اجتماعی عمل کا دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ اس سے لوگوں میں فطری اور اصلی وحدت پیدا ہوتی ہے۔ نسل یا زبان یا مرزبوم یا معاشی اغراض کا اشتراک فطری قومیت پیدا نہیں کرتا۔ آدمی کا دل صرف اسی سے ملتا ہے، جو خیالات اور عمل میں اس سے ملتا ہو۔ یہ اصلی رشتہ ہے جو دو آدمیوں کو ایک دوسرے سے باندھتا ہے۔ اور جس کے ساتھ خیالات اور عمل میں اتفاق نہ ہو اس سے کبھی دل نہیں ملتا، خواہ دونوں ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں۔ جب کوئی شخص اپنے گرد و پیش کے لوگوں کو ذہنیت اورعمل میں اپنے سے مختلف پاتا ہے۔ تو صریح طور پر آپ کو ان کے درمیان اجنبی محسوس کرتا ہے۔ مگر جب بہت سے لوگ مل کر ایک ہی ذہنی کیفیت کے ساتھ ایک ہی عمل کرتے ہیں تو ان میں باہم یگانگت رفاقت، یک جہتی اور برادری کے گہرے تعلقات پیدا ہو جاتے ہیں، ان کے درمیان کوئی اجنبیت باقی نہیں رہتی، قلب و روح کا اشتراک اور عمل کا اتفاق انھیں آپس میں جوڑ کر ایک کر دیتا ہے۔
خواہ نیکی ہو یا بدی، دونوں صورتوں میں اجتماعی نفسیات اسی طرح کام کرتی ہیں۔ چوروں میں چوری کا اشتراک اور شرابیوں میں شراب نوشی کا اشتراک بھی یوں ہی برادری پیدا کرتا ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ بدی کے راستہ میں افراد کی نفسانیت کا دخل رہتا ہے۔ جس کا فطری میلان فرد فرد کو پھاڑ کر الگ کر دینے کی طرف ہے، اس لیے ایسے راستوں میں برادری کبھی بے آلائش اور مستحکم نہیں ہوتی۔ بخلاف اس کے نیکی کے راستے میں نفسانیت دبتی ہے، انسانی روح کو حقیقی تسکین ملتی ہے، اور پاک جذبات کے ساتھ آدمی اس راستہ پر چلتا ہے۔ اس لیے نیک خیالات اور نیک عمل کا اشتراک وہ بہترین رشتہ اخوت پیدا کرتا ہے۔ جس سے زیادہ مستحکم اجتماعی رابطہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
نماز باجماعت کی طرح رمضان کے اجتماعی روزے مسلمانوں میں اسی نوع کی برادری پیدا کرتے ہیں۔ تمام لوگوں کا مل کر ایک خدا کی رضا چاہنا، اسی کی رضا کے لیے بھوک پیاس کی تکلیف اٹھانا۔ اسی کے خوف سے برائیوں کو چھوڑنا اور ایک دوسرے کو برائیوں سے روکنا، اسی کی محبت میں بھلائی کی طرف دوڑنا اور ایک دوسرے کو بھلائی پر اکسانا، یہ چیز ان میں بہترین قسم کی وحدت، صحیح ترین فطری قومیت، پاکیزہ ترین اجتماعی ذہنیت، اور ایسی ہم دردی و رفاقت پیدا کرتی ہے جوہر کھوٹ سے خالی ہے۔