Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

جہاد فی سبیل اللہ

عموماً لفظ ’’جہاد‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں (Holywar)’’مقدس جنگ‘‘ کیا جاتا ہے اور اس کی تشریح و تفسیر مدتہائے دراز سے کچھ اس انداز میں کی جاتی رہی ہے کہ اب یہ لفظ ’’جوشِ جنوں‘‘ کا ہم معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے سنتے ہی آدمی کی آنکھوں میں کچھ اس طرح کا نقشہ پھرنے لگتا ہے کہ مذہبی دیوانوں کا ایک گروہ ننگی تلواریں ہاتھ میں لیے۔ ڈاڑھیاں چڑھائے، خونخوار آنکھوں کے ساتھ اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا چلا آرہا ہے، جہاں کسی کافرکو پاتا ہے پکڑ لیتا ہے اور تلوار اس کی گردن پر رکھ کر کہتا ہے کہ بول لا الہٰ الا اللہ ورنہ ابھی سرتن سے جدا کر دیا جاتا ہے۔ ماہرین نے ہماری یہ تصویر بڑی قلمکاریوں کے ساتھ بنائی ہے اور اس کے نیچے موٹے حرفوں میں لکھ دیا ہے کہ
بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے
لطف یہ ہے کہ اس تصویر کے بنانے والے ہمارے وہ مہربان ہیں جو خود کئی صدیوں سے انتہا درجے کی غیر مقدس جنگ (Unholy war)میں مشغول ہیں۔ ان کی اپنی تصویر یہ ہے کہ دولت و اقتدار کے بھوکے ہر قسم کے اسلحے سے مسلح ہو کر قزاقوں کی طرح ساری دنیا پر پل پڑے ہیں اور ہر طرف تجارت کی منڈیاں، خام پیداوار کے ذخیرے، نو آبادیاں بسانے کے قابل زمینیں اور معدنیات کی کانیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں تاکہ اپنے نفس کی کبھی نہ بجھنے والی آگ کے لیے ایندھن فراہم کریں۔ ان کی جنگ خدا کی راہ میں نہیں بلکہ پیٹ کی راہ میں ہے، ہوس اور نفس امارہ کی راہ میں ہے۔ ان کے نزدیک کسی قوم پر حملہ کرنے کے لیے بس یہ کافی وجہ جواز ہے کہ اس کی زمین میں کانیں ہیں، یا اجناس کافی پیدا ہوتی ہیں، یا ان کے کارخانوں کا مال وہاں اچھی طرح کھپایا جاسکتا ہے، یا اپنی زائد آبادی کو وہاں آسانی کے ساتھ بسایا جاسکتا ہے، یا اور کچھ نہیں تو اس قوم کا گناہ بھی کوئی معمولی گناہ نہیں کہ وہ کسی ایسے ملک کے راستے میں رہتی ہے جس پر یہ پہلے قبضہ کر چکے ہیں یا اب قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے تو جو کچھ کیا وہ زمانہ ماضی کا قصہ ہے، اور ان کے کارنامے حال کے واقعات ہیں جو شب و روز دنیا کی آنکھوں کے سامنے گزر رہے ہیں۔ ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکہ، غرض کرۂ زمین کا کون سا حصہ ایسا بچا رہ گیا ہے جو ان کی اس غیر مقدس جنگ سے لالہ زار نہیں ہو چکا؟ مگر ان کی مہارت قابل داد ہے۔ انھوں نے ہماری تصویر اتنی بھیانک اور اتنی بڑی بنائی کہ خود ان کی تصویر اس کے پیچھے چھپ گئی۔ اور ہماری سادہ لوحی بھی قابل داد ہے۔ جب ہم نے غیروں کی بنائی ہوئی اپنی یہ تصویر دیکھی تو ایسے دہشت زدہ ہوئے کہ ہمیں اس تصویر کے پیچھے جھانک کر خود مصوروں کی صورت دیکھنے کا ہوش ہی نہ آیا اور لگے معذرت کرنے کہ حضور بھلا ہم جنگ و قتال کیا جانیں، ہم تو بھکشوئوں اور پادریوں کی طرح پُر امن مبلغ لوگ ہیں، چند مذہبی عقائد کی تردید کرنا اور ان کی جگہ کچھ دوسرے عقائد تسلیم کرا لینا، بس یہ ہمارا کام ہے، ہمیں تلوار سے کیا واسطہ؟ البتہ اتنا قصور کبھی کبھار ہم سے ضرور ہوا ہے کہ جب کوئی مارنے آیا تو ہم نے بھی جواب میں ہاتھ اٹھا دیا۔ سو اب ہم اس سے بھی توبہ کر چکے ہیں۔ حضور کی طمانیت کے لیے تلوار والے جہاد کو ’’سرکاری طور پر‘‘ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اب تو جہاد فقط زبان و قلم کی کوشش کا نام ہے۔ توپ اور بندوق چلانا سرکار کاکام ہے اور زبان و قلم چلانا ہمارا کام۔
جہاد کے متعلق غلط فہمی کے اسباب
خیر یہ تو سیاسی چالوں کی بات ہے۔ مگر خالص علمی حیثیت سے جب ہم ان اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں جن کی وجہ سے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی کوشش کو سمجھنا غیر مسلموں اور خود مسلمانوں کے لیے دشوار ہوگیا ہے تو ہمیں دو بڑی اور بنیادی غلط فہمیوں کا سراغ ملتا ہے۔
پہلی غلط فہمی ہے کہ اسلام کو ان معنوں میں محض ایک مذہب سمجھ لیا گیا ہے جن میں لفظ مذہب عموماً بولا جاتا ہے۔
دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان معنوں میں محض ایک قوم سمجھ لیا گیا جن میں یہ لفظ عموماً مستعمل ہوتا ہے۔
ان دو غلط فہمیوں نے صرف ایک جہاد ہی کے مسئلے کو نہیں بلکہ مجموعی حیثیت سے پورے اسلام کے نقشے کو بدل ڈالا ہے اور مسلمانوں کی پوزیشن کلی طور پر غلط کرکے رکھ دی ہے۔
مذہب کے معنی عام اصطلاح کے اعتبار سے بجز اس کے اور کیا ہیں کہ وہ چند عقائد اور چند عبادات اور مراسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مذہب کو واقعی ایک پرائیویٹ معاملہ ہی ہونا چاہیے۔ آپ کو اختیار ہے کہ جو عقیدہ چاہیں رکھیں، اور آپ کا ضمیر جس کی عبادت کرنے پر راضی ہو اس کو جس طرح چاہیں پکاریں۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جوش اور سرگرمی آپ کے اندر اس مذہب کے لیے موجود ہے تو آپ دنیا بھر میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھریئے، اور دوسرے عقائد والوں سے مناظرے کیجیے۔ اس کے لیے تلوار ہاتھ میں پکڑنے کا کون سا موقع ہے؟ کیا آپ لوگوں کو مار مار کر اپنا ہم عقیدہ بنانا چاہتے ہیں؟ یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے جبکہ آپ اسلام کو عام اصطلاح کی رُو سے ایک ’’مذہب‘‘ قرار دے لیں، اور یہ پوزیشن اگر واقعی اسلام کی ہو تو جہاد کے لیے حقیقت میں کوئی وجہ جواز ثابت نہیں کی جاسکتی۔
اسی طرح قوم کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ وہ ایک متجانس گروہ اشخاص (Homogeneous group of men)کا نام ہے جو چند بنیادی امور میں مشترک ہونے کی وجہ سے باہم مجتمع اور دوسرے گروہوں سے ممتاز ہوگیا ہے۔ اس معنی میں جو گروہ ایک قوم ہو وہ دو ہی وجوہ سے تلوار اٹھاتا ہے اور اٹھا سکتا ہے، یا تو اس کے جائز حقوق چھیننے کے لیے کوئی اس پر حملہ کرے، یا وہ خود دوسروں کے جائز حقوق چھیننے کے لیے حملہ آور ہو۔ پہلی صورت میں توخیر تلوار اٹھانے کے لیے کچھ نہ کچھ اخلاقی جواز موجود بھی ہے (اگرچہ بعض دھرماتماوں کے نزدیک یہ بھی ناجائز ہے) لیکن دوسری صورت کو تو بعض ڈکٹیٹروں کے سوا کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا، حتیٰ کہ برطانیہ اور فرانس جیسی وسیع سلطنتوں کے مدبرین بھی اس کو جائز کہنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔
