محترمی ومکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ
آپ کا عنایت نامہ مورخہ ۲۴؍مئی ۶۰ء ڈاک سے مل چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے دوبارہ ۲۸؍ مئی کو دستی بھی اس کی ایک نقل مجھے ارسال فرما دی لیکن میں مسلسل مصروفیت کے باعث اب تک جواب نہ دے سکا جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
مجھے مسرت ہے کہ آپ نے اپنے اس عنایت نامے میں یہ یقین دلایا ہے کہ آپ کا مقصد اس مراسلت سے کوئی مناظرہ بازی نہیں ہے بلکہ آپ بات سمجھنا چاہتے ہیں۔ میں آپ جیسے شخص سے اسی چیز کا متوقع بھی تھا۔ لیکن جو طریقہ آپ نے اپنی مراسلت میں بات سمجھنے کے لیے اختیار فرمایا ہے وہ اس یقین دہانی کے ساتھ کچھ مطابقت رکھتا ہوا کم از کم مجھے تو محسوس نہیں ہوتا۔ آپ ذرا اپنا ۲۱ مئی کا خط نکال کرملاحظہ فرمائیں، اس میں آپ نے ۴ متعین سوالات میرے سامنے پیش کرکے ان کا جواب مانگا تھا۔ میں نے اسی تاریخ کو اس خط کے جواب میں آپ کو لکھا کہ’’ آپ جنوری ۵۸ء اور دسمبر ۵۸ء کے ترجمان القرآن میں میرے فلاں فلاں مضامین ملاحظہ فرما کرمجھے تفصیل کے ساتھ بتائیں کہ آپ کے سوالات میں سے کس سوال کا جواب ان میں نہیں ہے اور جن سوالات کا جواب موجود ہے اس پرآپ کو کیا اعتراض ہے‘‘۔ لیکن آپ نے ان مضامین کو ملاحظہ فرما کر اپنے ابتدائی سوالات کی روشنی میں ان پرکوئی کلام کرنے کے بجائے کچھ اور سوالات ان پر قائم کر دیے اور اب آپ چاہتے ہیں کہ میں ان کا جواب دوں۔ کیا واقعی یہی کسی بات کو سمجھنے کا طریقہ ہے کہ ایک بحث کو طے کرنے سے پہلے دوسری بحث چھیڑ دی جائے اور بلا نہایت اسی طرح بات میں سے بات نکالنے کا سلسلہ چلتا رہے؟
آپ کے نئے سوالات پر گفتگو کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے ابتدائی سوالات کی طرف پلٹیں اور خود دیکھیں کہ ان میں سے ایک ایک کا میرے ان مضامین میں کیا جواب آپ کو ملا تھا اور آپ نے اس سے کس طرح گریز کیا ہے۔