دُوسری بات جو اِسلامی اسٹیٹ کے دستور اور اس کے مقصد اور اس کی اصلاحی نوعیت پر غور کرنے سے خود بخود واضح ہو جاتی ہے۔ وُہ یہ ہے کہ ایسے اسٹیٹ کو صرف وہی لوگ چلا سکتے ہیں جو اس کے دستور پر ایمان رکھتے ہوں، جنھوں نے اس کے مقصد کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہو، جو اس کے اصلاحی پروگرام سے نہ صرف پوری طرح متفق ہوں، نہ صرف اس میں کامل عقیدہ رکھتے ہوں، بلکہ اس کی اسپرٹ کو اچھی طرح سمجھتے بھی ہوں اور اس کی تفصیلات سے بھی واقف ہوں۔ اِسلام نے اس باب میں کوئی جغرافیائی لَونی یا لسانی قید نہیں رکھی ہے۔ وُہ تمام انسانوں کے سامنے اپنے دستور، اپنے مقصد اور اپنے اصلاحی پروگرام کو پیش کرتا ہے جو شخص بھی اسے قبول کر لے خواہ وُہ کسی نسل، کسی ملک اور کسی قوم سے تعلق رکھتا ہو وُہ اس جماعت میں شریک ہو سکتا ہے جو اس اسٹیٹ کو چلانے کے لیے بنائی گئی ہے اور جو اسے قبول نہ کرے اسے اسٹیٹ کے کام میں دخیل نہیں کیا جا سکتا۔ وُہ اسٹیٹ کے حدود میں ذمی (Protected Citizen) کی حیثیت سے رَہ سکتا ہے۔ اس کے لیے اِسلام کے قانون میں معین حقوق اور مراعات موجود ہیں۔ اس کی جان و مال اور عزت کی پوری حفاظت کی جائے گی۔ لیکن بہرحال اسے حکومت میں شریک کی حیثیت نہ دی جائے گی کیوں کہ یہ ایک اُصولی ریاست ہے جس کے نظم و نسق کو وہی لوگ چلا سکتے ہیں جو اس کے اصولوں کو مانتے ہوں۔(مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو ’’اسلامی ریاست‘‘ بابِ ہشتم، مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ لاہور)
یہاں بھی اِسلامی اسٹیٹ اور کمیونسٹ اسٹیٹ میں یک گونہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ لیکن دوسرے مسلکوں پر اعتقاد رکھنے والوں کے ساتھ جو برتائو اشتراکی جماعت کا اسٹیٹ کرتا ہے اسے اس برتائو سے کوئی نسبت نہیں جو اِسلامی اسٹیٹ کرتا ہے۔ اِسلام میں وُہ صورت نہیں جو کمیونسٹ حکومت میں ہے کہ غلبہ و اقتدار حاصل کرتے ہی اپنے تمدنی اُصولوں کو دُوسروں پر بجبر مسلّط کر دیا جائے، جائدادیں ضبط کی جائیں، قتل و خون کا بازار گرم ہو اور ہزاروں لاکھوں آدمیوں کو پکڑ کر زمین کے جہنم، سائبیریا کی طرف پیک کر دیا جائے۔ اِسلام نے غیر مسلموں کے لیے جو فیاضانہ برتائو اپنے اسٹیٹ میں اختیار کیا ہے اور اس بارے میں عدل و ظلم اور راستی و ناراستی کے درمیان جو ایک خطِ امتیاز کھینچا ہے، اسے دیکھ کر ہر انصاف پسند آدمی بیک نظر معلوم کر سکتا ہے کہ خدا کی طرف سے جو مصلح آتے ہیں وُہ کس طرح کام کرتے ہیں اور زمین میں جو مصنوعی اور جعلی مصلحین اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ان کا طریقِ کار کیا ہوتا ہے؟
٭…٭…٭