پھر تیسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بالفرض حق اور باطل کی بحث نظر انداز کرکے حاکمیّت کا منصب کسی انسانی اقتدار کو دے بھی دیا جائے تو کیا اس میں انسانیت کی بھلائی ہے؟ انسان خواہ وہ کوئی ایک شخص ہو، یا کوئی طبقہ، یا کسی قوم کا مجموعہ، بہرحال حاکمیّت کی اتنی بڑی خوراک ہضم نہیں کر سکتا کہ اس کو افراد پر حکم چلانے کے غیر محدود اختیارات حاصل ہوں اور اس کے مقابلے میں کسی کا کوئی حق نہ ہو اور اس کے فیصلے کو بے خطا مان لیا جائے۔ اس طرح کے اختیارات جب بھی کسی انسانی اقتدار کو حاصل ہوں گے، ظلم ضرور ہو گا، معاشرے کے اندر بھی ظلم ہو گا اور معاشرے کے باہر دوسرے ہمسایہ معاشروں پر بھی ہو گا۔ فساد اس بندوبست کی فطرت میں مضمر ہے اور جب کبھی انسانوں نے زندگی کا یہ ہنجار اختیار کیا ہے۔ فساد رونما ہوئے بغیر نہیں رہا ہے۔ اس لیے کہ اس کی فی الواقع حاکمیّت نہیں ہے، اور جس کو حاکمیّت کا حق بھی حاصل نہیں ہے، اسے اگر مصنوعی طور پر حاکمیت کا مقام حاصل ہو اہے تو وہ اس منصب کے اختیارات کبھی صحیح طریقے سے استعمال نہیں کر سکتا۔ یہی بات ہے جسے قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہِ فَاُؤلٰئِکَ ھُمُ الظاَّلِمُوْنَ۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی ظالم ہیں۔