Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

حدیث اور قرآن

منکرین ِ حدیث کے مسلک پر ایک ناقدانہ نظر

حال میں ایک صاحب نے ایک مختصر سا رسالہ لکھا ہے جس کا عنوان ہے:
’’میں منکرِ حدیث کیوں ہوا۱؎۔‘‘مصنف نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا بلکہ اپنے لیے ’’حق گو‘‘ کا لقب اختیار فرمایا ہے۔ انھی ’’حق گو‘‘ صاحب کا ایک مفصل مضمون ’’مطالعہ حدیث کے عنوان سے بھی بعض رسائل میں شائع ہوتا رہا ہے جس کے بعض حصے ہمارے نظر سے گزرے ہیں۔ دلائل قریب قریب وہی ہیں جو منکرین حدیث کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں۔ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے لیے صرف قرآن کافی ہے، حدیث کی روایات ناقابلِ اعتبارہیں، اور ان پر مذہب کی بنیاد رکھنا صحیح نہیں ہے۔ حق گو صاحب اور ان کے ہم خیال منکرین ِ حدیث کی رائے میں حدیث سے اسلام کو قطعاً کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ اس کے برعکس اسی چیز نے دشمنانِ اسلام کو وہ اسلحہ فراہم کیے ہیں جن سے وہ اسلام پر حملے کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی خواہش ہے کہ اسلام سے حدیث کو بالکل خارج کر دیا جائے اور اس کو وہ اسلام کی ایک بڑی خدمت سمجھتے ہیں۔
حق گو صاحب نے اپنی تائید میں حدیث کی کتابوں سے بہت سی شہادتیں پیش کی ہیں جن سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ احادیث سے کس طرح دشمنوں کو اسلام اور رسول کی رسالت پر حملہ کرنے کے لیے مواد حاصل ہوتا ہے، مثلاً بعض احادیث تحریف قرآن کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ بعض اس الزام کی تائید کرتی ہیں کہ وحی کا نزول ایک ڈھونگ تھا، رسول اللہ جو کچھ اہل کتاب سے سنتے تھے اس کو وحی بنا کر پیش کر دیتے تھے (معاذ اللہ)۔ بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کا نزول رسول اللہ کی خواہشات نفسانی کے مطابق ہوتا تھا۔ بعض اس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ رسول اللہ پر جادو کا اثر ہو جاتا تھا۔ بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ اپنے مخالفین کو خفیہ طریقوں سے قتل کرا دیتے تھے (کعب بن اشرف کا واقعہ) بعض سے رسول اللہ پر ظلم اور بے رحمی کا الزام عاید ہوتا ہے (عکل اور عرینہ والوں کا قتل) بعض سے رسول اللہ پر نفس پرستی کا الزام نکلتا ہے۔ اسی سلسلے میں مصنف نے رسول اکرم پر شاردا ایکٹ بھی نافذ کیا ہے اور ان سب روایات کو ناقابل اعتبار ٹھیرا دیا ہے جو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے نو سال کی عمر میں شادی ہونا ثابت کرتی ہیں۔ اس کے بعد مصنف علم حدیث پر عام اعتراضات کرتا ہے۔ اس کے خیال میں حدیث کی اشاعت عہد خلفائے راشدین میں ممنوع تھی۔ بنو امیہ اور آل عباس کے زمانے میں روایت کا سلسلہ شروع ہوا اور بادشاہوں کی سیاسی اغراض کے لیے حدیثیں وضع کی گئیں۔ امام حسن بصری، امام زہری، امام مالک، صحاح ستہ کے مصنفین اور دوسرے وہ لوگ جنھوں نے حدیث کی کتابیں مدون کی ہیں، سب کے سب مصنف کے زعم میں جھوٹی حدیثیں گھڑنے والے تھے اور ان لوگوں نے بے سرو پا روایتیں جمع کرکے اسلام کو مسخ کر دیا۔ سیاسی اغراض کے علاوہ حدیث میں یہودیت، مسیحیت مجوسیت اور دوسرے مذاہب کے عقاید اور خرافات بھی داخل ہوگئے۔ پانچ وقت کی نماز، تیس دن کے روزے، صراط اور میزان کا تخیل‘ احکام ذبیحہ، کھانے پینے کی چیزوں میں مذہب کا دخل، ختنہ، قربانی، احکام طہارت، تصاویر اور مجسموں کی حرمت، معراج کے قصے اور ایسی ہی بہت سی چیزیں مصنف کے نزدیک محدثین نے دوسرے مذاہب سے لیں اور رسول اللہ کی طرف منسوب کرکے اسلام میں داخل کردیں۔
ائمہ فقہ بھی مصنف کے نزدیک قابلِ طعن ہیں کیونکہ انھوں نے شریعت کا تخیل یہودیوں سے لے کر اسلام کے سر چپک دیا، زندگی کے تمام معاملات پر مذہب کو حاوی کر دیا، جو قوانین عراق کی آب و ہوا اور پہلی دوسری صدی کے حالات کی بنا پر وضع کیے گئے تھے ان کو رسول اللہ کی طرف منسوب کرکے مذہبی قوانین بنا ڈالا، اور اس طرح مذہب اسلام ’’قومی شریعت‘‘ کا پابند ہو کر اس قابل نہ رہا کہ دنیا میں اس کی اشاعت ہوتی اور دوسری قومیں اس کا اتباع کرسکیں۔ مصنف کے نزدیک سینٹ پال اور اس کے متبعین کا یہ خیال درست تھا کہ مذہب (یعنی ایمانیات) کو شریعت (یعنی قانون حیات) سے الگ کر دیا جائے، اور یہی چیز دنیا میں مسیحیت کی اشاعت کا باعث ہوئی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بھی مصنف کے خیال میں اس لیے ہوئی تھی کہ شریعت کی بیڑیوں کو کاٹ دیں اور زندگی کے معاملات کو مذہب کی پابندیوں سے آزاد کر دیں۔ دلیل میں یہ آیت پیش کی گئی ہے کہ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ اعراف: 157:7 اس آیت میں اغلال (بیڑیوں) سے مراد مصنف کے نزدیک ’’اغلال شریعت‘‘ ہیں اور وہ کہتا ہے کہ ائمہ فقہ اور ائمہ حدیث نے رسول اللہ کے خلاف بغاوت کرکے پھر انھی اغلال شریعت کو مسلمانوں پر ڈال دیا، جنھیں کاٹنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کیے گئے تھے، اور یہود کی تقلید میں ان لوگوں نے روایت حدیث اور ’’شریعت سازی‘‘ شروع کر دی یہ سب کچھ مصنف کی رائے میں اس لیے کیا گیا کہ یہود کے فریسیوں کی طرح یہ لوگ مسلمانوں پر اپنی گرفت قائم کرنا چاہتے تھے، اور اس غرض کے لیے انھوں نے رسول اللہ کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھایا۔
پھر لطف یہ ہے کہ مصنف اپنے تمام نظریات کی بنا تاریخی استدلال پر رکھتا ہے، حالانکہ اگر حدیث کی روایات قابل اعتبار نہیں ہیں تو تاریخ ان سے بھی زیادہ ناقابل اعتبار ہے۔ حدیث میں تو ہمارے زمانے سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابۂ کرام یا ائمہ تک اسناد کا پورا سلسلہ موجود ہے، خواہ وہ آپ کے نزدیک مشکوک ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن تاریخ کے پاس تو کوئی سند ہی نہیں ہے۔ جن قدیم کتابوں کو آپ تاریخ کا سب سے زیادہ معتبر ذخیرہ سمجھتے ہیں ان کے متعلق آپ کے پاس اس امر کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ جن مصنفین کی طرف وہ منسوب ہیں انھی کی لکھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح جو حالات ان کی کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں ان کے لیے بھی آپ کوئی ایسی سند نہیں رکھتے جس کی بنا پر ان کی صحت کا یقین کیا جاسکے۔ پس اگر حدیث کی مسلسل اور مستند روایات کی تکذیب اس آسانی کے ساتھ کی جاسکتی ہے تو تاریخ کے پورے ذخیرے کو اس سے بھی زیادہ آسانی کے ساتھ رد کیا جاسکتا ہے۔ ایک شخص بے تکلف کہہ سکتا ہے کہ عباسیوں کا وجود دنیا میں کہیں نہ تھا۔ اموی سلطنت کبھی قائم نہیں ہوئی۔ سکندر کا وجود محض ایک افسانہ ہے۔ غرض تاریخ کے ہر واقعہ کو اس دلیل سے بدرجہا زیادہ قوی دلیل کی بنا پر جھٹلایا جاسکتا ہے جس کی بنا پر آپ حدیث کو جھٹلاتے ہیں۔ کیونکہ دنیا میں زمانہ گزشتہ کے حالات کا کوئی ذخیرہ اتنا مستند نہیں ہے جتنا حدیث کا ذخیرہ ہے، اور جب وہ بھی ناقابل اعتبار ہے تو قدیم زمانے کے متعلق جتنی روایات ہم تک پہنچی ہیں وہ سب دریا برد کر دینے کے قابل ہیں۔ تعجب ہے کہ جو شخص حدیث کی روایات سے انکار کرتا ہو، اور جس کے نزدیک یہ ممکن ہو کہ رسول اللہ سے قریب تر زمانے میں ایسے ایسے نامور مسلمان بھی، جن سے زیادہ نمایاں ہستیاں مسلمانوں کی قوم سے پیش نہیں کی جاسکتیں، اسلام کا دعویٰ رکھنے کے باوجود رسول اللہ پر بہتان گھڑ سکتے تھے اور اپنے دل سے حدیثیں وضع کرکے رسول اللہ کی طرف منسوب کرسکتے تھے، وہ آخر تاریخ پر کیسے اعتماد کرلیتا ہے؟ وہ کیوں نہیں کہتا کہ طبری، ابن اثیر، ابن خلدون اور تاریخ کی تمام کتابیں موضوع ہیں، افسانہ ہیں، اور گذشتہ زمانے کا کوئی حال ہم تک صحت کے ساتھ نہیں پہنچا ہے؟ اس سے زیادہ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو شخص بخاری و مسلم، ترمذی و ابودائود حتیٰ کہ امام مالک‘ امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام حسن بصری تک کو ناقابل اعتماد سمجھتا ہے کہ وہ فون کریمر سے استناد کرنے میں تامل نہیں کرتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بات کی پچ آدمی کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔
