علم سیاست کی اصطلاح میں یہ لفظ اقتدار اعلیٰ اوراقتدار مطلق کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ کسی شخص یا مجموعۂِ اشخاص یا ادارے کے صاحبِ حاکمیّت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا حکم قانون ہے۔ اسے افراد ریاست پر حکم چلانے کے غیر محدود اختیارات حاصل ہیں۔ افراد اس کی غیر مشروط اطاعت پر مجبور ہیں، خواہ بطوع ورغبت یا بکراہت۔ اس کے اختیارات حکمرانی کو اس کے اپنے ارادے کے سوا کوئی خارجی چیز محدود کرنے والی نہیں ہے۔ افراد کو اس کے مقابلے میں کوئی حق حاصل نہیں۔ جس کے جو کچھ بھی حقوق ہیں، اسی کے دیے ہوئے اور وہ جس حق کو بھی سلب کرے وہ آپ سے آپ معدوم ہو جاتا ہے۔ ایک قانونی حق پیدا ہی اس بنا پر ہوتا ہے کہ شارع (Law-Giver) نے اس حق کو پیدا کیاہے، اس لیے جب شارح نے اس کو سلب کر لیا تو سرے سے کوئی حق باقی ہی نہیں رہا کہ اس کا مطالبہ کیا جا سکے۔ قانون صاحبِ حاکمیّت کے ارادے سے وجود میں آتاہے اور افراد کو اطاعت کا پابند کرتا ہے، مگر خود صاحبِ حاکمیّت کو پابند کرنے والا کوئی قانون نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات میں قادر مطلق ہے۔ اس کے احکام کے بارے میں خیر اور شر‘ صحیح اور غلط کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، جو کچھ وہ کرے وہی خیر ہے، اس کے کسی تابع کو اسے شر قرار دے کر رد کر دینے کا حق نہیں ہے، جو کچھ وہ کرے وہ صحیح ہے، کوئی تابع اس کو غلط قرار نہیں دے سکتا۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ اسے سُبُّوح و قُدُّوس اور منزّہ عن الخطا مانا جائے، قطع نظر اس سے کہ وہ ایسا ہو یا نہ ہو۔
یہ ہے قانونی حاکمیّت کا تصوّر جسے ایک قانون دان، (فقیہ یا Jurist) پیش کرتا ہے اور اس سے کم کسی چیز کا نام ’’حاکمیّت‘‘ نہیں ہے، مگر یہ حاکمیّت اس وقت تک بالکل ایک مفروضہ رہتی ہے جب تک کہ اس کی پشت پر کوئی واقعی حاکمیّت یا علم سیاست کی اصطلاح میں سیاسی حاکمیّت (Political Sovereignty) نہ ہو، یعنی عملاً اس اقتدار کی مالک جو اس قانونی حاکمیّت کو مسلّط کرے۔