Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

جہادِ فی سبیل اللہ
جہاد کے متعلق غلط فہمی کے اسباب:
جِہاد کی حقیقت:
’’فی سبیل اﷲ‘‘ کی لازمی قید:
اسلام کی دعوتِ انقلاب:
اسلامی دعوتِ انقلاب کی خصوصیت:
جِہاد کی ضرورت اور اس کی غایت:
عالمگیر انقلاب:
جارحانہ اور مدافعانہ کی تقسیم غیر متعلق ہے:
ذمیوں کی حیثیت:
سامراجیت (IMPERIALISM) کا شبہ:

جہاد فی سبیل اللہ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

جہادِ فی سبیل اللہ

عموماً لفظ ’’جہاد‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں (Holy War) ’’مقدس جنگ‘‘ کیا جاتا ہے‘ اور اس کی تشریح و تفسیر مدتہائے دراز سے کچھ اس انداز میں کی جاتی رہی ہے کہ اب یہ لفظ ’’جوشِ جنون‘‘ کا ہم معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کو سنتے ہی آدمی کی آنکھوں میں کچھ اس طرح کا نقشہ پھرنے لگتا ہے کہ مذہبی دیوانوں کا ایک گروہ ننگی تلواریں ہاتھ میں لیے‘ داڑھیاں چڑھائے‘ خونخوار آنکھوں کے ساتھ اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا چلاآرہا ہے۔ جہاں کسی کافر کو دیکھ پاتا ہے پکڑلیتا ہے اور تلوار اس کی گردن پر رکھ کر کہتا ہے کہ بول لا الہ الا اللہ‘ ورنہ ابھی سرتن سے جدا کردیا جاتا ہے۔ ماہرین نے ہماری یہ تصویر بڑی قلمکاریوں کے ساتھ بنائی ہے اور اس کے نیچے موٹے حرفوں میں لکھ دیا ہے کہ ۔۔۔

بُوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے

لطف یہ ہے کہ اس تصویر کے بنانے والے ہمارے وہ مہربان ہیں‘ جو خود کئی صدیوں سے انتہا درجہ کی غیر مقدس جنگ (Un-Holy War) میں مشغول ہیں۔ ان کی اپنی تصویر یہ ہے کہ دولت اور اقتدار کے بھوکے ہر قسم کے اسلحہ سے مسلح ہوکر قزاقوں کی طرح ساری دنیا پر پل پڑے ہیں اور ہر طرف تجارت کی منڈیاں‘ خام پیداوار کے ذخیرے‘ نوآبادیاں‘ بسانے کے قابل زمینیں اور معدنیات کی کانیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں تاکہ اپنی حرص کی کبھی نہ بجھنے والی آگ کے لیے ایندھن فراہم کریں۔ ان کی جنگ خدا کی راہ میں نہیں‘ بلکہ پیٹ کی راہ میں ہے‘ ہوس اور نفسِ امارہ کی راہ میں ہے۔ ان کے نزدیک کسی قوم پر حملہ کرنے کے لیے بس یہ کافی وجۂ جواز ہے کہ اس کی زمین میں کانیں ہیں‘ یا اجناس کافی پیدا ہوتی ہیں‘ یا وہاں تیل نکل آیا ہے‘ یا ان کے کارخانوں کا مال وہاں اچھی طرح کھپایا جاسکتا ہے‘ یا اپنی زائد آبادی کو وہاں آسانی کے ساتھ بسایا جاسکتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو اس قوم کا یہ گناہ بھی کوئی معمولی گناہ نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے ملک کے راستے میں رہتی ہے جس پر یہ پہلے قبضہ کرچکے ہیں‘ یا اب قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے تو جو کچھ کیا‘ وہ زمانۂ ماضی کا قصہ ہے اور ان کے کارنامے حال کے واقعات ہیں‘ جو شب و روز دنیا کی آنکھوں کے سامنے گزرے ہیں۔ ایشیاء‘ افریقہ‘ یورپ‘ امریکا‘ غرض کرۂ زمین کا کون سا حصہ بچا رہ گیا ہے جو ان کی اس غیر مقدس جنگ سے لالہ زار نہیں ہو چکا؟ مگر ان کی مہارت قابلِ داد ہے۔ انھوں نے ہماری تصویر اتنی بھیانک اور اتنی بری بنائی کہ خود ان کی تصویر اس کے پیچھے چھپ گئی‘ اور ہماری سادہ لوحی بھی قابلِ داد ہے۔ جب ہم نے غیروں کی بنائی ہوئی اپنی یہ تصویر دیکھی تو ایسے دہشت زدہ ہوئے کہ ہمیں اس تصویر کے پیچھے جھانک کر خود مصوّروں کی صورت دیکھنے کا ہوش ہی نہ آیا اور لگے معذرت کرنے کہ حضور! بھلا ہم جنگ و قتال کیا جانیں۔ ہم تو بھکشوؤں اور پادریوں کی طرح ’’پرامن مبلغ لوگ‘‘ ہیں۔ چند مذہبی عقائد کی تردید کرنا اور ان کی جگہ کچھ دوسرے عقائد لوگوں سے تسلیم کرالینا۔۔۔ بس یہ ہمارا کام ہے۔ ہمیں تلوار سے کیا واسطہ؟ البتہ اتنا قصور کبھی کبھار ہم سے ضرور ہوا ہے کہ جب کوئی ہمیں مارنے آیا تو ہم نے بھی جواب میں ہاتھ اٹھایا۔ سو اب تو ہم اس سے بھی توبہ کرچکے ہیں۔ حضور کی طمانیت کے لیے تلوار والے جہاد کو سرکاری طور پرمنسوخ کردیا گیا ہے۔ اب تو جہاد فقط زبان و قلم کی کوشش کا نام ہے۔ توپ اور بندوق چلانا سرکار کا کام ہے اور زبان و قلم چلانا ہمارا کام۔

شیئر کریں