اور اخلاقی زندگی تک محدود رہتا ہے، مادی زندگی تک نہیں پہنچنے پاتا۔ نتائج کے اعتبار سے یہ بھی دو حال سے خالی نہیں ہے۔ یا تو ان کی بدولت وہ قوم ترقی ہی نہ کرے گی جو ان کی معتقد ہو گی، یا ترقی کرے گی تو بہت جلد ان کی گرفت سے نکل جائے گی، مذہب کا ایمان تہذیب کے ایمان کے لیے جگہ خالی کر دے گا، اور جب مادی زندگی کی سعی و عمل میں قوم کا انہماک بڑھے گا تو اخلاق و روحانیت بھی مذہبی ایمانیات کے اثر سے آزاد ہو جائیں گے۔
مَیں عمداً کسی مذہب کی تنقیص نہیں کرنا چاہتا، اس لیے تفصیل کے ساتھ مختلف مذاہب کے ایمانیات پر کوئی کلام نہ کروں گا۔ آپ مذاہب کا غور سے مطالعہ کریں گے تو آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح بعض مذاہب کے ایمانیات نے ان کے معتقدین کو دنیوی زندگی میں ترقی کرنے سے روکا ہے اورکس طرح مذاہب کے ایمانیات علم و عقل کی ترقی کا ساتھ نہیں دے سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی آپ دیکھیں گے کہ دوسری قوموں نے تنزل کی حالت میں اپنے مذہبی معتقدات پر ایمان رکھا اور ترقی کی حالت میں انھیں چھوڑ دیا۔ اس کے برعکس مسلمان اپنے ایمان میں سب سے زیادہ مضبوط اس وقت تھے جب وہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھے، اور ان کے ایمان میں کم زوری آئی تو اس وقت جب کہ وہ عقل میں، علم میں، دنیوی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے اور دوسری قومیں ان پر غالب آ گئیں۔ آج مسلمان انتہائی تنزل کی حالت میں ہیں، اور اس کے ساتھ ضُعفِ ایمانی کے مرض میں بھی شدّت کے ساتھ مبتلا ہیں۔ اب سے ہزار بارہ سو برس پہلے وہ انتہائی ترقی کی حالت میں تھے، اور اس کے ساتھ اپنے مذہبی ایمان میں انتہا درجے کے مضبوط بھی تھے۔ بخلاف اس کے یورپ کے مسیحی اور جاپان کے بودھی جب پکے مسیحی اور بودھی تھے تو حد درجہ تنزل کی حالت میں تھے، اورجب انھوں نے ترقی کی تو مسیحیت اور بودھیت پران کا ایمان نہ رہا۔ یہ اسلام کے ایمانیات اوردوسرے مذاہب کے ایمانیات کا ایسا نمایاں فرق ہے جسے بادنیٰ تامّل ہر صاحبِ عقل و بصیرت انسان محسوس کر سکتا ہے۔
۲۔ دُنیوی ایمان
اب دوسری طرف ان ایمانیات پر نظر ڈالیے جنھیں ہم دنیوی ایمانیات سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان میں کوئی مذہبی عنصر شامل نہیں ہے۔ نہ یہاں کوئی خدا ہے، نہ کوئی مذہبی پیشوا، نہ کوئی الہامی کتاب، نہ کوئی ایسی تعلیم جو انسانی سیرت کو روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر تعمیر کرنے والی ہو۔ یہ خالص دُنیوی امور ہیں۔
ان میں سب سے بڑی چیز ’’قوم‘‘ ہے جسے ایک خاص رقبے کے رہنے والے لوگ معبود بنا کر پورے خلوص و انہماک کے ساتھ پوجتے ہیں۔ تمام ’’قوم پرست‘‘ اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ قوم ان کی جان و مال کی مالک ہے، اس کی خدمت و حفاظت فرض ہے، اس کی خدمت میں جان دینا اور اس پر تن من دھن نثارکر دینا عین سعادت ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ انھی کی قوم برحق ہے، وہی زمین کی وارث اور مستحق ہے، دنیا کی تمام زمینیں اور دنیا کی ساری قومیں اس کے لیے غنائم اور سبایا کی حیثیت رکھتی ہیں، ہر شخص کا فرض ہے کہ سارے جہان میں اپنی قوم کا علم بلند کرے۔