جہاد کی حقیقت
پس اگر اسلام ایک ’’مذہب‘‘ اور مسلمان ایک ’’قوم‘‘ ہے تو جہاد کی ساری معنویت جس کی بنا پر اسے افضل العبادات کہا گیا ہے، سرے سے ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کسی ’’مذہب‘‘ کا اور مسلمان کسی ’’قوم‘‘ کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل اسلام ایک انقلابی نظریہ و مسلک ہے جو تمام دنیا کے اجتماعی نظم (social order)کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق تعمیر کرنا چاہتا ہے اور مسلمان اس بین الاقوامی انقلابی جماعت (International Revolutionary Party)کا نام ہے جسے اسلام اپنے مطلوبہ انقلابی پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے منظم کرتا ہے، اور جہاد اس انقلابی جدوجہد (Revolutionary struggle)اس انتہائی صرف طاقت کا نام ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے عمل میں لائی جائے۔
تمام انقلابی مسلکوں کی طرح اسلام بھی عام مروج الفاظ کو چھوڑ کر اپنی ایک خاص اصطلاح زبان (terminology)اختیار کرتا ہے تاکہ اس کے انقلابی تصورات عام تصورات سے ممتاز ہوسکیں۔ لفظ جہاد بھی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلام نے حرب اور اسی نوعیت کے دوسرے عربی الفاظ جو جنگ (war)کے مفہوم کو ادا کرتے ہیں، قصدًا ترک کر دیئے اور ان کی جگہ ’’جہاد‘‘ کا لفظ استعمال کیا جو (struggle)کا ہم معنی ہے بلکہ اس سے زیادہ مبالغہ رکھتا ہے۔ انگریزی میں اس کا صحیح مفہوم یوں ادا کیا جاسکتا ہے:
(To exert one’s utmost endavour in furthering a cause)
’’اپنی تمام طاقتیں کسی مقصد کی تحصیل میں صرف کر دینا۔‘‘
سوال یہ ہے کہ پرانے الفاظ کو چھوڑ کر یہ نیا لفظ کیوں اختیار کیاگیا؟ اس کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ’’جنگ‘‘ کا لفظ قوموں اور سلطنتوں کی ان لڑائیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج تک ہوتا رہا ہے، جو اشخاص یا جماعتوں کی نفسانی اغراض کے لیے کی جاتی ہیں۔ ان لڑائیوں کے مقاصد محض ایسے شخصی یا اجتماعی مقاصد ہوتے ہیں جن کے اندر کسی نظریے اور کسی اصول کی حمایت کا شائبہ نہیں ہوتا۔ اسلام کی لڑائی چونکہ اس نوعیت کی نہیں ہے اس لیے وہ سرے سے اس لفظ کو ہی ترک کر دیتا ہے۔ اس کے پیش نظر ایک قوم کا مفاد یا دوسری قوم کا نقصان نہیں ہے۔ وہ اس سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا کہ زمین پر ایک سلطنت کا قبضہ رہے یا دوسری سلطنت کا۔ اس کو دلچسپی جس چیز سے ہے وہ محض انسانیت کی فلاح ہے۔ اس فلاح کے لیے وہ اپنا ایک خاص نظریہ اور ایک عملی مسلک رکھتا ہے۔ اس نظریے اور مسلک کے خلاف جہاں جس چیز کی حکومت بھی ہے اسلام اس کو مٹانا چاہتا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی قوم ہو اور کوئی ملک ہو۔ اس کا مدعا اپنے نظریے اور مسلک کی حکومت قائم کرنا ہے بلالحاظ اس کے کہ کون اس کا جھنڈا لے کر اٹھتا ہے اور کس کی حکمرانی پر اس کی ضرب پڑتی ہے۔ وہ زمین مانگتا ہے ____ زمین کا ایک حصہ نہیں بلکہ پورا کرۂ زمین ____ اس لیے نہیں کہ ایک قوم یا بہت سی قوموں کے ہاتھ سے نکل کر زمین کی حکومت کسی خاص قوم کے ہاتھ میں آجائے، بلکہ صرف اس لیے کہ انسانیت کی فلاح کا جو نظریہ اور پروگرام اس کے پاس ہے اس سے تمام نوع انسانی متمتع ہو۔ اس غرض کے لیے وہ تمام ان طاقتوں سے کام لینا چاہتا ہے جو انقلاب برپا کرنے کے لیے کار گر ہوسکتی ہیں اور ان سب طاقتوں کے استعمال کا ایک جامع نام ’’جہاد‘‘ رکھتا ہے۔ زبان و قلم کے زور سے لوگوں کے نقطۂ نظر کو بدلنا اور ان کے اندر ذہنی انقلاب پیدا کرنا بھی جہاد ہے۔ تلوار کے زور سے پرانے ظالمانہ نظام زندگی کو بدل دینا اور نیا عادلانہ نظام مرتب کرنا بھی جہاد ہے اور اس راہ میں مال صرف کرنا اور جسم سے دوڑ دھوپ کرنا بھی جہاد ہے۔
فی سبیل اللہ کی لازمی قید
لیکن اسلام کا جہاد نرا ’’جہاد‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے اور ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی قید اس کے ساتھ ایک لازمی قید ہے۔ یہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کا لفظ بھی اسلام کی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے جس کی طرف ابھی میں اشارہ کر چکا ہوں۔ اس کا لفظی ترجمے ہے ’’راہ خدا میں‘‘ اس ترجمہ سے لوگ غلط فہمی میں پڑ گئے۔ اور یہ سمجھ بیٹھے کہ زبردستی لوگوں کو اسلام کے مذہبی عقائد کا پیرو بنانا ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے، کیونکہ لوگوں کے تنگ دماغوں میں ’’راہ خدا‘‘ کا کوئی مفہوم اس کے سوا نہیں سما سکتا۔ مگر اسلام کی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہر وہ کام جو اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے کیا جائے اور جس کے کرنے والے کا مقصد اس سے خود کوئی دنیوی فائدہ اٹھانا نہ ہو، بلکہ محض خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہو، اسلام ایسے کام کو ’’فی سبیل اللہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ خیرات دیتے ہیں اس نیت سے کہ اسی دنیا میں مادی یا اخلاقی طور پر اس خیرات کا کوئی فائدہ آپ کی طرف پلٹ کر آئے تو یہ فی سبیل اللہ نہیں ہے۔ اور اگر خیرات سے آپ کی نیت یہ ہے کہ ایک غریب انسان کی مدد کرکے آپ خدا کی خوشنودی حاصل کریں تو یہ فی سبیل اللہ ہے۔ پس یہ اصطلاح مخصوص ہے ایسے نیک کاموں کے لیے جو کامل خلوص کے ساتھ ہر قسم کی نفسانی اغراض سے پاک ہو کر اس نظریے پر کیے جائیں کہ انسان کا دوسرے انسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنا خدا کی خوشنودی کا موجب ہے، اور انسان کی زندگی کا نصب العین مالک کائنات کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
