اصطلاحات کے چکر اور فنی پیچیدگیوں کے طلسمات نے اس مسئلے کو جس قدر الجھایا ہے اس پر مزید الجھن اس وجہ سے بھی پیدا ہوگئی ہے کہ انسان کے معاشی مسئلے کو جو دراصل انسانی زندگی کے عظیم تر مسئلے کا ایک جز تھا، مجموعہ سے الگ کر کے بجائے خود ایک مستقل مسئلے کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا، اور رفتہ رفتہ یہ لَے اتنی بڑھی کہ معاشی مسئلے ہی کو پوری زندگی کامسئلہ سمجھ لیا گیا۔ یہ پہلی غلطی سے بھی زیادہ بڑی غلطی ہے جس کی وجہ سے اس گتھی کا سلجھنا محال ہوگیا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی امراضِ جگر کا ماہر انسانی جسم کے مجموعی نظام سے الگ کر کے، اور اس نظام میں جگر کی جو حیثیت ہے اس کو نظر انداز کر کے جگر کو بس جگر ہونے کی حیثیت سے دیکھنا شروع کر دے ، اور پھر اس دیکھنے میں اتنا مستغرق ہو کہ آخر کار اسے پورا انسانی جسم بس ایک جگر ہی جگر نظر آنے لگے۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اگر انسانی صحت کے سارے مسائل کو صرف جگریات سے حل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ مسائل کس قدر ناقابلِ حل ہو جائیں گے اور آدمی بیچارے کی جان کس قدر شدید خطرے میں مبتلا ہو کر رہے گی۔ بس اسی پر قیاس کر لیجئے کہ جب معاشیات کو انسانیت کے مجموعے میں سے نکال کر الگ کر لیا جائے اور پھر اس کو عین انسانیت قرار دے کر سارے مسائل زندگی اسی سے حل کئے جانے لگیں تو بجز سرگشتگی و حیرانی کے اور کیا حاصل ہوسکتا ہے۔
دورِ جدید کے فتنوں میں سے یہ ماہرینِ خصوصی (specialists) کا فتنہ بھی ایک بڑا فتنہ ہے۔ زندگی اور اس کے مسائل پر مجموعی نظر کم سے کم تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ انسان مختلف علوم و فنون کے یک چشم ماہرین کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گیا ہے۔ کوئی طبیعیات کا ماہر ہے تو وہ ساری کائنات کا معما صرف طبیعیات کے بل پر حل کرنے لگتا ہے۔ کسی کے دماغ پر نفسیات کا تسلط ہے تو وہ اپنے نفسیاتی تجربات و مشاہدات کے اعتماد پر پورا فلسفۂ حیات مرتب کرنا چاہتا ہے۔ کسی اللہ کے بندے کی نظر صنفیات پر جم کر رہ گئی ہے تو وہ کہتا ہے کہ پوری انسانی زندگی بس شہوانیت (sex) کے محور پر گھوم رہی ہے، حتیٰ کہ خدا کا خیال بھی انسان کے دماغ میں اسی رستے سے آیا ہے۔ اس طرح جو لوگ معاشیات میں مستغرق ہیں وہ انسان کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ معاش تیری زندگی کا اصل مسئلہ ہے اور باقی سارے مسائل اسی جڑ کی شاخیں ہیں۔ حالانکہ اصل حقیقت جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب ایک کل کے مختلف پہلو ہیں۔ اس کل کے اندر ان سب کا ایک خاص مقام ہے اور اس مقام کے لحاظ ہی سے ان کی اہمیت بھی ہے۔ انسان ایک جسم رکھتا ہے جو قوانین طبیعی کے ماتحت ہے۔ اس لحاظ سے انسان طبیعیات کا موضوع بھی ہے۔ مگر وہ نرا جسم ہی نہیں ہے کہ صرف طبیعیات سے اس کے سارے مسائل حل کئے جاسکیں۔ انسان ایک ذی حیات ہستی ہے جس پر حیاتی قوانین جاری ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ علم الحیات (siology) کا موضوع بھی ہے۔ مگر وہ نرا ذی حیات نہیں ہے کہ صرف حیاتیات یا حیوانات (zoology) ہی سے اس کی زندگی کا پورا قانون اخذ کیا جاسکے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے غذا کی، پوشش کی اور مکان کی ضرورت بھی لاحق ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے معاشیات اس کی زندگی کے ایک اہم شعبے پر حاوی ہے۔ مگر وہ محض ایک کھانے، پہننے اور گھر بنا کر رہنے والا حیوان ہی نہیں ہے کہ تنہا معاشیات ہی پر اس کے فلسفۂ حیات کی بنا رکھ دی جائے ۔ انسان اپنی نوع کو باقی رکھنے کے لیے تناسل پر بھی مجبور ہے جس کے لیے اس کے اندر ایک زبردست صنفی میلان پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے صنفیات کا علم بھی اس کی زندگی کے ایک اہم پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر وہ بالکل نسل کشی کا آلہ ہی نہیں ہے کہ بس صنفیات ہی کی عینک لگا کر اسے دیکھا جانے لگے۔ انسان ایک نفس رکھتا ہے جس میں شعور و ادراک کی مختلف قوتیں اور جذبات و خواہشات کی مختلف طاقتیں ہیں۔اس لحاظ سے نفسیات اس کے وجود کے ایک بڑے شعبے پر محیط ہے۔لیکن وہ از سرتاپا نفس ہی نفس نہیں ہے کہ نفسیات کے علم سے اس کی زندگی کی پوری اسکیم بنائی جاسکے۔ انسان ایک متمدن ہستی ہے جو عین اپنی فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے کہ دوسرے انسانوں کے ساتھ مل کر رہے۔ اس لحاظ سے اس کی زندگی کے بہت سے پہلو عمرانیات کے تحت آتے ہیں، لیکن متمدن ہستی ہونا اس کا تمام وجود نہیں ہے کہ محض علومِ عمران کے ماہرین بیٹھ کر اس کے لیے مکمل نظامِ حیات وضع کرسکیں۔ انسان ایک ذی عقل ہستی ہے جس کے اندر محسوسات سے ماوراء معقولات کی طلب بھی پائی جاتی ہے اور وہ عقلی اطمینان چاہتا ہے۔ اس لحاظ سے علوم عقلیہ اس کے ایک خاص مطالبہ کو پورا کرتے ہیں۔ مگر وہ پورا کا پورا عقل ہی نہیں ہے کہ محض معقولات کے بل بوتے پر اس کے لیے ایک لائحہ زندگی بنایاجاسکے۔ انسان ایک اخلاقی و روحانی وجود ہے جس میں بھلے اور برے کا امتیاز اور محسوسات و معقولات دونوں سے ماوراء حقیقتوں تک پہنچنے کا داعیہ بھی پایا جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے اخلاقیات و روحانیات اس کے ایک اور اہم مطالبہ کو پورا کرتے ہیں۔ مگر وہ از سر تاپا اخلاق اور روح ہی نہیں ہے کہ مجرد اخلاقیات و روحانیات سے اس کے لیے پورا نظامِ زندگی بنایا جاسکے۔ دراصل انسان بیک وقت یہ سب کچھ ہے، اور ان تمام حیثیتوں کے علاوہ اس کی ایک حیثیت یہ بھی ہے کہ اپنے تمام وجود اور اپنی زندگی کے سارے شعبوں سمیت وہ کائنات کے اس عظیم الشان نظام کا ایک جز ہے اور اس کی زندگی کا ضابطہ لازمی طور پر اس امر کا تعین چاہتا ہے کہ اس کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے اور اس کا جز ہونے کی حیثیت سے اس کو کس طرح کام کرنا چاہیے۔ نیز اس کے لیے یہ بھی ناگزیر ہے کہ وہ اپنے مقصدِ زندگی کا تعین کرے اور اسی کے لحاظ سے فیصلہ کرے کہ اسے کس لیے کام کرنا ہے۔ یہ آخری دونوں سوال انسانی زندگی کے بنیادی سوال ہیں۔ انھی پر ایک فلسفۂ حیات بنتا ہے، پھر اس فلسفہ حیات کے تحت تمام وہ علوم جو دنیا اور انسان سے تعلق رکھتے ہیں اپنے اپنے دائرے کی معلومات فراہم کرتے ہیں اور کم و بیش ان سب سے مل کر ایک لائحہ عمل بنتا ہے جس پر انسانی زندگی کا پورا کارخانہ چلتا ہے۔
