پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقت نفس الامری سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر کسی غیر اللہ کو یہ حاکمانہ حیثیت دے بھی دی جائے تو کیا فی الواقع اس کا یہ حق ہے کہ اس کا حکم قانون ہو، اور اس کے مقابلے میں کسی کا کوئی حق نہ ہو اور اس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے اور اس کے حکم کے بارے میں خیر و شر یا صحیح و غلط کا سوال نہ اٹھایا جا سکے؟ یہ حق خواہ کسی شخص کو دیا جائے، یا کسی ادارے کو یا باشندوں کی اکثریت کو، بہرحال یہ پوچھا جائے گا کہ اس کو آخر یہ حق کس بنیاد پر حاصل ہوا ہے؟ اور اس بات کی دلیل کیا ہے کہ اسے افراد پر اس طرح حاکم ہونے کا حق حاصل ہے؟ اور اس کا زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جواب دیا جا سکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ لوگو ں کی رضا مندی اس حاکمیّت کے برحق ہونے کی دلیل ہے؟ مگر کیا آپ یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی رضا مندی سے اپنے آپ کو کسی دوسرے شخص کے ہاتھ فروخت کر دے تو اس خریدار کو اس شخص پر جائز حق مالکانہ حاصل ہو جاتا ہے؟ اگر یہ رضا مندی اس ملکیّت کو برحق نہیں بتاتی تو آخر کسی غلط فہمی کی بناء پر محض جمہور کا رضا مند ہو جانا کسی حاکمیّت کو برحق کیسے بنا سکتا ہے؟ قرآن اس گتھی کو بھی یہ کہہ کر سلجھا دیتا ہے کہ اللہ کی مخلوق پر کسی مخلوق کو بھی حکم چلانے کا حق نہیں ہے، یہ حق صرف اللہ کو حاصل ہے اور اس بنا پر حاصل ہے کہ وہی اپنی مخلوق کا خالق ہے۔ اَلَا لَہُ الْخَلقُ وَالْاَمْرُ۔ ’’خبردار خلق اسی کی ہے اور امر بھی اسی کے لیے ہے۔‘‘یہ ایک ایسی معقول بات ہے جسے کم از کم وہ لوگ تو رد نہیں کر سکتے جو خدا کو خالق تسلیم کرتے ہیں۔