دوسرا معبود ملک کا ’’قانون‘‘ ہے جسے وہ خود بناتے ہیں اور پھر خود ہی اس کی عبادت کرتے ہیں۔ یہی عبادت ان کے اجتماعی ضبط و نظم کی ضامن ہے۔
تیسرا معبود ان کا اپنا ’’نفس‘‘ ہے جس کی پرورش، جس کی حاجات و ضروریات کی تکمیل، اور جس کے داعیات و خواہشات کی تحصیل ہر وقت ان کے پیشِ نظر رہتی ہے۔
چوتھا معبود ’’علم و حکمت‘‘ ہے جس پر وہ ایمان لاتے ہیں، جس کی روشنی میں چلتے ہیں، اور جس کی راہ نُمائی میں ترقی کی راہ پر گام زن ہوتے ہیں۔
یہ ایمانیات یقینا ً دنیوی زندگی کے لیے ایک حد تک مفید ہیں۔ مگر قطع نظر اس سے کہ حق اور صداقت کے اعتبار سے ان کا کیا مرتبہ ہے، خالص دنیوی نقطۂ نظر سے بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کا فائدہ نہ حقیقی ہے نہ پائدار۔ ان کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ ان میں کوئی روحانی و اخلاقی عنصر شامل نہیں ہوتا۔ اس لیے مذہب کا دامن ہاتھ سے چھوٹتے ہی اخلاقی مفاسد کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ قانون کا یہ منصب نہیں ہے کہ لوگوں کے دلوں میں حاسۂ اخلاق پیدا کرے اور صحیح معنوں میں اخلاق کا کوئی معیار قائم کر دے۔ نہ اس میں اتنی قوت ہے کہ شخصی و اجتماعی زندگی میں اخلاق کی حفاظت کر سکے۔ اس کا اثر اور دائرۂ عمل محدود ہے اور خصوصیت کے ساتھ وہ قانون جسے لوگ خود بناتے ہیں اس معاملے میں اور بھی زیادہ بے بس واقع ہوا ہے، اس لیے کہ ایسے قانون کی گرفت کو تنگ اور ڈھیلا کرنا تو لوگوں کے اپنے اختیار میں ہے۔ جتنی جتنی آزادیِ عمل کی خواہش لوگوں میں بڑھتی جاتی ہے، پرانی اخلاقی بندشیں تنگ اور ناقابلِ برداشت محسوس ہونے لگتی ہیں، اور جب کسی اخلاقی بندش کے متعلق یہ احساس عام ہوجاتا ہے تو رائے عام کا دبائو قانون کو اپنے بند ڈھیلے کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اخلاق کے سارے بند کھل جاتے ہیں۔ ایک عام اخلاقی انحطاط شروع ہو جاتا ہے۔ اور اخلاقی انحطاط وہ چیز ہے جس کے مہلک اثرات کو نہ دولت کی فراوانی روک سکتی ہے، نہ حکومت کا زور، نہ مادی وسائل کی قوت، نہ علم و حکمت کی تدابیر۔ یہ ایک گھن ہے جو اندر سے لگنا شروع ہوتا ہے اور مضبوط سے مضبوط عمارت کو اس کے ساز و سامان سمیت لے بیٹھتا ہے۔
اس کے علاوہ قوم پرستی اور نفس پرستی کے جو دوسرے مفاسد ہیں، وہ اتنے نمایاں ہیں کہ انھیں سمجھنے کے لیے کسی بحث و نظر کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ وہ نظریات سے گزر کر محسوسات و مشاہدات کے درجے میں آ گئے ہیں۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج انھی کی بدولت ایک بہت بڑی تہذیب ہلاکت و بربادی کے سرے پر پہنچ گئی ہے اور انھی کے نتائج ہیں جن کے یقینی ظہور کا اندیشہ آج تمام دنیا کو لرزہ براندام کیے ہوئے ہے۔
چند اصولِ کلیہ
اس تمام بحث سے چند اصولِ کلیہ مستنبط ہوتے ہیں جنھیں آئندہ مباحث کی طرف تجاوز کرنے سے پہلے ایک ترتیبِ صحیح کے ساتھ ذہن نشین کر لینا چاہیے:
۱۔ انسانی عمل کا منضبط اور منظم ہونا منحصر ہے اس پر کہ اس کی ایک مستقل اور متعین سیرت بن جائے۔ کسی مستقل سیرت کے بغیر انسان کی عملی زندگی پراگندہ، متلون اور ناقابلِ وثوق رہتی ہے۔