اب یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ اگر آپ اپنی زندگی کے کسی مسئلے کو سمجھنا چاہیں تو اس کے لیے یہ کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے کہ آپ خوردبین لگا کر صرف اسی ایک مسئلہ پر نظر کو محدود کر کے دیکھیں، یا اس خاص شعبۂ حیات کے لیے جس سے وہ مسئلہ تعلق رکھتا ہے ایک قسم کا تعصب لیے ہوئے پورے مجموعۂ حیات پر نظر ڈالیں ۔ بلکہ صحیح فہم و ادراک کے لیے آپ کو پورے مجموعے کے اندر رکھ کر اسے دیکھنا ہوگا اور غیر متعصبانہ نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔ اسی طرح اگر آپ زندگی کے توازن میں کوئی بگاڑ پائیں اور اس کو درست کرنا چاہیں تو یہ اور بھی زیادہ خطرناک ہے کہ آپ کسی ایک مسئلۂ زندگی کو کل مسئلۂ زندگی قرار دے کر سارے کارخانے کو اسی ایک پرزے کے گرد گھما دیں۔ اس حرکت سے تو آپ اور زیادہ عدمِ توازن پیدا کر دیں گے۔ صحیح طریقۂ اصلاح یہ ہے کہ غیر متعصبانہ نگاہ سے پورے نظامِ زندگی کو اس کے بنیادی فلسفے سے لے کر شاخوں کی تفصیلات تک دیکھئے اور تحقیق کیجئے کہ خرابی کس جگہ اور کس نوعیت کی ہے۔
انسان کے معاشی مسئلے کو سمجھنے اور صحیح طور پر حل کرنے میں جو مشکل پیش آ رہی ہے اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس مسئلے کو بعض لوگ صرف معاشیات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بعض اس کی اہمیت میںمبالغہ کر کے اسے کل مسئلۂ زندگی قرار دے رہے ہیں۔ اور بعض اس سے بھی تجاوز کر کے زندگی کا بنیادی فلسفہ اور اخلاق اور تمدن و معاشرت کا سارا نظام معاشی بنیاد پر ہی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اگر معاشیات ہی کو اساس ٹھیرایا جائے تو انسان کا مقصدِ زندگی اس بیل کے مقصدِ زندگی سے کچھ بھی مختلف نہیں ٹھیرتا جس کی تمام سعی وجہد کی غایت یہ ہے کہ ہری ہری گھاس کھا کر خوش و خرم اور تنومند ہو جائے اور کائنات میں اس کی یہ حیثیت قرار پاتی ہے کہ وہ بس چراگاہِ عالم میں ایک آزاد چرندہ ہے۔ اسی طرح اخلاقیات، روحانیات، معقولات، عمرانیات، نفسیات اور تمام دوسرے علوم کے دائروں میں بھی معاشی نقطۂ نظر کے غالب آ جانے سے نہایت شدید عدمِ توازن کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ان شعبہ ہائے زندگی کے لیے معاشیات میں کوئی بنیاد اس کے سوا نہیں ہے کہ اخلاق و روحانیت نفس پرستی اور مادہ پرستی میں، اور معقولات ، ماکولات میں تبدیل ہو جائیں، عمرانیات کی ساری ترتیب حقائق عمرانی کے بجائے کاروباری اغراض پر قائم ہو او ر نفسیات میں انسان کا مطالعہ محض ایک معاشی حیوان کی حیثیت سے کیا جانے لگے۔ کیا اس سے بڑھ کر انسانیت پر کوئی اور ظلم ہوسکتا ہے؟