’’جہاد‘‘ کے لیے بھی ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی قید اسی غرض کے لیے لگائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ جب نظام حکومت میں انقلاب برپا کرنے اور اسلامی نظریے کے مطابق نیا نظام مرتب کرنے کے لیے جدوجہد کرنے اٹھے، تو اس قیام اور اس سربازی و جاں نثاری میں اس کی اپنی کوئی نفسانی غرض نہ ہونی چاہیے، اس کا یہ مقصد ہرگز نہ ہونا چاہیے کہ قیصر کو ہٹا کر خود قیصر بن جائے، اپنی ذات کے لیے مال و دولت یا شہرت و ناموری یا عزت و جاہ حاصل کرنے کا شائبہ تک اس کی جدوجہد کے مقاصد میں شامل نہ ہونا چاہیے، اس کی تمام قربانیوں اور ساری محنتوں کا مدعا صرف یہ ہونا چاہیے کہ بندگان خدا کے درمیان ایک عادلانہ نظام زندگی قائم کیا جائے اور اس کے معاوضے میں خدا کی خوشنودی کے سوا اور کچھ اس کو مطلوب نہ ہو۔ قرآن کہتا ہے:
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا۝۰ۭ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ القصص28:83
آخرت میں عزت کا مقام ہم نے ان لوگوں کے لیے رکھا ہے جو زمین میں اپنی بڑائی قائم کرنا اور فساد کرنا نہیں چاہتے۔ اور عاقبت کی کامیابی تو خدا ترس لوگوں کے لیے ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاراہِ خدا کی جنگ سے کیا مراد ہے؟ ایک شخص مال کے لیے جنگ کرتا ہے۔ دوسرا شخص بہادری کی شہرت حاصل کرنے کے لیے جنگ کرتا ہے۔ تیسرے شخص کو کسی سے عداوت ہوتی ہے یا قومی حمیت کا جوش ہوتا ہے اس لیے جنگ کرتا ہے۔ ان میں سے کس کی جنگ فی سبیل اللہ ہے؟ آن حضرت نے جواب دیا: کسی کی بھی نہیں۔ فی سبیل اللہ تو صرف اس شخص کی جنگ ہے جو خدا کا بول بالا کرنے کے سوا کوئی مقصد نہیں رکھتا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اگر کسی شخص نے جنگ کی اور اس کے دل میں اونٹ باندھنے کی ایک رسی حاصل کرنے کی نیت ہوئی تو اس کا اجر ضائع ہوگیا۔ اللہ صرف اس عمل کو قبول کرتا ہے جو محض اس کی خوشنودی کے لیے ہو، کسی شخصی یا جماعتی غرض کے لیے نہ ہو۔ پس جہاد کے لیے فی سبیل اللہ کی قید اسلامی نقطۂ نظر سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔۱؎ مجرد جہاد تو دنیا میں سب ہی جاندار کرتے ہیں۔ ہر ایک اپنے مقصد کی تحصیل کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہے۔ لیکن ’’مسلمان‘‘ جس انقلابی جماعت کا نام ہے اس کے انقلابی نظریات میں سے ایک اہم ترین نظریہ بلکہ بنیادی نظریہ یہ ہے کہ اپنی جان و مال کھپائو، دنیا کی ساری سرکش طاقتوں سے لڑو، اپنے جسم و روح کی ساری طاقتیں خرچ کر دو، نہ اس لیے کہ دوسرے سرکشوں کو ہٹا کر تم ان کی جگہ لے لو، بلکہ صرف اس لیے کہ دنیا سے سرکشی و طغیان مٹ جائے اور خدا کا قانون دنیا میں نافذ ہو۔
جہاد کے اس مفہوم اور فی سبیل اللہ کی اصل معنویت کو مختصراً بیان کر دینے کے بعد اس دعوت انقلاب کی تھوڑی سی تشریح کرنا چاہتا ہوں جو اسلام لے کر آیا ہے تاکہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھا جاسکے کہ اس دعوت کے لیے جہاد کی حاجت کیا ہے اور اس کی غایت (Objective)کیا ہے۔
اسلام کی دعوتِ انقلاب
اسلام کی دعوت انقلاب کا خلاصہ یہ ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ البقرہ2:21
اے انسانو! صرف اپنے اس رب کی بندگی کرو جس نے تمھیں پیدا کیا ہے۔
اسلام مزدوروں، یا زمینداروں یا کاشتکاروں یا کارخانہ داروں کو نہیں پکارتا بلکہ تمام انسانوں کو پکارتا ہے۔ اس کا خطاب انسان سے بحیثیت انسان ہے اور وہ صرف یہ کہتا ہے کہ اگر تم خدا کے سوا کسی کی بندگی، اطاعت، فرمانبرداری کرتے ہو تو اسے چھوڑ دو، اور اگر خود تمھارے اندر خدائی کا داعیہ ہے تو اسے بھی نکال دو کہ دوسروں سے اپنی بندگی کرانے اور دوسروں کا سر اپنے آگے جھکوانے کا حق بھی تم میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے، تم سب کو ایک خدا کی بندگی قبول کرنی چاہیے اور اس بندگی میں سب کو ایک سطح پر آجانا چاہیے۔
تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ آل عمران3:64
آئو ہم اور تم ایک ایسی بات پر جمع ہو جائیں جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے وہ یہ ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اور خداوندی میں کسی کو خدا کا شریک نہ ٹھہرائیں، اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے بجائے امر و نہی کا مالک بھی نہ بنائے۔
یہ عالمگیر اور کلی انقلاب کی دعوت تھی۔ اس نے پکار کر کہا کہ اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ حکومت سوائے خدا کے اور کسی کی نہیں ہےکسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ بذات خود انسانوں کا حکمراں بن جائے اور اپنے اختیار سے جس چیز کا چاہے حکم دے اور جس چیز سے چاہے روک دے۔ کسی انسان کو بالذات امر و نہی کا مالک سمجھنا دراصل خدائی میں اسے شریک کرنا ہے اور یہی بنائے فساد ہے۔ اللہ نے انسان کو جس صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے اور زندگی بسر کرنے کا جو سیدھا راستہ بتایا ہے اس سے انسان کے ہٹنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ خدا کو بھول جائیں اور نتیجۃً خود اپنی حقیقت کو بھی فراموش کر دیں۔ اس کا نتیجہ لازمی طور پر یہی ہوتا ہے کہ ایک طرف بعض اشخاص یا خاندان یا طبقے خدائی کا کھلا یا چھپا داعیہ لے کر اٹھتے ہیں اور اپنی طاقت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں کو اپنا بندہ بنا لیتے ہیں اور دوسری طرف اسی خدا فراموشی و خود فراموشی کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کا ایک حصہ ان طاقتوروں کی خداوندی مان لیتا ہے اور ان کے اس حق کو تسلیم کرلیتا ہے کہ یہ حکم کریں اور وہ اس حکم کے آگے سر جھکا دیں۔ یہی دنیا میں ظلم و فساد اور ناجائز انتفاع کی (exploitation)بنیاد ہے، اور اسلام پہلی ضرب اسی پر لگاتا ہے۔ وہ ہانکے پکارے کہتا ہے:
وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَ الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ
الشعراء26: 151-152
ان لوگوں کا حکم ہرگز نہ مانو جو اپنی حد جائز سے گزر گئے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا الکہف18:28