’’حق گو‘‘ صاحب کا رسالہ اگر کوئی ناواقف مسلمان یا غیر مسلم پڑھے تو اس کے دل پر یہ بات نقش ہو جائے گی کہ رسول اللہ کی وفات پرپچاس برس بھی نہ گزرے تھے کہ مسلمانوں نے رسول خدا اور اسلام کے خلاف عام بغاوت کر دی اور وہی لوگ اس بغاوت کے سرغنے بنے جو اسلام کی مذہبی تاریخ میں سب سے زیادہ نمایاں ہیں، اور جنھیں مذہب اسلام کا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ان لوگوں کے دل میں ایمان کا شائبہ تک نہ تھا۔ انھوں نے اپنی اغراض کے لیے حدیث، فقہ، سنت اور شریعت کے شاندار الفاظ گھڑے اور دنیا کو دھوکا دینے کے لیے وہ باتیں رسول اللہ کی طرف منسوب کیں جو آں حضرت اور قرآن کی تعلیم کے بالکل خلاف تھیں۔ یہ اثر پڑنے کے بعد ہمیں امید نہیں کہ کوئی شخص اسلام کی صداقت کا قائل ہوگا، کیونکہ جس مذہب کے ائمہ اور ممتاز ترین داعیوں کا یہ حال ہو اس کے پیرئووں میں صرف ’’حق گو‘‘ صاحب اور ان کے ہم خیال گنتی کے چند آدمیوں کو دیکھ کر کون عقل مند یہ باور کرے گا کہ ایسا مذہب بھی کوئی سچا مذہب ہوسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس قسم کے اعتراضات کو دیکھ کر تو ایک شخص اس امر میں بھی شک کرسکتا ہے کہ آیا اسلام اپنی اصلی شکل میں اس وقت محفوظ ہے بھی یا نہیں۔ کیونکہ جب مسلمانوں کے اسلاف میں پہلی صدی سے لے کر اب تک کوئی گروہ بھی ایسا موجود نہیں رہا جو اپنے پیغمبر کے حالات، اقوال اور تعلیمات کو ٹھیک ٹھیک محفوظ رکھتا اور جب اس قوم کے چھوٹے بڑے سب کے سب ایسے بددیانت تھے کہ جو کچھ جی میں آتا تھا گھڑ کر اپنے رسول کی طرف منسوب کر دیتے تھے، تو اسلام کی کسی بات کا بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ بھی یقین نہیں کیا جاسکتا کہ عرب میں فی الواقع کوئی پیغمبر مبعوث ہوا تھا، کیا عجب کہ عوام پر گرفت قائم کرنے کے لیے رسول اور رسالت کا افسانہ گھڑ لیا گیا ہو۔ اسی طرح قرآن کے متعلق بھی شک کیا جاسکتا ہے کہ وہ فی الواقع کسی پیغمبر پر اترا تھا یا نہیں، اور اگر اترا بھی تھا تو اپنی اصلی عبارت میں محفوظ ہے یا نہیں، کیونکہ اس کے ہم تک پہنچنے کا ذریعہ وہی لوگ تو ہیں جو یہود و نصاریٰ اور مجوسیوں کی باتیں لے لے کر پیغمبر کی طرف منسوب کرتے ہوئے ذرا نہ شرماتے تھے، یا پھر وہ لوگ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہوتا تھا اور وہ دم نہ مارتے تھے۔ ’’حق گو‘‘ صاحب اور ان کے ہم خیال منکرین ِ حدیث نے یہ ایسا حربہ دشمنانِ اسلام کے ہاتھ میں دے دیا ہے جو حدیث کے فراہم کیے ہوئے حربوں سے لاکھ درجہ زیادہ خطرناک ہے، اس سے تو اسلام کی جڑ بنیاد ہی کھود کر پھینک دی جاسکتی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ’’حق گو‘‘ صاحب نے حدیث کی کتابوں پر صرف عیب چینی کی نگاہ ڈالی ہے اور ان کتابوں کے بے شمار جواہر کی طرف سے آنکھیں بند کرکے اپنا سارا وقت ان چیزوں کی تلاش میں صرف کیا ہے جو ان کے نزدیک حدیث پر طعن کرنے کے لیے مفید ہوسکتی تھیں۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسی عیب چینی کی نگاہ سے وہ قرآن کو دیکھتے تو یہ کتاب بھی ان کو سراسر عیوب سے لبریز نظر آتی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہزارہا کفار قرآن کو پڑھتے ہیں اور بجائے ہدایت پانے کے اور زیادہ گمراہ ہو جاتے ہیں؟ یہی ناکہ وہ ہدایت کی طلب میں قرآن نہیں پڑھتے بلکہ عیوب تلاش کرتے اور اسلام کے خلاف اسلحہ فراہم کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ اسی وجہ سے تو ان کو قرآن میں بجز عیوب کے اور کچھ نہیں ملتا، کیونکہ انسان ہر جگہ وہی کچھ پاتا ہے جس کی اسے طلب ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ قرآن کا مطالعہ کرتے وقت ’’حق گو‘‘ صاحب کی آنکھوں پر عیب چینی کی عینک نہ لگ گئی، ورنہ وہ دیکھتے کہ مخالفین ِ اسلام کو بہت سے اسلحہ اس کتاب نے بھی فراہم کیے ہیں، اور یہ بات ان کو قرآن سے بھی انکار کر دینے پر اسی طرح آمادہ کر دیتی جس طرح حدیث کے فراہم کردہ اسلحہ دشمنوں کے ہاتھ میں دیکھ کر انھوں نے حدیث سے انکار کر دیا۔
’’حق گو‘‘ صاحب نے حدیث پر جتنے اعتراضات کیے ہیں ان سب کا لفظ بہ لفظ جواب دیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم جزئیات میں الجھنا مناسب نہیں سمجھتے، بلکہ چند اصولی باتوں پر کلام کرنا چاہتے ہیں جو دراصل مدار بحث ہیں۔ اگرچہ ان کی اور عام منکرین ِ حدیث کی عیب جو یا نہ ذہنیت کو دیکھتے ہوئے اصلاح کی امید کم ہے لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ ان لوگوں کی گمراہی کا آغاز دراصل نیک نیتی کے نقطے سے ہوتا ہے اور محض ناواقفیت اور ضد ان کو غلط راستوں پر ڈال دیتی ہے۔ اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ اگر انھوں نے اپنے ذہن کو منکرانہ خیالات سے تھوڑی دیر کے لیے خالی رکھ کر ہمارے دلائل پر غور کیا تو ان کے عقیدے کی اصلاح ہو جائے گی۔
سب سے پہلے یہ امر غور طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن اور اس سے پہلے تمام آسمانی کتابوں کو رسولوں کے واسطے سے کیوں نازل کیا؟ کیا اللہ اس پر قادر نہ تھا کہ مطبوعہ کتابیں یکایک زمین پر اتار دیتا اور ان کا ایک ایک نسخہ نوع بشری کے ہر فرد کے پاس آپ سے آپ پہنچ جاتا؟ اگر وہ اس پر قادر نہ تھا تو عاجز تھا، اس کو خدا ہی کیوں مانیے؟ اور اگر وہ قادر تھا اور یقیناً قادر تھا تو اس نے نشر و اشاعت کا یہ ذریعہ کیوں نہ اختیار کیا؟ یہ تو بظاہر ہدایت کا یقینی ذریعہ ہوسکتا تھا۔ کیونکہ ایسے صریح معجزے اور بیّن خرق عادت کو دیکھ کر ہر شخص مان لیتا کہ یہ ہدایت خدا کی طرف سے آئی ہے۔ لیکن خدا نے ایسا نہ کیا اور ہمیشہ رسولوں ہی کے ذریعے سے کتابیں بھیجتا رہا۔ پھر ا س رسالت کے کام پر بھی اس نے فرشتوں یا دوسری غیر انسانی ہستیوں کو مامور نہ کیا، بلکہ ہمیشہ انسانوں ہی کو اس کے لیے منتخب فرمایا۔ ہر زمانے کے کفار نے بہتیرا کہا کہ اگر خدا کو ہم تک کوئی پیغام پہنچانا ہی منظور ہے تو فرشتے کیوں نہیں بھیجتا تاکہ ہم کو بھی اس پیغام کے منزل من اللہ ہونے کا یقین آجائے۔ مگر خدا نے ہر ایسے سوال پر یہی فرمایا کہ اگر ہم فرشتے بھی بھیجتے تو ان کو آدمی بنا کر بھیجتے وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا الانعام6:9 اور یہ کہ اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ہم ان کی ہدایت کے لیے فرشتے بھیجتے، لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَۃٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْہِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًاo بنی اسرائیل95:17
سوال یہ ہے کہ تنزیل کتب کے لیے رسولوں کو واسطہ بنانے اور رسالت کے لیے تمام بندگان خدا میں سے بالخصوص انسانوں ہی کو منتخب کرنے پر اس قدر اصرار کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب خود کلام اللہ دیتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ خدا نے جتنے رسول بھیجے ہیں ان کی بعثت کا مقصد یہ رہا ہے کہ وہ فرامین خداوندی کے مطابق حکم دیں اور لوگ ان کے احکام کی اطاعت کریں۔ وہ الٰہی قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں اور لوگ انھی کے نمونے کو دیکھ کر اس کا اتباع کریں،وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ النساء64:4 انبیا علیہم السلام پے درپے آئے اور ہر ایک نے لوگوں سے یہی مطالبہ کیا کہ خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو،فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِo الشعراء: 108:26 نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوایا گیا کہ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ آل عمران31:3 مومنوں سے کہا گیا کہلَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ احزاب21:33 اگر محض کتاب اللہ اتار دی جاتی اور کوئی رسول نہ آتا تو لوگ آیات کے معانی میں اختلاف کرتے اور کوئی اس کا فیصلہ کرنے والا نہ ہوتا۔ لوگ احکام کے منشا سمجھنے میں غلطیاں کرتے اور کوئی ان کو صحیح منشا بتانے والا نہ ہوتا۔ اس ضرورت کو خیر ایک حد تک فرشتے بھی پورا کرسکتے تھے، مگر پاکیزگی، طہارت اور تقویٰ کے احکام پر لوگ یہ خیال کرتے کہ عملی زندگی میں ان پر عمل کرنا انسان کے بس کاکام نہیں ہے۔ فرشتہ تو انسانی جذبات سے محروم ہے۔ پیٹ نہیں رکھتا، شہوانی قوتیں نہیں رکھتا۔ انسانی ضرورتوں سے بے نیاز ہے۔ اس کے لیے متقیانہ زندگی بسر کرنا کچھ مشکل نہیں۔ مگر ہم انسانی کمزوریاں رکھتے ہوئے اس کی تقلید کیسے کریں؟ اس لیے ضروری تھا کہ ایک انسان انھی جذبات و داعیات اور انھی تمام قوتوں اور انسانی تقیدات کے ساتھ زمین پر آتا اور لوگوں کے سامنے احکام الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرکے بتاتا کہ اس طرح انسان خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرسکتا ہے۔ اس کو زندگی کے وہ تمام معاملات پیش آتے جو انسان کو پیش آتے ہیں۔ وہ ان تمام معاملات میں عام انسانوں کے ساتھ شریک ہوتا۔ حصہ لیتا، قدم قدم پر ان کو اپنے عمل اور اپنے قول سے ہدایات دیتا، ان کی تربیت کرتا، اور انھیں بتاتا کہ زندگی کی پیچیدہ راہوں میں سے کس طرح انسان بچ کر حق اور نیکی کے سیدھے راستے پر چل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے تنہا کتاب اللہ کو کافی نہ سمجھا اور رسول اللہ کے اتباع اور ان کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کو اس کے ساتھ لازم کر دیا۔
قرآن شریف میں صاف طور پر تین چیزوں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک حکم خدا، دوسرے حکم رسول، تیسرے مسلمان حکام اور فرماں روائوں کے احکام يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ النساء59:4 اگر محض قرآن کا اتباع کافی ہوتا اور اس کے سوا کسی دوسری چیز کے اتباع کی حاجت نہ ہوتی تو رسول اور حکام (اولو الامر) کی اطاعت کا حکم ہی نہ دیا جاتا۔ اگر رسول اور اولو الامر کا حکم قرآنی احکام کے ماسوا کوئی شے نہ ہوتا، تب بھی بقیہ دونوں کی اطاعت کا حکم الگ دینا بے معنی تھا۔ تین چیزوں کی اطاعت کا الگ الگ حکم دینا صاف بتاتا ہے کہ قرآن میں جو احکام براہ راست اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں، ان کے علاوہ وہ احکام بھی واجب الاطاعت ہیں جو رسول اللہ دیں، اور ان کی اطاعت بعینہٖ ایسی ہے جیسی اللہ کی اطاعت،مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ النساء: 80:4 پھر ان کے ماسوا جو احکام مسلمانوں کے اولو الامر دیں ان کی اطاعت بھی لازم ہے بشرطیکہ ان کے احکام خدا اور رسول کے احکام سے اصولی مطابقت رکھتے ہوں۔ اختلاف کی صورت میں ضروری ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی دی ہوئی ہدایات کی طرف رجوع کیا جائے، فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ النساء59:4
اس سے معلوم ہوا کہ تنہا کتاب اللہ کافی نہیں ہے، اس کے ساتھ رسالت کا رشتہ ناقابل انقطاع ہے، اور احکام رسول کی اطاعت اور اسوۂ رسول کی پیروی بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح خود کتاب اللہ کے احکام کی اطاعت فرض ہے۔ جو شخص کہتا ہے کہ ہم صرف کتاب اللہ کو لیں گے اور حکم رسول و اسوۂ رسول کو نہ لیں گے وہ رسالت سے اپنا تعلق منقطع کرتا ہے وہ اس واسطے کو کاٹتا ہے جسے خود اللہ نے اپنے بندوں اور اپنی کتاب کے درمیان ایک لازمی واسطے کے طور پر قائم فرمایا ہے۔ وہ گویا یہ کہتا ہے کہ خدا کی کتاب اس کے بندوں کے لیے کافی تھی مگر خدا نے بِلا ضرورت یہ فعل ِ عبث کیا کہ کتاب کو رسول کے ذریعے سے نازل فرمایا۔ سُبْحَانَہ ٗوَ تَعَالٰی عَمَّا یَقُوْلُوْنَ۔
کتاب اللہ اور سنت رسول کا لازمی تعلق ثابت ہو جانے کے بعد اب اس سوال پر غور کیجیے کہ آیا رسول اللہ کے احکام کی اطاعت اور ان کے اسوۂ حسنہ کی پیروی صرف ان کی حیاتِ جسمانی تک ضروری تھی؟ ان کے بعد اس کی حاجت باقی نہیں رہی؟ اگر ایسا ہے تو اس کے معنی یہ ہوںگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت صرف اسی عہد کے لیے تھی جس میں آپ جسم کے ساتھ زندہ تھے۔ آپ کے رحلت فرماتے ہی آپ کی رسالت کا تعلق عملاً دنیا سے منقطع ہوگیا۔ اس صورت میں رسالت کا منصب بے معنی ہو جاتا ہے۔ رسول کاکام اگر محض ایک نامہ بر کی طرح کتاب اللہ کو پہنچا دینا تھا، اور اس سے بڑھ کر کسی اور چیز کی ضرورت نہ تھی تو ہم پھر وہی کہیں گے کہ اس صورت میں رسول کی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہ کام کوئی فرشتہ کرسکتا تھا۔ بلکہ اسے بلاواسطہ بھی کرنا ممکن تھا۔ لیکن اگر کتاب پہنچا دینے کے علاوہ بھی کسی شے کی ضرورت تھی اور اسی کے لیے اتباع کے احکام دیئے گئے تھے، اور اگر ہدایت نوع بشری کے لیے قرآن کے ساتھ رسول کی ہدایات اور سیرت نبوی کے عملی نمونے کی بھی ضرورت تھی، تو پھر یہ سب کچھ صرف تئیس چوبیس سال کے لیے ہونا کیا معنی؟ محض ایک صدی کے چوتھائی حصے کے لیے ایک رسول مبعوث کرنا اور اتنی سی مدت کے لیے رسالت کااتنا بڑا منصب قائم کرنا، اور ایک چیز کو جو رسول کے جسم و جان کا تعلق منقطع ہوتے ہی دنیا کے لیے غیر ضروری ہو جانے والی تھی، اتنی شد و مد کے ساتھ ذریعۂ ہدایت قرار دینا، یہ سب بچوں کا کھیل معلوم ہوتا ہے جو خدائے حکیم و دانا کے ہرگز شایان شان نہیں ہے۔
اس الزام کو خود اللہ نے اپنی کتاب میں دفع کر دیا ہے۔ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِيْنَo الانبیاء107:21 ظاہر ہے کہ اگر رسول اللہ کا فیضان رسالت صرف اپنے زمانے تک کے لیے ہوتا تو آپ کو رحمۃٌ للعالمین نہیں کہا جاسکتا تھا۔ اگر کہا جائے کہ آپ قرآن لائے ہیں جو ہمیشہ رہنے والا ہے اور اسی لیے آپ رحمۃ للعالمین ہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ رحمت نہ تھے بلکہ رحمت تو قرآن تھا اور آپ کو خواہ مخواہ رحمت کہہ دیا گیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو الگ رحمت فرمایا ہے اور اس کے لانے والے کو الگ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَo السبا28:34 یہ ارشاد صاف اشارہ کر رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت سے لے کر قیامت تک جن بندگان خدا پر ’’الناس‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے ان سب کے لیے آپ خدا کے رسول ہیں۔ آپ کی رسالت کسی خاص زمانے کے لیے نہیں ہے بلکہ جب تک روئے زمین پر ’’الناس‘‘ بستے ہیں اس وقت تک آپ کی رسالت قائم ہے۔ آیت میں کوئی قرینہ ایسا نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ ’’الناس‘‘ سے صرف اسی زمانے کے لوگ مراد ہیں۔ نہ ایسا کوئی خفیف سے خفیف اشارہ موجود ہے جس سے بعد کے کسی زمانے تک کی قید نکلتی ہو۔ بخلاف اس کے دوسری آیات اس تفسیر کی تائید کرتی ہیں کہ حضورؐ کی رسالت دائمی ہے۔ اللہ تعالیٰ حضورؐکے ذریعے سے دین کی تکمیل کر چکا ہے۔ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ المائدہ5:3 حضورؐ کی ذات پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًاo الاحزاب40:33 اور دوسرے انبیا کی لائی ہوئی کتابوں کے بخلاف آپ کی لائی ہوئی کتاب کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کیا گیا ہے، کیونکہ پہلی کتابیں مخصوص زمانوں کے لیے ہدایت تھیں اور یہ دائمی ہدایت ہے وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo الحجر15:9
اس سے ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت ہمیشہ کے لیے ہے اور جب ایسا ہے تو وہ تمام آیات اور احکام بھی ہمیشہ کے لیے ہیں جن میں آں حضرت کے احکام کی اطاعت فرض قرار دی گئی ہے، آپ کی ذات کو اسوۂ حسنہ بتایا گیا ہے، آپ کے اتباع کورضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ کہا گیا ہے، اور ہدایت کا دامن آپ کی پیروی کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہے۔ وَاِنْ تُطِيْعُوْہُ تَہْتَدُوْا۝۰ۭ النور54:24 رضائے الٰہی حاصل کرنے اور ہدایت پانے کی ضرورت جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عہد لوگوں کو تھی اسی طرح آج کے لوگوں کو بھی ہے،اور قیامت تک جو لوگ آئیں گے ان سب کو رہے گی۔ پس جب یہ دونوں چیزیں رسول اللہ کے اتباع اور آپ کے نمونۂ حیات کی تقلید کے ساتھ وابستہ ہیں تو لازم ہوا کہ سیرت نبوت کے وہ پاک نمونے اور زبان وحی ترجمان کے وہ مقدس احکام بھی قرآن کے ساتھ ساتھ باقی رہیں جن سے رسول اکرم کے ہم عہد لوگوں نے ہدایت پائی تھی، ورنہ بعد کی نسلوں کے لیے ہدایت ناقص رہ جائے گی۔
