ناظرین ترجمان القرآن میں سے ایک تحریر فرماتے ہیں:
’’منکرین ِ حدیث کے جواب میں آپ کا فاضلانہ مضمون مندرجہ ترجمان القرآن پڑھ کر بہت مسرت ہوئی۔ جزاکم اللہ خیر الجزاء۔ اسی سلسلے میں اگر جناب ذیل کے امور پر مزید روشنی ڈالیں تو ذی علم احباب کے لیے عموماً اور ناظرین رسالہ کے لیے خصوصاً بہت ہی مفید ہوگا۔‘‘
(۱) حفاظت قرآن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر کہ لَا تَکْتُبُوْا عَنِیّ سِوَی الْقُرْاٰنِ ایک ضروری احتیاط کی صورت پیدا کر دی تھی۔ صحابہ کرام قرأت و حفظ قرآن کَمَا نُزِّلَ کے لیے مامور تھے اور اسی پر عامل رہے، باوجود اس کے اختلاف قرأت پیداہوا جس کا دفعیہ بعہد حضرت عثمانؓ ہوا اس سے ظاہر ہے کہ احادیث بمقابلہ قرآن ویسی محفوظ نہیں ہوسکتیں، خصوصاً جب کہ فتن جمل و صفین کے بعد مدت تک ان کی جمع و تنقید کی مختلف ذرائع سے کوشش کی گئی، جبکہ طرق، رواۃ اور موضوعات کی چھان بین بہت مشکل تھی۔
(۲) احادیث فعلی اور قولی میں سے بہت سی ایسی ہیں جن کو تواتر کا درجہ حاصل ہونا چاہیے تھا۔ مثلاً احادیث فعلی میں سے کیفیت وہیئت نماز کے متعلق عقل چاہتی ہے کہ مطلقاً کسی قسم کا اختلاف نہ ہو۔
خصوصاً جبکہ ارشاد نبوی تھا کہ صَلُّوْ کَمَا رَأَیْتُموْنِی اُصلّی۔ کم از کم حرمین شریفین میں دن رات پانچ مرتبہ ایک گروہ کثیر ہر زمانے میں متواتر اس عمل کا مشاہدہ کرتا رہا ہے مگر ابتدائے زمانے ہی میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف جو بصورت رفع یدین، ارسال یدین،۱؎ وضع یدین،۲؎ تامین بالجہر وغیرہا ظاہر ہوا، اس تواتر فعلی کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے اور تواتر قولی کی حیثیت اور بھی گر جاتی ہے۔ خبر احاد کا کیا کہنا۔
(۳)اس میں کلام نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے عملی طور پر سبق آموز ہے۔ قرون اولیٰ میں جب تک کہ احادیث کا تسلی بخش اہتمام نہ ہوسکا، قریتین عظیم کے باہر مسلمان قرآن مجید ہی سے اسوۂ نبی کا اقتباس کرتے تھے۔ اخلاق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا اور آپ نے جواباً فرمایا کَانَ خُلْقُہُ الْقُرْاٰنُ۔ غرض قرآن پاک سے اسلامی اخلاق اور زندگی کے معلوم کرنے کے لیے ذخیرہ وافر ہے۔ فی زمانہ بھی بہت تھوڑے ہیں جن کو پیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃو التحیات کی سوانح بالتفصیل و الصواب معلوم ہوں۔ مگر متبعین شریعت عموماً اصول و ارکان سے واقف ہیں اور یہی مقصود بالذات تھا۔
مذکورہ بالا بعض منکرین حجیت حدیث کے شبہات ہیں جن کا ازالہ فائدے سے خالی نہ ہوگا ورنہ خاکسار مَا اتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فْانْتَھُوْا کو صحیح معنوں میں لے کر حجیت حدیث صحیح کا قائل ہے۔‘‘
آپ نے جن اعتراضات کی طرف توجہ دلائی ہے ان کے علاوہ بیسیوں اور اعتراضات بھی ہیں جو منکرین حدیث کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں مگر ان جزئی باتوں پر جدا جدا بحث کرنا طول کلام کا موجب ہے اور غیر ضروری بھی۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کی رائے کا تمام تر انحصار اس کے نقطۂ نظر پر ہے۔ جب کسی مسئلے پر وہ مخالف نقطہ نظر سے دیکھتا ہے تو اس کو تمام مخالف ہی مخالف دلائل ملتے چلے جاتے ہیں۔ اور جب موافق نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے تو تمام دلائل موافقت ہی میں نظر آتے ہیں۔ مگر جب خالی الذہن ہو کر تلاش حق کے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے تو موافق اور مخالف دونوں قسم کے دلائل پر اس کی نظر پڑتی ہے اور دونوں میں موازنہ کرکے وہ ایک معتدل رائے قائم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اعدائے اسلام کے حملوں سے متاثر ہو کر، یا غیر محتاط علما کی روایات سے دل برداشتہ ہو کر احادیث سے بدظن ہو چکے ہیں، وہ جب مخالفانہ ذہنیت کے ساتھ احادیث پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کو حدیثوں کے ناقابل احتجاج ہونے کے لیے دلائل پر دلائل ملتے چلے جاتے ہیں۔ بخلاف اس کے جو لوگ قدامت پسندی کے ماحول میں پرورش پائے ہوئے ہیں، ان کا حال یہ ہے کہ ہر حدیث کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو بے چون و چرا مان لیتے ہیں، خواہ وہ ضعیف بلکہ موضوع ہی کیوں نہ ہو۔ میرے نزدیک یہ دونوں نقطۂ نظر غلط ہیں، اور جب نقطۂ نظر غلط ہیں تو جو کچھ ان نقطوں سے دیکھا گیا ہے وہ بھی غلط ہے۔ تمام احادیث کو مطلقاً غلط سمجھنے والے بھی غلطی پر ہیں اور تمام احادیث کو مطلقاً صحیح سمجھنے والے بھی۔ وہ لوگ بھی راہ راست سے ہٹ گئے ہیں جو احادیث اور قرآن مجید میں فرق نہیں کرتے۔ اور وہ لوگ بھی گمراہی میں مبتلا ہیں جو احادیث کو قطعاً ناقابل احتجاج قرار دیتے ہیں۔ صحیح راستہ ان دونوں انتہائوں کے درمیان ہے اور وہ درمیانی راستہ نظر نہیں آسکتا جب تک کہ دیکھنے والا ان متضاد نقطوں سے ہٹ کر وسط کے نقطے پر نہ آجائے۔ پس اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جزئیات میں الجھنے کے بجائے انتہا پسندوں کے نقطۂ نظر پر براہ راست حملہ کیا جائے اور ان کووہاں سے ہٹا کر صحیح نقطۂ نظر پر کھینچ لایا جائے۔
تاہم جب آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بیان کردہ امور پر روشنی ڈالی جائے تو مختصراً میں ان پر اظہار رائے کیے دیتا ہوں۔
(۱) یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ احادیث اس حد تک محفوظ نہیں ہیں جس حد تک قرآن مجید ہے مگر اس سے تجاوز کرکے یہ فرض کرلینا صحیح نہ ہوگا کہ وہ مطلقاً محفوظ ہی نہیں ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول اور عمل ہم تک صحت کے ساتھ پہنچا ہی نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ روایات کے طریقوں اور راویوں کے احوال کی چھان بین میں بہت دقتیں پیش آئی ہیں، اور ان میں محدّثین کے درمیان اختلافات بھی ہوئے ہیں، مگر فن حدیث کی تاریخ شاہد ہے کہ محدثین نے تحقیق و تفتیش کا پورا پورا حق ادا کر دیا ہے اور اس کام میں اتنی محنتیں کی ہیں کہ ان سے زیادہ انسان کے بس میں نہ تھیں۔ انھوں نے اپنی محنتوں سے جو ذخیرہ فراہم کیا ہے وہ آج ہمارے پاس موجود ہے اور ان کے درمیان جو اختلافات ہوئے ہیں وہ بھی تمام دلائل اور شواہد کے ساتھ موجود ہیں۔ اگر کوئی اس ذخیرے پر تحقیق کی نظر ڈالے تو اس کے لیے آج تیرہ سو برس گذر جانے کے بعد بھی یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا اورکیا نہیں فرمایا، کیا کِیا اور کیا نہیں کِیا، اور یہ کہ ہر روایت جو آپ کی طرف منسوب ہے وہ اپنی صحت اور اپنے قابل احتجاج ہونے کے لحاظ سے کیا پایہ رکھتی ہے، لیکن یہ ناقابل انکار ہے کہ علم کا جیسا مستند اور معتبر ذریعہ قرآن مجید ہے، ویسا مستند اور معتبر ذریعہ حدیث نہیں ہے اس لیے صحت کا اصلی معیار قرآن ہی ہونا چاہیے۔ جو چیز قرآن کے الفاظ یا اسپرٹ کے مخالف ہوگی اسے ہم یقیناً رد کر دیں گے، اور اس کا مخالف قرآن ہونا ہی اس امر کا بین ثبوت ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چیز ہرگز ثابت نہیں ہے۔ اور جو چیز قرآن کے الفاظ یا اسپرٹ کے موافق ہوگی، اور تعلیمات قرآن کی ایسی تشریح و توضیح یا احکام کی ایسی تفصیل ہوگی جو قرآن کے الفاظ یا اسپرٹ کے خلاف نہ ہو، ۱؎ اور روایت و درایت کے طریقوں سے اس کے معتبر ہونے کا ظن غالب بھی ہو جائے گا، اس کو ہم ضرور تسلیم کریں گے، اور اپنی عقلی تفسیر و تشریح اور اپنی رائے پر اس کو ترجیح دیں گے۔
(۲)بادی النظر میں یہ بات بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ایسی فعلی اور قولی احادیث کو تواتر کا درجہ حاصل ہونا چاہیے جن کو دیکھنے اور سننے والے بکثرت ہوں‘ ان میں اختلاف نہ پایا جانا چاہیے۔ لیکن ہر شخص بہ اَدنیٰ تامل یہ سمجھ سکتا ہے کہ جس واقعہ کو بکثرت لوگوں نے دیکھا ہو یا جس تقریر کو بکثرت لوگوں نے سنا ہو اس کو نقل کرنے یا اس کے مطابق عمل کرنے میں سب لوگ اس قدر متفق نہیں ہوسکتے کہ ان کے درمیان یک سر مُوفرق نہ پایا جائے۔ اس واقعہ یا اس تقریر کے اہم اجزا میں تو سب کے درمیان ضرور اتفاق ہوگا مگر فرعی امور میں بہت کچھ اختلاف بھی پایا جائے گا اور یہ اختلاف ہرگز اس بات کی دلیل نہ ہوگا کہ وہ واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔ مثال کے طور پر آج میں ایک تقریر کرتا ہوں اور کئی ہزار آدمی اس کو سنتے ہیں۔ جلسہ ختم ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی مہینوں اور برسوں بعد نہیں بلکہ چند ہی گھنٹے بعد، لوگوں سے پوچھ لیجیے کہ مقرر نے کیا کہا؟ آپ دیکھیں گے کہ تقریر کا مضمون نقل کرنے میں سب کا بیان یکساں نہ ہوگا۔ کوئی کسی ٹکڑے کو بیان کرے گا کوئی کسی ٹکڑے کو، کوئی کسی جملے کو لفظ بلفظ نقل کرے گا، کوئی اس مفہوم کو جو اس کی سمجھ میں آیا ہے اپنے الفاظ میں بیان کر دے گا، کوئی زیادہ فہیم آدمی ہوگا اور تقریر کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اس کا صحیح مُلخّص بیان کردے گا۔ کسی کی سمجھ زیادہ اچھی نہ ہوگی اور وہ مطلب کو اپنے الفاظ میں اچھی طرح ادا نہ کرسکے گا۔ کسی کا حافظہ اچھا ہوگا اور وہ تقریر کے اکثر حصے لفظ بلفظ نقل کر دے گا۔ کسی کی یاد اچھی نہ ہوگی اور وہ نقل و روایت میں غلطیاں کرے گا۔ اگر اب کوئی شخص اس اختلاف کو دیکھ کر یہ کہہ دے کہ میں نے سرے سے کوئی تقریر ہی نہیں کی یا جو تقریر کی تھی وہ از سر تا پا غلط نقل کی گئی تو یہ صحیح نہ ہوگا۔ بخلاف اس کے اگر تقریر کے متعلق تمام اخبار احادکو جمع کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس امر میں سب کے درمیان اتفاق ہے کہ میں نے تقریر کی، فلاں جگہ کی، فلاں وقت کی، بہت سے آدمی موجود تھے، اور تقریر کا موضوع یہ تھا۔ پھر تقریر کے جن جن حصوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ اتفاق لفظاً یا معناً پایا جائے گا، وہ زیادہ مستند سمجھے جائیں گے اور ان سب کو ملا کر تقریر کا ایک مستند مجموعہ تیارکرلیا جائے گا۔ اور جن حصوں کے بیان کرنے میں ہر راوی منفرد ہوگا وہ نسبتاً کم معتبر ہوں گے مگر ان کو موضوع اور غلط کہنا جائز نہ ہوگا، تاوقتیکہ وہ تقریر کی پوری اسپرٹ کے خلاف نہ ہوں، یا کوئی اور ایسی بات ان میں نہ ہو جس کی وجہ سے ان کی صحت مشتبہ ہو جائے، مثلاً تقریر کے معتبر حصوں سے مختلف ہونا یا مقرر کے خیالات اور انداز بیان اور افتادِ مزاج کے متعلق جو صحیح معلومات لوگوں کے پاس پہلے سے موجود ہیں ان کے خلاف ہونا۔