اس شخص کی اطاعت ہرگز نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہشات نفس کا بندہ بن گیا ہے اور جس کاکام افراط و تفریط پر مبنی ہے۔
اَنْ لَّعْنَۃُ اللہِ عَلَي الظّٰلِــمِيْنَ الَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَيَبْغُوْنَہَا عِوَجًا۝۰ۚ
الاعراف7: 44-45
خدا کی لعنت ہو ان ظالموں پر جو خدا کے بنائے ہوئے زندگی کے سیدھے راستے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور اس کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں۔
وہ لوگوں سے پوچھتا ہے کہ ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ؟ یوسف12:39 یہ بہت سے چھوٹے بڑے خدا جن کی بندگی میں تم پسے جارہے ہو ان کی بندگی قبول ہے، یا اس ایک خدا کی جو سب سے زبردست ہے؟ اگر اس خدائے واحد کی بندگی قبول نہ کرو گے تو ان چھوٹے اور جھوٹے خدائوں کی آقائی سے تمھیں کبھی نجات نہ مل سکے گی، یہ کسی نہ کسی طور سے تم پر تسلط پائیں گے، اور فساد برپا کرکے رہیں گے:
الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَۃً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً۝۰ۚ وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ
النمل27: 34
یہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں تو اس کے نظام حیات کو تہ و بالا کر ڈالتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور ان کا یہی وتیرہ ہے۔
وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ البقرہ2:205
اور جب وہ اقتدار پالیتا ہے تو زمین میں فساد پھیلاتا ہے۔ کھیتوں کو خراب اور نسلوں کو تباہ کرتا ہے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
یہاں پوری تفصیل کا موقع نہیں۔ مختصراً میں یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی دعوت توحید و خدا پرستی محض اس معنی میں ایک مذہبی عقیدے کی دعوت نہ تھی جس میں اور دوسرے مذہبی عقائد کی دعوت ہوا کرتی ہے، بلکہ حقیقت میں یہ ایک اجتماعی انقلاب (Social revolution)کی دعوت تھی۔ اس کی ضرب بلاواسطہ ان طبقوں پر پڑتی ہے جنھوں نے مذہبی رنگ میں پروہت بن کر، یا سیاسی رنگ میں بادشاہ اور رئیس اور حکمران گروہ بن کر، یا معاشی رنگ میں مہاجن اور زمیندار اور اجارہ دار بن کر عامۃ الناس کو اپنا بندہ بنا لیا تھا۔ یہ کہیں علانیہ ارباب من دُون اللہ بنے ہوئے تھے، دنیا سے اپنے پیدائشی طبقاتی حقوق کی بنا پر اطاعت و بندگی کا مطالبہ کرتے تھے اور صاف کہتے تھے کہ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ اور اَنَاَ ربُّکمُ الْاَعْلیٰ اور اَنَااُحیٖ وَاُمِیْتُ اور مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً۔اور کسی جگہ انھوں نے عامۃ الناس کی جہالت کو استعمال کرنے کے لیے بتوں اور ہیکلوں کی شکل میں مصنوعی خدا بنا رکھے تھے جن کی آڑ پکڑ کر یہ اپنے خداوندی حقوق بندگان خدا سے تسلیم کراتے تھے۔ پس کفر و شرک اور بت پرستی کے خلاف اسلام کی دعوت، اور خدائے واحد کی بندگی و عبودیت کے لیے اسلام کی تبلیغ براہ راست حکومت اور اس کو سہارا دینے والے یا اس کے سہارے چلنے والے طبقوں کی اغراض سے متصادم ہوئی تھی۔ اس وجہ سے جب کبھی کسی نبی نے یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ کی صدا بلند کی، حکومت وقت فوراً اس کے مقابلے میں آن کھڑی ہوئی، اور تمام ناجائز انتفاع کرنے والے طبقے اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے، کیونکہ یہ محض ایک مابعد الطبیعی قضیے (Metaphysical Proposition) کا بیان نہ تھا، بلکہ ایک اجتماعی انقلاب کا اعلان تھا، اور اس میں پہلی آواز سنتے ہی سیاسی شورش کی بُو سونگھ لی جاتی تھی۔
اسلامی دعوت انقلاب کی خصوصیت
اس میں شک نہیں کہ انبیاء علیہم السلام سب کے سب انقلابی لیڈر تھے، اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے انقلابی لیڈر ہیں۔ لیکن جو چیز دنیا کے عام انقلابیوں اور ان خدا پرست انقلابی لیڈروں کے درمیان واضح خط امتیاز کھینچتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے انقلابی لوگ خواہ کتنے ہی نیک نیت کیوں نہ ہوں، عدل اور توسط کے صحیح مقام کو نہیں پا سکتے۔ وہ یا تو خود مظلوم طبقوں میں سے اٹھتے ہیں، یا ان کی حمایت کا جذبہ لے کر اٹھتے ہیں، اور پھر سارے معاملات کو انھی طبقوں کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر غیر جانبدارانہ اور خالص انسانیت کی نظر نہیں ہوتی بلکہ ایک طبقے کی طرف غصے و نفرت کا اور دوسرے طبقے کی طرف حمایت کا جذبہ لیے ہوئے ہوتی ہے۔ وہ ظلم کا ایسا علاج سوچتے ہیں جو نتیجۃً ایک جوابی ظلم ہوتا ہے۔ ان کے لیے انتقام، حسد اور عداوت کے جذبات سے پاک ہو کر ایک ایسا معتدل اور متوازن اجتماعی نظام تجویز کرنا ممکن نہیں ہوتا جس میں مجموعی طور پر تمام انسانوں کی فلاح ہو۔ بخلاف اس کے انبیاء علیہم السلام خواہ کتنے ہی ستائے گئے ہوں اور کتنا ہی ان پر اور ان کے ساتھیوں پر ظلم کیا گیا ہو، ان کی انقلابی تحریک میں کبھی ان کے شخصی جذبات کا اثر آنے نہیں پایا۔ وہ براہِ راست خدا کی ہدایت کے تحت کام کرتے تھے، اور خدا چونکہ انسانی جذبات سے منزہ ہے، کسی انسانی طبقے سے اس کا مخصوص رشتہ نہیں، نہ کسی دوسرے انسانی طبقے سے اس کو کوئی شکایت یا عداوت ہے، اس لیے خدا کی ہدایت کے تحت انبیاء علیہم السلام تمام معاملات کو بے لاگ انصاف کے ساتھ اس نظر سے دیکھتے تھے کہ تمام انسانوں کی مجموعی فلاح و بہبود کس چیز میں ہے اور کس طرح ایک ایسا نظام بنایا جائے جس میں ہر شخص اپنی جائز حدود کے اندر رہ سکے، اپنے جائز حقوق سے متمتع ہوسکے، اور افراد کے باہمی روابط، نیز فرد اور جماعت کے باہمی تعلق میں کامل توازن قائم ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی انقلابی تحریک کبھی طبقاتی نزاع (Class war)میں تبدیل نہ ہونے پائی۔ انھوں نے اجتماعی تعمیر نو (Social reconstruction) اس طرز پر نہیں کی کہ ایک طبقے کو دوسرے طبقے پر مسلط کر دیں، بلکہ اس کے لیے عدل کا ایسا طریقہ اختیار کیا جس میں تمام انسانوں کے لیے ترقی اور مادی و روحانی سعادت کے یکساں امکانات رکھے گئے تھے۔
جہاد کی ضرورت اور اس کی غایت