میں نے ’’ہدایت ناقص رہ جائے گی‘‘ کے الفاظ بہت ہی نرم استعمال کیے ہیں۔ تنزیل کتب کے ساتھ رسالت کا جو ناقابل انقطاع رشتہ اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے، اور اس باب میں اللہ تعالیٰ کی جو غیر متبدل سنت ابتدا سے چلی آرہی ہے اس کا لحاظ کرتے ہوئے تو مجھے کہنا چاہیے تھا کہ اگر اسوۂ رسول باقی نہ رہتا، اگر رسول اللہ کے احکام باقی نہ رہتے، اگر ہدایت کا وہ پاک سرچشمہ بند ہو جاتا جو رسول اللہ کی سیرت میں تھا، تو محض کتاب اللہ سے دنیا کی ہدایت ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ اس لیے کہ رسالت کے آثار مٹ جانے کے بعد کتاب اللہ کا باقی رہ جانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے رسول کے بغیر کتاب اللہ کا نازل ہونا۔ اگر کتاب کی تنزیل کے بعد آثار رسالت کے باقی رہنے کی ضرورت نہیں ہے تو سرے سے تنزیل کے لیے رسالت ہی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خدا کی حکمت پر کھلا ہوا طعن ہے۔ اور اگر تنزیل کے ساتھ رسالت کا ہونا لازم ہے تو یقیناً اس کے ساتھ آثار رسالت کا رہنا بھی لازم ہے۔ بغیر آثار رسالت کے تنہا کتاب اللہ موجب ہدایت نہیں ہوسکتی۔ اس کی وجہ آپ بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ اگر آثار رسالت محو ہو جاتے تو مسلمانوں کا حشر ان قوموں کا سا ہو جاتا جن کے پاس بجز افسانوں کے اور کچھ نہیں ہے۔ لوگ کہتے کہ جس شخص پر تمھارے قول کے مطابق یہ کتاب نازل ہوئی ہے اس کے حالات تو بتائو کہ ہم ان کو جانچ کر دیکھیں کہ آیا فی الواقع وہ رسول خدا ہونے کے قابل تھا بھی یا نہیں۔ مگر ہم انھیں کچھ نہ بتا سکتے۔ لوگ پوچھتے کہ تمھارے پاس قرآن کے دعوے کی تائید میں کون سی ایسی خارجی شہادت ہے جس سے تمھارے نبی کی نبوت ثابت ہوسکتی ہو؟ مگر ہم کو شہادت نہ پیش کرسکتے۔ ہم کو خود یہ نہ معلوم ہوسکتا کہ کب اورکن حالات میں قرآن نازل ہوا، کس طرح رسول اللہ کی شخصیت اور آپ کی پاک زندگی کو دیکھ کر لوگ فوج در فوج ایمان لائے، کس طرح آپ نے نفوس کا تزکیہ کیا، حکمت کی تعلیم دی اور آیات الٰہی کی تلاوت سے معرفت حق کا نور پھیلایا، کس طرح آپ نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں تنظیم اور اصلاح کا وہ زبردست کام انجام دیا اور شریعت کا وہ ہمہ گیر اور حکیمانہ ضابطہ بنایا جو محض انسانی عقل کے بس کاکام نہیں ہے۔ اور جو اس بات کا ناقابل انکار ثبوت ہے کہ آپ حقیقت میں اللہ کے رسول تھے۔ یہی نہیں بلکہ اگر وہ روایات نہ ہوتیں جو منکرین حدیث کے نزدیک دریا برد کر دینے کے قابل ہیں تو ہم قرآن کی سند اس کے لانے والے تک نہ پہنچا سکتے۔ ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہ ہوتا کہ یہ قرآن حقیقت میں وہی ہے اور اسی عبارت میں ہے جس میں رسول اللہ پر نازل ہوا تھا۔ ہماری اس کتاب کی وہی حیثیت رہ جاتی جو ژند، اوستا، گیتا، ویدوں اور بدھ مذہب کی کتابوں کی حیثیت ہے۔ اسی طرح ہماری مذہبی زندگی کے جتنے اعمال اور جتنے اصول و قوانین ہیں، یہ بھی سب کے سب بے سند ہو کر رہ جاتے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دوسرے اعمال جس صورت میں ادا کیے جاتے ہیں ان کے متعلق ہم نہ بتا سکتے، اور خود نہ جانتے کہ یہ سب رسول اللہ کے مقرر کیے ہوئے طریقوں پر ہیں۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ ان سب اعمال کے لیے ’’سنت متواترہ‘‘ کافی ہے۔ مگر مدون اور مستند روایات کی غیر موجودگی میں اس ’’سنتِ متواترہ‘‘ کی حیثیت بجز اس کے اور کیا ہوتی کہ اگلوں سے پچھلوں تک نسلاً بعد نسلٍ ایسا ہوتا چلا آیا ہے؟ اس قسم کی متواتر سنتیں تو ہندئووں، بودھوں اور دوسری قوموں میں بھی ہیں۔ وہ سب یہی کہتے ہیں کہ جو عبادتیں ہم کرتے ہیں اورجو رسمیں ہم میں جاری ہیں وہ بزرگوں سے یونہی چلی آرہی ہیں۔ مگر کیا آج ان کی سنت متواترہ پر دنیا اور خود ان قوموں کے روشن خیال لوگوں میں یہ شبہ نہیں کیا جاتا کہ خدا جانے ان طریقوں کی اصل کیا تھی اور امتدادِ زمانہ کے ساتھ وہ کس طرح بدلتے چلے گئے؟ کیا ان تمام طریقوں پر آج رسوم پرستی کی پھبتی نہیں اڑائی جاتی؟ اگر کوئی شخص ان میں تغیر کرکے کوئی نئی بدعت ایجاد کرنا چاہے تو کیا ان کے پاس اس بدعت کے خلاف کوئی حجت بجز اس ایک دلیل کے موجود ہے کہ جو کچھ باپ دادا کرتے چلے آرہے ہیں اس میں تغیر نہیں ہوسکتا؟ پھر اگر منکرین حدیث کی خواہش کے مطابق ہمارے ہاں بھی ایسی مسلسل، مستند اور مرتب روایات نہ ہوتیں جو ہمارے عہد سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک ہر واقعہ یا ہر قول کی سند بہم پہنچا دیتی ہیں اور اگر ہمارے پاس بھی صرف عمل متواتر ہی باقی رہ جاتا، جس کو ’’حق گو‘‘ صاحب ’’سنت ِ متواترہ‘‘ سے تعبیر فرماتے ہیں، تو ہمارے مذہبی اعمال اور معتقدات کا حال ان طریقوں اور ان اوہام سے کچھ مختلف نہ ہوتا جو ہندئووں اور دوسری قوموں میں پائے جاتے ہیں اور جن کو ’’رسوم‘‘ اور ‘‘مذہبی افسانوں‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ۱؎ غور کیجیے، یہ اسلام کے لیے قوت اور استحکام کا سبب ہونا یا کمزوری و نا استواری کا سبب؟
اس بحث سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ کتاب اللہ کے ساتھ سنت رسول کا رہنا قطعاً ضروری اور ناگزیر ہے۔
اب اس سوال کی طرف آئیے کہ سنت رسول کے ہم تک پہنچنے کی صورت کیا ہے اور کیا ہوسکتی ہے؟ یہ بالکل ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد سے رحلت تک تقریباً ربع صدی کا جو زمانہ بسر کیا۔ وہ محض قرآن پڑھنے اور سنانے ہی میں بسر نہیں ہوا ہوگا، بلکہ آپ تلاوت آیات کے علاوہ بھی شب و روز اپنے دین کی تبلیغ فرماتے رہتے ہوں گے، گمراہ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش بھی فرماتے ہوں گے۔ ایمان لانے والوں کو تعلیم بھی دیتے ہوں گے، اور اپنی عبادات، اپنے اخلاق، اور اپنے اعمال حسنہ کا نمونہ پیش کرکے لوگوں کی تربیت اور اصلاح کرنے میں مشغول رہتے ہوں گے۔ خود قرآن میں فرمایا گیا ہے يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَo البقرہ151:2 نیز قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ معلمانہ زندگی ایسی شدید مصروفیت میں بسر ہوتی تھی کہ آپ کو اپنے آرام کا ذرّہ برابر خیال نہ تھا، ہر لمحہ یا تو عبادات میں بسر ہوتا تھا، یا وعظ و نصیحت اور تعلیم حکمت اور تزکیہ نفوس میں۔ حتیٰ کہ بار بار اللہ تعالیٰ آپ سے فرماتا تھا کہ آپ اس قدر محنت کیوں کرتے ہیں؟ اپنے آپ کو ہلاک کیوں کیے ڈالتے ہیں؟
اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسی سرگرم مبلغانہ زندگی میں آیات قرآنی کے سوا کوئی بات بھی آپ کی زبان سے ایسی نہ نکلتی تھی جو یاد رکھنے اور بیان کرنے کے قابل ہوتی؟ کوئی کام بھی آپ کی زندگی کا ایسا نہ تھا جس کو لوگ اپنے لیے نمونہ سمجھتے، اور دوسروں کو اس پاکیزہ نمونے کی تقلید کا مشورہ دیتے؟ آپ کے اقوال و اعمال کے متعلق تو اہل ایمان کا اعتقاد تھا اور قرآن نے بھی ان کو یہی اعتقاد رکھنے کا حکم دیا تھا کہ آپ کا ہر ارشاد برحق ہے، وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo النجم53:3 اور آپ کا ہر عمل واجب التقلید ہے، لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اَسْوَۃٌ حَسَنۃٌ ظاہر ہے کہ یہ اعتقاد رکھتے ہوئے تو مسلمان یقیناً آ ں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ارشاد کو دل سے سنتے ہوں گے، ہر عمل پر نگاہ رکھتے ہوں گے، اور آپس میں ایک دوسرے کے سامنے حضورؐ کے اقوال و اعمال کے چرچے کرتے ہوں گے۔ جہاں رسالت اور کسی قسم کے تقدس کا اعتقاد نہیں ہوتا وہاں بھی بڑے لوگوں کی باتوں اور حرکات و سکنات پر لوگ نظر رکھتے ہیں۔ اور ان کے اقوال و اعمال کے چرچے کیا کرتے ہیں پھر کیوں کر ممکن تھا کہ صحابہ کرام جس مقدس انسان کو خدا کا رسول اور اسلام کا مکمل نمونہ سمجھتے تھے اس سے صرف قرآن لے لیتے اور اس کے دوسرے تمام ارشادات اور اس کے تمام اعمال کی طرف سے کان اور آنکھیں بند کرلیتے۔