یہی حال احادیث فعلی کا بھی ہے۔ آپ نے نماز کی مثال پیش فرمائی ہے۔ میں بھی اسی مثال کو سامنے رکھ کر جواب عرض کرتا ہوں۔ نماز کے متعلق تواترقولی و عملی سے یہ بات متفقہ طور پر ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پانچ وقت کی نماز فرض ادا فرماتے تھے، نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی تھی، مقتدی آپ کے پیچھے صف بستہ کھڑے ہوتے اور آپ کی حرکات و سکنات کی پیروی کرتے تھے۔ آپ قبلہ کی جانب رُخ فرمایا کرتے۔ تکبیر تحریمہ کے ساتھ نماز میں داخل ہوتے، قیام، رکوع، سجود اور قعود سے نماز مرکب ہوتی تھی، ہر رکن نماز کی فلاں فلاں ہیئتیں تھیں۔ غرض نماز کے جتنے اہم اجزائے ترکیبی ہیں ان سب میں تمام زبانی روایات متفق ہیں اور عہد رسالت سے آج تک ان کے مطابق عمل بھی ہو رہا ہے۔ اب رہے جزئیات مثلاً رفع یدین اور وضع یدین وغیرہ تو ان کا اختلاف یہ معنی نہیں رکھتا کہ نماز کے متعلق تمام روایات غلط ہیں بلکہ دراصل یہ اختلاف اس امر کا پتہ دیتا ہے کہ مختلف لوگوں نے مختلف اوقات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مختلف دیکھا۔ چونکہ یہ امور نماز میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے، اور ان میں سے کسی کے کرنے یا نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، اور حضور خود صاحب شریعت تھے اس لیے آپ جس وقت جیسا چاہتے تھے عمل فرماتے تھے۔ لیکن حضورؐ کے سوا کوئی اور شخص چونکہ صاحب شریعت نہ تھا اور اس کاکام اتباع تھا نہ کہ تشریع‘ اس لیے ہر دیکھنے والے نے آپ کو جیسا فعل کرتے دیکھا اسی کی پیروی کی اور اس کی پیروی کے لیے لوگوں سے کہا۔ بعد کے ائمہ نے روایات کی چھان بین کرکے ہر جزئیہ کے متعلق یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ زیادہ صحیح اور مستند روایات کون سی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس تحقیق کے نتائج میں اختلاف ہونا ممکن تھا، اور وہ ہوا۔ کسی نے کسی روایت کو زیادہ مستند سمجھا، اور کسی کو اس کے خلاف روایت پر اطمینان حاصل ہوا۔ مگر یہ اختلاف کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اور یہ ہرگز اس امرکی دلیل نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ ادائے نماز کے متعلق سرے سے کوئی قولی و فعلی تواتر ہی نہیں پایا جاتا۔
(۲) قرآن پاک اور حدیث نبوی کے تعلق کو ٹھیک ٹھیک نہ سمجھنے سے تیسرا سوال پیدا ہوا ہے۔ قرآن پاک میں سب سے زیادہ زور ایمان پر دیا گیا ہے، اور ایمان ہی کی تفصیلات سے سارا قرآن بھرا پڑا ہے۔ اس کے لیے تو ہمیں قرآن سے باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں، اور حدیث میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد اخلاقی تعلیمات ہیں۔ قرآن میں اصول اخلاق قریب قریب سب کے سب بیان کر دیئے گئے ہیں مگر ظاہر ہے کہ اخلاق کا تعلق لفظی بیان سے اتنا نہیں ہے جتنا عملی نمونے سے ہے۔ اس لیے خداوند تعالیٰ نے اپنے رسول کو اخلاق کا مجسم نمونہ بنا کر پیش فرمایا۔ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اور اپنے مواعظ اور اپنی تعلیم حکمت اور عملی تربیت و تزکیہ نفوس سے ان تمام اصول اخلاق کی قولی و عملی تشریح فرمادی جو قرآن مجید میں بیان ہوئے۔ پس جو شخص اس اسوۂ نبوی کو چھوڑ کر کہتا ہے کہ اس بات میں ہمارے لیے صرف قرآن کافی ہے وہ اپنے آپ کو بہت بڑی نعمت سے محروم کرتا ہے۔ بلکہ درحقیقت وہ حق تعالیٰ کے اس فعل کو عبث سمجھتا ہے کہ اس نے تنزیل کتاب کے ساتھ رسول بھی مبعوث فرمایا اور یہ کہہ کر مبعوث فرمایا کہ ہمارا رسول نہ صرف تم کو ہماری آیات سنائے گا بلکہ تمھارا تزکیۂ نفس بھی کرے گا۔ تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم بھی دے گا اور اس کی زندگی میں تمھارے لیے اسوۂ حسنہ بھی ہوگا۔
اب رہ گئے احکام تو قرآن مجید میں ان کے متعلق زیادہ تر کلی قوانین بیان کیے گئے ہیں اور بیشتر امور میں تفصیلات کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً ان احکام کو زندگی کے معاملات میں جاری فرمایا اور اپنے عمل اور قول کی تفصیلات ظاہر فرمائیں۔ ان تفصیلات میں سے بعض ایسی ہیں جن میں ہمارے اجتہاد کو کوئی دخل نہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ جیسا عمل حضور سے ثابت ہے اسی کی پیروی کریں۔ مثلاً عبادات کے احکام اور بعض تفصیلات ایسی ہیں کہ ان سے ہم اصول اخذ کرکے اپنے اجتہاد سے فروع مستنبط کرسکتے ہیں۔ مثلاً عہد نبوی کے قوانین مدنی۔ اور بعض تفصیلات ایسی ہیں کہ ان سے ہم کو اسلام کی اسپرٹ معلوم ہوتی ہے۔ اگر یہ اسپرٹ ہمارے قلب و روح میں جاری ہو جائے تو ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ زندگی کے جملہ معاملات اور مسائل پر ایک مسلمان کی سی ذہنیت اور ایک مسلمان کی سی بصیرت کے ساتھ غور کریں، دنیا کے علمی مسائل کو اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھیں، اور ان کے متعلق ویسی ہی رائے قائم کریں جیسی ایک مسلمان کو کرنی چاہیے اس سے واضح ہوگیا کہ پورا اور پکا مسلمان بننے کے لیے قرآن مجید کے ساتھ حدیث کا علم کس قدر ضروری ہے۔ اس کے جواب میں اگر یہ کہا جائے کہ ایک عام مسلمان حدیث کے بغیر بھی ایک مسلمان کی سی زندگی بسر کرسکتا ہے، تو میں کہوں گا یہ علم حدیث کی ضرورت نہ ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے اور اگر یہ دلیل ہے تو یہی دلیل قرآن کے علم کی ضرورت نہ ہونے پر بھی قائم کی جاسکتی ہے، کیونکہ ایک عامی مسلمان قرآن کے علم سے بھی بہت کم بہرہ ور ہوتا ہے۔ اور پھر بھی اپنی زندگی میں احکام شریعت کا اتباع کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عامی لوگ نہ کبھی عہد نبوی میں معیاری مسلمان تھے اور نہ اس کے بعد کبھی ان کو معیاری مسلمان ہونے کا فخر حاصل ہوا۔ معیاری مسلمان تو دراصل اس زمانے میں بھی وہی تھے اور اب بھی وہی ہیں جو قرآن اور حدیث کے علوم پر نظر رکھتے ہوں اور جن کی رگ و پے میں قرآن کا علم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا نمونہ سرایت کر گیا ہو۔ باقی رہے عوام تو وہ اس وقت بھی ان معیاری مسلمانوں کے پیرو تھے، اور آج بھی ہیں۔ عہد نبوی میں جن صحابہ نے جتنا زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحبت اور تعلیم کا فیض اٹھایا وہ اتنے ہی زیادہ معیاری مسلمان سمجھے گئے۔ اور ان کے مقابلے میں کبھی ان لوگوں کو بہ اعتبار علم یا بہ اعتبار عمل ترجیح نہیں دی گئی، جنھوں نے آں حضرت سے تعلیم اور صحت کا فیض نہ اٹھایا تھا۔ بلاشبہ مسلمان دونوں تھے مگر دونوں کے مراتب کا فرق کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول ۱۳۵۳ھ۔ جولائی ۱۹۳۴ئ)