مختصر مقالے میں میرے لیے اس اجتماعی نظام (Social order)کی تفصیلات پیش کرنا مشکل ہے جو اسلام نے تجویز کیا ہے۔ تفصیل کا موقعہ ان شاء اللہ عنقریب آئے گا۔ یہاں اپنے موضوع کی حد میں رہتے ہوئے جس بات کو مجھے واضح کرنا تھا وہ صرف یہ تھی کہ اسلام محض ایک مذہبی عقیدہ اور چند عبادات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک جامع سسٹم ہے جو دنیا سے زندگی کے تمام ظالمانہ اورمفسدانہ نظامات کو مٹانا چاہتا ہے اور ان کی جگہ اپنا ایک اصلاحی پروگرام نافذ کرنا چاہتا ہے جس کو وہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے سب سے بہتر سمجھتا ہے۔
اس تخریب و تعمیر اور انقلاب و اصلاح کے لیے وہ کسی ایک قوم یا گروہ کو نہیں بلکہ تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے۔ وہ خود ان ظالم طبقوں اور ناجائز انتفاع کرنے والے گروہوں، حتیٰ کہ بادشاہوں اور رئیسوں کو بھی پکارتا ہے کہ آئو اس جائز حد کے اندر رہنا قبول کرلو جو تمھارے خالق نے تمھارے لیے مقرر کی ہے۔ اگر تم عدل اور حق کے نظام کو قبول کرلو گے تو تمھارے لیے امن اور سلامتی ہے۔ یہاں کسی انسان سے دشمنی نہیں ہے، بلکہ دشمنی جو کچھ بھی ہے ظلم سے ہے، فساد سے ہے، بداخلاقی سے ہے، اس بات سے ہے کہ کوئی شخص اپنی فطری حد سے تجاوز کرکے وہ کچھ حاصل کرنا چاہے جو فطرت اللہ کے لحاظ سے اس کا نہیں ہے۔
یہ دعوت جو لوگ بھی قبول کرلیں وہ خواہ کسی طبقے، کسی نسل، کسی قوم اور کسی ملک کے ہوں، یکساں حقوق اور مساویانہ حیثیت سے اسلامی جماعت کے رکن بن جاتے ہیں، اور اس طرح وہ بین الاقوامی انقلابی پارٹی تیار ہوتی ہے جسے قرآن ’’حزب اللہ‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے، اور جس کا دوسرا نام ’’اسلامی جماعت‘‘ یا ’’امت مسلمہ‘‘ ہے۔
یہ پارٹی وجود میں آتے ہی اپنے مقصد وجود کی تحصیل کے لیے جہاد شروع کر دیتی ہے۔ اس کے عین وجود کا اقتضاء یہی ہے کہ یہ غیر اسلامی نظام کی حکمرانی کو مٹانے کی کوشش کرے اور اس کے مقابلے میں تمدن و اجتماع کے اس معتدل و متوازن ضابطے کی حکومت قائم کرے جسے قرآن ایک جامع لفظ ’’کلمۃ اللہ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ اگر یہ پارٹی حکومت کو بدلنے اور اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کی کوشش نہ کرے تو اس کے وجود میں آنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے کیونکہ یہ کسی اور مقصد کے لیے بنائی ہی نہیں گئی ہے، اور اس جہاد کے سوا اس کی ہستی کا اور کوئی مصرف ہی نہیں۔ قرآن اس کی پیدائش کا ایک ہی مقصد بیان کرتا ہے اور وہ یہ ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ آل عمران3:110
تم وہ بہترین امت ہو جسے نوع انسانی کے لیے نکالا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو۔
یہ مذہبی تبلیغ کرنے والے واعظین (preachers)اور مبشرین (missionaries) کی جماعت نہیں ہے بلکہ خدائی فوجداروں کی جماعت ہے (وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ ) البقرہ2:143 اور اس کاکام یہ ہے کہ دنیا سے ظلم، فتنہ، فساد، بداخلاقی، طغیان اور ناجائز انتفاع کو بزور مٹا دے، اَرْبابٌ مِّنْ دُوْنِ اللہ کی خدائی کو ختم کر دے، اور بدی کی جگہ نیکی قائم کرے۔ وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلہِ ۱؎ ۔ البقرہ2:193 وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ اِلَّا تَفْعَلُوْہُ تَكُنْ فِتْنَۃٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ الانفال8:73 ۱؎۔ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ ؎۲ التوبۃ9:33 لہٰذا اس پارٹی کے لیے حکومت کے اقتدار پر قبضہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، کیونکہ مفسدانہ نظام تمدن ایک فاسد حکومت کے بل پر ہی قائم ہوتا ہے، اور ایک صالح نظام تمدن اس وقت تک کسی طرح قائم ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ حکومت مفسدین سے مسلوب ہو کر مصلحین کے ہاتھ میں نہ آجائے۔
دنیا کی اصلاح سے قطع نظر اس جماعت کے لیے خود اپنے مسلک پر عامل ہونا بھی غیر ممکن ہے اگر حکومت کا نظام کسی دوسرے مسلک پر قائم ہو۔ کوئی پارٹی جو کسی سسٹم کو برحق سمجھتی ہو کسی دوسرے سسٹم کی حکومت میں اپنے مسلک کے مطابق زندگی بسر نہیں کرسکتی۔ ایک اشتراکی مسلک کا آدمی اگر انگلستان یا امریکہ میں رہ کر اشتراکیت کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہے تو کسی طرح اپنے اس ارادے میں کامیاب نہیں ہوسکتا، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا ضابطۂ حیات حکومت کی طاقت سے بجبر اس پر مسلط ہوگا اور وہ اس کی مہر بانی سے کسی طرح بچ نہ سکے گا۔ اسی طور پر ایک مسلمان بھی اگر کسی غیر اسلامی حکومت میں رہ کر اسلامی اصول پر زندگی بسر کرنا چاہے تو اس کاکامیاب ہونا بھی محال ہے۔ جن قوانین کو وہ باطل سمجھتا ہے، جن ٹیکسوں کووہ حرام سمجھتا ہے، جن معاملات کو وہ ناجائز سمجھتا ہے، جس طرز زندگی کو وہ فاسد سمجھتا ہے جس طریق تعلیم کو وہ مہلک سمجھتا ہے وہ سب کے سب اس پر، اس کے گھر بار پر، اس کی اولاد پر اس طرح مسلط ہو جائیں گے کہ وہ کسی طرح ان کی گرفت سے بچ کر نہ نکل سکے گا۔ لہٰذا جو شخص یا گروہ کسی مسلک پر اعتقاد رکھتا ہو وہ اپنے اعتقاد کے فطری اقتضاء ہی سے اس امر پر مجبور ہوتا ہے کہ مسلک مخالف کی حکومت کو مٹانے اور خود اپنے مسلک کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے مسلک پر عمل کر ہی نہیں سکتا۔ اگر وہ اس کوشش سے غفلت برتتا ہے تو اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ وہ درحقیقت اپنے عقائد ہی میں جھوٹا ہے۔
عَفَا اللہُ عَنْكَ۝۰ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حَتّٰي يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْكٰذِبِيْنَ لَا يَسْـتَاْذِنُكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ يُّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِـہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالْمُتَّقِيْنَ اِنَّمَا يَسْـتَاْذِنُكَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ
التوبۃ9: 43-45