اس زمانے میں فوٹو گرافی کے آلات نہ تھے کہ آنحضرت کی تمام حرکات و سکنات کے فلم لے لیے جاتے۔ نہ آواز بھرنے کے آلات تھے کہ آپ کی تقریروں کے ریکارڈ بھر کر رکھ لیے جاتے۔ نہ مکہ و مدینہ سے اخبارات نکلتے تھے کہ روزانہ آپ کی تبلیغی سرگرمیوں اور آپ کے اعمال حیات کی رپورٹیں شائع ہوتیں۔ ضبط اور نقل کا ذریعہ جو کچھ بھی تھا وہ لوگوں کا حافظہ اور زبانیں تھیں۔ قدیم زمانے میں نہ صرف عرب بلکہ تمام قوموں کے پاس واقعات کو محفوظ رکھنے اور بعد کی نسلوں تک پہنچانے کا یہی ایک ذریعہ تھا۔ مگر عرب خصوصیت کے ساتھ اپنے حافظے اور صحتِ نقل میں ممتاز تھے اور ان کی یہ خصوصیت ایسی تھی کہ شاید ہمارے ’’حق گو‘‘ صاحب کے فون کریمر کو بھی اس سے انکار نہ ہو۔ جو قوم ایام العرب، کلام جاہلیت، انساب قبائل حتیٰ کہ اونٹوں اور گھوڑوں تک کے نسب نامے یاد کرتی ہو اور اپنی اولاد کو یاد کراتی ہو، اس سے بعید تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم الشان شخصیت کے حالات اور آپ کے ارشادات کو یاد نہ رکھتی اور آنے والی نسلوں تک انھیں منتقل نہ کرتی۔
پھر جب آنحضرت صلعم کا وصال ہوا تو فطری بات تھی کہ لوگوں میں آپ کے احوال و اقوال کی جستجو اور زیادہ بڑھ جاتی۔ جو لوگ حضورؐ کی زیارت اور صحبت سے محروم رہ گئے تھے ان میں یہ شوق پیدا ہونا بالکل فطری امر تھا کہ آپ کے صحبت یافتہ بزرگوں سے آپؐ کے ارشادات اور آپؐ کے حالات پوچھیں۔ ہم خود دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی پیر مرد ایسا نکل آتا ہے جس نے پچھلی صدی کے اکابر میں سے کسی نامور بڑے شخص کی صحبت پائی ہو تو لوگ اس کے پاس جاتے ہیں اور ان کے حالات دریافت کرتے ہیں ہمارے ایک دوست نے شمالی ہندوستان سے حیدر آباد کا سفر اس غرض کے لیے کیا کہ اگر کوئی پرانا آدمی ایسا مل جائے جس نے سید جمال الدین افغانی کی صحبت پائی ہو تو اس سے سید صاحب کے حالات معلوم کریں۔ یہ معاملہ جب معمولی انسانوں کے ساتھ پیش آتا ہے تو کیا یہ ممکن تھا کہ خدا کے سب سے بڑے پیغمبرؐ اور دنیا کے سب سے بڑے معلمؐ کی وفات کے بعد مسلمانوں میں اس کے حالات پوچھنے اور اس کے ارشادات سے مستفید ہونے کی کوئی خواہش نہ ہوتی؟ کیا تاریخ کے ان واقعات میں کوئی استبعاد ہے کہ لوگ جہاں کسی صحابی کی خبر پالیتے وہاں سینکڑوں میل سے سفر کرکے جاتے اور آنحضرت صلعم کے حالات پوچھتے؟ یہی معاملہ یقیناً صحابہ کے بعد تابعین کے ساتھ پیش آیا ہوگا۔ کم از کم دو صدی تک سماعت حدیث اور نقل حدیث کا غیر معمولی شغف مسلمانوں میں پایا جانا یقینی ہے اور یہ بات نہ صرف قیاس کے عین مطابق ہے، بلکہ تاریخ بھی اس کی شہادت دیتی ہے۔ منکرین حدیث قیاس عقلی سے تو کام ہی نہیں لیتے۔ رہی تاریخ، تو وہ اس کے صرف اس حصے کو مانتے ہیں جس سے انکار حدیث کے لیے مواد مل سکتا ہو۔ اس کے سوا تاریخ کی جتنی شہادتیں ہیں سب ان کے نزدیک نامعتبر ہیں۔ لیکن جن لوگوں میں انکار حدیث کے لیے ضد پیدا نہیں ہوئی ہے وہ یقیناً اس بات کو تسلیم کرلیں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبردست شخصیت اور آپ کی تابناک پیغمبرانہ زندگی اتنی ناقابل اعتنا تو نہ تھی کہ مسلمانوں میں کم از کم دو سو برس تک بھی آپ کے حالات معلوم کرنے اور آپ کے ارشادات سننے کا عام شوق نہ رہتا۔ اس سے انکار کرنے کے دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ قرون اولیٰ کے لوگوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی اثر نہ تھا، اور وہ لوگ بھی آپ کی جانب کوئی توجہ نہ رکھتے تھے جو آپ کی رسالت کے قائل ہو چکے تھے۔ منکرین حدیث کو اختیار ہے کہ رسول کی ذات اور ان لوگوں کے متعلق جو آپ سے قریب تر تھے یہ یا اس سے بھی زیادہ بُری کوئی رائے قائم کر لیں۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی مسلمان تو کجا، اسلامی تاریخ اور اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرنے والا کوئی منصف مزاج غیر مسلم بھی اس رائے کو صحیح باور نہ کرے گا۔
اس میں شک نہیں کہ عہد رسالت سے دُور ہونے کے بعد مسلمانوں میں بیرونی اثرات بھی داخل ہونے لگے تھے، اور یہ اثرات بیشتر وہ لوگ اپنے ساتھ لائے تھے جنھوں نے عراق، ایران، شام اور مصر میں مذہب اسلام قبول تو کرلیا تھا مگر قدیم مذاہب کے تخیلات ان کے ذہن سے محو نہ ہوئے تھے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ مسلمانوں میں ایک گروہ ایسا بھی پیدا ہوگیا تھا جو اپنے دل سے گھڑ کر باتیں نکالتا تھا اور محض لوگوں پر اثر قائم کرنے کے لیے ان باتوں کو رسول اللہؐ کی طرف منسوب کر دیتا تھا۔ یہ دونوں باتیں تاریخ سے بھی ثابت ہیں اور قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ ایسا ضرور ہوا ہوگا۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کیا درست ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں میں سب کے سب ایسے ہی لوگ تھے؟ سب جھوٹے اور بے ایمان تھے؟ سب ایسے منافق تھے کہ اسی ہستی پر بہتان گھڑتے جس کی رسالت پر وہ دن بھر میں کم از کم پانچ مرتبہ گواہی دیا کرتے تھے؟ سب ایسے دشمن حق تھے کہ دنیا بھر کی خرافات لے کر رسول کے نام سے خدا کے دین میں داخل کرتے اور اس کی جڑیں کاٹتے؟ یہ نتیجہ نہ عقلاً نکالا جاسکتا ہے اور نہ تاریخ اس کی تائید کرتی ہے اور جب یہ صحیح نہیں ہے تو صداقت کے ساتھ صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی صدی کے آخر سے حدیث کے ذخیرے میں ایک حصہ ایسی روایات کا بھی داخل ہونے لگا تھا جو موضوع تھیں، اور یہ کہ بعد کی نسلوں کو جو احادیث پہنچی ہیں ان میں صحیح اور غلط اور مشکوک سب قسم کی حدیثیں ملی جلی تھیں۔
کھرے اور کھوٹے کی اس آمیزش کے بعد صحیح طریق کار کیا تھا؟ کیا یہ صحیح ہوسکتا تھا کہ آمیزش کی بنا پر صحیح اور غلط سب کو ایک ساتھ رد کر دیا جاتا، اور بعد کے مسلمان رسالت سے اپنا تعلق منقطع کرلیتے؟ منکرین حدیث اس کو ایک آسان بات سمجھتے ہیں۔ مگر جو لوگ قرآن پر ایمان رکھتے تھے اور رسول اللہ کی ذات کو اسوۂ حسنہ سمجھتے تھے، اور جن کے نزدیک حضورؐ کی پیروی کے بغیر ہدایت کا میسر ہونا ممکن نہ تھا، ان کے لیے ایسا کرنا بہت دشوار تھا… اتنا دشوار جتنا کسی کے لیے بہ رضا و رغبت آگ میں کود پڑنا ہوسکتا ہے۔ انھوں نے سب کو رد کر دینے کی بہ نسبت پہاڑ کھود کر جواہر نکالنے کی مشقت کو زیادہ آسان سمجھا۔ رسالت سے اپنا اور مسلمانوں کا تعلق برقرار رکھنے کے لیے شب و روز محنتیں کیں۔ حدیثوں کو جانچنے اور پرکھنے کے اصول بنائے۔ کھرے کو کھوٹے سے ممتاز کیا۔ ایک طرف اصول روایت کے اعتبار سے حدیثوں کی تنقیح کی، دوسری طرف ہزاروں لاکھوں راویوں کے احوال کی جانچ پڑتال کی۔ تیسری طرف درایت کے اعتبار سے حدیثوں پر نقد کیا۔ اور اس طرح سنت رسول کے متعلق ان لوگوں نے ایک ایسا ذخیرہ فراہم کر دیا جس کے برابر مستند اور معتبر ذخیرہ آج دنیا میں گذشتہ زمانے کے کسی شخص اور کسی عہد کے متعلق موجود نہیں ہے۔ منکرین حدیث کو آزادی ہے کہ ان کی ساری محنتوں پر بہ یک جنبش قلم پانی پھیر دیں۔ منکرین حدیث کو اختیار ہے کہ دین کے ان سچے خادموں کو وضاعِ حدیث، پروردگان عجم، زلہ ربان بنی امیہ و بنی عباس۱؎ اور جو کچھ چاہیں کہیں۔ لیکن حق یہ ہے کہ مسلمانوں پر ان محدثین کا اتنا بڑا احسان ہے کہ وہ قیامت تک اس بار سے سبکدوش نہیں ہوسکتے ۔ اللہ ان کی قبروں کو نور سے بھر دے، یہ انھی عاشقان رسولؐ کی محنتوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے پاس رسول اکرم اور صحابہ کرام کے عہد کی پوری تاریخ اپنے جزئیات کے ساتھ موجود ہے اور وہ رسائل بھی ہمارے پاس موجود ہیں جن سے ہم حدیث کے ذخیرے کی جانچ پڑتال کرکے آج بھی واقعات کی صحیح صحیح تحقیق کرسکتے ہیں۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ بجز متواتر روایات کے (جو بہت کم ہیں) باقی جتنی احادیث ہیں یقینی نہیں ہیں، ان سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا، بلکہ زیادہ سے زیادہ ظن غالب حاصل ہوتا ہے، پھر ایسی چیزوں پر مذہب کا مدار رکھنا کیا معنی؟ ہم کہتے ہیں کہ مشاہدۂ عینی اور تجربۂ حسی کے سوا دنیا میں کوئی ذریعہ بھی ایسا نہیں ہے جو مفید ہوسکتا ہو۔ تواتر کو بھی محض اس قیاس کی بنا پر یقینی سمجھا جاتا ہے کہ بہت سے آدمیوں کا جھوٹ پر متفق ہو جانا مستبعد ہے۔ لیکن خبر متواتر کے لیے جو شرائط ہیں وہ بہت کم ایسی خبروں میں پائی جاتی ہیں جن پر تواتر کا گمان ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر امور غیب میں خواہ وہ زمانہ ماضی سے تعلق رکھتے ہوں یا حال سے، ہمارے علم اور ہمارے فیصلوں کا مدار اسی ظن غالب پر ہے جو کم از کم دو شہادتوں سے حاصل ہوتا ہے۔ خود قرآن نے اسی ظنی شہادت کو اتنا معتبر قرار دیا ہے کہ اس کی بنا پر ایک مسلمان کا خون مباح ہوسکتا ہے۔ حالانکہ قرآن کی رُو سے مسلمان کا خون اتنا محترم ہے کہ جو کوئی مسلمان کو عمداً قتل کر دے اسے خلو د فی النار کی سزا دی جائے گی۔ اسی طرح زنا، قذف اور سرقہ کی حدُود میں بھی ایسے اہم فیصلہ جات کا مدار صرف دو یا چار شہادتوں پر رکھا گیا ہے جن سے ایک مسلمان کا ہاتھ کاٹ دیا جاسکتا ہے، یا ایک مسلمان کی پیٹھ پر کوڑے برسائے جاسکتے ہیں۔ پس جب قرآن مجید میں غیر متواتر شہادتوں ہی پر پورے نظام عدل کی بنیاد رکھی گئی ہے تو قرآن کے مقابلے میں کس مسلمان کو یہ کہنے کی جرأت ہوسکتی ہے کہ کسی حدیث کو حدیث رسول مان لینے کے لیے ہر مرتبہ اسناد میں دو چار راویوں کا ہونا کافی نہیں ہے؟ البتہ راویوں میں سے ہم ہر راوی پر اعتماد نہ کریں گے، جس طرح شاہدوں میں سے ہر شاہد کا اعتبار نہیں کرتے۔ ہم حکم قرآن کے بموجب ذَوَاعَدْلٍ کی شرط لگاتے ہیں اور اسی کی تحقیق کے لیے اسماء الرجال کا فن ایجاد کیا گیا، تاکہ راویوں کے حالات کی تحقیق کی جائے۔ اسی طرح ہم راویوں پر جرح بھی کریں گے کہ حدیث کے جوہری نکات میں ان کے درمیان ایسا اختلاف تو نہیں ہے جو ان کے بیان کی صحت کو مشکوک کر دیتا ہو؟ اسی طرح ہم درایت سے بھی کام لیں گے جیسے ایک جج مقدمات میں درایت سے کام لیتا ہے۔۱؎ مگر جس طرح شاہدوں کے بیانات کا جانچنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے، اسی طرح درایت بھی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ حدیث کو اصول درایت پر وہی شخص جانچ سکتا ہے جس نے قرآن کا علم حاصل کرکے اسلام کے اصول اولیہ کو خوب سمجھ لیا ہو، اور جس نے حدیث کے بیشتر ذخیرے کا گہرا مطالعہ کرکے احادیث کو پرکھنے کی نظر بہم پہنچائی ہو۔ کثرت مطالعہ اور ممارست سے انسان میں ایسا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج شناس ہو جاتا ہے اور اسلام کی صحیح روح اس کے دل و دماغ میں بس جاتی ہے۔ پھر وہ ایک حدیث کو دیکھ کر اول نظر میں سمجھ لیتا ہے کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فرما سکتے تھے یا نہیں؟ یا آپ کا عمل ایسا ہوسکتا تھا یا نہیں؟ پھر جس طرح ایک معاملے میں دو قاضیوں کا اجتہاد مختلف ہوتا ہے اور جس طرح قرآن مجید کے معانی میں دو فاضلوں کی تفسیریں مختلف ہوسکتی ہیں، اسی طرح دو محدثوں کی درایت میں بھی اختلاف ممکن ہے۔ خدا نے ہم کو انسانی طاقت سے زیادہ کسی چیز کا مکلف قرار نہیں دیا ہے۔ اختلاف رائے انسانی فطرت کا مقتضیٰ ہے، اور اس کی وجہ سے نہ قرآن چھوڑا جاسکتا ہے، نہ حدیث، اور نہ عدالت کی کرسی۔ پس ایک حدیث کے متعلق جس حد تک تحقیق انسان کے بس میں ہے، اس کا سامان محدثین نے فراہم کر دیا ہے۔ ہمارا کام اس سامان سے فائدہ اٹھا کر صحیح کو غلط سے ممتاز کرنا اور صحیح کا اتباع کرنا ہے۔ نہ یہ کہ صحیح و غلط کے اختلاط کو دیکھ کر سرے سے رسالت ہی سے قطع تعلق کر لینا۔
منکرین حدیث کہتے ہیں کہ ہم حدیث کو صرف تاریخ کی حیثیت سے لیں گے‘ حجت شرعی نہ بنائیں گے۔ مگر کیا ان حضرات نے رسول کی تاریخ کو سکندر اور نپولین کی تاریخ سمجھا ہے کہ اس کے صحیح ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو؟ کیا وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ یہ اس انسان کی تاریخ ہے جس کا اتباع فرض ہے، جس کی اطاعت پر نجات کا مدار ہے، جس کی سیرت مسلمانوں کے لیے اسوۂ حسنہ ہے؟ اس ذات پاک کی تاریخ دو حال سے خالی نہیں ہوسکتی، یا صحیح ہوگی یا غلط۔ اگر غلط ہے تو اس کو لینا کیا معنی نذر آتش کر دیجیے۔ رسول پر بہتان اور آپ اس کو تاریخ کی حیثیت سے قبول کریں؟ اور اگر وہ صحیح ہے تو اس کا اتباع فرض ہے۔ مسلمان ہوتے ہوئے اس کی پیروی سے آپ بچ کہاں سکتے ہیں؟
منکرین حدیث کے مقالات پر نظر کرتے ہوئے انکار حدیث کے دو وجوہ قرار دیے جاسکتے ہیں۔
ایک یہ کہ اسلام کے نظام دینی میں سرے سے حدیث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ صرف قرآن کافی ہے۔
دوسرے یہ کہ احادیث ناقابلِ اعتبار ہیں۔
ان میں سے پہلی وجہ کا جواب پہلے دیا جاچکا ہے۔ رہی دوسری وجہ، تو اس کی غلطی بھی اشارۃً گزشتہ صفحات میں ظاہر کی جاچکی ہے۔ لیکن ضرورت ہے کہ اس شبہے کو بھی تفصیل کے ساتھ رفع کر دیا جائے۔ احادیث کو ناقابل اعتبار سمجھنے کی اصل وجہ وہم اور شک کا حد سے زیادہ بڑھ جانا ہے۔ انسان کی فطرت میں شک کا مادہ اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ بحث و تحقیق اور تلاش و تجسس کے لیے محرک ہو اور حقیقت کی جستجو پر انسان کو ابھارے۔ لیکن ہر چیز کے لیے ایک حد ہوتی ہے جس سے گھٹنے یا بڑھ جانے پر وہ مستحسن نہیں رہتی۔ شک کا مادہ اگر اتنا بڑھ جائے کہ وہ تحقیق کے ان طریقوں سے جو انسان کے امکان میں ہیں، اس کو مطمئن نہ ہونے دے اور ان تمام باتوں سے انکار پر آمادہ کر دے جو تحقیق کے ایک غیر ممکن الحصول معیار پر پوری نہ اترتی ہوں تو یہ بھی ایک مذموم صفت ہے جس کو ہم اردو زبان میں ’’وہمی پن‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ انسان اکثر و بیشتر معاملات میں صرف اس تحقیق پر اعتماد کرنے کے لیے مجبور ہے جس سے ظن غالب حاصل ہوتا ہے۔ اگر وہ اس تحقیق میں شک کرے، اور علم یقین کے بغیر ہر بات کو ماننے سے انکار کر دے تو وہ دنیا کے کام کا نہ رہے گا بلکہ شاید زندہ بھی نہ رہ سکے گا۔ مثال کے طور پر میں نے آج تک کبھی کسی شخص کو سانپ کے کاٹے سے مرتے ہوئے نہیں دیکھا، نہ مجھے سانپ نے کاٹا کہ اس کے مہلک ہونے کا مجھے علم یقین حاصل ہوتا۔ میں نے صرف لوگوں سے یہ سنا ہے کہ جب سانپ کاٹتا ہے تو انسان مر جاتا ہے۔ میں اس روایت پر یقین رکھتا ہوں، اور سانپ کو دیکھ کر اس سے بچ جاتا ہوں۔ لیکن اگر میں اس روایت میں شک کروں اور کہوں کہ جب تک سانپ میرے سامنے کسی کو نہ کاٹے اور اسی کی تاثیر سے وہ میرے سامنے مر نہ جائے یا جب تک سانپ خود مجھ کو نہ کاٹے اور میں اس کے زہر سے نہ مر جائوں، اس وقت تک میں یقین نہ کروں گا کہ سانپ مہلک ہوتا ہے، تو میرے اس شک کا جو کچھ انجام ہوگا وہ ظاہر ہے۔
یہ تو خیر روایت متواترہ کی مثال ہے جس کے مفید ِ یقین ہونے کو عموماً تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن ہماری زندگی کے بے شمار معاملات ایسے ہیں جن میں ہم اخبار احاد (یعنی ایک دو راویوں کی دی ہوئی خبروں) کو تسلیم کرتے ہیں، اور انھی پر اپنے فیصلوں اور اپنے علم و عمل کا مدار رکھتے ہیں۔ محض خبر ہونے کی حیثیت سے ہر خبر میں سچ اور جھوٹ ہونے کا یکساں احتمال ہوتا ہے، مگر ہم ان دونوں پہلوئوں میں سے ایک کو ترجیح دینے کے لیے محض خبر کے ہونے ہی پر نظر نہیں رکھتے، بلکہ عموماً خارجی قرائن سے مدد لے کر صدق یا کذب کے کسی ایک پہلو کو ترجیح دیتے ہیں، اور بسا اوقات ہماری یہ ترجیح اتنی زیادہ قوی ہوتی ہے کہ دوسرے پہلو کے امکان کو بھی تسلیم کرنے کے لیے ہم تیار نہیں ہوتے۔ مثلاً ہر شخص کو یہ بات کہ وہ اپنے باپ کی جائز اولاد ہے صرف اپنی ماں کی روایت سے معلوم ہوتی ہے۔ اس خبر واحد میں جس کے لیے کوئی دوسرا شاہد سرے سے مل ہی نہیں سکتا، نفس خبر ہونے کی حیثیت سے صدق و کذب کا یکساں احتمال ہے۔ لیکن کوئی شریف آدمی اس میں کذب کے پہلو کو ترجیح دینا تو درکنار کسی درجے میں بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوگا خواہ واقعہ کے اعتبار سے اس کا اپنی ماں کے بیان پر یقین کرنا درست نہ ہو۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کا تعلق جذبات سے ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جہاں جذبات کا دخل نہیں ہوتا وہاں بھی ہم اسی طرح اخبار احاد کی امکانی جانچ پڑتال کرکے صدق و کذب کے دونوں پہلوئوں میں سے ایک کو ترجیح دیتے ہیں، اور اگرچہ اس ترجیح سے صرف ظن غالب حاصل ہوتا ہے، لیکن اس ظن پر ہم اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح علم یقین حاصل ہونے کی صورت میں کرتے۔ ہماری زندگی کے معاملات میں سب سے زیادہ اور اہم اور نازک معاملہ عدالت کا ہے جس میں جذبات کا ذرّہ برابر دخل نہیں، بلکہ خالص اور ٹھوس عقلی امتحان پر احکام کی بنا رکھی جاتی ہے۔ قاضی یا جج کے سامنے جتنے معاملات پیش ہوتے ہیں ان سب کا تعلق گزرے ہوئے واقعات سے ہوتا ہے اور بہت کم واقعات بلکہ شاذ و نادر ایسے ہوتے ہیں جن میں شہادتیں تواتر کی حد کو پہنچتی ہوں۔ بیشتر معاملات میں جج کے سامنے صرف ’’اخبار احاد‘‘ پیش ہوتی ہیں جنھیں وہ جرح و تعدیل، قرائن و آثار، اور قیاس عقلی کی کسوٹی پر کس کر سچ اور جھوٹ کے امکانی پہلوئوں میں سے کسی ایک پہلو کو راجح قرار دیتا ہے۔ اور جب کوئی پہلو راجح ہو جاتا ہے تو اس پر وہ اس طرح فیصلہ کرتا ہے جیسے اس کے نزدیک واقعہ یقین کی حد تک ثابت ہوگیا ہے۔ اگر کوئی جج ہر شاہد کو جھوٹا اور ہر شہادت کو غلط فرض کرکے اپنا کام شروع کرے، اور ہر واقعہ کو تسلیم کرنے کے لیے اس بات پر اصرار کرے کہ یا تو واقعہ خود اس کی آنکھوں کے سامنے پیش آئے، یا متواتر روایات اس تک پہنچیں، تو یقیناً چند ہی ساعتوں میں اس کو عدالت کی کرسی چھوڑ دینی پڑے گی۔
اسی طرح تجارت، تدبیر سلطنت اور دوسرے دنیوی کاروبار میں بھی رات دن اخبار احاد پر ہمارے معاملات چلتے ہیں بلکہ بہت سی خبریں تو ہم کوتار اور اخبارات کے ذریعے سے ملتی ہیں جن کی صحت میں عقلاً بہت سے شکوک و شبہات کی گنجائش نکلتی ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ جس شخص نے ہم کو تار دیا ہے وہ درحقیقت وہی شخص ہے جس کا نام تار پر لکھا ہوا ہے۔ اور اگر تار فی الواقع اسی کا دیا ہوا ہے تب بھی ہم کو نہیں معلوم کہ جو خبر وہ دے رہا ہے وہ اسے کس ذریعے سے معلوم ہوئی؟ اور اس کا ذریعہ معتبر ہے یا نہیں؟ اس قسم کے بہت سے احتمالات ہر تارکی خبر میں ہوتے ہیں۔ لیکن جب لوگوں کا سارا کاروبار انھی خبروں پر چلتا ہے وہ ان احتمالات کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں۔ محض ظاہری قرائن سے یہ جانچ لیتے ہیں کہ تار انھی کے ایجنٹ کا دیا ہوا ہے یا نہیں، اور جب ایک ظن غالب ان کو حاصل ہو جاتا ہے تو اس پر اپنے لاکھوں روپے لگا دیتے ہیں۔
یہی صورت مذہبی معاملات میں بھی ہے۔ سب سے بڑی چیز جس پر ہمارے ایمان کا مدار ہے قرآن مجید ہے۔ اس کتاب کا کلام الٰہی ہونا ہم کو صرف ایک گواہ کی شہادت سے معلوم ہوا ہے اور وہ گواہ ذات رسالت پناہ ہے۔ نفس خبر ہونے کے لحاظ سے اس میں بھی صدق و کذب کا احتمال ہے۔ لیکن خبر جس گواہ نے دی ہے اس کی راست بازی، دیانت اور پاکیزہ سیرت کو دیکھ کر اور جو خبر اس نے دی ہے اس کی معقولیت اور حقانیت کا لحاظ کرکے ہم کذب کے پہلو پر صدق کے پہلو کو راجح قرار دیتے ہیں، اور پھر یہی ترجیح ایمان بن کر ہمارے قلب میں ایسی راسخ ہو جاتی ہے کہ کذب کا تصور تک آنے نہیں پاتا۔ لیکن دوسری طرف بہت سے لوگ ہیں جنھیں اس شاہد امین کی شہادت میں شک ہے، اور اسی شک کی بنا پر وہ اس کی تصدیق سے انکار کر رہے ہیں۔ ہم میں اور ان میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ ہم نے ایک راست باز گواہ کی گواہی کو تسلیم کیا اور مسلمان ہوگئے۔ انھوں نے اس کی گواہی میں شک کیا اور کفر میں مبتلا ہوگئے۔ ورنہ یہ ظاہر ہے کہ وحی اترتے ہوئے نہ ہم نے دیکھی اور نہ انھوں نے۔
ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بالعموم اوسط درجے کے انسان اپنی زندگی کے معاملات میں نہ اتنے ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں کہ ہر خبر کو بلاتحقیق و تفتیش قبول کرلیں، اور نہ اتنے شکی اور وہمی ہوتے ہیں کہ ہر خبر کی صحت اور ہر راوی کی صداقت میں شبہ کریں اور ہر معاملے میں رائے قائم کرنے کے لیے اس علم یقین کا مطالبہ کریں جو صرف تجربے و مشاہدے یا روایت متواترہ سے حاصل ہوتا ہے۔ ان دونوں انتہائوں کے درمیان عقل سلیم اور معتدل فطرت رکھنے والے انسانوں کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ خبروں اور روایتوں کو امکانی ذرائع تحقیق سے کام لے کر جانچتے ہیں، اور اس جانچ پڑتال میں اگر ان کے غلط ہونے کا گمان غالب (نہ کہ یقین) ہوتا ہے تو انھیں رد کر دیتے ہیں، اور اگر ان کے صحیح ہونے کا گمان غالب (نہ کہ یقین) حاصل ہو جاتا ہے تو ان کو قبول کرکے انھیں کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ تحقیق اور جانچ پڑتال کا معیار بھی تمام خبروں کے لیے یکساں نہیں ہوتا بلکہ اس کے سخت اور نرم ہونے کا انحصار خبر کی نوعیت اور اس معاملے کی اہمیت پر ہوتا ہے جس سے اس خبر کا تعلق ہو۔
یہ تو اس مسئلے کی علمی حیثیت تھی۔ اب اگر آپ عقلی حیثیت سے بھی غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہی اعتدال کا طریقہ عین مطابق عقل ہے۔ اور اس کے خلاف ضعیف الاعتقادی اور وہمی پن دونوں خلاف عقل ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ عقل کے نزدیک ہر واقعہ میں شک کرنا ممکن ہے، حتیٰ کہ محسوسات اور مشاہدات تک میں بھی شک کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ لازم نہیں کہ ہر فعل جو کیا جاسکتا ہو اس کا کرنا عقل کے نزدیک درست اور احسن بھی ہو۔ مزید برآں عقل ہر خبر کے متعلق صرف یہ حکم لگاتی ہے کہ اس میں صدق اورکذب کا یکساں احتمال ہے؟ یعنی محض خبر ہونے کی حیثیت سے وہ سچ اور جھوٹ ہونے کا مساوی امکان رکھتی ہے اور جب تک کوئی معقول وجہ کسی ایک پہلو کو ترجیح دینے کے لیے موجود نہ ہو کسی خبر کو نہ سچ کہا جاسکتا ہے اور نہ جھوٹ۔ لیکن کوئی خبر ہم کو محض خبر ہونے کی حیثیت سے نہیں پہنچتی، بلکہ اس کے ساتھ لازماً بہت سے ایسے قرائن بھی ہوتے ہیں جن سے تصدیق یا تکذیب کی جانب پلڑا ضرور جھکتا ہے۔ خالص شک کا مقام یعنی جہاں نہ تصدیق ہو اور نہ تکذیب، ایک ایسا باریک مقام ہے کہ انسان کا ذہن چند لمحے بھی اس پر نہیں ٹھیر سکتا۔ اس لیے ہر خبر کو سنتے ہی ذہن فوراً ایسے وجوہ تلاش کرنے لگتا ہے جن سے مدد لے کر وہ شک کے مقام سے تصدیق یا تکذیب کی طرف پھر جائے۔ پھر یہ بات بالکل ذہن کے سلیم یا مریض ہونے پر موقوف ہے کہ وہ ان دونوں پہلوئوں میں سے کسی پہلو کو معقول وجوہ کے ساتھ ترجیح دیتا ہے یا غیر معقول وجوہ کے ساتھ۔ کسی خبر کا متواتر نہ ہونا، یا خبر واحد ہونا عقلاً اس کے لیے ہرگز کافی نہیں ہے کہ مجرد اسی بنیاد پر اس کے غلط ہونے کا حکم لگا دیا جائے۔ نہ یہ بات کسی خبر کو جھوٹ قرار دینے کے لیے کافی اور معقول وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ بہت قدیم زمانے سے متعلق ہے اور ہم تک بہت سے واسطوں سے پہنچی ہے، نہ کوئی صاحب عقل آدمی یہ فرض کرسکتا ہے کہ ہر مخبر جھوٹا ہوتا ہے اور دنیا کے تمام مخبر آپس میں متفق ہو کر جھوٹی خبریں دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس قسم کے تمام مفروضات جو تکذیبی ذہنیت سے دیکھنے والوں کے دل و دماغ پر مسلط ہو جاتے ہیں اور جن کی بنا پر وہ ہر خبر کی تکذیب کی طرف مائل ہو جایا کرتے ہیں، قطعاً خلاف عقل ہیں اور اسی طرح اس کے برعکس جن مفروضات کی بنا پر ہر خبر اور ہر مخبر کی تصدیق کی جاتی ہے وہ بھی عقل کے مطابق نہیں ہیں۔ ان دونوں انتہائوں کے درمیان صحیح راستہ جو ایک سلیم الفطرت ذہن اختیار کرے گا وہ یہی ہے کہ وہ مجموعاً تمام خبروں کی نہ تصدیق کرے گا اور نہ تکذیب، بلکہ وہ ہر خبرکو فرداً فرداً لے کر اس کے مخصوص حالات کے لحاظ سے تحقیق و تفتیش کے ایک خاص معیار پر جانچے گا، اور جب اس تحقیق کے ذریعے سے صدق و کذب کے دونوں پہلوئوں میں سے کسی ایک پہلو کی طرف گمان غالب حاصل ہو جائے گا تو اسی پہلو کا حکم لگا دے گا۔