۲۔ سیرت کی بنیاداُن تصورات پر قائم ہوتی ہے، جو ذہن میں پوری قوت کے ساتھ راسخ ہو جائیں، اور اتنا غلبہ حاصل کر لیں کہ انسان کی ساری عملی قوتیں انھی کے زیر اثر رہ کر کام کرنے لگیں۔ اس رسوخ کا اصطلاحی نام ’’ایمان‘‘ ہے اور اس طرح راسخ ہو جانے والے تصورات کو ہم ’’ایمانیات‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔
۳۔ سیرت کی اچھی اور بُری، صحیح اور غلط، مضبوط اور کم زور تشکیل کلیتاً انھی ’’ایمانیات‘‘ کی صحت اور ان کے رسوخ پر منحصر ہے۔ ایمانیات صحیح ہوں تو سیرت بھی صحیح ہو گی، ایمان مضبوط ہو تو سیرت بھی مضبوط ہو گی، ورنہ معاملہ اس کے برعکس ہو گا۔ لہٰذا انسان کی زندگی کو ایک صحیح اور اعلیٰ درجے کے نظم میں لانے کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کی سیرت کو ایک صحیح اور مضبوط ایمان پر قائم کیا جائے۔
۴۔ جس طرح شخصِ واحد کے اعمالِ حیات کو پراگندگی سے نکال کر ضبط اور نظم کے تحت لانے کے لیے ایمان کی ضرورت ہے، اسی طرح بہت سے اشخاص کو انتشار اور تفرقے کی حالت سے نکال کر ایک منظم اور متحد جمعیت بنا دینے کے لیے ضروری ہے کہ ان سب کے دلوں میں ایک ہی مشترک ایمان بٹھا دیا جائے۔ پس تمدن کا مفاد اس کا مقتضی ہے کہ ایمان کا معاملہ محض شخصی نہ رہے بلکہ قومیت کا رشتۂ اتحاد بن جائے۔
۵۔ جب ایک مشترک ایمان کے زیر اثر بہت سے افراد میں ایک مشترک قومی سیرت بن جاتی ہے اور اس سیرت کے اثر سے ان کی زندگی کے اعمال میں ایک طرح کی یک رنگی پیدا ہوتی ہے تو ایک خاص طرز وانداز کی تہذیب وجود میں آتی ہے۔ اس لحاظ سے ہر تہذیب کی تاسیس اور تشکیل میں ان ایمانیات کا بڑا دخل ہے، جو قومی سیرت کو بناتے اور پختہ کرتے ہیں۔
۶۔ جس قوم کے ایمانیات روحانی امور پرمشتمل ہوتے ہیں، اس کا مذہب اور اس کی تہذیب دونوں ایک ہوتے ہیں، اور جس کے ایمانیات دنیوی امور پرمشتمل ہوتے ہیں، اس کی تہذیب اس کے مذہب سے جدا ہو جاتی ہے۔ اس دوسری صورت میں شخصی اور قومی زندگی پر مذہب کا کوئی خاص اثر باقی نہیں رہتا۔
۷۔ تہذیب کا مذہب سے آزاد ہو جانا آخر کار اخلاقی انحطاط اور تباہی کا موجب ہوتا ہے۔
۸۔ تہذیب کا مذہب کے زیر اثر رہنا منحصر ہے اس پر کہ مذہب کے ایمانیات ایسے روحانی امور پر مشتمل ہوں جو ادنیٰ مدارج سے لے کر بلند ترین مدارج تک انسان کے ارتقائے عقلی کا ساتھ دے سکیں، اور جس سے انسانی سیرت کی تشکیل اس طرح پر ہو کہ وہ بیک وقت اعلیٰ درجے کا دین دار بھی ہو اور دنیا دار بھی، بلکہ اس کی دنیا داری عین دین داری ہو اور دین داری عین دنیاداری۔
۹۔ جس قوم کا مذہب و تہذیب دونوں ایک ہوں، اس کا ایمان نرا مذہبی ایمان ہی نہیں ہوتا بلکہ بعینہٖ دنیوی ایمان بھی ہوتا ہے۔ اس کے ایمان کا متزلزل ہونا اس کے مذہب اور اس کی تہذیب دونوں کے لیے غارت گر ہے، اس کی دنیا اور اس کے دین دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔
یہی وہ اصولِ کلیہ ہیں جن کے لحاظ سے ہمیں ایمان کے متعلق اسلام کے مؤقف پر تنقیدی نگاہ ڈالنی ہے۔
ایمان کی حقیقت، شخصی کردار میں اس کی بنیادی اہمیت، اور اجتماعی تہذیب میں اس کی اساسی حیثیت کے بعد آپ دیکھیے کہ اسلام نے کن چیزوں پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے؟ اس کے ایمانیات عقلی تنقید کے معیار پر کس حد تک پورے اترتے ہیں؟ اس کے نظام میں ایمان کی حیثیت کیا ہے؟ اور انسان کے شخصی کردار اور اجتماعی سیرت پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے؟

شیئر کریں