اے نبی! خدا تمھیں معاف کرے، تم نے ان لوگوں کو جہاد کی شرکت سے علیٰحدہ رہنے کی اجازت کیوں دے دی؟ حالانکہ جہاد ہی وہ کسوٹی ہے جس سے تم پر کھل سکتا ہے کہ اپنے ایمان میں سچے کون ہیں اور جھوٹے کون، جو لوگ اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہیں کرسکتے کہ انھیں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنے سے معذور رکھا جائے… ایسی درخواست صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو نہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں، اور نہ یوم آخر پر۔
ان الفاظ میں قرآن نے صاف اور صریح فتویٰ دے دیا ہے کہ اپنے اعتقاد (convictions)میں کسی جماعت کے صادق ہونے کا واحد معیار یہی ہے کہ وہ جس مسلک پر اعتقاد رکھتی ہو اس کو حکمران بنانے کے لیے جان و مال سے جہاد کرے۔ اگر تم اپنے اوپر مسلک مخالف کی حکومت کو گوارا کرتے ہو تو یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ تم اپنے اعتقاد میں جھوٹے ہو، اور اس کا فطری نتیجہ یہی ہے اور یہی ہوسکتا ہے کہ آخر کار اسلام کے مسلک پر تمھارا نام نہاد عقیدہ بھی باقی نہ رہے گا۔ ابتداء میں تم مسلک مخالف کی حکومت کو بکراہت گوارا کرو گے، پھر رفتہ رفتہ تمھارے دل اس سے مانوس ہوتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ کراہت رغبت سے بدل جائے گی، اور آخر میں نوبت اس حد تک پہنچے گی کہ مسلک مخالف کی حکومت قائم ہونے اور قائم رہنے میں تم خود مددگار بنو گے، اپنی جان و مال سے جہاد اس لیے کرو گے کہ مسلک اسلام کے بجائے مسلک غیر اسلام قائم ہو یا قائم رہے، تمھاری اپنی طاقتیں مسلک اسلام کے قیام کی مزاحمت میں صرف ہونے لگیں گی، اور یہاں پہنچ کر تم میں اور کافروں میں اسلام کے منافقانہ دعویٰ، ایک بدترین جھوٹ، ایک پُر فریب نام کے سوا کوئی فرق نہ رہے گا۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نتیجے کو صاف صاف بیان فرما دیا ہے:
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَتَأْمُرُنَّ بِالمْعَرُوْفِ وَلَتَنْھَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لَتَأْخُذُنَّ یَدَ الْمُسٔیِ وَلَتَأَطِرُنَّہٗ عَلَی الْحَقِّ اِطْرَائً اَوْ لَیَضْرِبَنَّ اللّٰہُ قُلُوْبَ بَعْضِکُمْ عَلٰی بَعْضٍ اَوْلَیَلْعَنُکُمْ کَمَا لَعَنَھُمْ۔
اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یا تو تمھیں ایسا کرنا پڑے گا کہ نیکی کا حکم کرو اور بدی سے روکو، اور بدکار کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے حق کی طرف بزور موڑ دو، یا پھر اللہ کے قانون فطرت کا نتیجہ ظاہر ہو کر رہے گا کہ بدکاروں کے دلوں کا اثر تمھارے دلوں پر بھی پڑ جائے اور ان کی طرح تم بھی ملعون ہو کر رہو۔
عالمگیر انقلاب
اس بحث سے آپ پر یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ اسلامی جہاد کا مقصود (objective)غیر اسلامی نظام کی حکومت کو مٹا کر اسلامی حکومت قائم کرنا ہے۔ اسلام یہ انقلاب صرف ایک ملک یا چند ملکوں میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں برپا کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ ابتداء ً مسلم پارٹی کے ارکان کا فرض یہی ہے کہ جہاں جہاں وہ رہتے ہوں وہاں کے نظام حکومت میں انقلاب پیدا کریں۔ لیکن ان کی آخری منزل مقصود ایک عالمگیر انقلاب (world revolution)کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کوئی انقلابی مسلک جو قومیت کے بجائے انسانیت کی فلاح کے اصول لے کر اٹھا ہو، اپنے انقلابی مطمح نظر کو کبھی ایک ملک یا ایک قوم کے دائرے میں محدود نہیں کرسکتا، بلکہ وہ اپنی فطرت کے عین اقتضاء ہی سے مجبور ہے کہ عالمگیر انقلاب کو اپنا مطمح نظر بنائے۔ حق جغرافی حدود کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ میں اگر کسی دریا یا پہاڑ کے اس پار بھی حق ہی ہوں تو اس پار بھی حق ہی ہوں۔ نوع انسانی کے کسی حصے کو بھی مجھ سے محروم نہ رہنا چاہیے۔ انسان جہاں بھی ظلم و ستم کا اور افراط و تفریط کا تختۂ مشق بنا ہوا ہے وہاں اس کی مدد کے لیے پہنچنا میرا فرض ہے۔ اسی تخیل کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۝۰ۚ النساء4:75
تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی راہ میں ان مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جنھیں کمزور پا کر دبا لیا گیا ہے اور جو دعائیں مانگتے ہیں کہ خدایا ہمیں اس بستی سے نکال جس کے کار فرما ظالم ہیں۔
علاوہ بریں قومی و ملکی تقسیمات کے باوجود انسانی تعلقات و روابط کچھ ایسی عالمگیری اپنے اندر رکھتے ہیں کہ کوئی ایک مملکت اپنے اصول و مسلک کے مطابق پوری طرح عمل نہیں کرسکتی جب تک کہ ہمسایہ ممالک میں بھی وہی اصول و مسلک رائج نہ ہو جائے۔ لہٰذا مسلم پارٹی کے لیے اصلاحِ عمومی اور تحفظِ خودی، دونوں کی خاطر یہ ناگزیر ہے کہ کسی ایک خطے میں اسلامی نظام کی حکومت قائم کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ جہاں تک اس کی قوتیں ساتھ دیں، اس نظام کو تمام اطرافِ عالم میں وسیع کرنے کی کوشش کرے۔ وہ ایک طرف اپنے افکار و نظریات کو دنیا میں پھیلائے گی اور تمام ممالک کے باشندوں کو دعوت دے گی کہ اس مسلک کو قبول کریں جس میں ان کے لیے حقیقی فلاح مضمر ہے۔ دوسری طرف اگر اس میں طاقت ہوگی تو وہ لڑ کر غیر اسلامی حکومتوں کو مٹا دے گی اور ان کی جگہ اسلامی حکومت قائم کرے گی۔