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کسی خبر کی تحقیق کا سخت سے سخت قابل عمل معیار کیا ہوسکتا ہے۔ فرض کیجیے زید نام کا ایک شخص اب سے سو برس پہلے گزرا ہے، جس کے متعلق عمرو ایک روایت آپ تک پہنچاتا ہے۔ آپ کو تحققیق کرنا ہے کہ زید کے متعلق یہ روایت درست ہے یا نہیں؟ اس غرض کے لیے آپ حسب ذیل تنقیحات قائم کرسکتے ہیں۔
(۱) یہ روایت عمرو تک کس طریقے سے پہنچی؟ درمیان میں جو واسطے ان کا سلسلہ زید تک پہنچتا ہے یا نہیں؟ درمیانی راویوں سے ہر راوی نے جس شخص سے روایت کی ہے اس سے وہ ملا بھی تھا یا نہیں۔ ہر راوی نے روایت کس عمر اور کس حالت میں سنی؟ روایت کو اس نے لفظ بہ لفظ نقل کیا یا اس کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں ادا کیا؟
(۲) کیا یہی روایت دوسرے طریقوں سے بھی منقول ہے۔ اگر منقول ہے تو سب بیانات متفق ہیں یا مختلف؟ اور اختلاف ہے تو کس حد تک ہے؟ اگر کھلا ہوا اختلاف ہے تو مختلف طریقوں میں سے کون سا طریق ِ روایت زیادہ معتبر ہے؟
(۳) جن لوگوں کے واسطے سے یہ خبر پہنچی ہے وہ خود کیسے ہیں؟ جھوٹے یا بددیانت تو نہیں؟ اس روایت میں ان کی کوئی ذاتی یا جماعتی غرض تو مخفی نہیں ان میں صحیح یاد رکھنے اور صحیح نقل کرنے کی قابلیت تھی یا نہیں؟
(۴) زید کی افتاد طبع، اس کی سیرت، اس کے خیالات، اور اس کے ماحول کے متعلق جو مشہور و متواتر روایات یا ثابت شدہ معلومات ہمارے پاس موجود ہیں یہ روایت ان کے خلاف تو نہیں ہے؟
(۵) روایت کسی غیر معمولی اور بعید از قیاس امر کے متعلق ہے یا معمولی اور قرین قیاس امر کے متعلق؟ اگر پہلی صورت ہے تو کیا طریق روایت اتنے کثیر، مسلسل اور معتبر ہیں کہ ایسے امر کو تسلیم کیا جاسکے؟ اور اگر دوسری صورت ہے تو کیا روایت اپنی موجودہ شکل میں اس امر کی صحت کا اطمینان کرنے کے لیے کافی ہے؟
یہی پانچ پہلو ہیں جن سے کسی خبر کی جانچ پڑتال کی جاسکتی ہے۔ ان سوالات کے متعلق اگر ذرائع تحقیق ہمارے پاس موجود ہوں، اور ان ذرائع سے کوئی خبر تحقیق کے معیار پر پوری اتر جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کی تکذیب کریںاور اگر کوئی خبر اس معیار پر پوری نہ اترے تو ہم کو حق ہے کہ خواہ اس کی تکذیب کریں، یا اس کو رد کر دیں۔ لیکن اگر ذرائع تحقیق موجود ہوتے ہوئے بھی کوئی شخص فرداً فرداً ہر خبر کو جانچنے اور اس کے متعلق رائے قائم کرنے کے بجائے تمام خبروں کو مجموعاً محض اس بنا پر رد کر دے یا جھوٹ قرار دے کہ ان میں بعض جعلی خبریں ملی ہوئی ہیں، یا بعض راویوں کی کمزوریاں ثابت ہیں، یا بعض اس شخص کی عقل میں نہیں سماتیں، تو اس سے بڑھ کر غیر معقول طرز عمل اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
اس تمہیدی بیان نے معاملے کو بالکل صاف کردیا ہے۔ اگرکوئی شخص ذات رسالت پناہ کے اسوۂ حسنہ اور سنت مطہرہ سے کوئی تعلق رکھنا ہی نہ چاہتا ہو، تو یہ ایک دوسری بات ہے۔ لیکن اگروہ آں حضرت کی تقلید ضروری سمجھتا ہے‘ اور اسے واقعی یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ حضورؐ نے اپنی ۲۳ سال کی حیات نبوی میں کس طرح زندگی بسرکی؟ کن باتوں سے منع فرمایا؟ تو لامحالہ اس کو حدیث کے ذخیرے کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ یہاں وہ دیکھے گا کہ اس وقت بھی دنیا میں کم و بیش چار پانچ لاکھ آدمی ایسے موجود ہیں جن کے پاس حدیث کی کتابیں امام مالک، امام محمد، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری اور دوسرے ائمہ حدیث سے سلسلہ بہ سلسلہ پہنچی ہیں۔ اس لیے اس امر میں کسی شبے کی گنجائش نہیں کہ یہ کتابیں انھی بزرگوں کی لکھی ہوئی ہیں۔ پھر اس میں بھی شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ ان بزرگوں نے ہر حدیث کو جو سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام تک پہنچائی ہے، وہ کم از کم ان کی تحقیق کے لحاظ سے درست تھی۔ لہٰذا ان کتابوں کے ذریعے سے حدیث کا وہ علم قریب قریب یقینی طور پر ہم تک پہنچ گیا ہے جو پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے ائمۂ حدیث کے پاس تھا۔ اس کے علاوہ احادیث کے متعلق وہ تمام معلومات بھی معتبر کتابوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچ گئی ہیں جن سے کام لے کر ان محدثین نے حدیثوں اور ان کے راویوں کے حالات کی جانچ پڑتال کی تھی۔ اوپر ہم نے ایک خبر کی تحقیق کے لیے جو تنقیحی سوالات قائم کیے ہیں ان میں سے ہر سوال کا مفصل جواب قریب قریب ہر حدیث کے متعلق ہم کو ان کتابوں میں مل جاتا ہے۔ پھر محدثین کے درمیان احادیث اور ان کی تحقیق کے بارے میں جو اختلاف آراء ہوئے ہیں وہ بھی تمام دلائل اور وجوہ کے ساتھ محفوظ ہیں۔ اس وسیع، مفصل اور زیادہ سے زیادہ امکانی وثوق رکھنے والے ذخیرے کے موجود ہوتے ہوئے کوئی صاحب عقل انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی واقعہ اور آنحضرت کا کوئی ارشاد آج دنیا میں صحت کے ساتھ موجود نہیں ہے۔ ایسا دعویٰ کرنے والے کو سب سے پہلے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ عہد رسالت سے لے کر ہمارے زمانے تک جو لاکھوں سے متجاوز اور کروڑوں تک پہنچے ہوئے مسلمان احادیث نبوی کے نقل کرنے اور سننے سنانے میں مشغول رہے ہیں وہ سب کے سب، یا ان میں سے اکثر جھوٹے تھے اور انھوں نے بالا تفاق یہ طے کرلیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت گھڑنے اور اس طریقے سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور اسلام کو تباہ و برباد کرنے ہی میں اپنی ساری عمر بسر کریں گے۔ اگر کوئی منکر حدیث اس امر کا ثبوت رکھتا ہے تو وہ اس کو پیش کرے۔ ہم اسے یقین دلاتے ہیں کہ ساری دنیا کے محققین اور مکتشفین کے کارنامے اس کی اس نامور تحقیق کے سامنے دب جائیں گے۔ لیکن اگر اس کے پاس بدگمانی اور جھوٹے الزامات اور کل پر بعض کا حکم لگانے کے مغالطہ انگیز اور خلاف عقل و دیانت طریقوں کے سوا اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کو وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش کرسکتا ہو تو اسے کم از کم یہ امید تو نہ رکھنی چاہیے کہ جن لوگوں کی عقل درست ہے اور جو فطرتِ سلیمہ سے بہرہ ور ہیں، وہ بھی اس کے دعوے کو تسلیم کرکے حدیث کی ساری خبروں کو مجموعی حیثیت سے غلط اور قابل رد قرار دے دیں گے۔
ہم نے کبھی اس خیال کی تائید نہیں کی کہ ہر شخص کو ائمۂ حدیث کی اندھی تقلید کرنی چاہیے یا ان کو غلطی سے مبرا سمجھنا چاہیے۔ نہ کبھی ہم نے یہ دعویٰ کیا کہ ہر کتاب میں جو روایت قال رسول اللہ سے شروع ہو اس کو آنکھیں بند کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مان لیا جائے۔ برعکس اس کے ہمارے نزدیک کسی حدیث کو حدیث ِرسول قرار دینے کی ذمہ داری ایک گراں بار ذمہ داری ہے جس کو اٹھانے کی جرأت کافی تحقیق کے بغیر ہرگز نہ کرنی چاہیے۔ اور تحقیق و اجتہاد کے متعلق بھی ہمارا مذہب یہ ہے کہ اس کا دروازہ ہر زمانے میں کھلا ہوا ہے اور کسی خاص عہد کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جن لوگوں نے فن حدیث کی تحقیق اور اس کے باقاعدہ مطالعے اور تحقیقات میں پورا ایک مہینہ بھی صرف نہیں کیا ہے وہ ان بزرگوں کے کارناموں پر تنقید کریں جنھوں نے پوری پوری عمریں اس فن کی خدمت میں بسر کر دی ہیں۔ صرف ایک فن حدیث ہی پر موقوف نہیں ہے دنیا کا کوئی علم و فن بھی آپ کو ایسا نہ ملے گا جس میں مبتدیوں اور اناڑیوں کو ریسرچ اور ماہرانہ اظہار رائے اور مجتہدانہ کلام کا حق دیا جاتا ہو۔ یہ حق انسان کو صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ فن کے مبادی اور اصول پر پوری طرح حاوی ہو چکا ہو، اور جتنا ذخیرۂ معلومات اس فن کے متعلق موجود ہو وہ سب اس کی نظر میں ہو۔ باقی رہا وہ شخص جو ابھی اس مرتبے پر نہیں پہنچا ہے تو اس کے لیے سلامتی اسی میں ہے کہ وہ ائمۂ فن کی تحقیقات اور ان کی آراء کا اتباع کرے۔ تمام دنیویِ علوم کی طرح مذہبی علوم میں بھی یہی طریقہ بہتر اور صحیح تر ہے۔ اس کو چھوڑ کر جو لوگ اجتہاد بلا علم کا علم بلند کرتے ہیں وہ دنیا اور دین دونوں میں اپنے لیے رسوائی کا سامان کرتے ہیں۔ (ترجمان القرآن۔ صفر ۱۳۵۳۔ جون۱۹۳۴ئ)

شیئر کریں