یہی پالیسی تھی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے عمل کیا۔ عرب، جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی، سب سے پہلے اسی کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں کیا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول و مسلک کی طرف دعوت دی، مگر اس کا نتظار نہ کیا کہ یہ دعوت قبول کی جاتی ہے یا نہیں، بلکہ قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کر دیا۔ آنحضرت کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ پارٹی کے لیڈر ہوئے تو انھوں نے روم اور ایران دونوں کی غیر اسلامی حکومت پر حملے کر دیا اور پھر حضرت عمرؓ نے اس حملے کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچا دیا۔ مصر و شام اور روم و ایران کے عوام اوّل اوّل اس کو عرب کی امپیریلسٹ پالیسی سمجھے۔ انھوں نے خیال کیا کہ جس طرح پہلے ایک قوم دوسری قوموں کو غلام بنانے کے لیے نکلا کرتی تھی اسی طرح اب بھی ایک قوم اسی غرض کے لیے نکلی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنا پر لوگ قیصر و کسریٰ کے جھنڈے تلے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے نکلے۔ مگر جب ان پر مسلم پارٹی کے انقلابی مسلک کا حال کھلا، جب انھیں معلوم ہوا کہ یہ جفاکارانہ قوم پرستی (Agressive Nationalism)کے علمبردار نہیں ہیں بلکہ قومی اغراض سے پاک ہیں اور محض ایک عادلانہ نظام قائم کرنے آئے ہیں، اور ان کا مقصد ان ظالم طبقوں کی خداوندی کو ختم کرنا ہے جو قیصریت و کسرویت کی پناہ میں ہم کو تباہ و برباد کر رہے ہیں، تو ان کی اخلاقی ہمدردیاں مسلم پارٹی کی طرف جھک گئیں، وہ قیصر و کسریٰ کے جھنڈے سے الگ ہوتے چلے گئے اور اگر مارے بندھے سے فوج میں بھرتی ہو کر لڑنے آئے بھی تو بے دلی سے لڑے۔ یہی سبب ہے ان حیرت انگیز فتوحات کا جو ابتدائی دَور میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں، اور یہی سبب ہے اس کا کہ اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد جب ان ممالک کے باشندوں نے اسلامی نظام اجتماعی کو عملاً کام کرتے ہوئے دیکھا تو وہ خود فوج در فوج اس بین الاقوامی پارٹی میں شریک ہوتے چلے گئے اور خود اس مسلک کے علمبردار بن کر آگے بڑھے تاکہ دوسرے ملکوں میں بھی اس کو پھیلا دیں۔
جارحانہ اور مدافعانہ کی تقسیم غیر متعلق ہے
یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر جب آپ غور کریں گے تو یہ بات بآسانی آپ کی سمجھ میں آجائے گی کہ جنگ کی جو تقسیم جارحانہ (offensive)اور مدافعانہ (deffensive)کی اصطلاحوں میں کی گئی ہے اس کا اطلاق سرے سے اسلامی جہاد پر ہوتا ہی نہیں۔ یہ تقسیم صرف قومی اور ملکی لڑائیوں پر ہی منطبق ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اصطلاحاً ’’حملہ‘‘ اور ’’مدافعت‘‘ کے الفاظ ایک ملک یا ایک قوم کی نسبت سے ہی بولے جاتے ہیں۔ مگر جب ایک بین الاقوامی پارٹی ایک جہانی نظریہ و مسلک کو لے کر اٹھے، اور تمام قوموں کو انسانی حیثیت سے اس مسلک کی طرف بلائے اور ہر قوم کے آدمیوں کو مساویانہ حیثیت سے اپنی پارٹی میں شریک کرے، اور محض مسلک مخالف کی حکومت کو مٹا کر اپنے مسلک کی حکومت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرے، تو ایسی حالت میں اصطلاحی حملہ اور اصطلاحی مدافعت کا قطعاً کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر اصطلاح سے قطع نظر کرلی جائے تب بھی اسلامی جہاد پر جارحانہ اور مدافعانہ کی تقسیم منطبق نہیں ہوتی۔ اسلامی جہاد بیک وقت جارحانہ بھی ہے اور مدافعانہ بھی۔ جارحانہ اس لیے کہ مسلم پارٹی مسلک مخالف کی حکمرانی پر حملہ کرتی ہے اور مدافعانہ اس لیے ہے کہ وہ خود اپنے مسلک پر عامل ہونے کے لیے حکومت کی طاقت حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ پارٹی ہونے کی حیثیت سے اس کا کوئی گھر نہیں کہ وہ اس کی مدافعت کرے۔ اس کے پاس محض اپنے اصول ہیں جن کی وہ حمایت کرتی ہے۔ اسی طرح مخالف پارٹی کے بھی گھر پر وہ حملہ نہیں کرتی بلکہ اس کے اصولوں پر حملہ کرتی ہے اور اس حملے کا مدعا یہ نہیں ہے کہ اس سے زبردستی اس کے اصول چھڑائے جائیں، بلکہ مدعا صرف یہ ہے کہ اس کے اصولوں سے حکومت کی طاقت چھین لی جائے۔
ذِمّیوں کی حیثیت
یہیں سے یہ سوال بھی حل ہو جاتا ہے کہ اسلامی نظام حکومت میں ان لوگوں کی کیا حیثیت ہے جوکسی دوسرے عقیدہ و مسلک کے متبع ہوں۔ اسلام کا جہاد لوگوں کے عقیدہ و مسلک اور ان کے طریق عبادت یا قوانین معاشرت سے تعرض نہیں کرتا۔ وہ ان کو پوری آزادی دیتا ہے کہ جس عقیدے پر چاہیں قائم رہیں اور جس مسلک پر چاہیں چلیں۔ البتہ وہ ان کے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ ایسے کسی طریقے پر حکومت کا نظام چلائیں جو اسلام کی نگاہ میں فاسد ہے۔ نیز وہ ان کے اس حق کو بھی نہیں مانتا کہ وہ معاملات کے ان طریقوں کو اسلامی نظام حکومت میں جاری رکھیں جو اسلام کے نزدیک اجتماعی فلاح کے لیے مہلک ہیں۔ مثلاً وہ حکومت کا نظام ہاتھ میں لیتے ہی سودی کاروبار کی تمام صورتوں کو مسدُود کر دے گا۔ جوئے کی ہرگز اجازت نہ دے گا۔ خرید و فروخت اور مالی لین دین کی ان تمام شکلوں کو روک دے گا جو اسلامی قانون میں حرام ہیں۔ قحبہ خانوں اور فواحش کے اڈوں کو کلیتاً بند کر دے گا۔ غیر مسلم عورتوں کو ستر کے کم سے کم حدود کی پابندی کرنے پر مجبور کرے گا اور انھیں تبرُّجِ جاہلیت کے ساتھ پھرنے سے روک دے گا، سنیما پر احتساب قائم کرے گا اور تمام غیر اخلاقی عناصر کو اس سے نکال دے گا۔ کسی گروہ کو مخلوط تعلیم کی اجازت نہ دے گا۔ اس قسم کے اور بہت سے امور ہیں جن میں ایک اسلامی نظام حکومت نہ صرف اجتماعی فلاح و بہبود کی خاطر، بلکہ اپنے تحفظ (defence)کی خاطر بھی ان تمدنی معاملات کی اجازت نہ دے گا جو غیر مسلموں کے مسلک میں چاہے ناجائز نہ ہوں، مگر اسلام کی نگاہ میں موجب فساد و ہلاکت ہیں۔
اس بات میں اگر کوئی شخص اسلام پر نارو اداری کا الزام عائد کرے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ دنیا کے کسی انقلابی و اصلاحی مسلک نے دوسرے مسلک والوں کے ساتھ اتنی رواداری نہیں برتی ہے جتنی اسلام برتتا ہے۔ دوسری جگہ تو آپ دیکھیں گے کہ غیر مسلک والوں کے لیے زندگی دو بھر کر دی جاتی ہے۔۱؎ حتیٰ کہ وہ وطن چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن اسلام غیر مسلک والوں کو پورے امن کے ساتھ ہر قسم کی ترقی کرنے کا موقع دیتا ہے، اور ان کے ساتھ ایسی فیاضی کا برتائو کرتا ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
امپیریلزم کا شبہ
یہاں پہنچ کر مجھے پھر اس بات کا اعادہ کرنا چاہیے کہ اسلام کی نظر میں جہاد صرف وہی ہے جو محض فی سبیل اللہ ہو، اور اس جہاد کے نتیجے میں جب اسلامی حکومت قائم ہو تو مسلمانوں کے لیے ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ قیصر و کسریٰ کو ہٹا کر خود ان کی جگہ لے لیں۔ مسلمان اس لیے نہیں لڑتا اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے نہیں لڑ سکتا کہ اس کی ذاتی حکومت قائم ہو جائے، اور وہ خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنا لے اور ناجائز طور پر لوگوں کی گاڑھی محنتوں کا روپیہ وصول کرکے اپنے لیے زمین میں جنتیں بنانے لگے۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ نہیں بلکہ جہاد فی سبیل الطاغوت ہے، اور ایسی حکومت کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسلام کا جہاد تو ایک خشک اور بے مزہ محنت ہے جس میں جان، مال اور خواہشات نفس کی قربانی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اگر یہ جہاد کامیاب ہو اور نتیجے میں حکومت مل جائے تو سچے مسلمان حکمران پر ذمہ داریوں کا اس قدر بھاری بوجھ عائد ہو جاتا ہے کہ اس غریب کے لیے راتوں کی نیند اور دن کی آسائش تک حرام ہو جاتی ہے۔ مگر اس کے معاوضے میں وہ حکومت و اقتدار کی ان لذتوں میں سے کوئی لذت بھی حاصل نہیں کرسکتا جن کی خاطر دنیا میں عموماً حکومت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلام کافرمانروانہ تو رعیت کے عام افراد سے ممتاز کوئی بالاترہستی ہے، نہ وہ عظمت و رفعت کے تخت پر بیٹھ سکتا ہے، نہ اپنے آگے کسی سے گردن جھکوا سکتا ہے، نہ قانونِ شریعت کے خلاف ایک پتہ ہلا سکتا ہے، نہ اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ اپنے کسی عزیز یا دوست یا خود اپنی ذات کو کسی ادنیٰ سے ادنیٰ ہستی کے جائز مطالبے سے بچا سکے، نہ وہ حق کے خلاف ایک حبہ لے سکتا ہے اور نہ چپہ بھر زمین پر قبضہ کرسکتا ہے، ایک متوسط درجے کے مسلمان کو زندگی بسر کرنے کے لیے جتنی تنخواہ کافی ہوسکتی ہے اس سے زیادہ بیت المال سے ایک پائی لینا بھی اس کے لیے حرام ہے۔ وہ غریب نہ عالیشان قصر بنوا سکتا ہے، نہ خدم و حشم رکھ سکتا ہے، نہ عیش و عشرت کے سامان فراہم کر سکتا ہے۔ اس پر ہر وقت یہ خوف غالب رہتا ہے کہ ایک دن اس کے اعمال کا سخت حساب لیا جائے گا اور اگر حرام کا ایک پیسہ، جبر سے لی ہوئی زمین کا ایک چپہ، تکبر و فرعونیت کا ایک شمہ، ظلم و بے انصافی کا ایک دھبہ اور خواہشات نفسانی کی بندگی کا ایک شائبہ بھی اس کے حساب میں نکل آیا تو اسے سخت سزا بھگتنی ہوگی۔ اگر کوئی شخص حقیقت میں دنیا کا لالچی ہو تو اس سے بڑا کوئی بے وقوف نہ ہوگا اگر اسلامی قانون کے مطابق حکومت کا بار سنبھالنے پر آمادہ ہو، کیونکہ اسلامی حکومت کے فرمانروا سے بازار کے ایک معمولی دوکاندار کی پوزیشن زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ وہ دن کو خلیفہ سے زیادہ کماتا ہے اور رات کو آرام سے پائوں پھیلا کر سوتا ہے، خلیفہ بے چارے کو نہ اس کے برابر آمدنی نصیب اور نہ رات کو چین سے سونا ہی نصیب۔
یہ بنیادی فرق ہے اسلامی حکومت اور غیر اسلامی حکومت میں۔ غیر اسلامی حکومت میں حکمران گروہ اپنی خداوندی قائم کرتا ہے اور اپنی ذات کے لیے ملک کے وسائل و ذرائع استعمال کرتا ہے۔ بخلاف اس کے اسلامی حکومت میں حکمراں گروہ مجرد خدمت کرتا ہے اور عام باشندوں سے بڑھ کر اپنی ذات کے لیے کچھ حاصل نہیں کرتا۔ اسلامی حکومت کی سول سروس کو جو تنخواہیں ملتی تھیں، ان کا تقابل آج کل کی یا خود اس دَور کی امپریلسٹ طاقتوں کی سول سروس کے مشاہروں سے کرکے دیکھیے، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کی جہاں کشائی اور امپیریلزم کی عالمگیری میں روحی و جوہری فرق ہے۔ اسلامی حکومت میں خراسان، عراق، شام اور مصر کے گورنروں کی تنخواہیں آپ کے معمولی انسپکٹروں کی تنخواہوں سے بھی کم تھیں۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ صرف سو روپے مہینہ پر اتنی بڑی سلطنت کا انتظام کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ کی تنخواہ ڈیڑھ سو روپے سے زیادہ نہ تھی، دراں حالیکہ بیت المال دنیا کی دو عظیم الشان سلطنتوں کے چھوڑے ہوئے خزانوں سے بھر پور ہو رہا تھا۔ اگرچہ ظاہر میں امپیریلزم بھی ملک فتح کرتا ہے اور اسلام بھی۔ مگر دونوں کے جوہر میں زمین و آسمان کا بَل ہے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اَور ہے شاہیں کا جہاں اور
یہ ہے اس جہاد کی حقیقت جس کے متعلق آپ بہت کچھ سنتے رہے ہیں۔ اب اگر آپ مجھ سے دریافت کریں کہ آج اسلام اور مسلم جماعت اور جہاد کا وہ تصور جو تم پیش کر رہے ہو کہاں غائب ہوگیا، اور کیوں دنیا بھر کے مسلمانوں میں کہیں بھی اس کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا، تو میں عرض کروں گا کہ یہ سوال مجھ سے نہ کیجیے بلکہ ان لوگوں سے کیجیے جنھوں نے مسلمانوں کی توجہ ان کے اصلی مشن سے ہٹا کر تعویذ گنڈوں اور عملیات اور مراقبوں اور ریاضتوں کی طرف پھیردی۔ جنھوں نے نجات اور فلاح اور حصول مقاصد کے لیے شارٹ کٹ تجویز کیے تاکہ مجاہدے اور جانفشانی کے بغیر سب کچھ تسبیح پھرانے یا کسی صاحب قبرکی عنایات حاصل کرلینے ہی سے میسر آجائے۔ جنھوں نے اسلام کے کلیات اور اصول اور مقاصد سب کو لپیٹ کر تاریک گوشوں میں پھینک دیا اور مسلمانوں کے ذہن کو آمین بالجہر اور رفع یدین اور ایصال ثواب و زیارت قبور اور اسی قسم کے بے شمار جزئیات میں ایسا پھنسایا کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے مقصد تخلیق کو اور اسلام کی حقیقت کو قطعی بھول گئے۔ اگر اس سے بھی آپ کی تشفی نہ ہو تو پھر یہ سوال ان امرا اور اصحاب اقتدار کے سامنے پیش کیجیے جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا اس سے زیادہ کوئی حق اپنے اوپر تسلیم نہیں کرتے کہ کبھی ختم قرآن کرا دیں اورکبھی عید میلاد کے جلسے کرا دیں اور کبھی اللہ میاں کو نعوذ باللہ ان کی شاعری کی داد دے دیا کریں۔ رہا اس قانون اور ہدایت کو عملاً نافذ کرنا، تو یہ حضرات اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ سمجھتے ہیں، کیونکہ درحقیقت ان کا نفس ان پابندیوں کو قبول کرنے اور ان ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھالنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے جو اسلام ان پر عائد کرتا ہے۔ یہ بڑی سستی نجات کے طالب ہیں۔
(ترجمان القرآن، ربیع الاول ۱۳۵۸ھ۔ مئی۱۹۳۹ئ)

شیئر کریں